اس ملعون نے امام مظلوم ؑ کی چادر اُتاری تھی اور اس نے عبداللہ بن کامل سے
پناہ لی تھی اور اس کے گھرمیں پنہاں تھا، مختار کو بھی خفیہ ذریعے سے معلوم ہو گیا
لیکن خاموش رہا کیونکہ عبداللہ بن کامل اس کے مخصوص دوستوں میں سے تھا، ایک دن
عبداللہ بن کامل سے کہا مجھے انگوٹھی دے دو میں دیکھنا چاہتا ہوں چنانچہ اس سے
انگوٹھی لے کر اپنی انگلی میں پہن لی اور ابن کامل کو کسی کام کیلئے بھیج دیا اور
ابو عمرہ کو بلا کر اسے وہی انگوٹھی دی اور فرمان دیا کہ ابن کامل کے گھر چلے جائو
اور اس کی عورت کو یہ انگوٹھی دکھا کر کہو مجھے عبداللہ بن کامل نے بھیجا ہے (اور
یہ انگوٹھی اس کی نشانی ہے) میں قیس بن اشعث سے ملنا چاتا ہوں پس وہ عورت تجھے قیس
تک پہنچادے گی اس کے بعد بلاتامل اس کا سر قلم کرکے میرے پاس لائو، چنانچہ ابوعمرہ
نے تعمیل حکم کی او ر قیس کا سر لاکر مختار کے قدموں میں ڈال دیا مختار نے کہا(یہ
امام مظلوم ؑ کی چادر کا بدلہ ہے)
جب عبداللہ بن کامل کوخبر ہوئی تو اس نے مختار سے شکوہ کیا کہ تونے میری
امان کوتوڑدیا ہے؟ مختارنے جواب دیا اے ابن کامل تیرے باپ پر خداکی رحمت
ہو۔۔کیااولاد پیغمبر کے قاتل کو امان دیناجائزہے؟
آقائے شیخ ذبیح محلاتی فرماتے ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ مختار کا
دشمنان آلِ محمد کوقتل عام کرنا طلب اقتدار کے لئے نہیں تھا بلکہ محض جذبہ انتقام
کے ماتحت تھا اور یہ اس کے جوش وِلاکا نتیجہ تھا اوروہ درحقیقت امام مظلوم ؑ کے
قاتلین کونیست ونابودکرنا چاہتا تھا ورنہ عبداللہ بن کامل جیسے مخصوص دوستوں کے
امان یافتہ لوگوں کے درپے قتل ہرگزنہ ہوتا؟ اس کے مقابلہ میں عبداللہ بن زبیرجوصرف
اقتدارکا خواہش مند تھا وہ ابتدا میں انتقام خون حسین ؑکا نام لیتاتھا۔۔ لیکن جب
اس کی حکومت کسی حد تک مضبوط ہوگئی توامام مظلوم ؑ کے قاتلین کوخودامان
دیتاتھااوراس کی فوج کوفہ کے بھگوڑوں کی پناہ گاہ بن گئی! چنانچہ مختار کے خوف سے
جوبھی بھاگتاتھا مصعب بن زبیر کی فوج میں اس کوقبول کرلیا جاتاتھا جیساکہ صفحات
تاریخ اس امر کے شاہد بیّن ہیں۔۔ چنانچہ منقذبن مرّہ قاتل شہزادہ علی اکبر کا
ذکربھی گذرچکا ہے۔