پس جن
حدیثو ں میں حضرت علی ؑکو جنت و نا ر کا قسیم کہا گیا ہے ان کا مطلب بھی صا ف صا ف
وا ضح ہو گیا، چنانچہ البرہان میں وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃ کے تحت
مذکور ہے۔۔۔ اور حد یث وسیلہ میں ہے کہ جنا ب رسالتمآبؐ سے منقو ل ہے کہ جب میں
اور علی ؑ اپنی منا زل قر ب خد ا پر فا ئز ہو چکیں گے۔۔۔۔ اس کے بعد:
فَیَاتِی النِّدَائُ مِنْ قِبَلِ اللّٰہِ
یَسْمَعُہُ النَّبِیُّوْنَ وَالصِّدّیْقُوْنَ وَالشُّھَدَائَ وَ الْمُوْمِنُوْنَ
ھٰذَا حَبِیْبِیْ مُحَمَّدٌ وَ وَلِیِّیْ عَلِیّ طُوْبٰی لِمَنْ اَحَبَّہُ وَ
وَیْلٌ لِمَنْ اَبْغَضَہُ وَ کَذِبَ عَلَیْہِ فَلا یَبْقٰی یَوْمَئِذٍ اَحَدٌ
اَحبُّکَ یَاعَلِیّ اِلَّا اسْتَرَاحَ اِلٰی ھٰذَا الْکلامِ وَ ابْیَضَّ وَجْھَہُ
وَ فَرِحَ قَلْبَہُ وَلا یَبْقٰی اَحَدٌ مِمَّنْ عَادَاکَ وَ نَصَبَ لَکَ حوْبَاء
وَ جَحَدَکَ حَقًّا اِلَّا اسْوَدَّ وَجْھَہُ وَ اضْطَرَبَتْ قَدْمَاہُ
فَبَیْنَمَا اِذَا مَلَکانِ قَدْ اَقْبَلا اِلَیَّ اَحْدُھُمَا رِضْوَانُ خَازِنِ
الْجَنَّۃِ وَاَمَّا الْآخَر فَمَالِکُ خَازِنِ النَّارِ فَیَدْنُوْا رِضْوَان
فَیَقُوْلُ اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یَا اَحْمَد فَأقُوْلُ اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یَا
اَیُّھَا الْمَلَک مَنْ اَنْتَ فَمَا اَحْسَنَ وَجْھَکَ وَاَطْیَبُ رِیْحَک
فَیَقُوْلُ اَنَا رِضْوَانُ خَازِنِ الْجَنَّۃِ وَ ھٰذِہٖ مَفَاتِیْحُ
الْجَنَّۃِ بَعَثَ بِھَا اِلَیْکَ رَبُّ الْعِزّۃِ فَخُذْ یَا اَحْمَد فَأقُوْلُ
قَدْ قَبِلْتُ ذٰلِکَ مِنْ رَبِّیْ فَلَہُ الْحَمْد عَلٰی مَا فَضّلَنِیْ بِہٖ
اَدْفَعُھَا اِلٰی اَخِیْ عَلِیّ ابْنِ اَبِیْ طَالِب۔
ترجمہ: پس جا نب خد ا سے ند ا ہو گی جن کو تما م
نبی۔۔ صد یق۔۔ شہد ا ٔ اور مو من سنیں گے کہ یہ میرا حبیب محمد مصطفیٰ ہے اور میرا
ولی علی ؑ ہے اس کے محب کے لیے طو بی ہے اور اس کے دشمن مکذ ّب کے لیے ویل ہے، پس
اس دن (یا علی ؑ) تیرا کو ئی محب نہ ہو گا مگر یہ کے اس کلا م کو سن کر خو ش ہو گا
اس کا چہر ا نو را نی ہو گا اس کا دل مسرو ر ہو گا۔۔۔ اور تیر ے دشمنو ں اور تیر ے
سا تھ لڑنے وا لو ں اور تیر ے حق کا انکار کرنے والوں میں سے کوئی شخص نہ ہو گا
مگر یہ کہ اس کاچہرہ سیاہ اور اس کے قدموں میں لرزہ پیدا ہو گا، پس اسی اثنأ میں
