اس عقیدۂ فاسدہ کے لوگ۔۔۔ حضرات آئمہ طاہرین
علیہ السلام کے زمانہ میں تھے اور رفتہ رفتہ یہ عقیدہ مستقبل میں سرایت کرتا چلا آیا،
چنانچہ دورِ حاضر میں متعدد مقامات پر اس قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں جو صرف آلِ
محمد کی محبت اور ان کے دشمنوں سے بیزاری کو خدا کی خوشنودی و رضا مندی کیلئے کافی
سمجھتے ہیں، لہذا نہ عباداتِ ظاہر یہ کی بجاآوری کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور نہ
اعمالِ فاسدہ سے اجتناب کو ضروری قرار دیتے ہیں۔۔۔ انہی عقائد کے لوگوں کے متعلق
آئمہ اطہار کے بعض صحابہ نے آئمہ طاہرین ؑ سے سوال کیا اور انہوں نے ان عقائد
باطلہ کی پر زور تردید فرمائی۔
چنانچہ
مقدمہ تفسیر مرأۃ الانوار میں بصائرالدرجات سے بروایت مفضل ابن عمر منقول ہے جس کا
اختصار کے طور پر مرادی ترجمہ یہ ہے کہ حضرت امام جعفر صادقؑ نے مفضل کے سوال کے
جواب میں تحریر فرمایا۔۔۔ امّا بعد۔۔۔ میں تجھے اللہ کے تقویٰ۔۔۔ اطاعت و پرہیز
گاری۔۔۔ تواضع۔۔۔ اجتہاد۔۔۔ فرمانبرداری۔۔۔ اس کے پیغمبروں سے حسنِ عقیدت۔۔۔ خیر
میں سبقت اور خدا کی منع کردہ چیزوں سے اجتناب کی وصیت کرتا ہوں، تیرا خط پہنچا
میں نے اس کا مضمون سمجھا تیری خیروسلامتی پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں، تو نے جن
لوگوں کا ذکر کیا ہے میں ان کو جانتا ہوں۔۔۔تجھے معلوم ہوا کہ وہ کہتے ہیں کہ دین
معرفت ہی کا نام ہے اور معرفت حاصل ہو جانے کے بعد انسان کا جو جی چاہے کرتا پھر
ے، تو نے اپنے متعلق ذکر کیا ہے کہ میں بھی دین کی اصل معرفت ہی کو جانتا ہوں خدا
تجھے موفّق کرے، تو نے ذکر کیا ہے کہ وہ لوگ نماز۔۔۔ روزہ۔۔۔ زکواۃ۔۔۔ حج۔۔۔
عمرہ۔۔۔ مسجد ُالحرام،بیت ُالحرام اور شہرُالحرام سے مراد معرفت امام لیتے ہیں،
اسی طرح طُہر اور غسل وغیرہ سے مراد بھی معرفت امام لیتے ہیں۔۔۔۔۔ اور وہ لوگ کہتے
ہیں کہ تمام فرائض معرفت (رجل) امام ہی ہے اور جو شخص ان کی معرفت رکھتا ہواسے وہ
کافی ہے۔۔۔ لہذا عمل کی ضرورت نہیں بس اس کی نماز بھی ہو گئی اسی طرح روزہ۔۔۔
حج۔۔۔ غسل۔۔۔ تعظیم حرمات اللہ۔۔۔ تعظیم شہر الحرام وغیرہ سب اعمال اس کے ہو گئے،
گویا معرفت کے بعد یہ سب عبادات اس کی ہو گئیں۔۔۔ اور نیز وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ
تمام فواحش مثلاً شراب۔۔۔جوا۔۔۔سود۔۔۔ قتل وغیرہ سب (معرفت) رجل (دشمن اہل بیت) کا
نام لیتے ہیں پس جس ان سے نفرت کی تو اس نے گویا تمام برائیوں سے اجتناب کر لیا
ظاہری پرہیز کی کوئی ضرورت نہیں، اس کے بعد تو نے سوال کیا ہے کہ آیا یہ باتیں
درست ہیں یا غلط ؟
لہذا اب میں تیرے لئے وضاحت سے بیان کرتا ہوں تاکہ
تجھ پر کوئی اشتباہ نہ رہ جائے اور تو تاریکی میں نہ پڑا رہے اور تیرے لئے حلال و
حرام کو بھی وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہوں اور تجھے پہچنواتا ہوں تاکہ تو پہچان لے
اور انکار نہ کرے ’’وَلا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ‘‘ میں تجھے متنبہ کرتا ہوںکہ جو
شخص ایسا دین اختیار کرے جس طرح تو نے ذکر کیا ہے وہ میرے نزدیک مشرک باللہ ہے اس
کے مشرک ہونے میں ذرّہ بھی شک نہیں۔۔۔۔۔ میں تجھے آگاہ کرتاہو ں کہ یہ وہ لوگ ہیں
