التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

قرآن کا ظاہر و باطن



 کتب عامہ اور خاصہ میں متواتر یا قریب متواتر احادیث وارد ہیں کہ قرآن کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن۔۔۔ اور باطن کا باطن، یہاں تک کہ سات بواطن موجود ہیں، چنانچہ جلال الدین سیوطی نے الاتقان میں حلیۃ الاولیا ٔ سے بروایت ابن مسعود نقل کیا ہے:
٭      اِنَّ الْقُرْآنَ نَزَلَ عَلٰی سَبْعَۃِ اَحْرُفٍ مَا مِنْھَا حَرْفٌ اِلَّا وَ لَہٗ ظَہْرٌ وَّ بَطَنٌ وَ اِنَّ عَلِیَّ ابْنَ اَبِیْ طَالِبٍ عِنْدَہٗ مِنْہُ عِلْمُ الظَّاہِرِ وَ الْبَاطِن۔
ترجمہ: قرآن سات قرائتوں یا سات قسموں میں اترا ہے اور ان میں سے ہر ایک کیلئے ظاہر بھی ہے اور باطن بھی اور تحقیق علی ابن ابیطالب ؑ کے پاس اس کے ظاہر و باطن دونوں کا علم ہے۔
مقدمہ تفسیر مرا ٔۃ الانوار اور مقدمہ تفسیر برہان میں مستقل ابواب اسی موضوع پر قائم کئے گئے ہیں اور بہت کافی احادیث ان میں اسی موضوع سے متعلق جمع کی گئی ہیں۔
بعض روایات کا مضمون تو یہ ہے کہ جس طرح باطن کا باطن اور اسی طرح سلسلہ سات بواطن تک پہنچتا ہے۔۔۔ اسی طرح قرآن کے ظاہر کا ظاہر اور اسی طرح کئی ظاہر در ظاہر چلے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کہا گیا ہے کہ انسان کے عقل سے کوئی چیز اتنی دور نہیں جتنی کہ تفسیر قرآن یعنی باقی ہر شئے کا ادراک عقولِ انسانیہ کے ساتھ اگر کر بھی لیا جائے تاہم تفسیر قرآن تک پھر بھی عقل کی رسائی مشکل ہے۔
بعض روایات میں ہے: ’’اِنَّ الْقُرْآنَ ذُلُوْلٌ ذُوْوُجُوْہ فَاحْمِلُوْہُ عَلٰی اَحْسَنِ الْوُجُوْہ‘‘  یعنی قرآن میں ایک یہ آسانی ہے کہ اس کے معانی میں کئی وجوہ پیدا ہو سکتی ہیں پس اس کو اچھی جگہ پر محمول کر لیا کرو، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اپنے قیاساتِ عقلیہ اور استحساناتِ فکریہ کے ماتحت جس کو پسند کرو لے لو اور باقی کو چھوڑ دو۔۔۔ بلکہ مقصد یہ ہے کہ ادلۂ شرعیہ جو احادیث ِنبویہ یا فرمائشاتِ عترتِ طاہرہ سے مستفاد ہوں اگر کوئی معنی ان کے ساتھ موافقت رکھتا ہو تو اسے اختیار کر لیا کرو اور حقیقت میں معنی حُسن بھی وہی ہے جو قواعد شرعیہ کی رو سے حُسن ہو ورنہ اگر قواعد شرعیہ کے خلاف ہو اور تفہیم صاحب شرع کے موافق نہ ہو تو وہ قطعاً معنی حُسن نہیں کہا جا سکتا۔۔۔ اور قرآن کے معانی میں کثرتِ احتمالات کا پیدا ہوسکنا اور ایک کا مراد ہونا بھی بتلاتا ہے کہ تنہا قرآن کافی نہیں بلکہ قرآن والا ساتھ ضروری ہونا چاہیے جو اس معنی مقصود کی طرف ہماری راہنمائی کر سکے اور وہ ہیں آلِ محمد۔۔۔۔۔ جن کو حدیث ثقلین (گذشتہ صفحات میں اس پر کافی روشنی ڈالی جا چکی ہے) نے غیر مبہم الفاظ میں واضح کیا ہے۔
بروایت عیاشی منقول ہے کہ فضیل ابن یسار نے حضرت امام جعفر صادقؑ سے ظاہر و باطن کا معنی دریافت کیا؟ تو آپ ؑ نے فرمایا کہ ظاہر سے مراد تنزیل اور باطن سے مراد تاویل ہے، بعض ان میں سے گذر چکی ہیں ہیں اور بعض آنے والی ہیں۔
نیز عیاشی نے حضرت امام محمد باقرؑ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے حمران کو فرمایا کہ ظاہر قرآن سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے حق میں نازل ہوا ہے اور باطن سے مراد وہ لوگ ہیں جو اُن جیسے اعمال کریں۔۔۔ پس جو کچھ اُن کے متعلق اُترا ہے اِن میں بھی جاری ہے۔
