التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

صراطِ مستقیم کی تلا ش



اِدھر اُدھر دور جانے کی ضرورت نہیں اور نہ اندھی تقلید فائد مند ہے،تعصب اور جنبہ داری کے نظر یہ سے بالاتر ہوکرارشادِخدا وندی پر نظرڈالئے فر ماتا ہے:  اِذْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْ ئٍ  فَرُدُّوْہُ اِلٰی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ کسی چیز سے نزاع کرو تواس کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول پر چھوڑدو۔
اب ذرا رسالتمآب کی تصریحات کی طرف رجوع فرمائیے:
٭      حد یث متواتر  ۱؎ :  اِنِّیْ تَارِکٌ  فِیْکُمُ الثَّقَلَیْن کِتَابَ اللّٰہِ وَ عِتْرَتِیْ اَھْلَبَیْتِیْ
ترجمہ: میں تم میں دو گرانقدرچیزیں چھوڑے جاتا ہوں۔۔۔ ایک قران اور دوسرے میرے اہل بیت، یہ ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے یہا ں تک کہ میرے پاس حوضِ کوثر پراکٹھے واردہو گے۔
_____________________________________________________
 ۱-   متعدد طرق سے ثقلین کے عنوان میں بیان کی جا چکی ہے  (منہ)
 اہل بیت ؑ کی تعیین کے متعلق سنن ترمذی میں بابِ مناقب اہل بیت میں وارد ہے:
٭      عَنْ عُمَر بْنِ اَبِیْ سَلْمَۃَ نَزَلَتْ آیۃُ تَطْہِیْرٍ فِیْ بَیْتِ اُمّ سَلْمَۃَ فَدَعَا النَّبِیّ فَاطِمَۃَ وَ حَسَنا وَحُسَیْنا وَعَلِیّ خَلْفَ ظَھْرہ فَجَلَّلَھُمْ بِکِسَائٍ ثُمَّ قَالَ اَللّٰھُمَّ ھٰؤُلائِ اَھْلُبَیْتِیْ فَاِذْھِبْ عَنْھُمُ الرِّجْسَ وَطَھِّرْھُمْ تَطْہِیْرًا قَالَتْ اُمِّ سَلْمَۃَ وَاَنَامَعَھُمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ اَنْتِ اِلٰی مَکَانِکَ وَاَنْتِ عَلٰی خَیْرٍ۔
ترجمہ: عمر بن ابی سلمہ سے روایت ہے کہ آیت تطہیر حضرت اُمّ سلمہ کے گھر اُتری، پس جناب رسالتمآبؐ نے فاطمہ ؑ۔۔۔ حسن ؑ۔۔۔ حسین ؑ کو بلایا، حضرت علی ؑ اُن کے پسِ پشت بیٹھے تھے۔۔۔ پس ان سب کو چادر اُڑھا دی اور دعاکی۔۔۔۔۔ اے میرے اللہ تعالیٰ یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے رجس کو دُور رکھ اور ان کوپاک رکھ جس طرح حق پاکیزگی ہے۔۔۔۔۔ امّ سلمہ نے عر ض کیا یا رسول اللہ میں بھی ان کے ساتھ ہوں؟ تو آپؐ نے فر مایا تو اپنے مکان پر رَہ۔۔۔ تو نیکی پر ہے۔
٭      اَعْلَمُ اُمَّتِیْ مِنْ بَعْدِیْ عَلِیّ ابْنَ اَبِیْ طَالِبٍ  میرے بعدمیری اُمت کا بڑاعالم علی ؑ ہے (ص۱۰۱)
٭      عَلِیٌّ وِعَائُ عِلْمِیْ                علی ؑ میرے علم کاظرف ہے  (ص ۱۰۱)
 ٭     عَلِیٌّ بَابُ عِلْمِیْ         علی ؑ میرے علم کا دروازہ ہے  (ص۱۰۱)
٭      عَلِیٌّ خَازِنُ عِلْمِیْ       علی ؑ میرے علم کاخازِن ہے  (ص۱۰۲)
