التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

شہزادہ قاسم بن حسن ؑ

ان کی والدہ ماجدہ کا نام رملہ تھا اورامام حسن ؑ کی شہادت کے وقت ان کی عمر تقریباً تین چار برس تھی اورپھر امام حسین ؑ کے زیرسایہ انہوں تربیت پائی، کتب معتبرہ میں کہیں ان کی شادی کا ذکر موجود نہیں اورجناب فاطمہؑ بنت حسین ؑ جو کربلامیں موجود تھیں وہ حضرت حسن مثنیٰ کی زوجہ تھیں اوران کاشوہر حسن مثنیٰ خود بنفس نفیس میدان کربلامیں موجود تھا اورامام حسین ؑکی دوسری شہزادی فاطمہ نامی کربلامیں موجودنہ تھی۔۔ لہذا حضرت قاسم کی شادی کا افسانہ محض غلط اوربے بنیاد ہے۔
نیز امام حسن ؑ کے جوان عمر شہزادے جب موجود تھے تونابالغ شہزادہ کے ساتھ جوان شہزادی کا عقد کرنا امام عالیمقام ؑ کی شان سے نہایت بعید ہے!
امام زین العابدین ؑسے منقول ہے کہ جب دسویں کی رات اپنے اہل واصحاب کو جمع کرکے امام مظلوم ؑ نے ارشاد فرمایا:
اے میرے اہل وصحاب!  اپنے اونٹوں کو تیار کرلواوراپنے کو بچاکر یہاں سے چلے جاؤ کیونکہ یہ لوگ صرف مجھے ہی کو قتل کرنا چاہتے ہیں اورجب میں قتل ہوجاؤں گا تو تمہیں کوئی بھی تکلیف نہ دے گا اور میں اپنی بیعت تمہاری گردنوں سے اٹھالیتاہوں۔
یہ سننا تھا کہ تمام حاضرین نے بیک آواز عرض کیا اے ہمارے سیدوآقا ہم ہرگز آپ ؑ کے قد موں سے جدانہ ہوں گے، لوگ کہیں گے کہ انہوں نے اپنے امام ؑو  پیشوا کو تنہاچھوڑ دیا ہے؟ نیز بروز محشر خدا کے سامنے کیا عذر پیش کریں گے؟ بس ہم تو آپ ؑ کے قدموں میں ہی شہید ہوں گے، پس آپ ؑ نے فرمایا:
سن لو! کل میں اورتم سب لوگ یہا ں مارے جائیں گے ہم میں سے کوئی بھی نہ بچے گا۔
توتمام نے یہ سن کرعرض کیا ہم اللہ کا شکر کرتے ہیں کہ ہمیں آپ ؑ کی رکاب فخرِ انتساب میں شرفِ شہادت پرفائز ہونے کا موقعہ مل رہاہے اوراس سے زیادہ خوش قسمتی اورکیا ہوسکتی ہے؟ حضرت امام حسین ؑ نے ان کو جزائے خیر کہی۔
اتنے میں شہزادہ قاسم نے عرض کیا اے آقا!کیا میں بھی شہید ہوں گا ؟توآپ ؑ نے فرمایا بیٹا تم موت کو کس طرح جانتے ہو؟توشہزادے نے نہایت دلیری سے جواب دیا آقا موت کو شہد سے بھی شیریں تر سمجھتاہوں، آپ ؑ نے فرمایاتیرا چچا تجھ پر قربان ہو، ہاں اے نورِ چشم تو بھی درجہ شہادت پر فائز ہوگا، بلکہ میرا شیرخوار عبداللہ بھی شہید ہوگا!