دو فر شتے میرے پاس حاضر ہوں گے ایک رضوان (دربانِ جنت) اور دوسرا مالک (داروغہ
جہنم) پس رضوان قریب آ کر کہے گا اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یَا اَحْمَد
میں اس کو جوابِ سلام دوں گا اور پوچھوں گا کہ تو کون ہے؟ تیرا چہرہ کیسا خوبصورت؟
اور تیری خوشبو کس قدر پاکیزہ ہے؟ پس وہ کہے گا میں رضوان خازنِ جنت ہوں اور یہ
کلید ہائے جنت ہیں جو خدا نے تیری طرف بھیجی ہیں یہ لے لو۔۔۔ پس میں کہوں گا کہ
میں نے اپنے ربّ کی طرف سے قبول کرلی ہیں اور اس فضیلت کے عطا کرنے پر اس کی حمد
کرتا ہوں۔۔۔ پس میں وہ علی ؑ کو دوں گا۔
ثُمَّ یَرْجِعُ رِضْوَان فَیَدْنُوْا مَالِک
فَیَقُوْلُ اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یَا اَحْمَد فَأقُوْلُ اَلسَّلامُ عَلَیْکَ
اَیُّھَا الْمَلَک فَمَا اَقْبَحَ وَجْھَکَ وَ اَنْکرَ رُؤیَتَکَ فَیَقُوْلُ
اَنَا مَالِک خَازِنِ النَّارِ وَ ھٰذِہٖ مَقَالِیْدُ النَّارِ بَعَثَ بِھَا
اِلَیْکَ رَبُّ الْعِزَّۃِ فَخُذْھَا یَا اَحْمَد فَأقُوْلُ قَدْ قَبِلْتُ ذٰلِکَ
مِنْ رَبِّیْ فَلَہُ الْحَمْدُ عَلٰی مَا فَضَّلَنِیْ بِہٖ اَدْفَعُھَا اِلٰی
اَخِیْ عَلِیّ ابْنِ اَبِیْ طَالِب عَلَیْہِ السَّلام ثُمَّ یَرْجِعُ مَالِک
فَیَقْبَلُ عَلِیّ وَمَعَہُ مَفَاتِیْحُ الْجَنَّۃِ وَمَقَالِیْدُ النَّارِ حَتّٰی
یَقِفَ عَلٰی جَھَنَّم وَ قَدْ تَطَایَرُ شَرَرُھَا وَعَلا زَفِیْرُھَا وَ اشْتَدّ
حَرُّھَا وَعَلِیّ آخِذٌ بِزِمَامِھَا فَتَقُوْلُ الْجَھَنَّمُ جزنیْ یَاعَلِیّ
فَقَدْ اَطْفَائَ نُوْرُکَ لَھْبِیْ فَیَقُوْلُ لَھَا عَلِیّ قَرّیْ یَاجَھَنَّم
خُذِیْ ھٰذَا وَ اتْرُکِیْ ھٰذَا خُذِیْ ھٰذَا عَدُوِّیْ وَ اتْرُکِیْ ھٰذَا
وَلِیّٖ (الخبر)
ترجمہ: پھر رضوان واپس جائے گا اور مالک قریب آکر
سلام کہے گا اور اس کو جواب میں السلام علیک کہہ کر دریافت کروں گا کہ تیرا چہرہ
کتنا قبیح اور تیرا منظر کس قدر بدنما ہے؟ تو وہ کہے گا میں مالک خازنِ جہنم
ہوںاور یہ کلید ہائے جہنم خدا نے تیری طرف بھیجی ہیں یہ لے لو۔۔۔ پس میں کہوں گا
کہ میں نے قبول کی ہیں اور اللہ کے اس فضل پر اس کی حمد کرتا ہوں اور پھر وہ علی
بن ابی طالب علیہما السلام کے حوالے کردوں گا۔۔۔ پھر مالک واپس چلا جائے گا اور
علی ؑ کلید ہائے جنت و نا ر کو لے کر آگے بڑھے گا حتیٰ کہ جہنم کے کنارے پر آ کر
