اس عنوان کے تحت صرف یہی بیان کر نا ہے کہ شیعہ
اثنا عشریہ کا قرآن سے کیا ربط ہے؟ اور ان کا قرآن پر ایمان کس قدر راسخ ہے؟ اور
ان کے خلاف کہنے والے کس قدر ان پر بہتان تراشی کرتے ہیں؟
تصریحاتِ علمائے شیعہ
اِبْن بَا بْوَیْہ فِی الْاِعْتِقَادَاتِ:
اِعْتِقَادُنَا فِی الْفُرْقَانِ اَنَّہُ کَلامُ اللّٰہِ وَ وَجْھُہٗ وَ
تَنْزِیْلُہٗ وَقَوْلُہٗ وَکِتَابُہٗ وَاِنَّہُ لا یَأتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ
بَیْنِ یَدَیْہِ وَلا مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِنْ حَکِیْمٍ عَلِیْمٍ وَاِنَّہٗ
الْقَصَصُ الْحَقّ وَاِنَّہٗ لَقَوْلُ فَصْلٍ وَمَا ھُوَ بِالْھَزْلِ وَاِنَّ
اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی مُحَدِّثُہٗ وَمُنَزِّلُہٗ وَرَبُّہٗ وَحَافِظُہٗ
وَالْمُتَکَلِّمُ بِہٖ۔
ترجمہ: شیخ ابن بابویہ نے رسالہ ’’اعتقادات‘‘ میں
تحریر فرمایا ہے: ہمارا اعتقاد قرآن کے متعلق یہ ہے کہ یہ اللہ کا کلام۔۔۔ اس کی
معرفت کا ذریعہ۔۔۔ اس کی تنزیل۔۔۔ اس کا قول۔۔۔ اور اس کی کتاب ہے، اس کے پاس آگے
اور پیچھے سے باطل نہیں آسکتا، یہ علیم وحکیم کی نازل کردہ کتاب ہے، اور تحقیق یہ
بیانِ حق ہے اور بے شک یہ قولِ فصل ہے۔۔۔ مسخری و مزاح نہیں اور تحقیق اللہ تبارک
وتعالی اس کا پیدا کرنے والا۔۔۔ نازل کرنے والا۔۔۔ محافظ و نگہبان اور کلام کرنے
والا ہے۔
اِعْتِقَادُنَا اَنَّ الْقُرْآنَ الَّذِیْ
اَنْزَلَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی نَبِیِّہٖ مُحَمَّد ھُوَ مَا بَیْنَ
الدَّفَّتَیْنِ وَھُوَ مَا فِیْ اَیْدِی النَّاسِ لَیْسَ بِاَکْثَرَ مِنْ
ذٰلِکَ وَ مَبْلَغُ سُوَرِہٖ عِنْدَ النَّاسِ مِأۃَ وَاَرْبَعَ عَشْرَۃَ سُوْرَۃٍ
وَ عِنْدَنَا انَّ الضُّحٰی وَاَلَمْ نَشْرَحْ سُوْرَۃٌ وَاحِدَۃٌ وَلِاِیْلاف
وَاَلَمْ تَرَکَیْفَ سُوْرَۃٌ وَاحِدَۃٌ وَمَنْ نَسَبَ اِلَیْنَا اِنَّا نَقُوْلُ
انَّہُ اَکْثَر مِنْ ذٰلِکَ فَھُوَ کَاذِبٌ۔
ترجمہ: ہمارا اعتقاد ہے کہ تحقیق قرآن جس کو اللہ
تعالی نے اپنے نبی حضرت محمد مصطفیٰ پر نازل کیا، وہ وہی ہے جو ان دوتختیوں کے
درمیان ہے اور وہی ہے جو عام لوگوں کے ہاتھوں میں ہے اس سے کچھ بھی زیادہ نہیں،
اور اس کی سورتوں کی تعداد لوگوں کے نزدیک ایک سو چودہ (۱۱۴)ہے۔۔۔
اور ہمارے نزدیک ’’اَلضُّحٰی‘‘ اور ’’اَلَمْ نَشْرَحْ‘‘ ایک سورہ شمار ہوتی ہیں
اور ’’لِاِیْلاف‘‘ اور ’’اَلَمْ تَرَکَیْفَ‘‘ دونوں ایک سورہ کے شمار میں ہیں اور
