روزہ کے مفطرات:
(۱)کھانا
(۲)پینا
مسئلہ کھانے اورپینے سے روزہ باطل ہو جاتا ہے خواہ تھوڑا ہویا بہت
اوروہ چیز عام عادۃ کھانے اورپینے میں استعمال ہونے والی ہو یانہ ہو
مسئلہ اگر روزہ کا خیال نہ رہے اورکوئی چیز
کھاپی لی جائے تو روزہ باطل نہیں ہوتا لیکن یاد آجانے پر جو نوالہ یا
گھونٹ منہ میں موجود ہو اس کو فورا باہر نکال دے
مسئلہ اگر روزہ کا خیال نہ رہے اورکوئی چیز کھا پی
لی جائے تو روزہ باطل نہیں ہو تا لیکن یاد آجانے پر جو نوالہ یا گھونٹ منہ میں
موجود ہو اس کو فوراباہر نکال دے
مسئلہ تھوک اگر منہ میں جمع ہو جائے
خواہ ترش اشیا کے تصور سے ہی ہو اس کے نگلنے سے روزہ باطل نہیں ہو تا
مسئلہ فضلات دماغیہ یاکھانسی کی وجہ سے سینے سے
خارج ہو نے والے مواد غلیظہ اگر منہ تک اجائیں تو ان کے نگلنے سے روزہ فاسدہو جاتا
ہے لیکن اگر منہ تک نہ اجائیں اراندارہی اندار حلق سے اتر جائیں تو روزہ باطل نہیں
ہوتا
مسئلہ آنکھ یاکا ن میں دواڈالنے سے روزہ
باطل نہیں ہوتا
مسئلہ بیماری کے علاج کے لئے ٹیکہ
انجکشن وغیرہ سے روزہ باطل نہیں ہوتا بھوک وپیاس روکنے کے لئے غذائیت یا طاقت کے
لئے انجکشن کرانے سے پرہیز کرنا چاہیے بلکہ روزہ دار کو ہرحالت میں حتی الامکان ان
چیزوں سے بچنا چاہیے
جماع خواہ انزال ہو یا نہ ہو مرد کے
ساتھ ہو یا عورت کے ساتھ چھوٹے سے ہویا بڑے سے زندہ سے یامیت سے انسان سے ہو
یا حیاان سے ہر صورت میں روزہ باطل کردیتاہے
استمنا ء جان بوجھ کر مرد کا منی کو خارج کرنا
خواہ بوس وکنار کے ذریعہ ہو یا دید بازی سے ہو یا کسی اورطریقہ سے ہو جب کہ اس کا
قصد ان افعال سے منی کا خارج کرنا ہو
مسئلہ روزہ
دار کو اگر ادن میں احتلام ہو جائے تو روزہ باطل نہیں ہو تا بشر طیکہ اس کے قصد کر
دخل نہ ہو
خدااوررسول آئمہ طاہرین کی طرف عمداچھو ٹ منسوب
کرنا بعض علماء کے نزدیک روزہ کا مبطل ہے اورقضا اس کی ضروری ہے لہذاماہ
رمضان میں بیان کرنے والے کو چاہیے کہ جس روایت کی صحت کا یقین نہ ہو اس کو بیان
نہ کرے اوراگر کرے تو حکایت کے عنوان سے کرے
گھنا غبار حلق تک پہنچانا جس طرح اٹے کی گردیا مٹی
یا چونے وغیرہ کا غبار
مسئلہ بخارات
غلیظہ اوراسی طرح غلیظ دھواں بھی علماء نے غبار غلیظ کے حکم میں درج کئے ہیں
لہذااس سے بھی بچنا چاہیے مسئلہ حقہ
کا دھواں اگر چہ غلیظ نہ ہواور سگریٹ یا نسوار جس کو بعض لوگ حقہ نوشی کی بجائے
منہ میں رکھتے ہیں یانسوار وغیرہ حالت روزہ میں ان کا استعمال بھی ترک کیا جائے
پانی میں غوطہ لگانا اس طریقہ سے کہ پورا جسم پانی
کے اندر چھپ جائے
مسئلہ اگر روزہ دار غسل واجب جان بوجھ کر ار تماس
سے کرے تو روزہ غسل دونوں باطل ہوں گے
جان بوجھ کر صبح صادق تک جنابت سے رہنا
