التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

ورودِ شام

شہردمشق بنی اُمیہ کا پایہ تخت تھا اورمعاویہ سے لے کر بنی امیہ کے آخری بادشاہ مروان حمار تک اسلامی حکومت کا دارالسلطنت رہا، اس زمانہ میں شام مملکت اسلامیہ کا ایک صوبہ تھا جس میں لبنان۔۔ فلسطین اوراردن وغیرہ کے علاقے داخل تھے اورپوری عرب آبادی میں یہ علاقہ نہایت زرخیز تھا اورخلیفہ دوّم کے زمانہ سے ملک شام پر معاویہ کا اقتدار بحیثیت گورنر قائم ہوا، اس وقت دمشق صوبہ شام کا دارالحکومت تھا لیکن امام حسن ؑ کی صلح کے بعد معاویہ مطلق العنان حکمران ہوا تودمشق کو پوری مملکت اسلامیہ کا صدر مقام قراردیا گیا۔
حضرت امام زین العابدین ؑ سے داخلہ شام کی کیفیت منقول ہے کہ سرہائے شہدأ نیزوں پرسوار تھے اوربیبیاں برہنہ پشت اونٹوں پر اورجب ہم میں سے کوئی روتاتھا توپیچھے سے سپاہی ہمیں نیزوں کی اَنیوں سے چپ کراتے تھے؟
 سہل سے مروی ہے کہ میں اس سال بیت المقدس کی زیارت کے لئے چلا اورمیرا گذر شہر شام سے ہوا، یہ شہرویسے بھی آباد اوربارونق تھا لیکن اس دن عید وجشن کا سماں تھا، بازار سجائے گئے تھے اورعورتیں جابجادفیں بجارہی تھیں، لوگوں کا ہجوم اس قدر تھا کہ بازار سے گذر نے کو راستہ نہ ملتا تھا، لوگوں نے فاخرہ لباس پہنے تھے، میں نے پوچھا کیا آج عید کا تہوار ہے؟ توجواب ملاکہ نہیں، تومیں نے خوشی کا سبب دریافت کیا؟ انہوں نے کہا کیا تومسافر ہے؟ میں نے کہا ہاں میں مسافر ہوں، انہوں نے کہا زمین عراق میں ایک شخص نے یزید کے خلاف خروج کیا تھا اوریزید نے اس پر فتح پائی ہے، میں نے پوچھا وہ کون تھا؟ توجواب ملاکہ وہ حسین ؑ بن علی ؑ رسول خدا کا نواسہ تھا، میں نے اندازِتعجب میں کہا کہ ہائے فرزند رسول کے قتل پر اس قدر خوشی کرتے ہو؟ اورپھر اس کوخارجی بھی کہتے ہو؟ انہوں نے کہا چپ رہو اوراپنی جان کی خیر منائو۔
بروایت مناقب لوگوں نے پوچھا توکون ہے؟ میں نے جواب دیا میں سہل بن سعد صحابی رسول ہوں، کہنے لگے اے سہل! تعجب ہے کہ نہ آسمان خون برستاہے اورنہ زمین بندوں کو نگلتی ہے؟ غضب ہوگیا آج فرزند پیغمبر کا سراور اس کی اہل بیت کو یزید کے پیش کیا جارہاہے، میںنے پوچھا کہ کس راستہ سے؟ توجواب دیا گیا بابُ الساعات سے، پس میں نے دیکھا پہلے طبل ڈھول بجانے والے داخل ہوئے پھر وہ جن کے ہاتھوں میں علم تھے، مجمع بہت زیادہ تھا کافی دیر کے بعد سرلائے گئے اور لوگ بے انتہاخوشیوں کے نعرے بلند کررہے تھے اورمیں نے ایک نیزہ پر سر دیکھا جوجناب رسالتمآبؐ سے زیادہ مشابہ تھا اوروہی حسین ؑ کا سر تھا، یہ دیکھتے ہی میں نے اپنا سرمنہ پیٹ لیا، اس کے بعد عورتوں کی ناخوشگوارحالت دیکھی تو گریہ ضبط نہ ہوسکا، ایک بی بی نے روکرفریاد کی اے رسول خدا تیری بیٹیا ں آج اس طرح قید ہیں جس طرح یہود ونصاریٰ کی عورتوں کو قید کیا جاتا ہے؟ ہمارے چھوٹے بڑے سب مرد مارے گئے اورہم سرعریاں وبے پردہ شہربشہرپھرائے جارہے ہیں؟ پس میں نے قریب جاکر پوچھا کہ توکون ہے؟ تو جواب دیا  اَنَا سَکِیْنَۃُ بِنْتُ الْحُسَیْن  میں نے عرض کیا اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو تو حکم کیجئے؟ بی بی نے کہا اے سہل اس شخص سے کہوجس کے پاس میرے بابا کے سر والانیزہ ہے کہ ہم سے آگے ہو کر چلے تاکہ لوگ سر کو دیکھنے میں مشغول ہوجائیں اورہم اولاد رسول کا پردہ بچ جائے؟ چنانچہ سہل کہتاہے میں نے چالیس مثقال سونا دیا تواس نے سر کو اہل حرم سے آگے بڑھا دیا، پھر میں نے عرض کیا کوئی اورخدمت میرے ذمہ لگائیے؟ توبی بی نے کچھ چادریں طلب کیں اورمیں نے دے دیں۔
سہل کہتا ہے میں ایک محمل کے نیچے گیا جس پر حسین ؑ کی دونوں بہنیں سوار تھیں میں نے سلام کہا توجناب امّ کلثوم نے فرمایا جب سے ہمارا بھائی حسین ؑ شہید ہوا ہے ہمیں کسی نے سلام نہیں کیا! آج توکون ہے جوسلام کہتا ہے؟ سہل نے جواب دیا میں شہرروز کے رہنے والاسہل تمہارے نانا کا صحابی ہوں، یہ سنتے ہی بی بی نے میرے سامنے اپنے تمام مصائب دردناک بیان کئے۔
دوسری روایت میں اس طرح ہے کہ سہل کہتا ہے۔۔۔ بوقت داخلہ شام سب سے آگے آگے خولی کے ہاتھ میں نیزہ تھا جس پر امام مظلوم ؑ کا سر تھا، اس کے بعد شمر کے ہاتھ میں نیزہ تھا جس پر حُرکا سر تھا، اس کے بعد حضرت ابوالفضل العباس ؑ کا سر ایک نیزہ پر سوار تھا جو قثعم جعفی کے ہاتھ میں تھا ، پھر سنان بن انس کے نیزہ پر ہمشکل پیغمبر جناب علی اکبر کا سر انور تھا اورسرہائے شہدا کے بعد قافلہ اسیران داخل ہوا، سب سے آگے حضرت سجاد ؑ تھے اورپیچھے بیبیاں تھیں، ان میں سے ایک شہزادی بہت رورہی تھی میں نے نظراٹھا کردیکھا تو اس نے مجھے جھڑک دیا اورمیں مدہوش ہوگیا، میں نے معافی چاہی توفرمانے لگی  اَلَمْ تَسْتَحْی مِنَ اللّٰہِ اَنْ تَنْظُرَ اِلٰی حَرَمِ رَسُوْلِ اللّٰہِ کہ تجھے اپنے اللہ سے شرم نہیں آتی کہ حرم رسول کی طرف دیکھتاہے؟ میں نے عرض کیا اے آقازادی! میری نظر تماشائی کے طور پر نہیں بلکہ عبرت کے لئے ہے، تو انہوں نے پوچھا توکون ہے؟ میں نے جواب دیا میں سہل صحابی رسول ہوں۔
بروایت سہل مذکور ہے کہ میں نے ایک بالاخانہ میں پانچ عورتوں کو دیکھاان میں سے ایک عورت جس کی عمر اسی ۸۰برس کے قریب تھی جب امام مظلوم ؑ کا سر اس کے سامنے سے گذرا تواس نے ایک پتھر زور سے مارا جوامام مظلوم ؑ کے سر پر جا لگا پس وہ فوراًگرفتار عذاب ہوئی اورمحل کو آگ لگی پس وہ اپنی سہیلیوں سمیت جل کر خاکستر ہوگئی۔
بروایت منتخب تین گھنٹے امام مظلوم ؑ کا سریزید کے گھر کے دروازہ پر نصب رہا پس لوگ ہنستے تھے اوربیبیا ں گریہ کرتی تھیں، امام زین العابدین ؑ سے مروی ہے کہ ہمیں جب دربار میں پیش کیا گیا تو ایک رسی میں سب قیدیوں کو باندھا گیا کہ ایک ہی رسی میری گردن میں تھی اوراسی سے جناب امّ کلثوم کی گردن اورجناب زینب کا بازوباندھا کیا تھا اورجناب سکینہ ااورباقی بیبیاں بھی اسی رسی سے باندھی گئی تھیں۔
اورمروی ہے رسن بستہ قیدیوں کو سامنے لایا گیا اوربروایت طریحی وہ کمینہ ایک ایک کے متعلق پوچھتا تھا یہ کون ہے؟ وہ کون ہے؟ اورجواب ملتا تھا یہ زینب ہے، وہ امّ کلثوم ہے، وہ سکینہ ہے۔۔۔۔۔ یزید نے جب ایک رسی میں بندھی ہوئی بیبیوں کی صف کو دیکھا تو ایک خوردسال بچی پر نظر پڑی جس نے اپنے منہ کو اپنے ہاتھ کی آستین سے چھپایا ہوا تھا، یزید نے پوچھا یہ کون ہے؟ توجواب ملاکہ ھٰذِہٖ سَکِیْنَۃُ بِنْتَ الْحُسَیْنِ  یزید کہنے لگا تو سکینہ ہے؟ پس بی بی نے زاروقطار رونا شروع کیا، یزید نے پوچھا روتی کیوں ہو؟ توبی بی نے فرمایا میں کیوں نہ رئووں کہ میرے پاس کوئی چادر نہیں کہ نامحرموں سے اپنے بال اورمنہ چھپاسکوں؟ اورایک روایت میں ہے کہ بی بی نے ایک ہاتھ منہ پر اوردوسراہاتھ گردن پر رکھا ہوا تھا۔

ایک تبصرہ شائع کریں