جو لوگ ہماری طرف اس سے زیادہ نسبت دیتے ہیں پس وہ جھوٹے ہیں۔
اَلْمَجْلِسِیْ فِی الْاِعْتِقَادَاتِ: یَجِبُ
اَنْ یُوْمِنَ بِحَقِیْقَۃِ الْقُرْآنِ وَمَا فِیْہِ مُجْمِلاً وَکَوْنُہٗ
مُنْزَلاً مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی وَ کَوْنُہٗ مُعْجِزًا وَ اِنْکَارِہٖ
وَالْاِسْتِخْفَافُ بِہٖ کَحِرْفَتِہٖ مِنْ غَیْرِ ضَرُوْرَۃٍ وَاِلْقَائُہٗ فِی
الْقَاذُوْرَاتِ۔
ترجمہ: علامہ مجلسی رسالہ ’’اعتقادات‘‘ میں فرماتے
ہیں قرآن کی حقیقت پر ہمارے نزدیک ایمان لانا واجب ہے اور اس میں جو کچھ موجود ہے
خواہ تفصیل معلوم نہ ہو اس پر اور اس کے منزل من اللہ ہونے پر ااور اس کے معجز
ہونے پر ایمان لانا ہمارے نزدیک واجب ہے اس کا انکار اور توہین ہمارے نزدیک کفر ہے
اسی طرح ہر وہ کام جس سے قرآن کی توہین لا زم آئے مثلاً اس کو بلاضرورت رقم
کمانے کیلئے پیشہ بنانا یا نجس جگہ میں ڈالنا(حرام ہے۔۔۔ کفر ہے )
سیّد مرتضٰی : اِنَّ الْعِلْمَ بِصِحَّۃِ نَقْلِ
الْقُرْآنِ کَالْعِلْمِ بِالْبِلْدَانِ وَالْحَوَادِثِ الْکِبَارِ وَالْوَقَائِعِ
الْعُظَّامِ وَالْکُتُبِ الْمَشْھُوْرَۃِ وَاَشْعَارِ الْعَرَبِ الْمَسْطُوْرَۃِ۔
ترجمہ: سید مرتضیٰ فرماتے ہیںہمیں قرآن کے صحیح
منقول ہونے کا ایسے علم ہے جیسے دُور کے بڑے شہروں، بڑے حادثوں، عظیم یادگاروں،
مشہور کتابوں اور جاہلی عرب کے شعروں کے صحیح نقل ہونے کا علم ہے۔
اَلطَّبْرِسِیْ فِی مَجْمَعِ الْبَیَانِ: قَالَ
فَاَمَّا الزِّیَادَۃُ فِیْہِ فَجَمْعٌ عَلٰی بُطْلَانِہٖ وَاَمَّا النُّقْصَانُ
مِنْہُ فَقَط رَوٰی جَمَاعَۃٌ مِنْ اَصْحَابِنَا وَ قَوْمٍ مِنْ حَشْوِیّۃِ
الْعَامَّۃِ اِنَّ فِی الْقُرْآنِ تَغَیُّرًا اَوْنُقْصَانًا وَالصَّحِیْحُ مِنْ
مَذْھَبِ اَصْحَابِنَا خِلافُہ۔
ترجمہ: علامہ طبرسی۔۔۔ مجمع البیان میں تحریر
فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں زیادتی کا قول باطل ہے (اجماعاً) البتہ کمی کے متعلق
ہمارے اصحاب کی ایک جماعت اور سنیوں میں سے بھی بعض لوگوں نے قرآن میں تغیر اور
نقصان کا قول کیا ہے، لیکن ہمارے شیعہ علمائے کا صحیح مذہب اس کے خلاف ہے، (کوئی
کمی نہیں ہے جس طرح کوئی زیادتی نہیں )
یہ سب فرمائشات اکابرِ علمائے مذہب شیعہ کی ہیں۔۔۔
مطلب یہ کہ یہی موجودہ قرآن جو شرق سے لے کر غرب تک اور جنوب سے شمال تک شائع اور
عام ہے جس اسلام کا بچہ بچہ واقف ہے، یہی قرآن کلام خدا ہے اورحضرت محمد مصطفیٰ