مسئلہ جب رات سے وقت انسان پر حالت جنب طاری ہو
جائے تو بغیر غسل کے اس پر سونا حران ہے مگر اس صورت میں کہ اس کی قبل صبح صادق کے
جاگ کر غسل کرلینے کا یقین ہو
مسئلہ روزہ دار کو دن میں احتلام ہو جائے تو
غسل فورا کرنا ضروری نہیں البتہ تاخیر خلاف احتیاط ہے
مسئلہ حیض ونفاس والی عورت کا روزہ
درست نہیں بلکہ اس پر ان ایام کے روزوں کی قضاواجب ہے اگر روزادار عورت پر دن کے
کسی حصہ میں حالت حیض یانفاس طاری ہو جائے تو روزہ اسی وقت باطل ہو جاتاہے اوراس
کی قضالازم ہے خواہ غروب شمس سے بالکل معمولی وقت ہی باقی ہو اسی طرح اگر کسی عورت
کا خون حیض یانفاس طلوع فجر کے بعد بند ہوا ہوتو اس کا اس دن کا روزہ صحیح نہیں ہو
گا اوراس کی قضاواجب ہے البتہ ماہ مبارک کے احترام کے پیش نظر اس کو کھانے پینے سے
پرہیز کرنا چاہیے
(۹)
مائع کے ساتھ حقنہ اگر چہ علاج کے لئے ہی ہو عام اصطلاح میں اس کو انیمہ یا
پچکاری کہا جاتاہے
عمداًقے کرنا اگر چہ علاج کے لئے ہو
مسئلہ اگر روزہ دار کے حلق میں بحالت
نماز واجب مکھی یا مچھر یا دانتوں میں باقی ماندہ غذاکا کرئی ٹکڑا چلاجائے اوراخ
کئے بغیر اس کانکلنا مشکل ہو تو اس کی کئی صورتیں ہیں اگر نماز کے فارغ ہونے
تک اس کو اسی مقام پر روک سکتا ہو تو نماز پڑھ لے اورپھر اخ کرکے اس کو نکال دے
اگر اتنیدیر تک اس کو ضبط نہ کرسکتا ہو تو اب اس کو نگلتا ہے تو روزہ باطل اوراخ
کرکے نکالتاہے تو نماز باطل لہذااگر وہ ایسی چیز ہے جس کاکھانا عام حالت میں بھی
حرام ہے جیسے مکھی وغیرہ تو اس صورت میں نماز کو باطل ہونے دے اوراخ کرکے اس کو
نکال دے خواہ نماز کا وقت تنگ ہی ہو ابعد ازاں نماز کو قضاپڑھ لے اوراگر
ایسی چیز ہو جس کا عام حالت میں کھانا حرام نہیں ہے جیسے دانتوں میں بقیہ غذاکے
ٹکڑے تو پس اگر نماز کا وقت وسیع ہے تو نماز توڑدے اوراس کو نکال دے اوراگر نماز
کا وقت تنگ سہے تو نگل کر روزہ کو باطل
ہونے دے اورنماز کوپورا کرے اورپھر روزہ کی قضاکرے
مسئلہ مندرجہ ذیل چیزیں روزہ دار کے
لئے مکروہ ہیں جس طرح کہ علمانے ذکر کی ہیں
۱)
عورت کے ساتھ بوس وکنار وخوش طبعی جب کہ اس کا قصد منی لانانہ ہو
اورنہ ہی ایسی حالتوں میں منی کا انا اس سے
ایاما معدود ات فمن کان منکم
مریضااوعلی سفر فعدۃ من ایام اخر
دم گئے ہوئے ماہ رمضان پس جو شخص تم میں سے بیمار
ہو یا سفر پر ہو پس یہی تعداد دوسرے دنوں سے (رکھ دیں)
وعلی
الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین فمن تطوع خیر افھوخیر لہ
اوران پر لوگوں پر جوطاقت رکھتے ہیں فد یہ ہے روٹی
ایک مسکین کی پس جو زیادہ کرے تو اس کے لئے بہتر ی ہے اور
وان تصومو
اخیر لکم ان کنتم تعلمون ()شھررمضان الذی
روزپ رکھنا تمہیں اچھا ہے اگر تم
جانتے ہو ماہ رمضان وہ ہے کہ
