التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

خروجِ مختار

مالک اشتر کا فرزند جناب ابراہیم اپنے باپ کی طرح طاقت و شجاعت میں اپنی نظیر آپ تھا اور فن سپہ گری میں مہارت تامہ رکھتا تھا، جب اس کو امام زین العابدین کی جانب سے اجازت کی خبر ہوئی تو فوراً اس جماعت کے ساتھ شریک ہو گیا اور اس سے مختار کی قوت و ہمت میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا، خلاصہ یہ کہ  ۶۶ھ؁ بدھ وار کی رات ربیع الاول یا ربیع الثانی کی پندرھویں کو مختار نے خروج کیا ۔
اسی رات ابراہیم بن مالک نماز مغرب ادا کرنے کے بعد اپنی جماعت کو لے کر مختار کی طرف روانہ ہوا، ایاس بن مضارب جو گورنر کوفہ کی جانب سے پولیس کا اعلیٰ افسر تھا اس نے راستہ روک لیا اور دریافت کیا کہ یہ جماعت آپ کے ساتھ کس قسم کی ہے؟ مجھے ان کی نیتوں پر شک ہے؟ اس وقت ابرہیم کے پاس کوئی ہتھیار موجود نہ تھا اس نے کہا ہمیں اپنے کام کی طرف جانے سے نہ روکئے اور ہمارا وقت ضائع نہ کیجئے، ایاس نے افسری گھمنڈ میں آکر کہا میں اپنے اختیارات کے ماتحت تم لوگوں کو گرفتار کر کے حکومت کے سامنے پیش کروں گا، اس پر ابراہیم کو سخت غصہ آیا اور اپنے ایک ملازم کے ہاتھ سے نیزہ چھین کو فوراًحملہ کر دیا اور ایاس کو وہیں ڈھیر کردیا اس کے باقی سپاہی بھاگ گئے، انہوں نے ایاس کا سر تن سے جدا کر لیا اور مختار کے پاس لائے، مختار نے اس کو اپنے خروج کی نیک فال قرار دیا اور کہا کہ یہ ہماری پہلی کامیابی ہے۔
مختار نے سعد بن منقذ کو حکم دیا کہ شہر کے گلی کوچوں میں   یَا لِثَارَاتِ الْحُسَیْن کا نعرہ بلند کریں اور سر کنڈوں کی مشعلیں بنا کر ان کے سروں کو آگ لگائیں اور ہاتھوںمیں ان کو بلند کریں تاکہ بیعت کرنے والے جمع ہوجائیں، چنانچہ انہوں نے نعرے بلند کئے اور پورے شہر میں تہلکہ مچا دیا بس تھوڑی دیر میں مختار کے پاس کافی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے، اس طرف زجر بن قیس۔۔۔ شبث بن ربعی۔۔۔ عمروبن حجاج اور حجاربن ابحر نے حکومت وقت کے آرڈر کے ماتحت مخصوص کی جمعیت کے ذریعے شاہ راہوں پر سخت کرفیو لگا دیا تاکہ مختار کے ساتھ کوئی نہ ملنے پائے، ادھر یَا لِثَارَاتِ الْحُسَیْن کا نعرہ لگاتے ہوئے جب اہل ایمان جوش ایمانی کے ساتھ نمودار ہوتے تھے تو عبداللہ بن مطیع کی پولیس کے دل رعب سے لزر جاتے تھے اور تابِ مقابلہ نہ لاتے ہوئے ان کو راستہ دے دیتے تھے تمام رات یہی حالت رہی صبح تک مختار کے پاس ۳۸۰۰ مرد میدان جمع ہوگئے، پس مختار صبح سویرے آلات جنگ سے سج دھج کر باہر نکلا اور دستور عرب کے ماتحت رجز خوانی میں چند شعر کہے اور آمادہ جنگ ہوا۔