٭      اَنَا دَارُ الْحِکْمَۃَ وَعَلِیٌّ بَابُھَا میں حکمت کا گھر ہوں اور علی ؑ اس کا دروازہ ہے (ص۱۰۳)
٭      اَنَامَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا   میں علم کا شہر ہوں اور علی ؑ اس کا دروازہ ہے (ص۱۰۳)
اس مضمون کی احادیث جنا بِ رسالتمآبؐ سے توا ترکے ساتھ منقو ل ہیں اور اکا بر صحابہ کا اعتراف ہے کہ حضرت علی ؑ تمام اُمت سے زیادہ عالم ہیں۔۔۔ ان ہی صفحات پر مذکور ہو چکا ہے اور اس بیان کی ابتدا میں خود علامہ سیوطی کا اعتراف اور حضرت علی ؑ کی علمی سبقت کے متعلق بعض صحابہ کی تصدیق غیر مبہم الفاظ میں بیا ن ہو چکی ہے، نیز حضرت علی ؑ کے حافظِ قرآن ہونے کا ابن حجر جیسے متعصب کو بھی ا عتراف ہے۔۔۔ نیز عَلِیٌّ مَعَ الْقُرْآنِ وَالْقُرْآنُ مَعَ عَلِیّ یہ حدیث رسالتمآب بھی ان کے ساتھ ملا لیجئے۔
اب چشمِ بصیرت سے آئینۂ انصاف میں حضرات صحابہ کا اعتراف۔۔۔ علا مہ سیوطی وا بن حجر کی تصریحات۔۔۔ خود سرکا ر رسالتمآب کی ہد یت اور واقعات و تاریخی حقائق کی شہادت کے ساتھ ساتھ جنبہ داری کے جذبات سے علیحدہ ہو کر عقل وخرد کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے۔۔۔۔۔ ورنہ ایک واضح راستے کو تر ک کر کے ایک تاریک گڑھے میں پڑے رہنا دانائی نہیں!!؟
قرآن شریف کے سو فیصد عالم۔۔۔حافظ قرآن اور مفسر کو محکوم ومفضول بنانا اور بقول خود ش وباستقراء سیوطی ۲۲/۱ فیصدی مفسرکو حاکم وفاضل ماننا عقل و انصاف کا خون نہیں تو اور کیا ہے؟ اس کے علاوہ باقی کمزوریاں جن میں سے مجمل طور پر بعض کا ذکر سیوطی و ابن قتیبہ کی سابقہ عبارتوں میں گذر چکا ہے۔۔۔ وہ بھی زیر نظر رکھ کر انصاف فر ما لیں! جو خالی از فائدہ نہیں۔
مقصد یہ تھا کہ ان کے اشتباہی کلمات عوام پر اغرا بالجہل کا سبب نہ ہوں اور حقیقت حا ل منظر عا م پر آ جا ئے لِیَھْلِکَ مَنْ ھَلَکَ عَنْ بَیِّنَۃٍ ورنہ جو مفسرین۔۔۔ علامہ مو صوف نے مشا ہیر سے شما ر کئے ہیں اور وہ صرف اس لئے کہ حضرت علی ؑ کی امتیا زی شان پر پردہ آجا ئے اور لوگ یہ سمجھ لیں کہ وہ بھی حضرت علی ؑ کی طرح ہی عالم تھے۔۔۔ اگر اُن سب کے جزوی حالات و واقعات کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو کتاب مو ضوع سے خارج ہو جائے گی۔
مجھے اس کتاب میں خلفأ کے علم سے بحث کرنا مقصود نہیں۔۔۔۔۔ علامہ سیوطی کی تحقیقات کے پیش نظر ’’الاتقان و تاریخ الخلفأ‘‘ کے مطالعہ سے مشہور مفسر اوّل کی علمِ قرآن میں دستر س جب معلوم ہو گئی (حالانکہ وہ باقیوں سے افضل قرار دئیے جاتے ہیں ) تو دوسروں کی علمی استعداد خود بخود معلوم ہوگئی۔۔۔ بقول  مُشتی نمونہ از خردار۔