انزل فیۃ
القرآن ھدی للناس وبینات من الھدی والفرقان
نازل کیا گیا اس میں قرآن جو کہ ہدایت ہے لوگوں
کے لئے اورروشن دلیلیں ہدایت اورفرقان سے
متوقع ہو
ایسا سرمہ یا کاجل جس میں مسک کی ملاوٹ ہو یا ایسی
چیز کی ملاوٹ جس کا ذائقہ یا بو حلق تک پہنچ جائے
حمام میں داخل ہونا جب کہ اس کی کمزوری کا موجب ہو
خون
نکلوانا جب کہ بے ہوشی تک پہنچادینے کا موجب نہ ہو ورنہ حرام ہوگا
۵)
ناک سے کوئی دوائی وغٰرہ سونگھنا جب کہ حلق تک اس کا پہنچنا یقینی نہ
ہو ورنہ ناجائزہے
ہر خوشبودار گھاس یا پھول کا سونگھنا خصوصانرگس
جسم پر ترکپڑا ڈالنا عورت کا پانی میں
بیٹھنا دانت نکلوانا بلکہ ہر وہ چیز جس سے منہ میں خون اجائے
جامد چیز سے حقنہ تر لکڑی سے
مسواق کرنا عبث طور پر غر غرہ کرنا
اشعار پڑھنا سوائے ان کے جو مطالب حقہ پر مثلاََ مدح آئیمہ طاہرین یا مرثیہ پر مشتمل ہوں
جھگڑا فساد کرنا باقی
روزہ کے تفصیلی احکام کتب فقیہ سے حاصل فرمائیں
فمن کان ۔ مذہب امامیہ کا اتفاق ہے کہ مسافر اور
بیمار ی کی حالت میں روزہ نہ رکھیں اور بعد عذر کے رفع ہو جانے کے بعد ان پر قضا
واجب ہے شرائط سفر یہ ہیں
۱
مسافت تقریباََ ساڑے ستائیس میل یا اس سے زیادہ کا قصد ہو سفر جائز اور مباح ہو
درمیان سفر میں
فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ ومن کان مریضا اوعلی
سفر فعدۃ پس جو تم میں سے گھر میں حاضر ہو اس ماہ میں تو روزہ رکھے اورجو بیماری
اورسفر پر ہو تو یہی تعداد دوسرے دنوں سے رکھ دے
من ایام اخر یریداللہ بکم الیسر ولایرید بکم العسر
ولتکملوا العدۃ ولتکبرواللہ علی ماھدکم ولعلکم تشکرون
چاہتا ہے خداتہاری آسانی اورنہیں چاہتا تمہاری
تنگی اور چاہیے کہ تعداد پوری کرو اور اللہ کی بزرگی بیان کرو کہ تمہیں اس نے
ہدایت کی تاکہ تم شکر گذار ہو جاو
اپنا وطن حائل نہ ہو یا دس روزہ قیام کی نیت نہ ہو
(۴) خانہ بدوش نہ ہو (۵) سفر
پیشہ نہ ہو (۶) حد ترخص سے سے اگے نکل جائے اوربیماری کی حدیہ ہے
ہے کہ روزہ رکھنے میں اس کو ضرر کا خطرہ ہو چنانچہ ابوبصیر کے سوال کے جواب میں
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایاکہ یہ معاملہ اس کے اپنے سبرد ہے
اگر وہ اپنے آپ کو روزہ رکھنے سے کمزور سمجھتا ہے تو روزہ نہ رکھے اوراگر اپنے
جسم میں روزہ کی طاقت پاتا ہے تو روزہ رکھے
علی الذین حضرت
امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس
سے مرادوہ لوگ ہیں جو پہلے طاقت رکھتے تھے اوراب بوجہ بوڑھاپے کے یابوجہ پیاس کے
عارضے کے روزہ رکھنا ان کے لئے باعث مشقت ہے پس ان کا حکم یہ ہے کہ ہر روزہ کے عوض
میں وہ بجائے روزہ کے ایک مد طعام فدیہ کے طور پر مسکین کر دیں مسکین سے مراد
مومن مسکین ہے