پر اللہ نے نازل فرمایا ہے، اس کی آیات میں سے ایک چھوٹی سی آیت کا انکار کرنا
بلکہ ایک حرف کا انکار کرنا بھی کفر ہے۔۔۔ اور اس کے کسی فیصلے کا انکار کرنا بھی
کفر ہے، اسی طرح اس کی توہین یا ہر وہ فعل جس سے اس کی توہین لازم آئے وہ بھی کفر
ہے۔
علمائے اسلام زمانِ آئمہ طاہرین ؑ سے لے کر دورِ
حاضر تک قرآن کی خدمت اور اس کی تبلغ و ترویج کو اپنا دین سمجھتے رہے ہیں۔۔۔ اور
رہیں گے، چنانچہ ابتدائی عنوانات میں قرآن مجید کے جوفضائل کتب امامیہ سے میں نے
نقل کئے ہیں وہ علمائے امامیہ کی مفصل کتب میں جمع شدہ احادیث کے مقابلہ میں ایسے
ہیں جیسے بحرِزخار کے مقابلہ میں ایک قطرہ آب، شیعہ مذہب میں قرآن ہی روحِ ایمان
ہے، اگر کتب امامیہ سے قرآن۔۔۔ قاریٔ قرآن۔۔۔ سامعِ قرآن۔۔۔ حاملِ قرآن۔۔۔
عالمِ قرآن۔۔۔ متعلّمِ قرآن۔۔۔ حافظِ قرآن۔۔۔ کاتب ِقرآن وغیرہ کے تمام ذکر
شدہ فضائل کو جمع کیا جائے تو بلامبالغہ ایک ضخیم کتاب میں سمانا بھی مشکل ہے۔
حضرت امیر المومنین ؑ فیصلہ تحکیم کے بعد ایک طویل
خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں:
٭ اِنَّا
لَمْ نُحَکِّمِ الرِّجَالَ وَ اِنَّمَا حَکَّمْنَا الْقُرْآنَ وَھٰذَا
الْقُرْآنُ اِنَّمَا ھُوَ خَطٌّ مَسْتُوْرٌ بَیْنَ الدَّفَّتَیْنِ لا یَنْطِقُ
بِلِسَانٍ وَلا بُدَّ لَہٗ مِنْ تَرْجُمَانٍ وَ اِنَّمَا یَنْطِقُ عَنْہُ
الرِّجَالُ وَ لَمَّا دَعَانَا الْقَوْمُ اِلٰی اَنْ یَحْکَمَ بَیْنَنَا
الْقُرْآنُ لَمْ نَکُنِ الْفَرِیْقَ الْمُتَوَلِّیْ عَنْ کِتَابِ اللّٰہِ
تَعَالٰی وَقَدْ قَالَ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ
فَرُدُّوْہُ اِلٰی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ فَرَدُّہُ اِلٰی اللّٰہِ اَنْ نَحْکُمَ
بِکِتَابِہٖ۔
ترجمہ: ہم نے لوگوں کو حاکم نہیں بنا یا بلکہ ہم
نے تو قرآن کو ہی حاکم قرار دیا تھا۔۔۔ اوریہ قرآن سوائے اس کے نہیں کہ دوتختیوں
کے درمیان محفوظ خط ہے، وہ خود نہیں بولتا بلکہ اس کے لئے ترجمان کی ضرورت ہے اور
انسان ہی اس کی طرف سے بولا کرتے ہیں، جب قوم (معاویہ) نے ہم کو دعوت دی کہ قرآن
کو اپنے درمیان فیصل مقرر کریں تو ہم کتاب اللہ سے منہ موڑنے والا فریق نہیں تھے،
اللہ سبحانہ بھی ارشاد فرماتا ہے کہ اگر تم کسی امر میں جھگڑا کرو تو اس کے فیصلہ کے
لئے معاملہ کو اللہ اور رسول کی طرف پلٹادو پس اللہ کی طرف پلٹانے کا مطلب یہ ہے