٭      عَنْ غیْبَۃِ النّعْمَانِیْ عَنِ الصَّادِقِ اَنَّہُ قَالَ فِیْ حَدِیْثٍ لَہُ ذَکَرَ فِیْہِ اِنَّ مَنْ مَاتَ عَارِفًا بِحَقِّ عَلِیٍّ دُوْنَ غَیْرِہٖ مِنَ الْآئِمَّۃِ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً اِنَّ الْقُرْآنَ تَاوِیْلُہٗ یَجْرِیْ کَمَا یَجْرِی اللَّیْلُ وَالنَّھَارُ وَ کَمَا تَجْرِی الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ فَاِذَا جَائَ تَأوِیْلٌ مِّنْہُ وَقَعَ فَمِنْہُ مَا قَدْ جَائَ وَمِنْہُ مَا لَمْ یَجِیْئُ۔
ترجمہ: بروایت غیبت نعمانی حضرت امام جعفر صاقؑ سے منقول ہے۔۔۔ آپ ؑ نے ایک حدیث جس میں یہ ذکر کیا کہ تحقیق جو شخص حضرت علی ؑ کے حق کا عارف ہو کر مرے اور باقی آئمہ کو نہ پہچانتا ہو تو وہ گویا کفر کی موت مرا۔۔۔۔۔ فرمایا کہ قرآن کی تاویل اس طرح جاری ہے جس طرح دن اور رات جاری ہیں اور جس طرح سورج اور چاند جاری ہیں، پس جب تاویل آجاتی ہے تو وہ چیز واقع ہو جاتی ہے پس ان میں سے کچھ آچکی ہیں اور کچھ باقی ہیں ابھی نہیں آئیں۔
اس مضمون کی روایات اور بھی ہیں جن میں تاویل قرآن کے جاری ہونے کو دن رات اور شمس و قمر کے جاری ہونے سے تشبیہ دی گئی ہے یعنی تاویل صرف ایک جگہ ساکن نہیں اس سے پہلے کی تفسیر عیاشی کی ہر دو روایات بھی اسی بات کی تصریح کی رہی ہیں یعنی شان نزول ہر آیت کا ایک ہی واقعہ کے متعلق یا ایک یا چند اشخاص کے متعلق ہی ہوا کرتا ہے وہ بیشک اپنے مقام پر ساکن ہے۔۔۔ لیکن تاویل آیات تمام ان لوگوں پر حاوی اور شامل ہوتی ہے جن سے ان جیسے افعال صادر ہوں جس سے تنزیل کا تعلق تھا اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا کیونکہ قرآن مجید قیامت تک کے لئے ہے جس طرح شب و روز اور شمس و قمر کا یک جگہ قیام نہیں بلکہ قیامت تک جاری ہیں۔
بنابریں جو آیات ظاہر اور تنزیل کے لحاظ سے جناب محمد مصطفیٰ اور حضرت علی ؑ مرتضیٰ سے تعلق رکھتی ہیں وہ باطن اور تاویل کے اعتبار سے ان کے حقیقی جانشین حضرات آئمہ طاہرین سے تعلق رکھتی ہیں اور وہ یکے بعد دیگرے قیامت تک ان آیات کے تاویلاً مصداق ہیں جس طرح کہ وہ تنزیلاً ان آیات کے مصداق تھے ظاہر ان کے لئے تھا اور باطن ان کے لئے ہے تا قیامت۔
پس جس طرح جناب رسالتمآبؐ کا منکر ظاہر و تنزیل کے اعتبار سے جس حکم میں ہے اسی طرح باطن اور تاویل کے لحاظ سے ان کا منکر اسی حکم میں ہے پس جس طرح ظاہری اور تنزیلی طور پر علی ؑ کی امامت و ولایت کا منکر ان آیات قرآنیہ کا منکر ہے جو علی ؑ کی امامت پر دلالت کرتی ہیں لہذا اس کی موت کفر و جہالت کی موت ہے اسی طرح باقی آئمہ طاہرین کی امامت کا منکر تاویلی اور باطنی طور پر انہی آیات قرآنیہ کا منکر ہو گا پس اس کی موت بھی موت جہالت و کفر ہو گی۔
بلکہ ظاہر و تنزیل کے لحاظ سے منکرین رسالت کا جو بھی حشر ہو گا ان کے بعد حضرت علی ؑ اور پھر یکے بعد دیگرے تا قیامت ہر امام بر حق کی امامت کے منکر کا حشر از روئے تاویل و باطن وہی ہو گا۔
