گذشتہ
عنوانات کے ذیل میں قرآن مجید کے دیکھنے، پڑھنے اور سننے کے متعلق احادیث سے
روشنی ڈالی جا چکی ہے، اس مقام پر رسم قرآن خوانی جو ہمارے ہاں عام طور پر رائج
ہے کہ متعلق عرض کر تا ہوں۔
قرآن کا پڑھنا روحانی برکات اور اُخروی نجات کے
علاوہ خانگی حالات بلکہ جملہ ظاہری معاملات میں بھی آفات و بلیات کی دوری کا مو
جب ہے، اس سے دل کی کدورتیں رفع ہو تی ہیں اور رجحانات میں اچھائی پیدا ہو تی ہے،
چہرہ پر ہشاشت وبشاشت کے آثار نمودار ہو جاتے ہیں، نئے مکان کو پہلے پہلے قرآن
خوانی کر کے مسکن بنانا خیر و برکت کا موجب ہے، ہرمصیبت و رنج کے وقت قرآن خوانی
موجب دفعیہ ہو تی ہے، نیز قرآن خوانی کے بعد دعا موردِ استجابت ہوا کرتی ہے،
چنانچہ گذشتہ بعض احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔
بوقت نزع قرآن خوانی مستحب ہے خصوصاً بعض سورتوں
(صافآت،یسیٓن ) کے متعلق تاکید وارد ہے:
(۱)
روایت میں ہے کہ جس مر نے والے کے پاس بوقت موت سورہ ص ٓ اور سورہ
یٰسیٓن کی تلاوت کی جائے تو رضوان خازنِ جنت اس کے پاس پہنچ کر اس کو شرابِ جنت سے
سیراب کر تا ہے پس وہ سیراب ہوکر مرے گا اورسیراب ہوکر اٹھے گا۔
(۲)
روایت میں ہے کہ جس مسلمان کے پاس بوقت نزع سورہ یٰسیٓن کی تلاوت کی
جائے تو ہر ہر حرف کے بدلہ میں دس فرشتے اس کے پاس اُترتے ہیں جو اس کے سامنے کھڑے
ہو کر اس کیلئے طلب رحمت و دعائے مغفرت کرتے ہیں اور اسکے غسل دینے میں ساتھ ہوتے
ہیں پھر اس کے جنازہ کی تشییع کرتے ہیں اور اس کے جنازہ اور دفن میں شریک رہتے
ہیں۔
(۳)
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے منقول ہے جس میں سورہ صافآت کے
پڑھے کا حکم ہے، آپ ؑ سے سوال کیا گیا کہ ہم تو پہلے سورہ یسیٓن پڑھتے تھے؟ آپ ؑ
نے فرمایا جس کے سرہانے یہ سورہ پڑھاجائے اس کی روح آسانی سے قبض ہوجاتی ہے (گویا
سورتوں کے خاصے جدا جدا ہیں) ان کا وہ خاصہ تھا جو بیان ہو چکا اور اس کا یہ خاصہ
ہے، دونوں کا پڑھنا زیادہ اچھا ہے۔
(۴)
جناب رسالتمآبؐ سے مروی ہے کہ قبرستان میں سورہ یٰسیٓن کی تلاوت سے
قبرستان والوں کے عذاب میں تحفیف ہوتی ہے، نیز بعض روایات میں آیۃالکرسی ھُمْ
فِیْھَا خَالِدُوْن تک پڑھنے کا حکم وارد ہے۔
بہر کیف بوقت نزع قرآن خوانی اور بالخصوص مذکورہ
سورتیں پڑھنا آسانی موت، تحفیف عذاب اور برکت کا باعث ہیں، لیکن روضہ خوان حضرات
(نااہل ذاکرین وواعظین)عوام کو ہنسانے اور تحسین حاصل کرنے کیلئے اپنے قلبی جذبات
کو یوں تسکین دیتے ہیں۔۔۔۔ چنانچہ کہتے ہیں قرآن کا دعویٰ ہے کہ اسکے ذریعے سے