کھڑا ہوگا اس وقت جہنم کے شعلے اُٹھ رہے ہوں گے اس کی آواز بلند ہو گی اور گرمی
تیز ہوگی اور حضرت علی ؑ کے ہاتھ میں اس کی مہار ہوگی اور وہ کہے گی یا علی ؑ آپ
ؑ جلد گزر جائیںکیونکہ آپ ؑ کا نور میرے شعلوں کو بجھاتا ہے پس حضرت علی ؑ
فرمائیں گے صبر کر اے جہنم اِس کو لے لے اور اِس کو چھوڑ دے۔۔۔ اِس کو لے کیونکہ
میرا دشمن ہے اور اِس کو چھوڑ کیونکہ میرا دوست ہے۔ ۱؎
پس اس
حدیث کا صاف مطلب یہی ہے کہ جنت ونار کا معیار استحقاق حبِّ علی ؑ اور بغض علی ؑ
ہے۔۔۔ چونکہ محب علی ؑ خداوند کریم کا اصول معرفت میں اطاعت گزار ہے، لہذ ا
وہ جہنم کی سزا کا مستحق نہیں پس وہ فرعی گنا ہوں کی سزا بھگتنے کے بعد آزاد ہو
جائے گا اور دشمن علی ؑ چونکہ اصول معر فت میںخدا کا نافرمان ہے لہذا اس کی فرعی
نیکیوں کی کوئی قیمت نہیں پس وہ جہنم کی دائمی سزاکاسزا وار ہے اور اس کوصرف توحید
ونبوت کااقرار کوئی فائدہ نہ دے گا۔۔۔ جس طرح نبوت کے منکر کو صرف توحید کااقرار
فائدہ مندنہیں ہے۔
_____________________________________________________
۱- ذکر العلامۃ المجلسی ہذا الحدیث فی ثالث
البحار ص ۲۵۲ مع اختلاف بعض الالفاظ۔
مقدمہ تفسیرمرأۃالا نوار میں بروایت ’’علل
الشرائع ۔۔صدوق‘‘ مفضل سے منقول ہے کہ میںنے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے
دریافت کیا کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام قَسِیْمُ
الْجَنَّۃِ وَالنَّارکس طرح ہیں؟ آپ ؑ نے فرمایا چونکہ علی ؑ کی محبت ایمان
اور اس کا بغض کفر ہے اور جنت ایمان والوں کے لئے اور جہنم اہل کفر کے لئے ہے پس
علی ؑ قَسِیْمُ الْجَنَّۃِ وَالنَّار ہو گئے یعنی جنت میں صرف علی ؑ کے محب
جائیں گے اور دوزخ میں علی ؑ کے دشمن ہی جائیں گے۔
مفضل کہتاہے میںنے عر ض کیا یابن رسول اللہ کیا
گذشتہ انبیا ٔ واوصیا ٔ بھی علی ؑ کے محب تھے؟ اور ان کے دشمن علی ؑ کے دشمن تھے؟
آپ ؑ نے فرما یا ہاں۔۔ میں نے عرض کیا حضور اس کی وضا حت فرما ئیے؟ آپ ؑ نے
فرمایا کیا تجھے یوم خیبر کا سرکارِ رسالت کا فرمان معلوم نہیں کہ حضوؐر
۱؎ نے فرمایاتھا:
لَاُعْطِیَنّ الرَّایَۃَ غَدًا رَجُلاً یُحِبُّ
اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ لا یَرْجِعُ حَتّٰی یَفْتَحَ اللّٰہُ عَلٰی یَدَیْہِ۔
ترجمہ: کل عَلمِ فوج ضرو ر ایسے شخص کو دو ںگا جو
خدا اور رسول کا محب ہو گا اور بغیر فتح کے نہ پلٹے گا۔