مسئلہ علی الذین یطیقونہ فدیۃ کی تفسیر میں
امام جعفر صادق علیہ السلام نیارشاد فرمایا کہ جو شخص ماہ رمضان میں بوجہ بیماری
کے روزہ نہ رکھ سکے اورپھر ماہ مبارک کے گذر جانے کے بعد وہ تندرست ہو جائے لیکن
ایندہ ماہ رمضان تک اس نے پچھلی قضاء کیروزے نہیں رکھے تو اب اس پر ان کی قضاء کے
ساتھ ساتھ فدیہ بھی ہے یعنی ان روزوں کی قضا بھی رکھے اورہر روزہ کے عوض میں ایک
مدطعامومن مسکین کو صدقہ بھی دے اوراگر اس ماہ رمضان سے اگلے ماہ رمضان تک وہ
مسلسل بیماری رہ جائے تو اس پر صرف فدیہ واجب ہے اورقضاواجب نہیں ہے
شھر رمضان قرآن مجید کے ماہ مبارک رمضان میں نازل
ہونے کے متعلق روایات میں اختلافی صورت موجود ہے چنانچہ ابن اعباس سے منقول ہے کہ
قرآن لیلۃ القدر میں یک مشت آسمان دنیا پر نازل ہوا اوراس کے بعد جناب
رسالتمآبؐ پر قسط وار بیس برس میں اترتارہا ااورایک روایت میں امام
جعفر صادق علیہ السلام سے بھی ایسا ہی قول مروی ہے اوردوسرا قول یہ ہے کہشب قدر
میں سال رواں کی ضرورت کے مطابق قرآن کا ایک حصہ اکٹھاآسمان اولی پر اتارا جاتا
تھا اورپھر رفتہ رفتہ دور ان سال میں آنحضور پر نازل ہوتا رہتا تھا اوربعض روایات
میں ہے کہ جناب رسالتمآبؐ نے فرمایا کہ صحف ابراہیم ۳
ماہ رمضان کو اترے زیابعض روایات میں ہے کہ یکم ماہ رمضان کو اترے اورتورات موسی ۱۰ماہ
رمضان کو نازل ہوئی اورانجیل عیسی ۱۳ماہ
رمضان کو اتری اورزبور داو۱۸ماہ
رمضان کو نازل ہوئی اورقرآن مجید ۲۳ماہ
رمضان مبارک کو اترا (مجمع البیان)
تفسیر برہان میں جناب امام صادق علیہ السلام سے
مروی ہے کہ ماہ رمضان تمام مہینوں سے افضل ہے اورماہ رمضان کا دل شب قدر ہے
اورقرآن مجید ماہ رمضان کی پہلی رات نازل ہوا ہے بعض روایات میں ہے کہقرآن ماہ
رمضان میں بیت المعمور پر اترا اورپھر بیس برس میں انحضو ر پر اترتارہا
امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ ایسا نہ
کہا کرو کہ رمضان ایا رمضان گیا رمضان اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے پس
کہاکرو شہر رمضان یعنی ماہ رمضان کیونکہ یہ مہینہ رمضان کی طرف منسوب ہے والفرقا ن
امام ضعفت صادق علیہ السلام سے منقول ہء کہ قرآن سے مراد پوری کتاب ہے اور فرقان
سے مراد وہ ایات محکمہ میں جن پر عمل کرنا واجب ہے
فمن شھد
بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بھی لیا ہے کہ جو شخص گھر پر ہواورماہ رمضان اس پر
داخل ہوجائے تو اس پر لازم ہے کہ پوامہینہ روزے رکھے یعنی سفر کو نہ جائے اورجو
پہلے سے ہی مسافر ہے تو گھر پہنچنے کے بعد جس قدر ماہ رمضان کے ایام باقی ہوں روزے
رکھے اورسفری ایام کے روزے بعد میں قضاکرے
تفسیر برہان میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت امام جعفر