علامہ سیوطی نے بھی جب ان کی عملی تحقیقات کا جائزہ لیا تو طبیعت اتنی سیر ہوئی کہ باقیوں کے تذکرہ کر نے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی اور سب کو تقدم و فات کے عذر میں معذور قرار دے کر عہدہ برآہو گئے، حضرت علی ؑ کے متعلق صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ ان سے تفسیر قرآن بہت زیا دہ مروی ہے۔۔۔ اور دو، تین روایات بھی حضرت علی ؑ کی علمی پوزیشن واضح کر نے کے لئے ذکر کردیں، حا لانکہ پہلے دو بزرگواروںیعنی حضرت عمر اور حضرت عثمان کے مقابلہ میں ان کا زمانِ خلا فت نصف سے بھی کم ہے اور وہ بھی اس قدر پُر آشوب کہ حضرت علی ؑ کو پورے دَ ورِ خلافت میں آرام واطمینان کی سانس لینے کا موقع نہ مل سکا۔
پہلے پہل حضرت امّ المو منین عائشہ نے فوج کشی کر کے بصرہ پر حملہ کر دیا اور حضرت علی ؑ کو ان سے نپٹنا پڑا جس میں بروایت سیوطی تیرہ ہزار مسلمان قتل ہو گئے، یہ جنگ۔۔۔ جنگ جمل کے نام سے مشہور ہے کیونکہ آپ اُونٹ پر سوار ہو کر جنگ میں فوج کی کمان کر رہی تھیں۔
اس کے بعد حضرت علی ؑ مدینہ سے کوفہ تشریف لائے تو امیرِ شام معا ویہ نے خونِ عثمان کے بہا نہ سے جنگ صفین کا آغاز کردیا تقریباً ستر لڑائیا ں یا اس سے بھی زیادہ لڑی گئیں۔۔۔ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان قتل ہو گئے، اس کے بعد خو ارج کے ساتھ جنگ نہر وان میں نبردآزمارہے اور اسی دوران شہید کر دئیے گئے۔
بایں ہمہ تفسیر قرآن اور علوم رسالت کے حقائق ودقائق اور رموز واسرار کے جو نایا ب ذخائر اس پاک وجود سے معرض ظہور میں آئے وہ انہی کا حصہ تھا سچ ہے بر تن سے وہی چیزبر آ مد ہوتی ہے جواس میں ہو اور دروازہ سے و ہی چیز خارج ہو تی ہے جوگھر میں ہو۔
لیکن  تعصب کا بُرا ہو۔۔۔ جب دیکھا کہ خلفائے ثلاثہ سے تو علم میں علی ؑ کا پلہ بھارا نظر آ رہا ہے۔۔۔ لیکن کہیں منصف مزاج طبقہ اور حقیقت آشنا گروہ علی ؑ کو بنا بر اَعلمیت و اَفضلیت کے خلاف بلا فصل کا حقدار نہ تسلیم کر لے لہذا حضرت علی ؑ کی علمی پوزیشن واضح کرنے کے بعد فوراً ابن مسعود کی ’’فَرُوِیَ عَنْہُ اَکْثَر مِمَّا رُوِیَ عَنْ عَلِی‘‘ یعنی ابن مسعود سے تفسیر قرآن کے متعلق روایات علی ؑ سے بہت زیادہ ہیں۔۔۔۔۔ اور آخر بیان میں ابی بن کعب سے بھی بہت کچھ تفسیر قرآن کے منقول ہونے کا اعتراف کر لیا حالانکہ ’’مفتاح السعادۃ‘‘ سے حبرُ الامّۃ عبداللہ بن عباس کا قول منقول ہے کہ فرماتے ہیں:
٭      مَاعِلْمِیْ وَعِلْمُ اَصْحَابِ مُحَمَّدٍ فِیْ عِلْمِ عَلِیّ اِلَّا کَقَطْرَۃٍ فِیْ سَبْعَۃِ اَبْحُرٍ۔
ترجمہ: میرا اور محمد مصطفیٰ کے تمام صحابہ کا علم۔۔۔ علی ؑ کے علم کے مقابلہ میں ایسا ہے جیسا کہ ایک قطرہ آب سات سمندروں کے مقابلہ میں۔
یہ مخفی نہ رہے کہ بقول سیوطی ابی بن کعب کی وفات زمانِ خلا فت حضرت عمر میں ہوئی اورحضرت عبداللہ بن مسعود کی وفات زمانِ عثمان میں ہوئی!!  اب ایک دفعہ پھر پوچھنے کی جرأت کر تا ہوں کہ تقدمِ وفات اگر خلفائے ثلاثہ سے آثا ر تفسیر کے کم نقل ہونے کا سبب تھی تو ابی بن کعب جس کی وفات حضرت عمر اور حضرت عثمان دونوں سے پیشتر ہے ان سے تفسیر قرآن زیادہ کیو ں منقول ہوئی؟ اور اسی طرح ابن مسعود جس کی وفات حضرت عثمان سے پہلے ہوئی وہ حضرت علی ؑ سے کیونکر بڑھ گئے حالانکہ آپ کے تقدم وفات والے قاعدہ سے تو ان کو حضرت عثمان سے بھی پیچھے رہنا چایئے تھا چہ جائیکہ وہ علی ؑ سے بھی سبقت کر جائیں!؟
گویا اُن کی پوری تگ و دَو کا نتیجہ یہ رہا کہ:
٭      جہاں اصحابِ ثلاثہ کی علمی کم مائیگی کی خفت کو مٹانا چاہا تو تقدم وفات کا بہانہ بنا لیا!  اور جہاں علی ؑ کو گھٹا نا چاہا تو ابن مسعود کو بڑھانے کے لئے وہ بات بھول گئے اور ان کا تقدم وفات نظر انداز کر دیا۔۔۔ حالانکہ ان دونوں متضاد بیانوں میں کلیہ آٹھ دس سطروں کا فاصلہ ہے اتنا جلدی نسیان؟  خدا کی پناہ!
اچھا اس کو جا نے دیجئے۔۔۔۔۔ آگے چل کر فرماتے ہیں:
٭      وَ قَدْ وَرَدَ عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنَ الصَّحَابَۃِ غَیْرَ ھٰؤُلائِ الْیَسِیْرِ مِنَ التَّفْسِیْرِ کَاٰ نَسٍ وَ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ وَ ابْن عُمَر وَ جَابِرٍ وَاَبِیْ مُوْسٰی الْاَشْعَرِیْ۔
ترجمہ: ان صحابہ (دس گذشتہ)کے علاوہ باقی ایک جماعت صحابہ سے بھی معمولی تفسیر وارد ہوئی ہے مثلاً انس،ابو ہریرہ،ابن عمر،جابر اور ابو موسی اشعری۔
ادھر مشہور مفسرین میں دسویں نمبر پر ابو موسیٰ اشعری اور یہاں شاذمفسر ین میں بھی آخری نمبر پر ابو موسیٰ اشعری! نہ معلوم کس ہوش و ہواس سے ’’الاتقان‘‘ لکھ رہے ہیں؟ اتقان والی بات وہی ہوا کرتی ہے کہ جو منہ سے آئے کہتاجائے یہ خیال نہ کرے کہ پہلے کیا کہہ چکا ہوں او اب کیا کہہ رہا ہوں؟ (میں تو کہوں گا بغض علی ؑ کا صلہ ہے) اچھا ممکن ہے کاتب کا سہو ہو۔۔۔ لیکن پھر بھی سوچنے کے قابل بات ہے کہ یہ مفسر جن کو معمولی مفسر کہا جا رہا ہے اگر تفاسیر کا جائزہ لیا جائے تو ان سے نقل شدہ آثار بہ نسبت اصحاب ثلاثہ کے کہیں زیادہ ہیں۔۔۔ بایں ہمہ وہ عالم اور یہ اُن کے مقابلہ میںکم علم۔۔۔ وہ مشہور مفسر اوریہ شاذ راوی کیوں؟
وجہ یہ ہے کہ وہ چونکہ مسندِ اقتدار پر ہیں اور اکثریت کی ہاوہُو سے متاثر ہو کر بلا تحقیق ان کو خلافت کا اہل بھی تسلیم کر چکے ہیں۔۔۔۔۔ اب واقعات موافق ہوں یانہ ہوں، دلیل ساتھ دے یا نہ دے، اس با ت پر اڑ گئے ہیں کہ ان کو عالم کہیں گے اور ضرور کہیں گے۔۔۔ کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے اکثریت اپنی ہے کسی کا کیا ڈر ہے؟ حالانکہ قرآن مجید فرماتا ہے کہ حق کے جُویا اور مُتّبع اور اللہ تعالیٰ کے شکر گزار تھوڑے ہی ہو ا کرتے ہیں۔