میں نے عرض کیا ہاں۔۔ توآپ ؑ نے فرما یا کہ جب
حضوؐر کے پاس بھو نا ہوا پرندہ لایا گیا تو آپؐ نے دعا مانگی:
اَللّٰھُمَّ اِیْتِیْنِیْ بِأحَبِّ خَلْقِکَ
اِلَیْکَ یَأکُلُ مَعِیْ ھٰذَا الطَّیْر وَاعنٰی بِہٖ عَلِیًّا۔
ترجمہ: اے اللہ اپنی مخلو ق میں سے اپنا محبو ب
ترین انسان بھیج جومیرے ساتھ اس پرندے کے کھانے میں شریک ہو اور آنحضرت ؑ نے حضرت
علی ؑ کوہی مراد لیا تھا۔
میں نے عرض کیا کہ ہاں ایسا ہی ہے۔۔ توآپ ؑ نے
فرمایا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ خدا کے نبی و رسو ل اور ان کے اوصیا ٔ ایسے شخص کو دو
ست نہ رکھتے ہوںجس کو اللہ اور اس کا رسول دوست رکھتے ہوں؟ اور وہ اللہ ورسول کو
دوست رکھتا ہو؟ میںنے کہا نہیں۔۔ آپ ؑ نے فرمایا پس معلوم ہوا کہ خدا کے نبی و
رسول اور گذشتہ تمام مومنین علی ؑ کے محب تھے، اور یہ بھی ثابت ہو گیا کہ ان کے
مخالفین حضرت علی ؑ اور اس کے تمام محبوں کے دشمن تھے۔۔ میں نے عرض کیا بے شک۔۔
آپ ؑ نے فرمایا (پس نتیجہ یہ ہوا) کہ جنت میں علی ؑ کا محب ہی جائے گا خواہ
اوّلین سے ہو یا آخرین سے ہو لہذا وہ قَسِیْمُ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ ثابت ہوگئے۔
میں نے عرض کیا آپ ؑ نے میرا عقدہ حل کر دیا ہے۔۔
خدا وند کریم آپ ؑ کی جملہ مشکلات و مصا ئب رفع فرمائے مجھے اپنے علم خا ص سے کچھ
اور افادہ فرمائیں؟ آپ ؑ نے فرمایا اے مفضل۔۔ تو دریا فت کر۔۔ میں نے عرض
کیا:
_____________________________________________________
۱- مجمع البیان ۔۔۔ لاعطین الرَایۃ غدًا رجلا
یحب اللّٰہ و رسولہ و یحبہ اللّٰہ و رسولہ کرّار غیر فرّار لا یرجع حتّٰی یفتح
اللّٰہ علی یدیہ (الحدیث)
یا بن
رسول اللہ اگر علی ؑاپنے محبوں کو جنت اور دشمنوں کو جہنم بھیجیں گے تو رضوان اور
مالک ـــ کیا کریں گے؟ آپ ؑ نے فرمایا اے مفضل کیا تجھے معلوم ہے کہ
خدا وند کریم نے تمام مخلوق سے دو ہزار سا ل قبل عالمِ اروا ح میں جنا ب رسا لتمآ
ب کو اروا حِ انبیا ٔ پر مبعو ث فرمایا؟ اور آپ ؑ نے ارواحِ انبیا ٔ کو تو حید کی
دعوت دی؟ اور اپنی اطاعت واتباع کیلئے حکم دیا؟ اور بصورت ِاطا عت جنت اور بصورتِ
معصیت جہنم کا ان کے ساتھ وعدہ ووعید کیا؟ مفضل نے کہا ہاں۔۔ آپ ؑ فرمایا کیا
رسول خدا ۔۔خدا کی جانب سے وعدہ۔۔ وعید کے ضامن نہیںتھے؟ میں نے عرض کیا ہاں (بے
شک وہ ضا من ہیں) آپ ؑ نے فرمایا کیا علی ؑ ابن طالب ؑ ان کے خلیفہ اور ان کے بعد