مردوں کو زندہ کیا جاسکتا ہے لیکن مولوی صاحبان کی قرآن خوانی الٹا اثر رکھتی ہے
کیونکہ بوقت نزع ملّاصاحب کو بلایا جاتا ہے کہ قرآن پڑھو جو نہی انہوں نے قرآن
کھولا اور سورہ یسیٓن کو شروع کیا تو ابھی دوسری یا تیسری مبین تک نہیں تک نہیں
پہنچنے پاتے کہ حضرت ملک الموت پہنچ کر رو ح قبض کرلیتا ہے، ادھر خدافرماتا ہے کہ
قرآن سے مردوں کو زندہ کیا جاتا ہے اور یہ ملّا لوگ قرآن سے زندوں کو مار بیٹھتے
ہیں! اس بیا ن کے نتیجہ میں حاضرین مجلس میں بے تحاشا قہقہ اور واہ واہ ہاہاہا کہ
بے تکی صدائوں سے فضاگونج اٹھتی ہے مقررنے سمجھا کہ میں نے اچھا نکتہ بیا ن کردیا
اورمجلس خوب بن گئی حالانکہ وہ جاہل یہ نہیں خیا ل کرتا کہ میرے اس بیہودہ بیان سے
معصومین کے کلام کے ساتھ کیا برتاو ہوا؟ ان کے اقوال و فرمائشات کی کس قدر توہین
ہوئی ہے؟ اور قرآن مجید کے وقار کا عوام کے دلوں میں کیا حشر ہوا؟ اپنا ایمان ضا
ئع، عوام کے عقائد ورحجانات تباہ، صرف اختتام مجلس پر چار دام لے کر رخصت ہوئے!
اُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُالضَّلالَۃَ
بِالْھُدٰی فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُھُمْ
یہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلہ میں گمراہی کو
خرید لیا پس ان کی یہ تجارت قطعاً نفع بخش نہیں۔
بعض رسوم نیم خوان ملّاوں نے اپنی طرف سے شکم پری
کی خاطر ایجاد کی ہوئی ہیں مثلاً نما ز جنازہ پڑھ چکنے کے بعد کچھ دیر میت کی چار
پائی کے اس پاس بیٹھ رہتے ہیں اور کچھ نہ کچھ پڑھتے رہتے ہیں کچھ دیر بعد حاضرین
کہتے ہیں ملّاصاحب ہم نے جو کچھ ہم نے پڑھاہے تیرے مِلک میں دیا ہے اس کے بعد
قرآن خوان لوگ ایک ایک یا دو دو ختم قرآن یا اس سے کم وبیش ملّا صاحب کی مِلک
میں دیتے ہیں اورملّا صاحب ان سب کو قبول کرتا جاتاہے جب تملیک کا ایجاب وقبول ختم
ہوتا ہے تو ملّا صاحب اپنی پڑھی ہوئی کوئی چیز اور حاضرین سے وصول شدہ املاک سب
میت کو تملیک کردیتا ہے جہاں تک احادیث کاتعلق ہے اورجس حد تک مجھے معلوم ہے نہ
خدا اور رسول کا حکم ہے اورنہ ائمہ طاہرین کی طرف سے اس کے متعلق کچھ وارد ہوا ہے،
غالباً ہندوئوں، برہمنوں کی اس موقعہ کی رسوم کو ملّالوگوں نے اپنے رنگ میں ڈھا ل
کر ایک اسلامی عمل کی شکل دے دی ہے جس سے سوائے شکم پرستی کے اورکوئی مقصد نہیں
اوریہ معلوم رہے کہ صاحب شریعت کے فرمان کے بغیر کسی رسم کو شرعی عنوان سے اداکرنا
بدعت کہلاتا ہے اور وہ حرام ہے ویسے میت کے لئے جس قدر اعمال کئے جائیں اس کے لئے
نوافل پڑھی جائیں قرآن خوانی کی جائے صدقہ یا خیرات کی جائے یا کوئی اورعمل صالح