دن رات اور شمس و قمر کے ساتھ تشبیہ دینے کا یہی مطلب ہے کہ جب پہلی مرتبہ دن کو دن کہا گیا اور اس کے اوقات کی تقسیم صبح دوپہر عصر سے کی گئی یا اس کے دوسرے احکام وضع کئے گئے تو ایک معین دن تھا اور اسی طرح جب رات کو رات کہا گیا اور دیگر اوقات کی تقسیم و احکام کی تعیین کی گئی تو وہ ایک مخصوص رات تھی لیکن وہ نام اور باقی تقسیمات و تحقیقات قیامت تک کے لئے تمام شب و روز پر حاوی ہیں بس فرق صرف یہی ہے کہ وہ پہلے شب و روز ظاہری مصداق تھے اور قیامت تک کے لئے شب و روز باطنی مصداق ہیں پس فرد اوّل ان احکام کا محل تنزیل تھا اور قیامت تک کے باقی افراد محل تاویل ہیں اور شمس و قمر کی تشبیہ سے بھی بعینہٖ یہی مراد ہے۔
اب معصوم کے فرمان کی پوری وضاحت ہو گئی کہ قرآن کی تاویل شب و روز اور شمس و قمر کی طرح قیامت تک جاری ہے تنزیلی اور تاویلی مصداق حکم میں بالکل برابر ہوا کرتے ہیں جس طرح پہلے لیل و نہار قیامت تک کے لیل و نہار کے ساتھ حکم میں یکساں ہیں سر مو تک فرق نہیں۔
چنانچہ بروایت ابوبصیر حضرت امام جعفر صادقؑ نے ارشاد فرمایا:
٭      وَلَوْ کَانَتْ اِذَا نَزَلَتْ آیـَۃٌ عَلٰی رَجُلٍ ثُمَّ مَاتَ ذَالِکَ الرَّجُلُ مَاتَتِ الْآیَۃُ لَمَاتَ الْکِتَابُ  وَ لٰـکِنَّـہٗ حَیٌّ یَجْرِیْ فِیْمَا بَقِیَ کَمَا جَرٰی فِیْمَنْ مَضٰی۔
ترجمہ: اگر ایسا ہوتا کہ جب ایک آیت ایک شخص کے متعلق اُتری اور وہ شخص بعد میں مر گیا تو اس کے ساتھ وہ آیت بھی مردہ ہو گئی ہوتی۔۔۔ تو اس طریق سے تو پھر سب کتاب مردہ ہو گئی ہوتی حالانکہ وہ زندہ ہے اور آئندہ کے لئے اسی طرح جاری ہے جس طرح گذشتہ لوگوں کے لئے جاری تھی۔
٭      وَ عَنْ عَبْدِالرَّحِیْمِ قَالَ اَبُوْعَبْداللّٰہ اِنَّ الْقُرْآنَ حَیٌّ لَمْ یَمُتْ وَ اِنَّـہٗ یَجْرِیْ کَمَا یَجْرِی اللَّیْلُ وَ النَّھَارُ وَ کَمَا تَجْرِی الشَّمْسُ وَ الْقَمَرَ وَ یَجْرِیْ عَلٰی آخِرِنَا کَمَا یَجْرِیْ عَلٰی اَوَّلِنَا۔
ترجمہ: بروایت عبدالرحیم حضرت امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:  تحقیق قرآن زندہ ہے مر نہیں گیا اور وہ اس طرح جاری ہے جس طرح لیل و نہار اور شمس و قمر جاری ہیں اور یہ ہمارے آخر پر ویسے جاری ہے جیسے ہمارے اوّل پر جاری تھا۔
٭      عَنْ تَفْسِیْرِ فُرَاتِ بْنِ اِبْرَاہِیْم عَنْ خَیثمَۃ عَنْ اَبِیْ جَعْفَرٍ قَالَ اِنَّ الْقُرْآنَ نَزَلَ اَثْلاثًا ثُلْثٌ فِیْنَا وَ فِیْ اَحِبَّائِنَا وَ ثُلْثٌ فِیْ اَعْدَائِنَا وَ عَدُوٍّ مَنْ کَانَ قَبْلِنَا وَ ثُلْثٌ سُنَّۃٌ وَ مُثُلٌ وَ لَوْ اَنَّ الْآیَۃَ نَزَلَتْ فِیْ قَوْمٍ ثُمَّ مَاتَ اُوْلٰئِکَ مَاتَتِ الْآیَۃُ لَمَا بَقِیَ مِنَ الْقُرْآنِ شَیْئٌ وَ لٰـکِنَّ الْقُرْآنَ یَجْرِیْ اَوَّلُہُ عَلٰی آخِرِہٖ مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَ لِکُلِّ قَوْمٍ آیـَۃٌ یَتْلُوْھَا مِنْھَا مِنْ خَیْرٍ اَوْ شَرٍّ۔
ترجمہ: تفسیر فرات ابن ابراہیم سے بروایت خیثمہحضرت امام محمد باقرؑ سے مروی ہے:  آپ نے فرمایاکہ قرآن تین حصوں پر اُترا ہے ایک حصہ ہمارے اور ہمارے دوستوں کے بارے میں اور ایک حصہ ہمارے دشمنوں اور ہمارے گذشتہ بزرگوں کے دشمنوں کے بارے میں ہے اور ایک حصہ سنت اور اَمثال میں ہے (اگر ایسا ہوتا) کہ جب کوئی آیت کسی قوم کے متعلق نازل ہوتی اور پھر اس قوم کی موت کے بعد وہ آیت بھی مردہ ہو جاتی تو اس وقت تک قرآن باقی نہ رہا ہوتا (لیکن ایسا نہیں) بلکہ قرآن کا اوّل آخر پر جاری رہے گا جب تک آسمان و زمین باقی ہیں اور ہر قوم کے لئے آیت موجود ہے کہ وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں یا وہ اس آیت سے خیر کے مصداق ہیں یا شر کے۔
