صدقہ جاریہ اور دعوت عمل
بعض احادیث میں وارد ہے کہ انسان جب مرتا ہے تو اس
کا عمل ختم ہو جاتا ہے لیکن اگر مرنے صدقہ جارئی سے مرادیہ ہے کہ انسان اپنے مال
حوالا اپنے پیچھے نیک اولاد یا صدقہ جاریہ چھوڑکر مرے تو اس کی بیک اولاد جب تک
نیک اعمال کرتی رہے گی مرنے والے کو فیض پہنچتا رہے گا اور اس کا صدقہ جاریہ بھی
جب تک باقی رہے گا مرنے والے کے نامہ اعمال ہیں نیکیوں کا اضافہ ہوتا رہے گا۔
صدقہ جاریہ سے مرادیہ ہے کہ انسان اپنے مال حلال
سے ایک ایسا تعمیری کام کرجائے جو تادیت باقی رہ کر خلق خدا کو نفع پہنچاتا رہے
مثلا کسی سڑک کے کنارے پر کنواں کدوائے تاکہ پیاسے مسافر اس مقام پر پہنچ کر سیراب
ہوں تو جب تک خلق خدااس سے نفع مند ہوتہ رہے گی اس کے نامہے اومال میں نیکیوں کا
اضٓفہ ہوتا رہے گا اسی طرح تعمیرمسجد کہ جب تک مسجد میں نمازی مناز پرحتے رہیں گے
اس کے نامہ اعمال میں نیکیاں درج ہوتی ہیں گی حدیث میں وارد ہے کہ جو شخص ایک مسجد
خواہ کتنی ہی چھتہ ہو تیمیر کرے اس پر جبت وجب ہے اسی طرح مسجد میں قرآ ن
رکھنا یا مومنین کو قرآن پڑھنے کے لیے دینا یا عزاخانہ تعمیر کرنا یا مدرسہ و
ینیہ بنوانا یا ان چیزوں کی بقا وزیست کے لیے اپنی آمدنی یا اس کے کچھ حصہ کی
وصیت کر جانا تا کہ جب تک ان کا رہائے خیر کا سلسلہ جاری رہے گا اس کے نامہ اعمال
میں ثواب ا اضافہ ہوتا رہے گا۔
اور انسانک و چاہیے کہ صدقہ جاریہ کے لیے اگر مال
کی وصیت کرنا چاہتا ہو تو جملہ امور خیر میں سے اہم خالا ہم کا انتخاب کرے تا کہ
زیادہ سے زیداہ ثواب کا مصتحق ہو مثلاآزروئے حدیث وام مومن کے صدقہ سے فقیر مومن
کے لیے صدقہ زیادہ اہم اور موجب زیادتی ثواب ہے اور رشتہ دار مومن فقیر کے صدقہ سے
طالب علم مومن کے لیے صدقہ زیادہ اہم اور موجب ثواب ہے جو کمانے سے معذور ہو اور
معزور مومن فقیر کے صدقہ سے رشتہ دار مومن فقیر کے لیے صدقہ زیادہ اہم اور موجب
زیادتہ ثواب ہے اور رشتہ دار مومن فقیر کے صدقہ سے طالب علم مومن کے لیے صدقہ
زیادہ اہم اور اور ضروری ہے چنانچہ عام مومن کے صدقہ کا ثواب ایک کے بدلے دس طنا
ہوتا ہے اور معزور مومن کے صدقہ کا ثواب ایک کے بدلہ مٰن ستر طنا ہوتا ہے اور رشتہ
دار مومن فقیر پر صدقہ کنرے کا ثواب ایک کے بدلہ سات سو طناہے اور والدین کے لیے
صدقہ کرنے کا ثوابایک کے بدلہ میں ستر ہزار گناہے اور طالب علم مومن پر صدقہ کرنے
کا ثواب ایک کے بدلہ میں ایک لاکھ گناہے چنانچہ اسی مضمون کی کروایت عنوان الکلام
میں حضرت امیرالمومنین سے مروی ہے ایک حدیث میں مروی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عالم
یا طالب علم کی اعانت کرے خواہ کتنی ہی کیوں نہ ہو حتی کہ اگرچہ وہ قلم شکستہ سے
ہی ہو تو اس کا ثواب اتنا ہے کہ گو یا اس نے ستر مرتبہ بیت اللہ کی تعمیر کی ہے۔
قول: کعبہ اپنے مقام پر ایک بابرکت
مقام ہے جو شخص وہاں جا کراپنے گناہوں سے تائب ہو اور اللہ کے سامنت جھک
جائے جتو خدا وندکریم اس مبارک مکا ن کی وجہ سے اس کے گناہ معاف فرماتا ہے اور اس
کو داخل جنت کرتاہے لیکن اہل علم کی امداد علماء اور طالبان علم کو طلب معاش سے بے
نیاز کر کے ان کو خدمت علم کا زیادہ سے زیادہ موقعہ دیتی ہے اور معاشی انکار سے
فارح ہر کر وہ علم کی طرف زیادہ توجہ صرف کرنے کے قابل ہوتے پس ان میں سے ہر ایک
اپنی نجات کے علاوہ ہزاروں افراد کے لیے آتش جہنم سے آزادی کا معجب بنتا ہے
کیونکہ اگر علماء کا وجود نہ ہو تو کعنہ کی پہچان نہ ہوگی اور نجات کے لیے
صرف کعبہ کا وجود کافی نہیں بلکہ معرفت بھی ضروری ہے اور یہ چیز بجز علامئے کرام
کے دستیاب نہیں ہو سکتی اسی بنا پر حدیث شریف کا مقصد یہ ہے کہ کعبہ کے ظاہری وجود
کی تعمیر سے علوم شر عیہ کی تعمیر میں کم اس کم خرچ بھی ستر طنازیادہ ثواب کا موجب
ہے۔
پس معلوم
ہوا کہ دینی تعمیر ی کا موں میں سب سے زیادہ اہم مدارس دینیہ کا قیام و بقاہے صرف
تقاریر اور ہائی ہو پر پیسہ اٖانا انا مفید نہں ہے جتنا کہ مدارس دینیہ کا قیام و
بقا ہے صرف تقاریر اور ہائی ہو پر پیسہ اڑانا اتنا مفید نہٰن ہے جتنا کہ مدارس
دینیہ کا اہتمام مفید و کارآمد ہے بلکہ ہر قوم کی قومی و مزہنی زندگی کی بقا کا
زیادہ تر انحصار ان ادارہ ہائے دینیہ کے استحکام پر ہے جب میں قومی و مذہبی
احساس و شعورکی خفتگی و غفلت کے دور کرنے کے انتظامات موجود ہوں اور وہ صرف اس
صورت میں ہو سکتا ہے کہ قوم میں دینی مدارس کی بہتات و کثرت ہو اور ہو نہار بچوں
کو وہاں زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے سہولتیں میسر ہوں تا کہ وہ بچے وہاں سے
فارح ہو کر اپنے اپنے قبیلہ مین عوام کے سامبنے علمہ و عملہ طور پر اچھا
کردار پیش کرتے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ
قومیں عل ممہ طاقر سے دنیا پر چھاسکتی ہیں اور علمی طاقت سے دنیا پر چھاسکتی ہیں
اور علمی انحطاط ہی اقوام کی تذلیل کا موجب ہوتا ہے ۔
قوم شیعہ عالم ہستی میں وہ ممتاز ترین قوم ہے جن
کے نشان پر اقوام نیا نے گامزن ہو کر مقصود تک رسائی کے منازل طے کئے ئی وہ قوم ہے
جن کے آفتاب علم کی روشنی میں ہر دور کے صاحبان ذوق نے علوم مختلف میں سیر کی راہ
بائی اور یہی وہ قوم ہے جس کی ایثاری شعاری اور حق کو شی اقوام عالم میں زبان زد
عوام و خواص رہی اسی قوم کی بے لوث قربانیوں نے طاغوتی و استبدادی نظریات کو صفحہ
دنیا سے حرف خلط کی طرح مٹٓ کر رکھ دیا اسی قوم نے صداقت و ثبات قدم کے بل بوتے پر
ظلم و جور کی آہنی چٹٓنوں سے ٹکراکر ان کو خاکستر کا ڈھیر بنادیا ۔ اسی قوم کے
صبرواستقلال اور بلند حوصلگی نے ہمیشہ سے قصر باطل کی بنیادیں کھلوکھلی کر دیں اسی
قوم کی پر سکون و باوقار عملی و علمی زندگی نے انسانیت کی پیشانی سے غلط کردار کے
ظلمانی و بدنماداغ دھوڈالے۔
لیکن نہایت مقام افسوس ہے کہ آج قوم شیعہ علوم و
معارف کے میدان میں باقی اقوام سے پیچھے ہٹتی جارہی ہے اور جادہ ئہ حق سے دن بدن
ان کے قدم سر کتے جارہے ہیں جس کے نتیجہمیں غیر قومیں ان کے علم و عمل کا جائزہ لے
کر ماضی اور حال کی تاریخ و حالات سامنے رکھ کر ہرگز یہ کہنے کی جرات نہیں کرتیں
کہ یہ وہی قوم ہے جو کسی زمانہ میں شیعہ کے مقدس نام سے موسوم تھی۔
بدقسمتی سے اس قوم میں بعض ایسے جہلا بھی پیدا ہو
گئے ہیں جو ترویج علوم آل محمد کے خلاف لسانی ق قلمی و عملی محاذقاتم کیے ہوئی
ہین اور اسی قسم کے سر پھرے لوگوں کو بعض نااہل بڑے دقیع و وزنی خطابات سے موسوم
کرکے ان کی حصلہ افزائی کرتے ہیں جس سے ان کی فرعونیت جوش میں آکر خداوالوں کے
کچلنے کی بے سود تدبیریں سوچتی ہے لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ حق کی آواز باطل
کی سینہ زور یوں ۔غلط بیانیوں اور حیلہ سازیون سے کبھی دب نہیں سکتی خدا جب چاہتا
ہے اس قسم کے اعدادین پر اخروی عزاب سے پہلے دنیاوی عزاب بھیج دیتا ہے اگر وہ توبہ
کاطریقہ اختیار نہ کریں ۔۔ مراکز علمیہ اور اہل علم کے خلاف ہنگامہ آرائی
صدائے صحرئی سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی اللہ حق کا خود پاسبان ہے۔
اور اس قسم کا مفسدانہ رویہ ہمیشہ سے رہا ہے شیطنت
حق سے ہمیشہ پرسر سر کار رہی ہے لیکن ہمیشہ حق کا بول بالا رہا اور باطل کا منہ
کالا ایمان والوں کو کسی صورت میں بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے بلکہ میدان عمل میں
سینہ تن کر مردانہ نہ وارڈٹ جانا جوانمردی کا سیوہ ہے اگر یہ قوم میدان سیست میں
گامزن ہو کہ قائداعظم پیدا کر سکتی ہے۔تو میدان علم و عمل میں بڑھ کر علامہ حلی
محقق شیخ طوسی شیخ مفید وغیرہ جیسی ہستیاں کیوں نہیں پیدا کر سکتی ؟ بیشک ہمارے
ملک پاکستان کی مٹی بڑی مردم خیز ہے اس کی دکھ سے بڑے بڑے فلا سفر و مفکر لوگوں نے
جنم لیا ہے ۔
پس اگر عراق و ایران کی زمین علامے و مجتہد پیداکر
سکتہ ہے تو پاکستان کی زمین کے لیے کونسی چیز مانع ہے؟
صاحبان دولت وثروت ارباب سیم وزرتھوڑی سی توفہ
کرکے اسی خواب پریشان کرشرمندہ تعبیر کرک کے اسے ناقابل انکار حقیقت بنا سکتے ہیں
اپنی گرہ سے پیشہ خرچ کرنے کے عادی صرف اپن ی کثرت کے بل ہوبتے پر ملک بھر کے گوشہ
گوشہ میں علمی مراکز قائم کر سکتے ہیں تو اپنی جیب سے ہزارو ں روپیہ حسینی
مشن پر قربان کرنے والے اپنی صداقت کی بنا پر علوم آل محمد ؐ کی ترویج کا ملک بھر
کے ہر زاویہ میں انتظام کیوں نہیں کر سکتے ؟ بے شک وہ ایسا کر سکتے ہیں اور انشاء
اللہ ایسا ہی ہو گا
اس وقت میں آیت زیر بحث(آیت وصیت) کی طرف اپنی
آخرت وقیامت کے سنوار نے ولاوں کو متوجہ کرتا ہوں یہی مال دولت یہی سیم و زر اگر
انسان چھوڑ کر مر جائے تو مرنے والے کے وارث خواہ وہ پیشہ نیکی پر خرچ کریں یا
برائی پر ہر دو صورت مین مرنے والے کے لئے بروز محشر باعث حسرت ہوگی کیونکہ اگر نیکی
پر خرچ کریں گے تو قیامت کے دن ان کی جزا کو دیکھ کر افوسو کرے گا کہ کاش میں نے
اگر اپنے ہاتھ سے راہ خدا میں خرچ کئے ہوتے تو اس جزا سے محروم کیوں ہوتا ؟ اور
اگر وہ برائے پر خر کریں گے تو اس کیلئے بھی وبال میں زیادتی ہوگی کہ اس کا موجب
یہی پیشہ ہو ہے جو اس نے چھوڑا تھا پس کف افسوس ملے گا لیکن اس وقت کوئی
فائدہ نہ ہو گا جیسا کہ امام جعفر صادق ؑ سے اسی مضمون کی روایت منقول ہے
لہذا ہ رمومن اگر اپنے اپنے مقام پر اپنے
مال حلال میں سے کچھ حصہ بطور وصیت علوم دینیہ کی ترویج وخدمات کیلئے معین
کر جائے تو یہ صدقہ جاریہ جس طرح مرنے والے کیلئے قبر وحشر میں فائدہ مند ہو گا
اسی طرح اس کے فیض سے دنیا علوم محمد وآل محمد سے روشناس ہو کر علم وعمل سے معمور
ہوگی اور جب تک اس کے آثار باقی رہیںگے وصیت کرنے والے کے نامہ اعمال میں نیکیوں
کا اضافہ ہوتا رہے گا اور دنیا میں بھی اس کا ام زندہ جاوید رہے گا اور اس
کے صدقہ سے فیض یاب ہونے والے ہمیشہ اپنی انتہائی
عقیدت مندی سے اس کو خراج تحسین
پیش کرتے ہیوئے اپہنی۸ دعائوعں سے سر فرز
فرماتے رہیں گے ہماری دعا ہے کہ
خداوندکریم مومنوں کو آخرت کی طرف متوجہ ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے اس صورت
میںکوئی ضلع ایسا خالی نہ رہ سکے گا جس میں مرکز علمی کی کوئی نہ کوئی شاخ نہ پہنچ
سکے جامعہ علمیہ باب النجف جاڑا ضلع ڈیرہ اسماعیل خان بھی ان مدارس دینیہ اور
مراکز علمیہ میں سے ہے جو قوم کو ببانگ دہل حی علی خیر العمل کی دعوت دیتے ہیں اور
مونین کی توجہ سے ہمہ گیر صلاحتیوں کا حامل ہو سکتا ہے
ربط آیات
قرآن مجید میں پہلے پہل معرفت کی دعوت عامہ
دے کر عبادت کی طرف بلایا گیا اور اس کے بعد مخالفین کی طرف سے واردشدہ اعتراضات
کا رد کیا گیا اور داب اصول ابحاث کے بعد فروعی احکام کے بیان کا سلسلہ شروع ہے
چنانچہ فرمایا کہ توحید ، قیامت ، کتاب انبیا اور ملائکہ پر ایمان لانے کے بعد
اپنا محبوب مال خد کی محبت میں قریبیوں ۔ یتیموں ۔ مسکینوں مسافروں ۔
سوالیوں اور غلاموں پر خرچ کرنا ۔ نماز ادا کرنا ۔ زکوۃ دینا ۔ وفائے عہد کرنا ۔
جہاد میں ثابت قدم رہنا اپنا شعار بنائو ۔ اور ان عبادات کی طرف متوجہ کرنے کے بعد
مسئلہ قصاص کا ذکر فرمایا تا کہ انسان ذاتی نیکعوں سے آراستہ ہو کر ظلم و استبداد
و بے راہ روی کی ناپاک اور انسانیت سوز حرکات سے گریز کرے کیونکہ انسانی کمالات دو
قسم کے ہیں ۱۔اپنے میں نیک اوصاف کا پیدا کرنا اور اس کیو
تحلیہ کہا جاتا ہے ۲۔اپنے
سے بدعادات کو دور کرنا اور اس کو تخلیہ کہا جاتا اور نفس انسانی کی تکمیل تحلیہ و
تخلیہ ہر دو کے بغیر ناممکن ہے یعنی کامل انسان وہ ہے جو صفات حسنہ سے آراستہ ہو
اور صفات بد سے خالی ہو مسئلہ قصاص کے بعد وصیت کے مسئلہ کا ذکر فرمایا تا کہ انسان
میں صلہ رحمی کا جزبہ کار فرما رہے اور دوسرے برادران ایمان کی امداد کو ذخیرہ
آخرت سمجھے اور اس کے بعد فورا روزہ کا بیان شروع فرما دیا تاکہ اپن بھوک پیاس کے
احساس سے انسان قرابت دار غرباء ۔ مساکین اور فقراء مومنین کے ساتھ ہمدردی کنرے کی
طرف شوق و ذوق کے ساتھ قدم بڑھاسکے کیونکہ بھوکے کو بھوکوں کی بھوک کا جواحساس ہو
سکتا ہے وہ پیٹ بھر کر کھانے والے کو نہیں ہو سکتا اور پیاسے کو پیاسوں کی پیاس کا
جو دعر ہورا ہے وہ سیر ہونے والے کو نہیں ہو سکتا۔