کہ ہم اپنے نزاعات میں اس کی کتاب کو حاکم بنائیں(نہج البلاغہ خطبہ ۱۲۱ )
اسی قرآن مجید کا فیصلہ جنگ صفین میں ہر دو فریق
نے تسلیم کیا تھا اور جنگ روک دی گئی تھی۔۔۔ پھر تحکیم کے بعد فیصلہ قرآن کے
مطابق ہوا یا نہیں۔۔۔ یہ ایک الگ بحث ہے جو موضوعِ کتاب سے خارج ہے، بہر کیف یہاں
صرف یہ کہنا ہے کہ حضرت علی ؑ والوں کے پاس کوئی دوسرا قرآن نہیں تھا بلکہ وہی
قرآن تھا جو معاویہ والوں کے پاس تھا۔
عملِ علمائے شیعہ
مذہب شیعہ کے علمائے اعلام نے قرآن مجید کی بہت
بڑی تفاسیر لکھی ہیں اور وہ سب اسی قرآن کی ہیں جوتمام اہل اسلام کے پاس موجود ہے
ایک حرف تو بجائے خود ایک نقطہ بلکہ زیروزبر تک کا فرق نہیں۔۔۔ اور اکثر مفسرین نے
اپنی تفاسیر کے مقدمہ میں فضائل قرآن کا ایک مستقل باب قائم کرکے اس بارے میں بہت
کچھ احادیث آئمہ نقل کی ہیں اور علمائے شیعہ نے جتنا اہتمام احادیث آئمہ ؑ کے
جمع کرنے کے لئے کیا ہے اس سے کہیں زیادہ اہتمام تفسیر قرآن کے لئے کیا ہے۔۔۔ اور
تصانیف فریقین پر استقرائی نظر کرنے کے بعد منصف طبائع اس نظریہ پر پہنچ جاتی ہیں
کہ قرآن کریم کی تفسیری خدمات میں علمائے امامیہ تمام ملل و مذاہب اسلام سے گوئے
سبقت لے گئے ہیں اور عموماً دیگر فرقوں کے اکابرنے ان کے علمی افادات سے خوشہ چینی
کی ہے، علمائے امامیہ کا یہ اہتمام بتاتا ہے کہ مذہب شیعہ کا اصل واساس صرف قرآن
مجید ہی ہے جس طرح کہ آئمہ طاہرین ؑ سے گذشتہ ابواب میں قرآن مجید کے ساتھ تمسک
پکڑنے کا پرزور فرمان اس امر کا نا قابل تردید ثبوت ہے، البتہ بات یہ ہے کہ شیعہ
تنہا قرآن کو کافی نہیں جانتے بلکہ وہ حدیث رسول ’’اِنِّیْ تَارِکٌ فِیْکُمُ
الثَّقَلَیْن‘‘ کے پیش نظر قرآن کے ساتھ ساتھ اہل بیت رسول ؐ کے ساتھ تمسک کرنا
بھی ضروری قرار دیتے ہیں، شیعہ کتب ِاحادیث جو شرق و غرب میں دائر وسائر ہیں آئمہ
اہل بیت کے استدلالاتِ قرآنیہ سے بھرپور ہیں، اثباتِ توحید۔۔۔ عدل۔۔۔ قیامت۔۔۔
قبر۔۔۔ حشر۔۔۔ میزان۔۔۔ ثواب وعقاب۔۔۔ جنت و نار وغیرہ میں قرآن مجید کی آیات سے
ہی استد لال کیا گیا ہے، اسی طرح نماز۔۔۔ روزہ۔۔۔ حج۔۔۔ زکواۃ۔۔۔ خمس۔۔۔ جہاد
وغیرہ تمام عبادات کے مسائل فرعیہ میں قرآنی آیات سے کافی استشہاد کیا گیا ہے،
اور علاوہ ازیں عقود وایقاعات مثلاًحدود۔۔۔ تعزیرات اور فرائض وغیرہ، حتیٰ کہ تمام
ابوابِ فقہیہ کے فرعی احکام میں استد لالاتِ قرآنیہ ہی پیش پیش ہیں، علم اصولِ
فقہ میں شیعہ کے نزدیک قرآن مجید موضوعِ علم میں پہلی اصل بلکہ اصول ہے، کیونکہ
