بیا ن سا
بق سے یہ بات پو ری طر ح سے و ا ضح ہو چکی ہے کہ ولا یت ِآلِ محمد خود اپنے مقا م
پر شفا عت کا کا م کر تی ہے، یعنی ولا یت ِآلِ محمد کے سا تھ جس قدر اعما لِ صا
لحہ انسا ن سے ادا ہو سکیں وہ قطعاً ضائع تو ہو نہیں سکتے پس ان کا ضبط نہ ہو نا
اور ان کی جز ا کا ضر ور قر ا ر دیا جا نا لا زمی طو ر پر دخو لِ جنت کا مو جب ہے۔
پس دائمی عذا ب تو قطعاً ہو نہیں سکتا کیو نکہ
اعما لِ صا لحہ کی جز ا کا ضبط ہو نا لا زمی آتا ہے جو منا فی عد لِ خد ا وندی
ہے۔۔۔ لہذ ا دائمی سز ا کی تخفیف کر کے محدود تک لے آنا مو دّتِ آلِ محمد ہی کا
کا م ہے، اب اگر خدا چا ہے تو پو ری معافی بھی ہو سکتی ہے بشر طیکہ حقو ق العبا د
نہ ہو ں۔۔ور نہ صا حب حق کی تلا فی یا معا فی پر اس کا بخشش کلی کا انحصار ہو گا
اور جنا ب ر سالتمآبؐ اور ان کے خلفائے طاہرین کو حق خصو صی یہ بھی حا صل ہے کہ
وہ گنہگارو ں کی شفا عت فر ما ئیں گے اور وہ صر ف انہی گنہگارو ں کی شفاعت فرمائیں
گے جن پر بوجہ کفر وشرک و نفاق (انکار توحید و رسالت و امامت) دوامِ جہنم کی سزا
واجب نہ ہو گی۔۔۔ اور وہ صرف شیعیانِ حضرت امیرالمومنین ؑ ہی ہیں ،چنانچہ ارشادِ
رسالت ہے: یَاعَلِیّ اَنْتَ وَ شِیْعَتُکَ ھُمُ الْفَائِزُوْن۔۔۔ اے
علی ؑ تو اور تیرے شیعہ ہی نجات پانے والے ہیں۔