کیا جائے اوراس کا ثواب میت کی رو ح کو ہدیہ کیا جائے تو ثواب ہے اور میت کے لئے
نفع بخش ہے اور بجائے اس کے کہ ملّا صاحب کی وساطت سے یہ ثواب میت تک پہنچایا جائے
اگر محمد وآل محمدعلیہم السلام کو درمیانی وسیلہ یا واسطہ قرار دیا جا ئے تو بدر
جہا بہتر ہوگا۔
مرنے کے دوسرے یا تیسرے روز مولوی صاحبان نے ایک
اور رسم ایجاد کی ہوئی ہے جسے عام زبان میں قُل سے تعبیرکیا جاتا ہے اس کو ملّا
لوگ ایک خاص طریقہ سے ادا کرتے ہیں، قرآن کی خاص سورتیں اور خاص آیتیں پڑھی جاتی
ہیں مولوی کے سامنے پہلے کچھ سامان رکھا جاتا ہے اور اسکے بعدمولوی صاحب پڑھنا
شروع کر دیتا ہے۔
عراق سے واپسی کے بعد ایک عزیز کی موت کے دوسرے
روز مجھے اس کی قُل خوانی کی دعوت دی گئی میں نے ہر چند آثار آئمہ اور مذہب
امامیہ سے اسے تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن کہیں اس کا سراغ نہ مل سکا تو پھر میں نے
خود جانے سے انکار کر دیا اور ان کی اس رسم کی ادائیگی سے باز آنے کی دعوت بھی دی
لیکن چونکہ مولوی صاحبان نے مدت مدید سے اس کو ایجاد کیا ہوا ہے لوگوں کے خیالات
کا رُخ بدلنا کار ے وارد کہتے ہیں ہماری ناک کٹ جائے گی لوگ کہیں گے بڑا نا اہل
تھا کہ رسم قُل خوانی تک ادا نہ کرسکا۔
اسی قل خوانی کے موقعہ پر بعض مقامات پر ملّا لوگ
بہت کچھ وصول کر لیا کرتے ہیں، میت کے ورثا ٔ میت کی اکثر مرغوب خاطر اشیا کو
ملّاصاحب کی نذر کر دیتے ہیں، چنانچہ بعض روسا ٔ و امرا ٔ کے مرنے پر ان لوگوں کے
گھر عید ہو ا کرتی ہے کیونکہ انہیں ہزاروں کا مال وصول ہو جاتا ہے شاید یہ لوگ
سمجھتے ہو ں کہ طرزِ عمل یا مولوی کی اس قدر تواضع سے مرنے والے کیلئے کچھ فائدہ
ہو گا لیکن یہ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔
ہاں اگر میت کیلئے صدقات و خیرات کا ارادہ ہو تو
مذہب اہل بیت کے طریقہ سے مجتہدین عظام کے فتاویٰ کے مطابق عمل کرے تا کہ کرنے
والے کو بھی فائدہ ہو اور جس کیلئے کیا گیا اس کیلئے بھی سود مند ہو نہ خرچ ضائع
ہو نہ ثواب باطل ہو، اس قسم کے طریقے ہندوئوں کے رسوم کے مقابلہ میں غیر امامی
ملّائوں نے کسب معاش کیلئے ایجاد کئے تھے۔
شیعہ علمأ کی چونکہ کمی تھی لہذا دیکھا دیکھی سے
شیعہ نیم خوان ملّائو ںنے جب ان لوگوں کی آمدنی پر نظر کی تو طبیعت للچا گئی اور
اسی طرز عمل کو اپنا کر کسب معاش کا ذریعہ بنا لیا حالانکہ ایسی کمائی نا جائز اور
ان رسوم کا شرعی عنوان سے ادا کر نا بدعت اور حرام ہے البتہ کفن پر جس قدر ممکن ہو
قرآن کا لکھنا مستحب ہے۔