غیور شہزادے نے جب شیر خوار کی شہادت کی خبر سنی تو بے تاب ہوگئے اورعرض کرنے لگے آقاکیا یہ ظالم ہمارے خیموں میں گھس آئیں گے؟ اوربچوں کو شہید کریں گے؟ امام ؑ نے فرمایا نہیں اے نورِچشم جب پیاس کی شدت ہوگی خیمہ میں پانی دستیاب نہ ہوگا تومیں بچہ کو اپنے ہاتھ پر اٹھائوں گا اورمیرے ہاتھوں پرہی وہ کسی ظالم کے تیر کا نشانہ بن جائے گا اوراس کے بعد پھر میری شہادت کی باری آئے گی حضرت سجاد ؑ فرماتے ہیں کہ جب آپ ؑ نے یہ تقریر فرمائی توذرّیت رسول میں آواز گریہ بلند ہوئی۔
صبح سویرے حضرت قاسم آلاتِ حرب وضرب سے آراستہ ہوکرخدمت امام ؑ میں حاضر ہوا جب امام ؑ کی نظر شہزادہ پر پڑی کہ موت کے لئے تیاری کرکے آیا ہے تو آگے بڑھ کر اپنے دونوں بازو شہزادے کی گردن میں حمائل کردئیے پس دونوں چچا بھتیجا روروکر وہیںحالت غش میں خاک پر لیٹ گئے، تھوڑی دیربعد شہزادے نے نہایت عجز و انکساری سے اذنِ جہاد طلب کیا لیکن امام ؑ نے تلقین صبر فرمائی پھر شہزادے نے رو رو کر امام ؑ کے ہاتھ اورپائوں کو بوسے دینے شروع کردئیے حتیٰ کہ امام ؑ نے رخصت دے دی۔
امام عالیمقام ؑ نے شہزادہ کا گریبان چاک کردیا اورعمامہ کے کنارہ کو چیر کر دونوں طرف سے شہزادہ کا تحت الحنک درست کیا اورکفنی پہنادی، پھرتلوار کو شہزادہ کی کمر سے باندھ کر رخصت فرمایا اورشہزادہ بچشم گریاں میدان کی طرف بڑھا۔
’’منتخب‘‘ میں ہے کہ جب امام ؑ کے اصحاب راہِ خدا میں کام آچکے اورامام حسن ؑ کی اولاد کی باری آئی توامام ؑ نے آواز بلند کی:  وَا غُرْبَتَاہُ وَا عَطْشَاہُ اور پھر استغاثہ کی صدا بلند کی:  وَا قِلَّۃَ نَاصِرَاہُ اَمَا مِنْ مُجِیْرٍ یُجِیْرُنَا اَمَا مِنْ نَاصِرٍ یَنْصُرُنَا؟
اتنے میں خیموں سے دولڑکے برآمد ہوئے جن کی چاندسی شکلیں تھیں ایک کا نام احمد اوردوسرے کا نام قاسم، یہ دونوں امام حسن ؑکے شہزادے تھے اس وقت قاسم کی عمر چود ہ برس تھی، امام ؑ نے فرمایا بیٹا کیا خود چل کرموت کی طرف جاتے ہو؟ توشہزادے نے عرض کیا یہ کیسے ہوسکتاہے کہ آپ ؑ دشمنوں میں یک وتنہاہوں کوئی یارو یاورنہ ہو اورہم چپ بیٹھے رہیں؟ ہماری جانیں آپ ؑ پرنثار ہوں اورہماری روحیں آپ ؑ کی روح کا فدیہ ہوں۔
شیرِ کردگار کا لخت جگر بیشۂ شجاعت کا شیربن کرللکارتاہوا اوراپنے چچانامدار کی غربت وعطش سے متاثر ہوکر روتاہوا میدانِ کارزار میں نکلا اور داد شجاعت دینے کے لئے نہایت جرأت ودلیری سے فوجِ اشقیا ٔ میں جاپہنچا اور یہ رجز پڑھا:
اِنْ تُنْکِرُوْنِیْ فَأنَاابْنُ الْحَسَنْ
سِبْطُ النَّبِیُّ الْمُصْطَفٰی وَالْمُوْتَمَنْ
اگر تم مجھے نہیں جانتے تو میں امام حسنؑ کافرزند ہوں جونبی مصطفی والموتمن۔
ھٰذَاحُسَیْنٌ کالْاَسِیْرُالْمُرْتَھَنْ
بَیْنَ اُنَاسٍ لا سُقُوْا صَوْبَ الْمُزَنْ
یہ حسین ؑاب فوج اعداء میں گھراہوہے ایسے لوگ رحمت کی بارش سے سیراب نہ ہوں۔
اس وقت شہزادہ نے عمرسعد کو آوازدے کرپکارا اے پسر سعد! تو خدا اور روزِجزا کا ڈر نہیں رکھتاکہ آلِ رسول اس جنگل میں تشنہ لب ہیں خداتم کوجزائے خیر نہ دے پس تیز آند ھی کی طرح لشکراعدا ٔ پرتلوار شرربارسے حملہ آورہوا اورباوجود خوردہ سالی کے ایک ہی حملہ میں ۳۵ملاعین کو دارالبوار پہنچایا۔