جنہوں نے ایک با ت سن لی اور اس کے اہل سے اس کو سمجھنے کی کو شش نہ کی اور اپنے
من ما نے قیا سات سے اس کی حد ود مقرر کردیں اور چیزوں کو جن حدود پر رکھنے کا حکم
دیا گیا ہے ان حدوں پر نہ رکھا گیا پس یہ چیز اللہ اور اس کے رسول پر افترأ ہے
اور جھوٹ ہے نیز نافرمانی پر جرأت اور انتہائی درجہ کی جہا لت ہے، اگر وہ لوگ
چیزوں کو اپنی مقررہ حدوں پر رکھتے اور قبول کر لیتے تو اس میں کوئی حرج نہ تھا
لیکن ان لوگو ں نے تحریف کی اور حدود سے تجاوز کیا لہذا انہو ں نے غلط کیا اور خدا
کے اوامر ونواہی کی تو ہین کی، میں تجھے خبر دار کر تاہو ں کہ خدا نے اشیا ٔ کی
حدود اس لئے مقرر فرمائی ہیں کہ ان سے تجاوزنہ کیا جائے۔
پھر میں تجھے حقیقت سے آگاہ کرتاہوں کہ خدا نے
اپنے دین اسلام کو پسند فرمایا۔۔۔ لہذا کسی شخص کا کوئی عمل بغیر اس دین کے قابل
قبول نہیں، اسی دین کے لیے انبیا ٔ ورسل بھیجے اور فرمایا کہ میں نے اس کو حق کے
ساتھ بھیجا اور وہ حق کے ساتھ اترا، پس افضل دین رسولوں کی معرفت ہے ان سے ولایت
اوران کی اطاعت حلال ہے، پس وہی چیز حلال ہے جس کو وہ حلال کہیں اوروہی چیز حرام
ہے جس کو وہ حرام کہیں، وہ دین کی اصل ہیں اوران سے فروعاتِ حلال نکلتی ہیں جو ان
سے متشعب ہوتی ہیں اور ان کی شا خوں میں سے ہیں ان کا اپنے شیعوں اور موالیوں کو
حلال کا حکم دینا یعنی نماز۔۔۔ روزہ۔۔۔ حج۔۔۔ عمرہ۔۔۔ تعظیمِ حرمات اللہ وغیر ہ
حتی کہ سب نیکیوں کے اعمال، چنانچہ ارشاد فرماتاہے:
٭ اِنَّ
اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَائِ ذِی الْقُرْبٰی وَ
یَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ وَالْیَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ
تَذَکَّرُوْن۔
ترجمہ: تحقیق خدا انصاف۔۔۔ احسان۔۔۔ا ور قریبیوں
کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بد کاری۔۔۔ برائی اور سرکشی سے منع فرماتا ہے اور
تمہیں نصیحت فرماتاہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔
پس انبیا ٔ کے دشمن حرام محرم ہیں اور انکے دوست
احباب وغیرہ بھی ان ہی کے حکم میں ہیں، پس وہی ظاہری و باطنی بدکاریاں
شراب۔۔۔جوا۔۔۔زنا وغیرہ، سب وہی لوگ ہیں یعنی انبیا ٔ کے دشمن حرام کی اصل ہیں
اوروہی شرّ اورشرّ کی اصل ہیں باقی تمام بدکاریاں اسی اصل کی شاخیں ہیں اور انبیا
ٔ کی تکذیب۔۔۔ ان کے اوصیا ٔ کا انکار۔۔۔ فواحش کا ارتکاب۔۔۔ محر ّمات کی بجا
آوری وغیرہ انہی کے فروعات سے ہیں لہذا ن لوگوں کی اطاعت و محبت سے منع کیا گیا
ہے۔
اب اگر کہہ دوں کہ بد کاری۔۔۔ شراب۔۔۔ جوا۔۔۔
زنا۔۔۔ میتہ اور خنزیر وغیرہ سب (معرفت رجل ،(دشمن دین) کا نام ہے کیونکہ میںجانتا
ہوں کہ وہ شخص دشمن دین ہونے کی حیثیت سے تمام حرام افعال کی اصل ہے اور مذکورہ
بدکاریاں اور برائیاں سب اس کی شاخیں ہیں اور ایک اعتبار سے درست اور بجاہے کیوں
کہ خدا نے جس طرح اصل کو حرام قرار دیا ہے اسی طرح اس کی فرعات بھی حرام کی ہیں
اور اس کی ولایت بھی حرام اور نا جائز کی ہے، پس بجا ہے اگر میں کہہ دوں کہ ان
تمام برائیوں سے مراد فلاں شخص ہے۔
پھر تجھے یہ بھی بتا دوں کہ دین اور دین کی اصل
بھی ایک شخص ( کی معرفت ) ہے یعنی امامِ امت اور امام زمان، جس نے اس کو پہچانا اس