٭      عَنْ تَفْسِیْرِ الْعَیّاشِیْ عَنْ عَبْدالرَّحِیْمِ الْقصیْر عَنْ اَبِیْ جَعْفَرٍ اَنَّہٗ قَالَ فِیْ قَوْلِہٖ تَعَالٰی ’’وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ‘‘ عَلِیٌّ نِ الْھَادِیْ وَ مِنَّا الْھَادِیْ۔۔۔ فَقُلْتُ فَاَنْتَ جُعِلْتُ فِدَاکَ الْھَادِیْ؟ قَالَ صَدَقْتَ۔۔۔ اِنَّ الْقُرْآنَ حَیٌّ لا یَمُوْتُ وَالْآیَۃُ حَیَّۃٌ لا تَمُوْتُ فَلَوْ کَانَتِ الْآیَۃُ اِذَا نَزَلَتْ فِی الْاَقْوَامِ وَ مَاتُوْا مَاتَتِ الْآیَۃُ لَمَاتَ الْقُرْآن وَ لٰـکِنَّ ھِیَ جَارِیَۃٌ فِی الْبَاقِیْنَ کَمَا جَرَتْ فِی الْمَاضِیْنَ۔
ترجمہ: تفسیر عیاشی سے بروایت عبدالرحیم قصیر حضرت امام محمد باقرؑ سے مروی ہے:
آپؐ نے اللہ کے فرمان ’’وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ‘‘کے متعلق فرمایا کہ علی ؑ ہادی ہے اور ہم میں سے ہادی (مراد) ہے، میں نے عرض کیا میں آپؐ پر فدا ہو جائوں کیا آپؐ وہی ہادی ہیں؟ تو فرمایا (بالکل) تو نے سچ کہا کیونکہ قرآن زندہ ہے مردہ نہیں اور یہ آیت بھی زندہ ہے مردہ نہیں(اگر ایسا ہوتا) کہ ایک آیت جن قوموں کے بارے میں نازل ہوتی اگر انکے جانے کے بعد وہ آیت بھی مردہ ہوجاتی تو پھر سارا قرآن مردہ ہو جاتا لیکن ایسا نہیں، بلکہ وہ آئندہ نسلوں میں ویسے جاری ہے جیسے گذشتہ لوگوں میں جاری تھا۔
پہلی روایات قرآن کے ظاہر و باطن کے متعلق مقام ثبوت و بیان اِنّیت پر مشتمل تھیں اور آخری روایات مقام اثبات اور بیان لمّیت کے لئے ہیں یعنی وہ روایات بطورِ دعویٰ تھیں اور یہ روایات بطورِ دلیل ہیں۔
یعنی اگر معانی قرآنیہ کو فقط ظاہری اور تنزیلی مصادیق پر بند رکھا جائے اور اس کی تاویل کو جاری نہ سمجھا جائے تو اس کا صاف مطلب یہ ہو گا کہ قرآنی ہدایات کے چشمے فقط زمان تنزیل تک ہی تھے گویا جناب رسالتمآب کی رحلت اور اختتام وحی کے بعد وہ چشمے بالکل خشک ہوگئے اور قرآن کی معنوی زندگی ختم ہو گئی لیکن چونکہ باتفاق امت اسلامیہ قرآن قیامت تک زندہ ہے تو ماننا پڑتا ہے کہ اس کے مصداق اہل خیر سے ہوں یا شر سے ہوں قیام قیامت تک زندہ ہیں اور قرآنی احکامات و خطابات میں گذشتہ لوگوں کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔
اب قرآن مجید میں عام طور پر تین اقسام کے مضامین وارد ہیں:
ض    ابتدائے تخلیق حضرت آدم ؑسے لے کر حضرت خاتم الانبیا ٔ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور تک کے انبیا ٔ و صالحین اور ان کے اتباع کے تذکرے اور ان کی اوصاف حمیدہ کا ذکر تاکہ قیامت تک آنے والوں کے لئے مشعلِ راہ قرار دئیے جائیں۔
ض    دشمنانِ دین، اعدائے انبیا ٔ و صالحین اور ان کے پیروکاروں کے واقعات اور ان کی برائیاں اور ان کے عبرتناک انجام کا ذکر تاکہ قیامت تک کے لئے باعث نصیحت و عبرت ہوں۔
ض    اوامر و نواہی۔۔۔ ضرب الامثال۔۔۔ جنت و نار وغیرہ کا ذکر تاکہ نیک لوگوں کے انعامات اور بُروں کی عقوبات سے نصیحت و عبرت حاصل کرنے کے بعد خوشنودیٔ خدا کی تحصیل اور غضب خدا سے اجتناب کے لئے قیامت تک آنے والی نسلوں کو طریق عمل اور صراطِ مستقیم پر گامزن ہونے کا پتہ چل سکے اس کے بعد وہ اپنی مرضی سے جنت کی راہ لیں یا دوزخ کا راستہ اختیار کریں ’’ لا اِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیّ‘‘ یعنی دین میں کوئی مجبوری اور زبردستی نہیں۔۔۔ ہدایت اور گمراہی (دونوں کے راستے) واضح ہو چکے ہیں۔