ان کی امت کے امام نہیں؟ میں نے عرض کیا ہاں۔۔ آپ ؑ نے فرمایا کہ کیا رضوان اور
مالک شیعیانِ علی ؑ اور تمام محبا نِ علی ؑ کی مغفرت کے لئے دعا مانگنے والے
ملائکہ میں سے نہیں ہیں؟ میں نے عرض کیا ہاں ہیں، آپ ؑ نے فرمایا اے مفضل یہ
مخزون ومکنون علم میں سے ہے اس کو محفوظ کر اور نا اہل کے حوا لہ نہ کر۔۔۔ مفضل نے
اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہا کہ یہ علم کا وہ دروا زہ ہے جس سے ہزار دروا زے کھلتے
ہیں (ص۲۹۳ پر جو فرمان رسول گذر چکا ہے کہ اگر تمام لوگ علی
ؑ کی محبت پر جمع ہو جاتے تو خدا جہنم کو پیدا ہی نہ کرتا ۔۔۔ اس کا مطلب بھی اب
صاف واضح ہو گیا)۔
اب یہا ں یہ سوا ل پیدا ہوگا اگر دشمن علی ؑ کے
اعمال کو ضائع قرار دیا جائے تو عد لِ خدا وندی کے منا فی ہے کیونکہ مزدوری کرنے
کے بعد حق اُجرت سے محروم کرنا ظلم ہے تو اس کے کئی جوا بات ہیں:
(۱)
اصل کی مخالفت کے ساتھ فرعی نیکیا ں۔۔ نیکیاں ہی نہیں،جس طرح اصل
حکومت ظاہر یہ کا دشمن جزوی اطاعتوں کی وجہ سے حکومت کا مخلص یا اطاعت گزار نہیں
کہا جا سکتا اور اسکی جملہ نیکیوں کو تلف قرار دینا عین موا فق عقل اور اس کی سزا
مطابق عدل ہے۔
(۲) علی
ؑ کی مخا لفت کی وجہ سے چو نکہ اس کے تما م اعما ل منشا ٔخد ا کے مطا بق نہیں لہذا
وہ قا بل قبو ل نہیں کیونکہ عبا دت وہی مقبو ل ہے جو خدا کی مر ضی کے مطا بق ہو
اور وہ صر ف وہی ہو سکتی ہے جو خدا کے رسو ل اور اس کے صحیح قائم مقا م کی تعلیما
ت کے ما تحت ہو۔
(۳)
اعما ل کو مز دو ری قرا ر دینا ہی غلط ہے اگر انسا ن عمر بھر عبا داتِ
الٰہیہ میں مصروف رہے تاہم اس کے سابقہ ا حسا نا ت کا بد لہ نہیں ادا کیا جا سکتا
اور حق عبا دات ادا نہیں ہو سکتا۔۔۔کیو نکہ اس کے احسا نا ت حد شما ر سے بیش تر
ہیں خود فر ماتا ہے : اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لا تُحْصُوْھَا پس
جب عبا دا تِ انسا نیہ اس کے سا بقہ احسا نا ت کا بد لہ نہیں ہو سکتیں تو آئندہ
کے لیے ا ستحقاقِ اَجر اُن میں کس طر ح پید ا ہو گا؟
(۴)
بالفرض اگر ان عبا دا ت کو ا ٓئندہ کے انعا ما ت کے لیے مزدوری ہی کہا
جائے تاہم مز دوری قا بل اجر اس وقت ہو ا کر تی ہے جب منشا ٔ مالک کے مطا بق ہو۔۔
اور اس کی طر ف سے عا ئد شدہ تما م شرائط کا لحاظ رکھا جائے اور معر فت خدا ورسول