عبد اللہ بن مطیع (گورنر کوفہ ) نے کوفہ کے سات بڑے محلوں کی گذرگاہوں پر ۲۰ ہزار جنگی فوجی سپاہی تعینات کردیئے تاکہ مختار کے ساتھ ملنے والوں کا پوری طرح سدباب ہوجائے لیکن اب مختار اعلان جنگ کر چکا تھا اور ابراہیم بن مالک اشتر کو فی سالار مقرر کر کے اذنِ جہاد دے چکا تھا، ابرہیم شعلہ جوالہ کی طرح حکومتی فوج کے جس دستہ پر حملہ کرتا تھا وہ مثل بھیڑوں کے اس شیر بیشہ شجاعت کے آگے بھاگتے نظر آتے تھے اور بعضوں نے تو بلا مقابلہ فرار میں خیریت سمجھی، مختار بنفس نفیس سپاہی بن کر مصروف حرب و ضرب تھا، پس اس تھوڑی سی فوج نے حکومتی فوج کو پسپا کر ڈالا اکثر مارے گئے اور جو بچے وہ فرار کر گئے، اب میدان خالی تھا مختار کے سپاہیوں نے دارلامارہ کا محاصرہ کر لیا، عبد اللہ بن مطیع نے جب حالا ت حاضرہ کا جائز لیا تو راتوں رات دارا الامارہ سے خفیہ طورپر بھاگ جانے میں کامیاب ہوا پس مختار نے فوراً دارالامارہ پر قبضہ کرلیا، پس دارالامارہ کے مخصوص عملہ نے مختار سے معافی مانگ لی چنانچہ مختار نے ان کو معاف کردیا۔
مختار نے رات دارالامارہ میں بسر کی اور صبح کی نماز جامع مسجد میں ادا کر کے منبر پر آیا اور فصیح و بلیغ خطبہ پڑھا، چنانچہ تمام اشراف کوفہ نے مختار کے ہاتھ پر بیعت کرلی، اس وقت بیت المال میں نو ہزار درہم موجود تھے جو فوجیوں پر فوراً تقسیم کیے گئے۔
مختار کو معلوم ہواکہ عبداللہ بن مطیع ابوموسیٰ کے گھر میں چھپا ہوا ہے تواس کی طرف ایک لاکھ درہم بھیجاکہ یہ تیرے اخراجات کے لئے ہے اورتجھے ہدایت کرتا ہوں کہ کوفہ چھوڑکرکہیں چلے جائو پس عبداللہ رقم لے کربصرہ کی طرف چلاگیا ۔
مختار نے آذربائیجان۔۔ موصل۔۔ مدائن۔۔ حلوان۔۔ رَے۔۔ ہمدان اوراصفہان وغیرہ کی طرف اپنے عمّال روانہ کردیئے اورعبداللہ بن کامل شاکری کومقامی پولیس کا افسراعلیٰ مقررکردیا اورحسب لیاقت لوگوں میںعہدہ جات تقسیم کر دیئے، اس وقت دمشق میں اموی حکومت کی باگ ڈور مروان بن حکم نے سنبھالی ہوئی تھی تو پہلے پہل اس نے عبیداللہ بن زیاد کو فوجی سالار مقررکرکے کوفہ کی طرف روانہ کیا ابن زیاد کا ارادہ یہ تھا کہ کوفہ کی فتح یابی کے بعد وہاں تین روزتک قتل عام کیا جائے اورکوفہ والوں پر خوب لوٹ مارکابازار گرم کیا جائے۔
شام سے نکلتے ہی عین الوردہ کے مقام پر سلیمان بن صردخزاعی اوراس کی جماعت تائبین کے ساتھ لڑائی کا میدان گرم ہوا، چنانچہ اس لڑائی میں امام مظلوم ؑ کے خون کے انتقام لینے والے سلیمان بن صرداوراس کے اکثر ساتھی شہید ہوگئے اس کے بعد ابن زیاد جزیرہ کے حاکم زفربن حارث کلابی کے ساتھ نبرد آزما ہوا جو ابن زبیرکی جانب سے جزیرہ کا گورنر تھا، یہ لڑائی ایک سال تک رہی اورمروان بن حکم اسی دوران واصل جہنم ہوگیا اوراس کی جگہ عبد الملک بن مروان تخت شام پر متمکن ہوا، اس نے بھی عبیداللہ بن زیاد کو فوجی کمان پربحال رکھا اورعراق کی طرف پیش قدمی کا حکم دیا، ابن زیاد پہلے پہل موصل پر حملہ آور ہوا، مختار کی طرف سے اس جگہ کا گورنرابن زیاد کی تابِ مقادمت نہ لاتے ہوئے بھاگ کرتکریت چلا گیا مختار کو جب معلوم ہوا تواس نے یزید بن انس اسدی کی سرکردگی میں تین ہزار مرد مجاہد روانہ کئے، ادھر ابن زیاد نے ان کے مقابلہ میں چھ ہزار جنگی مرد معین کردئیے لیکن مختار کی فوج ظفر موج نے شامیوں کو شکست فاش دی ان کا سپہ سالارماراگیا اورتین سوسپاہی زندہ گرفتارہوئے جن کویزید بن انس کے حکم سے قتل کردیا گیا۔