اب تنزیل کے طور پر آیات قرآنیہ کی جو اقسام ہیں تاویل کے اعتبار سے بھی ویسی ہی اقسام ہوں گی۔
پس جہاں تنزیل کے آدم ؑسے لے کر خاتم تک تمام خاصان خدا۔۔۔ آیات قرآنیہ کے ظاہری مصداق تھے وہاں قیامت تک کے لئے حضرت رسالتمآبؐ کے حقیقی جانشین اور ان کے اتباع و اشیاع باطنی طور پر انہی آیات قرآنیہ کے مصداق ہیں اور جہاں ابتدا ٔ سے لے کر جناب رسالتمآبؐ کے دَور تک کے سب دشمنانِ خدا و انبیا ٔ و صالحین جن جن آیاتِ قرآنیہ کے ظاہری مصداق تھے وہاں تاویلی طور پر قیامت تک کے تمام اعدائے دین اور دشمنان آئمہ طاہرین باطنی مصداق و مقصود ہیں۔
بنابریں جن آیات کا تنزیلی مصداق حضرت علی ؑ ہے ان کا تاویلی و باطنی مصداق ہر زمانہ کا امام ہے اسی لئے حضرت امام محمد باقرؑ نے عبدالرحیم قصیر کے جواب میں ’’وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ‘‘ کا مصداق ہر زمانہ کے امام کو قرار دیا حالانکہ تنزیل کے اعتبار سے اس کے مصداق صرف حضرت امیرالمومنین ؑ ہی تھے اور آپ نے یہی استدلال فرمایا کہ قرآن قیامت تک زندہ ہے۔۔۔ لہذا۔۔۔ اس کے مصداق بھی قیامت تک زندہ رہیں گے۔
انبیا ٔ کی تاویل آئمہ اور تمام اعدائے دین کی تاویل انکے دشمن ہیں اور قیامت تک یہ سلسلہ باقی ہے، اس تحقیقی بیان سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی کہ آدم ؑ کے علم کا جوہر۔۔۔ نوحؑ کی خشیّت کا منظر۔۔۔ ابراہیم ؑکی خلّت کا نقشہ۔۔۔ یوسف کے جمال کا جلوہ۔۔۔ ایوب کے صبر و رضا ۔۔۔ عیسیٰؑ کے زہد و تقویٰ۔۔۔ موسیٰؑ کی ہیبت و جلال۔۔۔ اور حضرت محمد مصطفیٰ کا حسب و کمال بلکہ تمام انبیا ٔ کی حمیدہ خصال کو اگر دیکھنا چاہو تو علی ؑ کے چہرہ کی زیارت کرو (یہ ہیں مرقّع خصال انبیا ٔ)
٭      عَنِ الْبِحَارِ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ فِیْ حَدِیْثٍ طَوِیْلٍ یَا اَنسْ۔۔۔۔ مَنْ اَرَادَ اَنْ یَّنْظُرَ اِلٰی آدَمَ فِیْ عِلْمِہٖ وَ اِلٰی اِبْرَاہِیْمَ فِیْ وَقَارِہٖ وَ اِلٰی سُلَیْمَانَ فِیْ قَضَائِہٖ وَ اِلٰی یَحْیٰی فِیْ زُھْدِہٖ وَ اِلٰی اَیُّوْبَ فِیْ صَبْرِہٖ وَ اِلٰی اِسْمَاعِیْلَ فِیْ صِدْقِہٖ فَلْیَنْظُر اِلٰی عَلِیّ ابْنِ اَبِیْطَالِبٍ۔
ترجمہ: بحار الانوار سے منقول ہے کہ جناب رسالتمآبؐ نے ایک حدیث طویل میں فرمایا:
اے انس۔۔۔ جو شخص چاہے کہ حضرت آدم ؑ کو علم میں۔۔۔ حضرت ابراہیم ؑ کو وقار میں۔۔۔ حضرت سلیمان ؑ کو اپنے فیصلوں میں۔۔۔ حضرت یحییٰؑ کو اپنے زہد میں۔۔۔ حضرت ایوب ؑ کو اپنے صبر میں ۔۔۔ اور حضرت اسماعیل ؑ کو اپنے صدق میں دیکھوں۔۔۔ تو۔۔۔ وہ حضرت علی ابن ابیطالب ؑکی طرف دیکھے۔
جب احادیث سابقہ سے تنزیل اور تاویل۔۔۔ ظاہر و باطن کے معنی کی وضاحت ہو چکی تو اس حدیث کی تطبیق بالکل آسان ہے کیونکہ جہاں قرآن مجید میں انبیائے سابقین کے جن جن اوصافِ حسنہ اور خصالِ حمیدہ کا تذکرہ ہے تو وہ ظاہر اور تنزیل کے اعتبار سے ان کے مصداق تھے لیکن چونکہ آیات قرآنیہ قیامت تک زندہ ہیں اگر ان کے مصداق ان انبیا ٔ تک ہی محدود کر دئیے جائیں تو وہ آیات قرآنیہ ہمیشگی کی زندگی سے قطعاً محروم ہو جائیں گی تو اس کا مطلب پھر یہ ہو گا کہ قرآن مجید کل کا کل قیامت تک کے لئے زندہ و ہادی و حجت نہیں، تو ماننا پڑے گا کہ انبیائے سابقین کے اوصاف و کمالات کے حاملین بھی قیامت تک زندہ اور باقی ہیں اور باطنی رنگ میں وہ انہی آیات مجیدہ کے مصداق ہیں۔