واما م عبا دت کی جملہ شرا ئط میں سے اہم ترین شرط ہے وَاِذَا فَاتَ
الشَّرْط فَاتَ الْمَشْرُوْط (جب شرط چلی جائے تو مشرو ط ختم ہو جا یا کر تا ہے)
پس معرفت اما مِ حق کے بغیراس کی عبا دت۔۔ عبادت ہی نہیں،لہذا اجر کا اس میں کوئی
استحقاق نہیں، خد ا فرماتا ہے: قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰہَ
فَاتَّبِعُوْنِیْ مقصد یہ ہے کہ اللہ کی
محبت اطاعت رسول کے بغیر قطعاً نہیں ہو سکتی اور رسول کی اطاعت کے متعلق
مَا اٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَانَھٰکُمْ عَنْہُ
فَانْتَھُوا جو کچھ تم کو رسول دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ روکے اس سے رک جا
ئواور رسول کی دی ہوئی چیزوں میں سے ولایت علی ؑ ہے جس کی لوگوں کے اجتما ع عظیم
میںبا زو پکڑ کر دکھا دکھا کے اتمامِ حجت کی اور فرما یا مَنْ کُنْتُ مَوْلاہُ
فَعَلِیّ مَوْلاہُ یہ حدیث غدیر وہ متواتر حدیث ہے جس کو ایک سو سے زائد صحابہ
کرام نے خود نقل کیا اور اس کے بعد دعا مانگی: اَللّٰھُمَّ وَا لِ
مَنْ وَالاہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ (الحدیث)
اے اللہ۔۔ تو اس کو دوست رکھ جو علی ؑ کا دوست ہو اور اس کو دشمن رکھ جو
علی ؑ کا دشمن ہو۔
پس معلوم ہوا کہ علی ؑ کا محب ہی محبت خدا حا صل
کر سکتا ہے۔۔۔ نیز اطاعت ِثقلین رسول کی عطا کی ہوئی چیزوں میں سے ہے جو کتب عا مہ
و خاصہ سے تواتر کے سا تھ منقول ہے۔۔ اور گذشتہ فصول میں متعدد مقامات پر اس کو
واضح کیا گیا ہے اور ’’ثقلین‘‘ کے مستقل عنوان کے تحت کا فی احادیث بھی جمع کر دی
گئی ہیں۔
نیز جنا ب رسالتمآبؐ نے علی ؑ کی محبت کو ایمان
اور اس کے بغض کو کفر و نفا ق سے تعبیر فر ما یا ہے۔۔ چنا نچہ ’’ص۱۵۶،۱۵۷‘‘ پر احادیث مذکور ہو چکی ہیں، پس علی ؑ کی مخالفت نبی کی مخالفت
اور نبی کی مخالفت خداکی مخالفت ہے پس مخالفت علی ؑ کے ہو تے ہوئے کوئی عبادت
مقبول ہو ہی نہیں سکتی۔۔ جب علی ؑ کی محبت ہی ایمان ہے تو بجز ایمان کے کوئی عبادت
قا بل قبول کیسے بن سکتی ہے؟
ظلم تو جب لا زم آتا کہ عبادت کو شرائط کے ساتھ
ادا کیا جا تا اور پھر اس کو معا ذ اللہ خدا ضا ئع کر دیتا۔۔ حالانکہ خدا ایسا ہر
گز نہیں کر تا، فر ما تا ہے میں محسنین کا اجر ضا ئع نہیں کر تا۔۔۔ لیکن جب شرائط
کو تر ک کر کے انسان خود ہی اپنے اعمال کو ضائع کر دے تو ان کا اجر سے محروم رہنا
کوئی منافی عدل نہیں۔