شرحِ شافیہ میں ہے کہ ایک بہادر حضرت قاسم کے مقابلہ میں نکلاجو ایک ہزار مرد کے برابرسمجھا جاتاتھا لیکن شیر خدا کے پوتے نے ضرب یداللّہی کا نقشہ کھینچتے ہوئے ایک ہی حملہ میں اس کاکام تمام کردیا اورپیکر جمالِ ہاشمی خورشید تاباںبن کر افواج ظلمت کی گھنائونی تاریکی کو شمشیر آبدارکی خیرہ کن چمک دمک سے ہٹاتا گیا اورآگے بڑھتا گیا، بعض روایات میںہے کہ ستر انسان نما درندوں واصل جہنم کرکے دم لیااوراثنائے جنگ میں یہ اشعار پڑھے:
اِنّیْ اَنَاالْقَاسِمُ مِنْ نَسْلِ عَلِیْ      میں قاسم ہوں علی ؑ کی اولاد سے ہوں۔
نَحْنُ وَبَیْتِ اللّٰہِ اَوْلٰی بِالنَّبِیْ      بیت اللہ کی قسم ہم نبی کے زیادہ قریبی ہیں۔
مِنْ شِمْرِذِیْ الْجَوْشَنِ وَابْنِ الدَّعِیْ       شمرذی الجوشن اورحرامزادے کے مقابلے میں۔
اوربروایت منتحب۔۔۔ ازرق اس کے چاروں بیٹوںکو اورعمرسعد کی فوج کے علمبردار کو بھی اسی حملہ میں فی النار کیا، کثرت حرب وضرب سے طبیعت میں خستگی پیدا ہوئی اورپیاس کی شدت نے مجبور کیا، ایک دفعہ عنانِ اسپ کو خیمہ کی طرف موڑا اور امام عا لیمقام ؑ کی خدمت میں پہنچ کرعرض کیا اَلْعَطَشْ اَلْعَطَشْ اے عم بزرگوار!  اگر پانی کا ایک گھونٹ مل جاتاتوبہت اچھاتھا، اس وقت امام حسین ؑ نے شہزادہ کو صبر کی تلقین فرمائی اوربروایت مدینہ المعاجز شہزادہ کے منہ میں اپنی انگشتری دی، شہزادہ قاسم کہتاہے کہ جب میرے چچانے میرے منہ میں انگشتری رکھی تو ایسامعلوم ہوا کہ پانی کا چشمہ جاری ہوگیا، پس واپس آکر دوبارہ مصروف جہاد ہوئے۔
’’مہیج الا حزان‘‘ میں ہے کہ شہزادہ پر اس مرتبہ پتھر برسانے شروع کر دئیے گئے۔۔۔۔۔ حمید ابن مسلم کہتاہے کہ عمرابن سعد ازدی ملعون نے قسم کھائی کہ میں اس شہزادہ کو قتل کروں گا، پس گھوڑے پر سوار ہوکر آگے بڑھا اورشہزادے کر سرمبارک پر تلوار کا حملہ کیا کہ شہزادہ گھوڑے پر سنبھل نہ سکا اس وقت اپنے چچاکو آواز دی یَاعَمَّاہُ اَدْرِکْنِیْ اے چچا میری خبر لیجیے، اس وقت شہزادہ کے جسم اطہر میں ۳۵تیر پیوست تھے، امام ؑ نے جب اپنے بھتیجے کی آواز سنی تو گھوڑے کو دوڑاکر فوراً پہنچے اورشیر غضبناک کی طرح حملہ کر کے صفوں کو منتشر کیا اورشہزادے کے قاتل عمر ابن سعد ازدی کو ایک تلوارماری جس سے وہ گر پڑا اورگھوڑوں کے سموں کے نیچے کچل کر جہنم پہنچا، اسی دوران میں شہزادہ قاسم کا جسم اطہر بھی پامال ہوگیا۔۔۔۔۔ حمید ابن مسلم کہتاہے کہ جب لڑائی ختم ہوئی اورفوجو ںکی بھیڑ منتشر ہوئی تو میں نے دیکھا امام حسین شہزادہ کے سرہانے کھڑے تھے اور شہزادہ زمین پر ایڑیاں رگڑرہاتھا اورامام ؑ فرمارہے تھے بیٹامیرے اوپر بہت شاق گزررہا ہے کہ تونے مجھے مددکے لئے بلایا اورمیں بروقت نہ پہنچ سکا!  پس قاسم کی لاش کو اٹھایا اور سینے سے لگایا پھر خیمہ کی طرف روانہ ہوئے کہ قاسم کے قدم زمین پر خط دے رہے تھے اور امام ؑ نے شہزادے کو علی اکبر ؑ کے پہلو میں لا کر سلا دیا اور اہل بیت عصمت کو صبر کی تلقین فرمائی۔
از قلم ناصر الدین شاہ قاچار
چہ اعدا دید قاسم را کہ در گردن کفن دارد
بگفتند از رہ تحسین عجب وجہ حسن دارد
رخش چوں پرتو افگن شد دراں وادی فلک گفت
خوشا حال زمیں را کہ مہ در پیرہن دارد
لبش افسردہ ہمچوں گل زسوز تشنگی آقا
تو گوئی چشمہ کوثر دریں شیرین دہن دارد
کشیدہ تیغ خون افشاں ز ابرو در صف ہیجا
تو گوئی ذوالفقار اندر کف خود ابوالحسن دارد
چناں آشوب افگندے درآں صحرا از خونریزی
پس از حیدر نہ در خاطر دیگر چرخ کہن دارد
چہ بے انصاف بو دے آن جفا جویان آہن دل
چہ جائے نیزہ و خنجر در آں سمین بدن دارد
مرا دریاب عماہ ز روئے مرحمت اکنوں
کہ مرغ روح شوق دیدنِ بابم حسنؑ دارد