اپنے دَور میں جناب رسالتمآبؐ ان تمام خصالِ حمیدہ کا مجسمہ تھے اور ان کے بعد حضرت امیرالمومنین ؑ کی ذات تمام خصال انبیا ٔ کا خزینہ تھی اور ان ہی تک محدود نہیں بلکہ ہر زمان میں نسلا ً بعد نسل ہر زمان میں حجت ِخدا پیکرِ خصال انبیا ٔ تھا اور سب کے آخر میں حضرت ولی العصر۔۔۔ صاحب الزمان عَجّلَ اللّٰہ فَرَجَہٗ عَلَیْہِ وَ عَلٰی آبائِہٖ السَّلام ان تمام اوصاف و کمالات انبیائے سابقین کے جامع ہیں اور اسی ہی شان و شوکت سے ظہورِ اجلال فرما کر دنیا کو صلح و آشتی سے پُر کریں گے اور فتن و فسادات کا قلع و قمع کریں گے، اس مطلب کی مزید وضاحت حضرات آئمہ طاہرین علیہم السلام کی زبان حق ترجمان سے سنیئے:
٭      عَنْ اَمِیْرِالْمُوْمِنِیْنَ نَحْنُ اَھْلُ الْبَیْتِ لا یُقَاسُ بِنَا اَحَدٌ فِیْنَا نَزَلَ الْقُرْآنُ وَ فِیْنَا مَعْدِنُ الرِّسَالَۃِ۔
ترجمہ: حضرت امیرالمومنین ؑ فرماتے ہیں کہ ہم اہل بیت کے ساتھ کسی کو برابر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ قرآن ہمارے متعلق اُترا ہے اور رسالت کی کان ہم میں ہے۔
٭      رَوَی الْکُلَیْنِیْ بِاِسْنَادِہٖ عَنْ اَبِیْ بَصِیْر قَالَ قَالَ الصَّادِقُ عَلَیْہِ السَّلامُ یَا اَبَا مُحَمَّدٍ مَا مِنْ آیـَۃٍ تَقُوْدُ اِلٰی الْجَنَّۃِ وَ لا یَذْکُرُ اَھْلَھَا بِخَیْرٍ اِلَّا وَ ھِیَ فِیْنَا وَ فِیْ شِیْعَتِنَا وَ مَا مِنْ آیـَۃٍ نَزَلَتْ یَذْکُرُ اَھْلَھَا بِشَرٍّ وَ  تَسُوْقُ اِلٰی النَّارِ اِلَّا وَ ھِیَ فِیْ عَدُوِّنَا وَ مَنْ خَالَفَنَا۔
ترجمہ: کلینی نے باسنادِ خود ابوبصیر سے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:  اے ابو محمد! جس قدر آیات جنت کی دعوت دیتی ہیں اور ان کے اہل کا ذکر خیر سے کیا گیا ہے وہ ہمارے اور ہمارے شیعوں کے حق میں ہیں اور جس قدر آیات میں ان کے اہل کا ذکر برائی سے کیا گیا ہے اور وہ جہنم کی طرف اشارہ کرتی ہیں وہ ہمارے دشمنوں اور مخالفوں کے حق میں ہیں۔
٭      عَنِ الْعَیَّاشِیْ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ اَبِیْ جَعْفَرٍ قَالَ یَا مُحَمَّد اِذَا سَمِعْتَ اللّٰہَ یَذْکُرُ قَوْمًا مِنْ ھٰذِہٖ الْاُمَّۃِ بِخَیْرٍ فَنَحْنُ ھُمْ۔۔۔ وَ اِذَا سَمِعْتَ اللّٰہَ ذِکَرَ قَوْمًا بِسُوْئٍ مِمَّا مَضٰی فَھُمْ عَدُوُّنَا۔
ترجمہ: بروایت عیاشی۔۔۔ محمد ابن مسلم سے روایت ہے کہ امام محمد باقرؑ نے فرمایا:  اے محمد جہاں سنو کہ اللہ نے اس امت میں سے کسی قوم کا ذکر خیر کیا ہے (پس جان لو) کہ مراد ہم ہیں اور جب سنو کہ اللہ نے کسی بھی قوم کا ذکر بدی سے کیا ہے جو گذر چکی ہیں (تو جان لو کہ) وہ ہمارے دشمن ہیں۔
٭      عَنْ اَمِیْرِالْمُوْمِنِیْنَ  فِیْ حَدِیْثٍ لَہٗ طَوِیْلٍ ذکرَ فِیْہِ صِفَاتُ الْاِمَامِ اِنَّ ھٰذِہٖ کُلُّھَا لِآلِ مُحَمَّدٍ لا یُشَارِکُھُمْ فِیْھَا مُشَارِکٌ لِاَنَّھُمْ مَعْدِنُ التَّنْزِیْلِ وَ مَعْنَی التَّاوِیْلِ(الخبر)
ترجمہ: حضرت امیرالمومنین ؑ سے ایک حدیث طویل میں منقول ہے۔۔۔ جس میں آپ ؑ نے صفاتِ امام کا تذکرہ کیا فرمایا تحقیق یہ سب صفات آل محمد کی ہیں ان میں ان کا کوئی شریک نہیں، کیونکہ یہ تنزیل کی کان اور تاویل کا مقصد ہیں۔
