التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

عابس بن ابی شبیب شاکری

زیارت ناحیہ مقدسہ اور رجبیہ میں اس پر سلام وارد ہے، نامی گرامی بہادر لاثانی شہسوار اور فن حرب و ضرب میں آزمودہ کار سپاہی تھا، حضرت علی ؑ کے نامور شیعوں میں سے تھا، نیز بلند پایہ خطیب۔۔ عبادت میں شب بیدار اور تہجد گزار بزرگ تھا بلکہ پورا قبیلہ بنی شاکر وِلائے آل محمد سے سرشار تھا اور حضرت امیر ؑ نے جبھی تو فرمایا تھا بروز صفین کہ اگر بنوشاکر کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ جاتی تو زمین پر اللہ کی عبادت اس طرح ہوتی جس طرح عبادت کا حق ہے اور یہ سب کے سب شجاع اور غیور تھے۔
ابومخنف سے منقول ہے کہ جب اٹھارہ ہزار کوفیوں نے امیرمسلم کی بیعت کر لی اور مختار کے گھر میں شیعان کوفہ کا اجتماع ہوا تو حضرت امیرمسلم کی طرف خطاب کر کے عابس بن ابی شبیب شاکری نے تقریر کی جو فصاحت و بلاغت میں بے نظیر تھی، مقصد یہ تھا کہ ہم لوگوں کے دلوں کی باتیں نہیں جانتے اور نہ ان کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں آپ کو ہم دھوکا میں نہیں ڈالتے بلکہ اپنے نفس کی خبر عرض کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ میرا سر حاضر ہے جہاں بھی مجھے بلایا جائے حاضر ہوں گا اور آپ ؑ کے ہر حکم کی تعمیل کروں گا اور جب تک قبضہ تلوار پر ہاتھ ہے آپ ؑکے دشمنوں سے جہاد کروں گا اور اس سے صرف خوشنودی خدا کے سوا اور کچھ بھی ہماری غرض نہیں، پس حبیب ابن مظاہر نے اٹھ کر عابس کی تائید کی پس حضرت مسلم نے کوفیوں کے ظاہر حال سے متاثر ہو کر امام حسین ؑ کے نام خط لکھا اور عابس اور شوذب دونوں کو خط دے کر روانہ فرمایا چنانچہ دونوں مکہ سے ہی امام ؑ کے ہمرکاب ہو کر کربلا میں آئے تھے۔
’’بحار الانوار‘‘ سے منقول ہے کہ جب عابس نے شرف شہادت حاصل کرنے کا ارادہ کیا تو شوذب کے پاس آیا اور کہا اے شوذب! آج کے دن کے متعلق کیا ارادہ ہے؟ تو شوذب نے جواب دیا میں عزم مصمّم کر چکا ہوں کہ فرزند رسول کے قدموں میں اپنا سر قربان کروں گا، عابس نے کہا میرا تیرے متعلق پہلے سے یہی گمان تھا اپنے مولا کی خدمت میں مل کر چلیں تاکہ ہمیں شہدأ کی فہرست میں داخل فرما لیں اور یقین جانئیے کہ آج کے بعد یہ موقعہ ہرگز ہاتھ نہ آئے گا، آج تو وہ دن ہے کہ اگر انسان چاہے تو تحتُ الثریٰ سے ترقی کر کے آسمان تک پہنچ سکتا ہے اور انتہائی تاریکی اور پستی سے انتہائی بلندی تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
پہلے شوذب رخصت لے کر میدان میں گیا جب وہ شہید ہو گیا تو عابس نے عرض کیا آقا! خدا کی پوری مخلوق میں سے میرے نزدیک کسی کی قدرومنزلت آپ ؑ کے برابر نہیں، اگر میں کر سکتا تو ضرور ان مصائب کا طوفان آپ ؑ سے ہر ممکن کوشش کر کے دُور کرتا۔۔۔ لیکن کیا کروں بے بس ہوں آپ ؑ میری قربانی قبول فرمائیں اور اذن جہاد عطا فرمائیے۔۔ امام ؑ نے اجازت دی اس نے امام ؑ کا آخری وداعی سلام کیا اور عرض کیا آقا! گواہ رہنا کہ میں آپ ؑکے اور آپ ؑ کے باپ کے دین پر تادمِ شہادت برقرار ہوں، پھر غضبناک شیر کی طرح میدان کارزار کی طرف بڑھا اور مقابلہ کے لئے آوازیں بلند کیں۔
ربیع بن تمیم جو فوج اشقیا ٔ سے تھا کہتا ہے میں عابس کو پہچانتا تھا اور اس کی شجاعت کو آزما چکا تھا اور بڑے بڑے خطرناک اور سنگین مقامات پر خصوصاً جنگ صفین میں عابس کو میں نے دیکھا تھا، پس عابس للکارتا ہوا میدان میں نکلا تو میں نے قوم کو پکار کر کہا:  اَیُّہَا النَّاس ھٰـذَا اَسَدُ الْاَسْوَدِ  لوگو! یہ شخص شیروں کا شیر ہے  ھٰـذَا ابْنُ شَبِیْب  یہ عابس بن شبیب ہے۔۔۔۔۔ تم میں سے جو بھی جنگ میں اس کے مقابلے میں آئے گا مجال نہیں کہ بچ جائے گا۔
جب لشکریوں نے میری آواز سنی تو ان کے حوصلے پست ہوگئے اور غصے ٹھنڈے ہوگئے پس کسی میں جرأت نہ تھی کہ مبارزہ کے لئے آگے بڑھتا، جب عابس نے دیکھا کہ مقابلے کے لئے کوئی نہیں آتا تو پھر پکارنا شروع کیا، ابن سعد ملعون نے دیکھا تو اسے یہ بات ناگوار گزری۔۔ پس حکم دیا کہ اس پر پتھر برسائے جائیں، جب عابس نے یہ دیکھا تو غصے سے اپنی زرّہ اتار پھینکی اور خود کو سر سے دور کر دیا اس طرح حملہ کیا کہ کسی کو ٹھہرنے کا یارا نہ تھا اس کے سامنے اس طرح بھاگتے تھے جس طرح شیر کے سامنے لومڑیوں کا ریوڑ۔۔۔ پس مارتا اور بھگاتا یہاں سے وہاں تک اور وہاں سے واپس یہاں تک جولان لگاتا رہا۔
ربیع بن تمیم کہتا ہے خدا کی قسم میں دیکھتا تھا کہ جس طرف منہ کرتا تھا دو دو سو آدمیوں کو پچھاڑتا ہوا آگے چلا جاتا تھا، آخر پتھروں اور نیزوں کے زخموں سے چور ہو کر گر پڑا تو اس کا سر تن سے جدا کر لیا گیا۔۔۔ راوی کہتا ہے بہادروں کی ایک جماعت عابس کے سر کو ایک دوسرے سے لینے میں کوشش کرتی تھی، ہر ایک کہتا تھا میں نے قتل کیا ہے تاکہ انعام کا استحقاق ثابت ہو لیکن جب عمربن سعد کے پاس جھگڑا پہنچا تو اس نے کہا سب غلط کہتے ہو کس کی جرأت ہے کہ عابس کو تنہا قتل کر سکے؟ یہ کیوں نہیں کہتے کہ سب اس کے قتل میں شریک تھے؟