صادق سے ماہ رمضان میں سفر کنے کے متعلق دیافت کیا تو آپ نے اسی آیت مجیدہ سے
استدلال فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو شخص گھر میں موجود ہو اور رمضان داخل ہو
جائے تو اب اس کے لیے سفر کو جانا درست نہیں سوائے حج و عمرہ کے یا ایسے مال کی
طلب کے لیے جس کے تلف ہونے کاڈر ہو ۔
پس مناسب یہی ہے کہ بلا وجہ ما ہ مبارک میں
سفر اختیار نہ کرے بعٖ لوگوں نے دستور بنالیا ہے کہ ماہ رمضان ہی سفر اختیار
کر لیے ہیں خصوصا طبقی ذاکرین کے متعلق یہ عام شکایت ہے اگرچہ جواز سفر کے لیے
شرعی بہانے بنائے جا سکتے ہیں جن کی بنا پر ظاہر شریعت کی و سے انہیں گرفت نہیں کی
جاسکی لیکن اس پر جو مفاسد سفر کے لیے شرعی بہانے بنائے جاسکتے ہیں جن کی بنا پر
ظاہر شریع کی رو سے انہیں گرفت نہیں کی جاسکتی لیکن اس پر جو مفاسد مرتب ہوتے ہیں
ان کی ذمہ دای سے عہد ابر آہونا بہت مشکل ہے ۔
۱۔
جس شریف کے ہاں جاکر مہمان ہوئے اگر وہ صوم و صلو کا پانبد ہو و یہ لوگ ان کو بے
تکلیف دینے کا موجب ہوتے ہیں نہ تو وہ تر شوئی سے پیش آسکتے ہیں اور نہ طیب خاطر
سے فرائض میزبانی ادا کر سکتے ہیں چنانچہ مشادہ خود اس کا گواہ ہے ۔
۲۔
اگر میزبان خود نماز روزہ کا پابند نہیں تو ان لوگوں کی آمد سے اس کے خبث
بانط کو اور تقویت مل جاتی ہے ویسے تو وہ چھپ کر اکھانا پکاتے اور کھاتے پیتے تھے
اب اس مہمان کے بہانہ سے وہ خود بھی اعلانیہ ماہ بنارک کی توہین پر جر کرے ہیں ۔
۳۔
غیر شیعہ لوگ جب یہ حالت مشاہدہ کرتے ہیں تو شیعوں پر ان کو اعتراضات
کا موقع مل جاتا ہے اور جو لوگ شیعہ مذہب کی طرف قدرے مائل ہوتے بھی ہیں ان حالات
کو دیکھ کر وہ متنفر ہو جاتے ہیں بے شک ان کو یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ مسافر پر
روزہ واجب نہیں ہے لیکن اگر وہ یہ لیں کہ کونسی اہم ضرورت لاحق ہوگئی تھی کہ آپ
خواہ مخواہ رخت سفر باندھ کر گھر سے نکل کھڑے ہووئے تو اس کا جواب سوائے حیلہ سازی
و بہانہ جوئی کے اور کچھ نہیں ہوتا اور بعض اوقات عین مجلس میں مجمع عام کے سامنے
میز پر گڑ وغیرہ اٹھا کر کھاتے بھی رہتے ہیں اور مجلس بھی پڑھتے رہتے ہیں اس
میں ماہ مبارک رمضان کی سخت تو ہین ہے اور یہ شریعت طاہرہ کے ساھ مخول بازی ہے
مذہب حقیہ جعفریہ اس قسم کی ناشائشتہ اور غیر ذمہ دارانہ حرکا ت سے بیزر ہے کعونکہ
فتوی یہ ہے کہ اگر عذر شرعی کی وجہ سے
انسان کو روزہ نہ ہو تب بھی چا ہئیے کہ در پر وہ کھائے ۔پیے تاکہ ماہ مبارک کی ہتک
عزت نہ ہو ۔
الحاصل: اہم اور نہایت ضروری مقصد
کے لیے ماہ مبارک رمضان میں بھی سفر کیا جاسکتا ہے لیکن کھانے پینے میں ماہ مبارک
رمضان کے ادب وحرمت کی پاس رکھنا ضروری ہے ۔