٭      فِیْ مَنَاقِب ابْنِ شَہْر آشُوْب اِنَّ مُعَاوِیَۃَ قَالَ لِاِبْنِ عَبَّاسٍ اِنَّا کَتَبْنَا فِی الْآفَاقِ نَنْھِیْ عَنْ ذِکْرِ مَنَاقِبِ عَلِیٍّ فَکُفَّ لِسَانَکَ عَنْھَا قَالَ اَفَتَنْھٰنَا عَنْ قِرْأَۃِ الْقُرْآنِ؟ قَالَ لا قَالَ اَفَتَنْھٰنَا عَنْ تَاوِیْلِہٖ؟ قَالَ نَعَمْ۔۔ قَالَ اَفَنَقْرَأُہُ وَ لا نَسْئَلُ؟ قَالَ سَلْ عَنْ غَیْرِ اَھْلِ بَیْتِکَ قَالَ اِنَّہٗ مُنَزَّلٌ عَلَیْنَا اَفَنَسْئَلُ غَیْرَنَا؟(الخبر)
ترجمہ: مناقب ابن شہر آشوب میں ہے کہ معاویہ نے ابن عباس سے کہا کہ ہم نے اطرافِ مملکت میں حکم نامہ جاری کر دیا ہے کہ علی ؑ کے فضائل کا ذکر نہ کیا جائے پس تم بھی اپنی زبان کو اس سے روک لو۔۔۔ ابن عباس نے کہا کہ تو ہمیں قرآن پڑھنے سے روکتا ہے؟ کہا نہیں (ابن عباس) نے کہا کہ کیا تو ہمیں اس کی تاویل سے روکتا ہے؟ کہا ہاں(ابن عباس) نے کہا کہ کیا ہم قرآن کو پڑھیں اور اس کے متعلق سوال نہ کریں؟کہا کہ سوال کرو لیکن اہل بیت کے غیر سے سوال کرو (ابن عباس) نے کہا کہ اُترا ہم پر ہے اور پوچھیں غیر سے؟
٭      عَنِ الْاِحْتِجَاجِ عَنِ الْبَاْقِرِ قَالَ قَالَ النَّبِیُّ فِیْ خُطْبَتِہٖ یَوْمَ الْغَدِیْرِمَعَاشِرَ النَّاسِ۔۔۔ ھٰذَا عَلِیٌّ اَحَقُّکُمْ بِیْ وَ اَقْرَبُکُمْ اِلَیَّ وَاللّٰہُ وَ اَنَا عَنْہٗ رَاضِیَانِ وَ مَا نَزَلَتْ آیَۃٌ رِضًی اِلَّا فِیْہِ وَمَا خَاطَبَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِلَّا بَدَئَ بِہٖ وَلا نَزَلَتْ آیَۃُ مَدْحٍ فِی الْقُرْآنِ اِلَّا فِیْہِ۔ مَعَاشِرَ النَّاسِ ۔۔۔ اِنَّ فَضَائِلَ عَلِیٍّ عِنْدَاللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَ قَدْ اَنْزَلَھَا عَلَیَّ فِی الْقُرْآنِ اَکْثَرُ مِنْ اَنْ اَحْصَیْھَا فِیْ مَکَانٍ وَّاحِدٍ فَمَنْ نَبَّأَکُمْ بِھَا وَ عَرَّفَھَا فَصَدِّقُوْہُ۔
ترجمہ: بروایت احتجاج۔۔۔ حضرت امام محمد باقرؑ سے منقول ہے کہ جناب رسالتمآبؐ نے خطبہ غدیر میں ارشاد فرمایا:  اے لوگو یہ علی ؑ تمہاری نسبت میرے حقوق کا زیادہ حقدار ہے اور میرے زیادہ قریب ہے، اللہ اور میں اس سے دونوں راضی ہیں، خوشنودیٔ خدا کی جو آیت بھی اتری ہے اس کی حق میں ہے اور جس مقام پر بھی خدا نے ایمان والوں کا ذکر کیا ہے اس کا پہلا نمبر ہے، قرآن میں کوئی تعریف کی آیت نہیں اُتری مگر اسی کے حق میں، اے لوگو تحقیق علی ؑ کے فضائل جو اللہ نے قرآن مجید میں میرے اوپر نازل کئے ہیں وہ ایک جگہ پر شمار کرنے میں نہیں آتے، پس جو شخص تمہیں ان کی خبر دے اور ان کو پہچانتا ہو پس اس کی تصدیق کر لو۔
٭      فِیْ تَوْحِیْدِ الصّدُوْقِ وَ غَیْرِہٖ بِاَسَانِیْد قَالَ الصَّادِقُ مَا مِنْ آیـَۃٍ فِی الْقُرْآنِ اَوَّلُھَا ’’یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا‘‘ اِلَّا وَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْ طَالِبٍ اَمِیْرُھَا وَ قَائِدُھَا وَ شَرِیْفُھَا وَ اَوَّلُھَا۔
ترجمہ: توحید صدوق و دیگر کتب سے باسانید منقول ہے کہ امام جعفر صادقؑ نے فرمایا کوئی آیت ایسی نہیں جسکے اوّل میں ’’یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا‘‘ ہو مگر علی ؑ ابن ابیطالب ؑ اس کا امیر و قائد و شریف و اوّل ہے۔