جملہ ابوابِ اصولیہ میں اصولی نکات پر اثباتی ابحاث قرآن مجید اور احادیث کی
روشنی میں ہی ہوا کرتی ہیں، غرضیکہ تمام علومِ مذہبِ حقہ اثنا عشریہ قرآن مجید سے
ہی مستفاد ہیں اور یہی تمام علوم کی بنیاد ہے، علمائے امامیہ نے علوم قرآنیہ کی
اشاعت و ترویج کے لئے اپنی زندگیاں وقف کردی تھیں اور اب تک یہی سلسلہ جاری ہے اور
رہے گا، قرآن مجید کے فیض کو عام کرنے کیلئے علمائے اعلام نے بڑے مصائب برداشت
کئے۔۔۔ قید و بند کی تکالیف جھیلیں۔۔۔ جلاوطنی کے تیر دل پر سہے۔۔۔ جامِ شہادت ہنس
ہنس کر نوش فرمایا، بایں ہمہ جب تک بدن میں جان باقی رہی علوم قرآنیہ کی خدمات سے
کنارا نہ کیا۔
شیعہ عوام کا کردار
تمام ممالک اسلامیہ میں جس جس مقام پر کم یا بیش
شیعہ آبادی موجود ہے ان کے گھروں میں قرآن۔۔۔مساجد میں قرآن۔۔۔ امام بارگاہوں
میں قرآن موجود ہے۔۔۔۔۔مقام گریہ و بکا میں عزاداری کا منظر ملاحظہ فرمائیے:
اطراف عالم میں جہاں شیعہ لوگ عزائے آل محمد کی
صف بچھاتے ہیں اور شبیہ وغیرہ بناتے ہیں، شبیہ۔۔۔ روضہ مبارکہ۔۔۔ ذوالجناح۔۔۔
جھولا برآمد کرتے ہیں، شبیہ روضہ کے قرآن مجید۔۔۔ ذوالجناح کے ساتھ قرآن اور
جھولے کے اندر قرآن ہوتا ہے۔
اگر تعصب کی عینک اتار کر منصفانہ نگاہ ڈالی جائے
اور شبیہ تعزیہ کا تجزیہ کیا جائے تو صاف ظاہر ہے کہ وہ گنبد نما ایک محل کا نمونہ
(جس کو قیمتی پارچات یا خوبصورت کاغذات یا رنگ دار لکڑیوں کے قطعات سے مزین کیا
جاتا ہے) ہوتا ہے گویا وہ تاجدارِ مملکتِ امامت۔۔۔ شہسوار عرصۂ شجاعت اور سرکار
شہادت کے عصمت کدہ شاہی ایوان کا خالی ڈھانچہ ہوا کرتا ہے جس کے اندر غلافوں میں
ملفوف یا بلا غلاف متعدد قرآن مجید رکھے ہوئے ہوتے ہیں، شیعہ لوگ اس کو اپنے سروں
پر اُٹھا کر چودہ سو برس سے ماتمی لباس میں ماتمی عنوان سے ماتمی جلوسوں میں
ہزاروں کی تعداد میں سر ننگے۔۔۔ پا برہنہ۔۔۔ نوحہ کناں۔۔۔ سینہ زناں بازاروں میں
چلتے ہوئے۔۔۔ چوکوں میں کھڑے ہو کر۔۔۔ غرضیکہ منظر عام پر چلّا چلّا کر۔۔۔ بُلا
بُلا کر۔۔۔ رو رو کر۔۔۔ پیٹ پیٹ کر تمام اقوامِ عالم کے گوش گزار کرتے ہیں کہ
دیکھو ہمارے رسول نے اس ایوانِ امامت میں (جس کی شبیہ کو ہم اٹھائے ہوئے ہیں)
ہمارے ہدایت اور نجات کے لئے دو گرانقدر چیزیں چھوڑی تھیں ایک قرآن دوسری اہل بیت۔۔۔
لیکن افسوس کہ نااہل امت نے اس ایوانِ خلافت کو لوٹ لیا۔۔۔ گھروں کو آگ لگا دی۔۔۔
گھر والوں کو جلا وطن کر دیا۔۔۔ ان کے حقوق چھین لئے۔۔۔ ان کے ناحق خون کو پانی کی
طرح بہایا بس اب ان محلات میں صرف قرآن باقی ہے۔
اسی طرح ہمارے سامنے گھوڑا ہے اس کی زین کے اوپر
بھی قرآن ہے، قرآن والے کو بے وفا امت نے نشانہ ٔ جور و ظلم بنا کر اتار لیا اور
ہمارے پاس صرف قرآن مجید ہی باقی رہ گیا اور امت نے چھوٹے بچوں کو شہید کر ڈالا،
لہذا ان کے جھولے میں بھی صرف قرآن ہی موجود ہے۔
پس ہم ان مواقع پر چار کام اپنا فریضہ سمجھتے ہیں:
ض ہمارا
فریضہ ہے کہ ان خالی ایوانوں کی عزت کریں، جن کی یہ شبیہیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔
ض ہمارا
فریضہ ہے کہ قرآن مجید کی عظمت کو باقی رکھیں اور اس کی حفاظت کے لئے مخالف طاقت
کے سامنے بجائے جھکنے کے اپنے خون کا آخری قطرہ بہا دیں، جس طرح کہ ہمارے پیشوائوں
نے ہمیں عملی درس دیا ہے، ماتم کر کے اپنے پورے جسم کو اپنے خون سے رنگین کر کے
کربلا والوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے ہم دنیا والوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ناموسِ
قرآن کے لئے اپنے آئمہ کے نقش قدم پر ہمارے خون کا آخری قطرہ حاضر ہے اور یہ
وہی قرآن ہے جس کو اہل بیت اپنے خالی ایوانوں میں چھوڑ کر گئے۔
ض ہمارا
فریضہ ہے کہ ایوان امامت کے خالی ہو جانے کا بلکہ اس کے اجڑ جانے کا جب تک جئیں غم
منائیں اور اہل بیت کی یاد کو تازہ رکھتے ہوئے ان لوگوں سے اعتقادی اور عملی اور
لسانی اور ہر طریق سے بیزاری اختیار کریں جنہوں نے قرآن والوں پر مظالم کے پہاڑ
ڈھا کر ان کے محلات کو ویران کر دیا۔
ض ہمارا
فریضہ ہے کہ اللہ سے بصد عجز و انکساری دعا مانگیں اور کہیں۔۔۔ اے اللہ۔۔۔ ہمارے
سامنے ایوان امامت میں صرف قرآن باقی ہے، قرآن والوں سے یہ ایوان خالی کرا دیا
گیا ہے (جس کی شبیہ ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہے) پس تو اپنے فضل و کرم سے اس
ایوان شاہی کے ساکن۔۔۔ تاجدارِ منصب خلافت۔۔۔ حضرت قائم آل محمد کے ظہور میں
تعجیل فرما تاکہ یہ ایوان اجڑ جانے کے بعد دوبارہ آباد ہو اور اسی ایوان میں
قرآن کے ساتھ ہم قرآن والوں کو دیکھیں اور فیض حاصل کریں۔۔۔ آمین
ذاکرین و واعظین کا طرزِ بیان۔۔۔ مجالسِ فضائل و
عزا میں یہی ہوتا ہے کہ عنوانِ مجلس آیاتِ قرآنیہ کو قرار دے کر بیان کو شروع
کیا جاتا ہے، فضائل آل محمد کا اثباتی بیان عموماً استدلالات قرآنیہ سے ہوتا ہے
بلکہ چھوٹی مجلسوں سے لے کر بڑے جلسوں تک ابتدا تلاوت قرآن سے کرنا شیعیانِ آل
محمد کا بالعموم شیوہ ہے، یہ اہتمام صرف زندگی کی لمحات تک نہیں بلکہ مرنے والے کے
پاس قرآن خوانی سنت۔۔۔ اس کی موت کے واقع ہوجانے کے بعد اس کے پاس قرآن پڑھنا
مستحب۔۔۔ اس کے کفن کے قطعات پر قرآن لکھنا مستحب، گویا ہمیشہ قرآن شیعہ کے ساتھ
اور شیعہ قرآن کے ساتھ ہیں، اور گذشتہ تمام مفصّل بیان شیعہ کے اس دعویٰ کا مویّد
و مصدّق ہے کہ جملہ اسلامی فرقوں میں سے قرآن کے ساتھ صرف مذہب شیعہ والے ہی صحیح
تمسک رکھتے ہیں اور حقیقۃً قرآن صرف انہی کے پاس ہے اور قرآن پر انہی کا ایمان ہے
ان کے مذہب کا دارومدار بھی قرآن ہے اور موت و حیات میں ان کا سہارا بھی قرآن ہی
ہے۔
لیکن متواتر حدیث ثقلین اور دیگر تصریحات نبویہ کے
پیش نظر شیعہ قرآن مجید کی تفسیر و تاویل میں صرف آل محمد کی ہی فرمائشات پر
اعتماد رکھتے ہیں اور کسی بڑے سے بڑے آدمی کے قول و عمل کو قطعاً در خور اعتنا ٔ
نہیں قرار دیتے جو آئمہ آل محمد کی تعلیمات سے بے بہرہ ہو۔
بہتانِ عظیم
جو لوگ صرف قرآن مجید کو کافی سمجھتے ہیں اور
آلِ محمد سے صرف دُور ہی نہیں بلکہ آل محمد کی تعلیمات کو بالکل مٹانے کے درپے
ہیں جس طرح کہ خود آل محمد کو مٹانے میں انہوں نے کوئی کسر باقی اٹھا نہیں رکھی
تھی، وہ سادہ لوح عوام میں بڑے زور و شور سے یہ منحوس پروپیگنڈہ کرتے پھرتے ہیں کہ
شیعوں کا قرآن مجید پر ایمان ہی نہیں تاکہ عوام نہ ان کی سنیں اور نہ آئمہ اہل
بیتؑ کے کمالاتِ علمیہ سے مطلع ہوں اور نہ جناب رسالتمآب کی فرمائش ’’اِنِّیْ
تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْن‘‘ ان کے کانوں تک پہنچے، ورنہ کون اتنا نادان ہے کہ
حق کو دیکھ کر اس سے کنارہ کرے؟ یا اہل بیت کے کمالات پر اطلاع پا کر کسی غیر کو
اُن پر ترجیح دے؟
اسی بنأ پر شیعہ مجالس میں جانا حرام قرار دیا
گیا ہے، کتابوں میں۔۔۔ اخباروں میں۔۔۔ رسالوں میں۔۔۔ اشتہاروں میں۔۔۔ تقریروں میں
فتاویٰ صادر کئے جاتے ہیں کہ شیعہ کی مجلس میںجانا گناہ۔۔۔ ان کے ساتھ اچھا برتائو
حرام۔۔۔ حتی کہ ان کے ساتھ ہر قسم کا تعاون ممنوع۔۔۔ مجلس میں آنے والوں پر فک
نکاح کا فتویٰ یا تعزیر شرعی کا حکم بھی صادر ہوتا ہے، اگر کسی شہر میں شیعہ بہت
کمزور ہوں تو بہت سے مقامات پر ان کیلئے پانی جیسی عام نعمت الٰہیہ کا استعمال
ممنوع بلکہ جملہ ضروریات زندگی سے ان کو محروم کر دیا جاتاہے۔
اگر وجہ دریافت کی جائے کہ شیعوں کا قرآن پر کیسے
ایمان نہیں؟ حالانکہ ان کے مذہب کا دار و مدار ہی قرآن پر ہے۔۔۔ ان کی تفاسیرِ
قرآن دوسرے اسلامی فرقوں کی بہ نسبت زیادہ۔۔۔ ان کی احادیث میں قرآن۔۔۔ ان کی
فقہ و اصول میں استدلال قرآن۔۔۔ ان کی مساجد میں قرآن۔۔۔ امام باڑوں میں
قرآن۔۔۔ شبیہ تعزیہ میں قرآن۔۔۔ گھروں میں قرآن۔۔۔ درسوں میں قرآن۔۔۔ حتی کہ
ان کے کفنوں پر قرآن۔۔۔ غرضیکہ ان کی شرعی زندگی کا کوئی گوشہ قرآن سے خالی
نہیں۔
تو اس کا جواب یہ دیا جاتاہے کہ چونکہ شیعہ لوگ
خلافِ اجماعیہ کے انکاری ہیں اور معاذاللہ صحابہ کو گالیاں دیتے ہیں اس لئے ان کا
قرآن سے کوئی واسطہ نہیں۔۔۔ اور ان کی مجالس میں سبّ صحابہ ہو اکرتی لہذا ان میں
شرکت کرنا بدعت۔۔۔ حرام اور موجب فک نکاح ہے۔
ہاں ہاں! شیعہ کے نزدیک خلافت کا معیار ہنگامہ
آرائی نہیں بلکہ نص خدائی ہے جس کی مفصل بحث عنوان ثقلین کے تحت میں ص۱۰۶سے
ص۱۱۸تک پیش کی جاچکی ہے، باقی رہا سبِّ صحابہ کا افترا تو اس کے متعلق
شیعہ کا مذہب یہ ہے کہ صحابہ تو بجائے خود کسی ادنیٰ ترین انسان خواہ کافر ہی کیوں
نہ ہو کو سبّ کرنا اور گالی دینا ناجائز اور فعل حرام ہے اور آئمہ اہل بیت کی
تعلیمات اور ان کی سیرت کے قطعاً خلاف ہے۔
یہ ضرور ہے کہ آلِ رسول کا ہم پلہ۔۔۔ صحابہ تو
درکنار حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت عیسیٰؑ تک تمام انبیا ٔ کو بھی ہم نہیں
سمجھتے۔۔۔۔۔ جس کی بحث ’’ معجز نما کی ضروت ‘‘ کے عنوان کے تحت اور بعض دیگر
مقامات پر مختصراً گذر چکی ہے اور آئندہ اپنے مقام پر تفصیل سے بھی مذکور ہوگی۔
پس جوصحابہ کرام تعلیمات رسالتمآبؐ کے پیش نظر
ثقلین یعنی قرآن اور اہل بیت سے متمسک رہے ہم ان کے غلام ہیں اور جن لوگوں نے
آلِ محمد کو چھوڑ دیا ہم ان سے بیزار ہیں، ہمارا ایمان قرآن پر ہے اور آلِ محمد
کے علاوہ قرآنی علوم نہ کسی سے حاصل ہو سکتے ہیںاور نہ ہمیں کسی اور سے ربط و
واسطہ قائم کر نے کی ضرورت ہے۔
ہمارا ایمان ہے کہ چونکہ بفرمانِ رسول قرآن و اہل
بیت ایک دوسرے سے جدا نہیں۔۔۔ لہذا دونوں سے تمسک پکڑنا ہی دین اسلام ہے، جس کا
قرآن پر ایمان نہیں اس کا اہل بیت سے واسطہ نہیں اور جس کا اہل بیت سے واسطہ نہیں
اس کا قرآن پر ایمان نہیں۔
پس شیعہ کا قرآن اور اہل بیت ہر دو پر ایمان ہے
ہر دو سے تمسک ہے۔۔۔۔۔ لہذا درحقیقت تمام اسلامی فرقوں میں سے قرآن پر صرف مذہب
شیعہ ہی کا ایمان ہے، جولوگ یہ کہیں کہ شیعہ قرآن کو نہیں مانتے وہ صرف عوام کو
ہی نہیں بلکہ خداو رسول کو بھی دھوکا دیتے ہیں اور فریب کاری۔۔۔۔۔ افترأ
پردازی۔۔۔۔۔ بہتانِ عظیم سے اپنی عاقبت کو خراب کرتے ہیں۔