نے اللہ کو پہچانااور جس نے اس کو نہ پہچانا اس نے اللہ کو اور اس کے دین کو نہ
پہچانا،پس اس کا جاہل۔۔۔ اللہ کا اور اس کے دین کا جاہل ہے کیونکہ انسان۔۔۔
اللہ۔۔۔ اس کے دین اور حدودِ احکامِ شرعیہ کو امام کی معرفت کے بغیر جان سکتا ہی
نہیں اور یہ مقولہ کہ( اللہ کا دین معرفت رجال کا نام ہے) اس کا یہی مطلب ہے، یہاں
تک کہ آپ نے فرمایا اگر میں کہہ دوں کہ نماز۔۔۔ روزہ۔۔۔ زکوۃ۔۔۔ حج و عمرہ وغیرہ
حتی کہ تمام اعمالِ صالحہ۔۔۔ امورِ خیر۔۔۔ جملہ فرائض سے مراد نبی علیہ السلام ہیں
جو ان چیزوں کے لانے والے ہیں تو بالکل درست ہے، کیونکہ آنجنابؐ ہی ان تمام
فروعات کی اصل تھے اگر وہ نہ ہوتے تو یہ چیزیں کون سناتا اور سمجھاتا؟ پس وہ ہی
اصل ہیں ان تمام امورِ خیر اور اعمالِ صالحہ کی اور سب اعمالِ صالحہ ہی ان کی
فرعیں ہیں، پس بنابریں تمام فروعات کو اگر اپنی اصل کے نام سے پکارا جائے تو اس
میں کیا قباحت ہے؟ بالجملہ یہ ثابت ہو گیا کہ دین خدا اس کی اصل معرفت ہی کا نام
ہے کیونکہ اگر وہ نہ ہوتی تو یہ ہر گز نہ پہچانے جاتے، لہذا ان کا عارف دین کا
عارف ہے اور ان کا جاہل دین خدا کا جاہل ہے چونکہ خدا انہی انسانوں کے ذریعہ سے
پہنچا ہے، تو یہ کہنا بالکل بجا اور درست ہے کہ تمام فرائض و احکام شریعت شخصی
معرفت کا نام ہے اور وہ معرفت امام ہے۔
لیکن جو تو نے ذکر کیا ہے کہ وہ لوگ صرف معرفت ہی کو
کافی جانتے ہیں اور اعمال کی ضرورت محسوس نہیں کرتے وہ سراسر غلطی پر ہیں، کیونکہ
فروعات کو چھوڑ دینے کے بعد اصل سے تمسک پکڑنے کا دعویٰ بالکل بے فائدہ ہے، جس طرح
لا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہنے کا کوئی فائدہ نہیں جب تک اس کے ساتھ مُحَمَّدُ
الرَّسُوْلُ اللّٰہ زبان پر جاری نہ کرے ( کیونکہ توحید جب اصل ہے اور نبوت
فرع ہے اور اصل کا اقرار بغیر اس کی فرع کے لغو اور بے فائدہ ہے) بس اسی طرح حضرت
رسالتمآبؐ سے تمسک کر کے باقی فروعات اور اعمال صالحہ سے دست برداری اسی معنی میں
ہے یعنی معرفت رجال باطن ہے اور اعمال صالحہ اس کا ظاہر ہیں اور ظاہر کو ترک کر کے
باطن سے تمسک پکڑنا بالکل بے فائدہ اور لغو ہے، معرفت امام اصل اور جملہ
عبادات فرع یا یہ کہ معرفت امام باطن اور جملہ عبادات اس کا ظاہر ہیں پس فرع اور
ظاہر کے بغیر اصل اور باطن سے تمسک کرنا سراسر غلط بلکہ شرک ہے۔
اور دشمن نبی اور دشمن امام تمام برائیوں کی اصل
ہے اور تمام برائیاں اس کی فروع ہیں، تو جو شخص اصل سے نفرت کرتا ہو وہ برائیوں سے
نفرت نہ کرے جو اس کی فروعات ہیں وہ اسی اصل کی پیداوار ہیں تو وہ بالکل جھوٹا ہے
کیونکہ دشمن امام سے نفرت و بیزاری کرنا اصل اور باطن ہے اور تمام برائیوں سے نفرت
کرنا اس کی فروع اور ظاہر ہے اور اصل کی پہچان فروع سے اور باطن کی پہچان ظاہر سے
ہی ہوا کرتی ہے۔
ہاں یہ جملہ کہ معرفت حاصل کر لو اور جو جی چاہے
کرو درست ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ امام کی معرفت حاصل کر لینے کے بعد جتنی
نیکی کرو مقبول ہے خواہ کم ہو یا زیادہ اور بجز معرفت کے کوئی نیکی۔۔۔ نیکی ہی
نہیں( الخبر)
زاہد تیری نماز کو میرا سلام ہے
بے حبِّ اہل بیتؑ عبادت حرام ہے