ان روایات کے علاوہ اور بھی اسی مضمون کی روایات بکثرت وارد ہیں جن میں سے بعض ضمنی طور پر اپنے مناسب مقامات پر انشاء اللہ مذکور ہوں گی، بہر کیف قرآن قیامت تک زندہ ہے مردہ نہیں، لہذا اس کی آیات کے مصادیق بھی خواہ نیکوں سے ہوں یا بُروں سے ہوں قیامت تک آتے رہیں گے۔
مطلب کی تائید کے لئے دستورِقرآنی ملاحظہ فرمائیے:
خداوندکریم نے جناب رسالتمآبؐ کے زمانہ کو بنی اسرائیل کی طرف بہت سے کاموں کی نسبت دی حالانکہ وہ کام ان سے سرزدنہیں ہوئے تھے مثلاًفرمایا: فَلِمَ قَتَلْتُمْ اَنْبِیَائَ اللّٰہِ تم نے نبیوں کو کیوں قتل کیا؟ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ تمہارے دل کیوں سخت کیوں ہو گئے؟ نَجَّیْنَاکُمْ ہم نے تم کو نجات دی۔۔۔وعلیٰ ہذالقیاس، لیکن جن لوگوں نے یہ سب کام کئے تھے حالانکہ ایک ہزار سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ ان کو گذر چکاتھا، یہ لوگ ان کاموں کو بری نگاہ سے نہ دیکھتے تھے بلکہ راضی تھے پس ان کو بھی ان جیسا قرار دیا گیا مَنْ رَضِیَ بِفِعْلِ قَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْجو جس قوم کے فعل پر راضی ہے وہ گویا انہی سے ہے۔
پس ان آیات کے حقیقی مصداق وہ لوگ تھے جو حضرت موسیٰؑ کے زمانہ میں تھے لیکن ان کو انہی جیسا قرار دے کر مصداقِ آیات بنایا گیا، لہذا گذشتہ لوگوں کے اعمالِ بد پر راضی ہونے والے یا ان کے افعال کو اپنانے والے اگر ان ہی کے درجہ میں شریک اور ان جیسے ہیں تو گذشتہ لوگوں کے افعالِ حسنہ اور اعمالِ صالحہ میں ان کے ساتھ شرکت کرنے والے کیوں نہ ان کے صفات و خطابات کے مستحق ہوں گے؟
٭      فِی الْبُرْھَانِ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِنَّ فِیْکُمْ مَن یُّقَاتِلُ عَلٰی تَاوِیْلِ الْقُرْآنِ کَمَا قَاتَلْتُ عَلٰی تَنْزِیْـلِہٖ وَھُوَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ عَلَیْہِ السَّلام۔
ترجمہ: برہان میں ہے جناب رسالتمآبؐ نے فرمایا: تحقیق تم میں ایک ایسا شخص موجود ہے جو تاویل قرآن کے ماتحت جہاد کرے گا جیسا کہ میں نے تنزیل کے ماتحت کیا ہے اور وہ حضرت علی ؑ ابن ابیطالب ؑ ہے۔
پس اس روایت سے بھی روزِ روشن کی طرح واضح ہوگیا ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ ؐ اور ان کے مقابلہ میں لڑ نے والوں کی تنزیلِ قرآن اور ظاہرِ قرآن کے اعتبار سے جو پوزیشن ہے اسی طرح حضرت امیرالمومنین ؑ اور ان کے مقابلہ میں آنے والوں کی وہی پوزیشن ہے۔
جن خطاباتِ قرآنیہ کے ظاہر و تنزیل کے لحاظ سے وہ حقدار تھے بعینہٖ انہی خطابات کے بلحاظِ باطن یہ حقدار ہیں، مصداقِ آیاتِ الٰہیہ ہونے میں جناب رسالتمآبؐ اور حضرت امیر المومنین ؑ کے درمیان ظاہر و باطن یا تنزیل اور تاویل کا فرق ہے، یعنی حضور ؐ ظاہری اور تنزیلی مصداق تھے اوریہ باطنی اور تاویلی مصداق ہیں، اس طرح ان کے دشمنوں کو خطاباتِ قرآنیہ سے جو ظاہر اًحیثیت تھی ان کے دشمنوں کو باطناً وہی حیثیت حاصل ہے اور ان کے بعد یکے بعد دیگرے آئمہ طاہرین ؑ اور ان کے ہر دور میں دشمنوں کے درمیان خطاباتِ قرآنیہ کی تقسیم بعینہٖ اسی طرح ہے جیسا کہ اس باب کی گذشتہ احادیث میں بیان ہو چکا ہے۔
وَالسَّلامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی