جمعِ قرآن کے متعلق اہل سنت کے علامہ جلال الدین
سیوطی نے کتاب ’’الاتقان‘‘ میں تفصیلی روشنی ڈالنے کی سعی بلیغ فرمائی ہے، چنانچہ
مستدرکِ حاکم سے بروایت زید بن ثابت نقل کیا ہے کہ پہلی بار قرآن مجید عہدِ رسالت
میں جمع ہوا تھا، اور بیہقی نے اسکی توجیہ یہ بیان کی ہے کہ جمعِ قرآن سے مراد اس
روایت میں جمع آیات ِ قرآنیہ ہے یعنی آیاتِ قرآنیہ مختلف اوقات میں مختلف
مقامات پر مختلف حالات و واقعات کے متعلق نازل ہوا کرتی تھیں تو جناب رسالتمآبؐ
نے سورتوں کی حدود معین فرمائی اور اس کے بعد جب کوئی آیت اُترتی تھی تو آپ فرما
دیا کرتے تھے کہ اس کو فلاں سورہ میں شامل کردو اور پھر اس طریقہ سے تمام نازل شدہ
آیات کو حضرت رسالتمآبؐ نے خود علیحدہ علیحدہ سورتوں میں جمع فرمایا تھا لیکن
سورتیں سب یکجا نہ تھیں بعض پتھروں پر۔۔۔ بعض درختوں کے پتوں پر اور بعض چمڑوں پر
تحریر تھیں جنہیں بعد میں جمع کیا گیا۔
اس کے بعد بروایت بخاری حضرت ابوبکر کو جامعِ اوّل
قرار دیا گیا اور زید بن ثابت نے ان کے حکم سے جمع کیا لیکن خوشی اور رضا مندی سے
نہیں بلکہ جبرو اکراہ سے، چنانچہ سیوطی نے اس کی نقاب کشائی یوں کی ہے:
٭ فِیْ
مَوْطَأ بْنِ وَہَب عَنْ مَالِک عَنْ اِبْنِ شَہَاب عَنْ سَالِمِ بْنِ
عَبْداللّٰہِ بْنِ عُمَر قَالَ جَمَعَ اَبُوْبَکْرُ الْقُرْآنَ فِیْ قَرَاطِیْسٍ
وَکَانَ سَئَلَ زَیْد بْنِ ثَابِت فِیْ ذٰلِکَ فَاَبٰی حَتّٰی اسْتَعَانَ عَلَیْہِ
بِعُمَر۔
ترجمہ: موطا ٔ بن وہب میں مالک سے اس نے ابن شہاب
سے اس نے سالم بن عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ ابوبکر نے قرآن کو کاغذوں میں
جمع کیا۔۔۔ چنانچہ انہوں نے زید بن ثابت سے اس کی خواہش کی تھی تو اس نے انکار کر
دیا تھا یہاں تک کہ اس کے خلاف حضرت عمر سے مدد لی گئی۔
نیز بروایت ابن شہاب یہ بھی نقل کیا ہے: فَکَانَ
اَبُوْبَکْر اَوّلُ مَنْ جَمَعَ الْقُرْآنَ یعنی ابوبکر ہی پہلا جامع قرآن ہے،
نیز ابن دائود سے روایت ہے کہ حضرت علی ؑ نے فرمایا: ابوبکر کتاب اللہ کا
پہلا جامع ہے۔
اسی ضمن میں سیوطی نے بروایت ابن سیرین یہ بھی ذکر
کیا ہے کہ حضرت علی ؑ نے یہ بھی فرمایا:
٭ لَمَّا
مَاتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ آلَیْتُ اَنْ لا
آخُذَ رِدَائِیْ اِلَّا الصَّلٰوۃ الْجُمْعَۃِ حَتّٰی اَجْمَعَ الْقُرْآنَ
فَجَمَعْتُہٗ۔
ترجمہ: کہ جناب رسالتمآبؐ نے رحلت فرمائی تو میں
نے قسم اُٹھالی دوش پر سوائے نماز جمعہ کے ردأ نہ ڈالوںگا جب تک کہ قرآن کو جمع
نہ کر لوں گا، پس میں نے قرآن کو جمع کیا۔
اس پر ابن حجر نے بغض و حسد کی بھڑاس یوں نکالی ہے
کہ حضرت علی ؑ کی پہلی روایت یعنی جس میں حضرت ابوبکر کو جامع اوّل قرار دیا گیا
ہے درست اور صحیح ہے، لیکن دوسری روایت جس میں حضرت علی ؑ نے اپنا جامع قرآن ہونا
ذکر فرمایا ہے ضعیف ہے، اور اگر بالفرض صحیح بھی تسلیم کر لی جائے تو ان کے جمع
کرنے کا مقصد حفظ کرنا ہے۔
پھر سیوطی نے ابن دائود سے بروایت حسن۔۔ حضرت عمر
کا پہلا جامعِ قرآن ہونا ذکر کیا ہے، نیز بروایت ابن بریدہ حضرت ابو حذیفہ کے
غلام۔۔۔ سالم کے جامع اوّل ہونے کا تذکرہ بھی کیا ہے، ان تمام روایات کے جمع کرنے
کے بعد حارث محاسبی کی رائے یوں نقل کی ہے:
٭ اَلْمَشْہُوْرُ
عِنْدَ النَّاسِ اَنَّ جَامِعَ الْقُرْآنِ عُثْمَانٌ وَلَیْسَ کَذٰلِکَ اِنَّمَا
حَمَلَ عُثْمَانُ النَّاسَ عَلٰی الْقُرْأَۃِ بِوَجْہٍ وَاحِدٍ عَلٰی اِخْتِیَارٍ
وَقَعَ بَیْنَہٗ وَ بَیْنَ مَنْ شَہِدَ مِنَ الْاَنْصَارِ وَ الْمُھَاجِرِیْن۔
ترجمہ: لوگوں میں مشہور ہے کہ قرآن کا جامع عثمان
ہے حالانکہ ایسا نہیں۔۔۔ بلکہ اُنہوں نے تو لوگوں کو صرف ایک قرأت پر متفق ہونے
کیلئے آمادہ کیا جن کو اپنے حاضرِ دربار۔۔۔ مہاجرین و انصار کے مشہورہ سے منتخب
کیا۔
چنانچہ صحیح بخاری کے اُردو ترجمہ میں مرزا حیرت
دہلوی یوں تحریر فرماتے ہیں:
انس بن مالک سے مروی ہے کہ حذیفہ بن یمان حضرت
عثمان کے پاس آئے۔۔۔ اور ان دنوں حضرت عثمان اہل شام اور اہل عراق دونوں کو ساتھ
ملا کر فتح آرمیہ آذربائیجان میں جہاد و جنگ کرا رہے تھے اور حضرت حذیفہ بھی ان
میں شریک تھے۔۔۔ حضرت حذیفہ کو شامیوں اور عراقیوں کی اختلافِ قرأت نے گھبرا دیا
تو حضرت عثمان سے آکر کہا کہ ان آدمیوں کی خبر لیجئے اس سے پہلے کہ یہود و
نصاریٰ کی طرح کتاب اللہ میں اختلاف کر دیں، تو حضرت عثمان غنی نے حضرت حفصہ کے
پاس ایک آدمی کو بھیجا کہ اپنا قرآن بھیج دو تاکہ اس سے ہم اور نقل کر لیں اور
پھر اصل آپ کے پاس واپس بھیج دیں گے، حضرت حفصہ نے اسے ان کے پاس بھیج دیا اور
یہاں اس کی چند نقلیں کی گئیں اور حضرت زید بن ثابت انصاری و عبداللہ بن زبیر و
سعید بن العاص و عبدالرحمن بن حارث بن ہشام کو لکھنے کا حکم دیا، حضرت عثمان نے ان
تینوں آدمیوں (قریشیوں) سے کہا کہ جہاں تمہارا زید بن ثابت (انصاری) سے اختلاف ہو
وہاں قریشی زبان میں لکھنا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قریشی زبان میں قرآن کریم نازل
فرمایا ہے، انہوں نے ایسا ہی کیا اور بہت سے قرآن شریف لکھ دیئے پھر اصل کو حضرت
عثمان غنی نے حضرت حفصہ کے پاس بھیج دیا، اور ہر اسلامی شہر میں ایک ایک نقل بھیج
دی اور پہلے کے جو مختلف قرآنی مسوّدات تھے ان کو جلا دینے کا حکم فرما دیا ۔۔۔
اِنْتَہٰی مَوْضِعُ الْحَاجَۃِ (ترجمہ صحیح بخاری ج۲
ص۶۶۷ حدیث ۲۰۸۹)
اس بات میں اختلاف ضرور ہے کہ پہلا جامع قرآن کون
ہے؟
گذشتہ تفصیل سے جناب رسالتمآبؐ کے بعد پانچ
شخصیات کے نام لئے گئے ہیں کہ یہ قرآن کے جامع ہیں:
حضرت ابوبکر ، حضرت عمر
، حضرت عثمان ، حضرت سالم (غلام ابو حذیفہ) ، حضرت علی ؑ
بہر کیف ہمیں قرآن ہی سے واسطہ ہے جامع خواہ کوئی
ہو، حضرت عثمان کے جامعِ قرآن ہونے کے متعلق جو رائے حارث محاسبی نے قائم کی ہے،
بخاری کی متذکرہ بالا روایت کے پیش نظر تو وہی بالکل درست اور مطابق واقع معلوم
ہوتی ہے۔۔۔ کیونکہ بنابر روایت بخاری۔۔ حذیفہ نے شامیوں اور عراقیوں کی اختلافِ
قرأت کو شائع کرادیا اور اطرافِ مملکت اس کی نقول بھیج دیں، حضرت سالم اور حضرت
علی ؑ ان کے جمع شدہ قرآن چونکہ ہر دو منظر عام پر نہ آسکے لہذا معلوم نہیں ہو
سکتا کہ اسی موجودہ قرآن کی قرأت و ترتیب کے موافق تھے یا نہ؟ ان ہر دو کو جامع
قرآن اس لئے نہیں کہا جا سکتا کہ حکومت وقت نے ان کی جامعیت کو نامعلوم وجوہ کی
بنا ٔ پر کوئی خاص اہمیت نہ دی!؟
حضرت سالم تو خیر تھے ہی غلام ان کی کون سنتا تھا؟
لیکن حضرت علی ؑ کی جمع کو موردِ التفات کیوں نہ قرار دیا گیا؟ اسے خود خدا جانتا
ہے یاوہی جانتے ہیں جن سے معاملہ تھا، ابن حجر نے بقول سیوطی حضرت علی ؑ کی جامعیت
والی روایت کو ٹالنے کی خوب کوشش کی:
اوّلاً
یہ کہہ دیا کہ حضرت علی ؑ کے جامع ہونے کے متعلق جو روایت ہے وہ قابل
اعتماد نہیں (ضعیف) ہے۔
ثانیاً: بات چونکہ خلافِ واقعہ تھی
طبیعت میں اطمینان کیسے آتا؟ سند روایت کی پختگی کو بھانپ کر خجالت محسوس کی لیکن
حضرت علی ؑ کی فضیلت کا اعتراف بھی تو منشأ تعصب کے خلاف تھا۔۔۔ فوراً پینترا
بدلا اور کہہ دیا چلو روایت درست ہی سہی تاہم حضرت علی ؑ کے جمع کرنے سے مراد حفظ
کرنا ہے۔