ابن زیاد نے اس شکست سے متاثر ہوکراسّی ہزارفوج کوعراق پر حملہ آور ہونے کا حکم دے دیا، ادھر مختار نے اپنی فوج کوابراہیم کی سر کردگی میں روانہ ہونے کا حکم دیا، اب کوفہ میں مختارکے پاس صرف چار ہزار فوجی سپاہی بچ گئے تھے، خفیہ خفیہ قاتلانِ حسین ؑ نے یہ سکیم تیار کرلی کہ اب وقت ہے کہ مختار پرحملہ کردیا جائے اوراسے قتل کیا جائے، مختارکی خفیہ پولیس نے اس سکیم کا سراغ لگا لیا اورمختار کوفوراً اطلاع دی، چنانچہ مختار نے فوراًایک قاصد تیز رفتار ابراہیم کے پیچھے بھیجا کہ فوراً مرکز میں واپس پہنچے کیونکہ مرکزمقامی خطرہ سے دوچار ہوگیا ہے، ادھر شبث بن ربعی نے مختار سے ملاقات کی اورکوفہ والوں کی شکایات کا مداوا چاہااورمختار نے اس کو مصلحت وقت کے ماتحت جوابات دے مقصدیہ تھا کہ ابراہیم پہنچ جائے، قاتلانِ حسین ؑ جوچھپے ہوئے تھے وہ اب بالکل ظاہر ہوگئے چنانچہ انہوں نے اجتماع کرکے دارلامارہ کا محاصرہ کرلیا ادھر فوراًہی ابراہیم قضائے آسمانی بن کر ان کے سرپر پڑا اور یَا لِثَارَاتِ الْحُسَیْنکا نعرہ بلند کرکے دشمنا نِ حسین ؑ پرحملہ آور ہوگیا، خونریز تصادم کے بعد دشمن کو شکست ہوئی، پانچ سودشمنان حسین ؑ گرفتارہوگئے اوراکثر مارے گئے باقی بھاگ گئے، ان گرفتارشدہ لوگوں میں سے (۲۴۰) افراد کوتہ تیغ کیا گیا جوواقعہ کربلا میں شریک تھے باقیوں کومعاف کیا گیا اوراسی جھڑپ میں رفاعہ بن شدادماراگیا، مختارنے اپنے پولیس افسرابوعمرہ کوحکم دیا کہ ایک ہزارجانبازساتھ لے کرکوفہ کے ان تمام مکانات کومنہدم کردیا جائے جن کے مالک امام حسین ؑ سے لڑنے کے لئے گئے ہوں اورابوعمرہ چونکہ ایسے تمام لوگوں کا اوران کے گھروں کا واقف تھا لہذااس نے بلادریغ تعمیل حکم کی اوربہت سے گھروں کومسمار کرکے خاکستر کا انبار بناڈالا اوران کا سامان لوٹ کرایسے لوگوں کو دیا جوعجمی النسل تھے اورمختارکے ہمرکاب تھے اور حضرت سیدالشہدأکے قاتلین میں سے جو بھی ہاتھ آیا اس کو بلا دریغ تہِ تیغ کر ڈالا کیونکہ مختار کا حکم تھا کہ میرا دین یہی ہے کہ حضرت امام حسین ؑ کے قاتلوں میں سے کوئی نفر نہ بچنے پائے۔
مختار نے سب سے پہلے ان ملاعین کوقتل کیا جنہوں نے لاش حسین ؑپرگھوڑے دوڑائے تھے، چنانچہ جب یہ حاضر ہوئے اورمختارنے ان سے دریافت کیاکہ تم لوگوں نے کونساظلم کیاتھا؟ توانہوں نے جواب دیا تھا:
نحنُ رضضناالصّدر بعد الظّھر
بکلّ یعبُوب شدید الاثر
ہم نے سخت سموں والے تیز رو گھوڑوں کے ساتھ (امام حسین ؑ کے)سینے اورپشت کوکچل ڈالا۔