التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

صحابہ کرام میں علم قرآن



اس باب میں ہم اہل سنت کے مشہور مفسر ومحدث علامہ جلال الدین سیوطی کی تحقیق انیق پیش کر کے ان کے انصاف کش رویہ اور عدل سوزفیصلہ کو منظر عام پر لا کر حقیقت کی نقاب کشائی کرتے ہیں، چنانچہ’’ الاتقان فی العلوم القرآن‘‘ کی دوسری جلد طبقات المفسّرین کے بیان میں رقم طراز ہیں:
٭      اِشْتَھَرَ بِالتَّفْسِیْرِ مِنَ الصَّحَابَۃِ عَشْرَۃٌ اَلْخُلَفَائُ الْاَرْبَعَۃِ وَابْنُ عَبّاسٍ وَاُبَی بْنِ کَعْبٍ وَ زَیْدُ بْنِ ثَابِتٍ وَ اَبُوْ مُوْسٰی الْاَشْعَرِیْ وَ عَبْدُاللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ۔۔۔ اَمَّاالْخُلَفَائُ فَاَکْثَرُ مَا رُوِیَ عَنْہُ مِنْھُمْ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ وَالرِّوَایَۃُ عَنِ الثَّلاثَۃِ  نَزَرٌ جِدًّا وَکَانَ السَّبَبُ فِیْ ذٰلِکَ تَقَدُّمُ وَفَاتِھِمْ کَمَا اِنَّ ذٰلِکَ ھُوَ السَّبَبُ فِیْ قِلَّتِ رِوَایَۃِ اَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ لِلْحَدِیْثِ وَ لا اَحْفَظُ عَنْ اَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ فِیْ التَّفْسِیْرِ اِلَّا آثَارٌ قَلِیْلَۃٌ جِدًّا لاتَکادُ تَجَاوُزَ الْعَشْرَۃِ  وَاَمَّا عَلِیّ فَرُوِیَ عَنْہُ الْکَثِیْر وَقَدْ رَوَی مُعمَر عَنْ وَھْبِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ عَنْ اَبِیْ الطُّفَیْلِ قَالَ شَھِدْتُ عَلِیًّا یُخْطَبْ وَھُوَ یَقُوْلُ سَلُوْنِیْ فَوَاللّٰہِ لا تَسْأَلُوْنَ عَنْ شَیْئٍ اِلَّا اَخْبَرْتُکُمْ وَسَلُوْنِیْ عَنْ کِتَابِ اللّٰہِ فَوَاللّٰہِ مَا مِنْ آیَۃٍ اِلَّا وَاَنَا اَعْلَمُ أَ بِلَیْلٍ نَزَلَتْ اَمْ بِنَھَارٍ اَمْ فِیْ سَھْلٍ نَزَلَتْ اَمْ فِیْ جَبَلٍ۔
ترجمہ: صحابہ میں سے مشہور مفسرقرآن دس آدمی ہیں خلفائے اربعہ اورعبداللہ بن مسعود، عبداللہ ابن عبا س، ابی بن کعب، زیدبن ثابت،ابوموسیٰ اشعری اور عبد اللہ بن زبیر،لیکن خلفأ میں سب سے زیادہ (تفسیر) علی ؑ ابن ابیطالب ؑ سے ہی مر وی ہے اور پہلے تینوںسے (تفسیر قرآن )بہت کم مروی ہے شاید ان کا پہلے وفات پا جانا ہی اس کا موجب ہو، جس طرح کہ ابوبکر سے روایاتِ حدیث کا کم منقول ہونا اسی سبب سے تھا اور مجھے توابوبکر سے تفسیر قرآن کے متعلق بہت کم روایات دستیاب ہو سکی ہیں جن کی تعداد دس سے زیادہ نہیں، البتہ علی ؑ سے اس بارہ میں زیادہ روایات لی گئی ہیں، چنانچہ معمر نے وہب بن عبداللہ سے انہوں نے ابوطفیل سے روایت کی ہے کہ علی ؑ کو ایک خطبہ میں فرماتے ہوئے میں نے سنا ہے کہ پوچھ لو مجھ سے تم جس چیز کا سوال کرو گے بتائو ں گا اور مجھ سے قرآن شریف کے متعلق پوچھو۔۔۔ پس اللہ کی قسم کو ئی آیت ایسی نہیں جس کو میں نہیں جانتا، خواہ رات میں اتری ہو یا دن میں زمین پر نازل ہوئی یا پہاڑ پر۔
٭      وَاَخْرَجَ اَبُوْنَعِیْم فِی الْحِلْیَۃِ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ اِنَّ الْقُرْآنَ اَنْزَلَ عَلٰی سَبْعَۃِ اَحْرُفٍ مَا مِنْھَا حَرْفٌ اِلَّا وَلَہُ ظَہْرٌ وَبَطَنٌ وَ اِنَّ عَلِیّ بْنَ اَبِیْطَالِبٍ عِنْدَہُ مِنْہُ الظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ۔
ترجمہ: اور ابونعیم نے حلیہ میں ابن مسعود سے نقل کیا ہے کہ تحقیق قرآن سات حرفوں (حرف سے مراد قرأت یا قسم یا لغت ہے) پر اُترا ہے جن میں سے ہر حرف کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی، اور تحقیق علی ؑ بن ابیطالب ؑ کے پاس اس کے ظاہر و باطن سب کا علم موجود ہے۔
٭      وَاَخْرَجَ اَیْضًا مِنْ طَرِیْقِ اَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَیّاشٍ عَنْ نَصِیْرِ بْنِ سُلَیْمَانِ الْاحمسِیْ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ عَلِیّ قَالَ وَاللّٰہِ مَا نَزَلَتْ آیَۃٌ اِلَّا وَقَدْ عَلِمْتُ فِیْمَا اَنْزَلَتْ وَاَیْنَ اَنْزَلَتْ اِنَّ رَبِّیْ وَھَبَ لِیْ قَلْبًا عَقُوْلاً وَلِسَانًا سَئُوْلاً۔
ترجمہ: نیز ابو نعیم نے بطریق ابوبکر بن عیا ش،رجا لِ سند کا ذکر کرتے ہوئے حضرت علی ؑ سے روایت کی ہے کہ انہو ں فر مایاخدا کی قسم کوئی آیت ایسی نہیں اُتری جس کا مجھے علم نہ ہو کہ کس کے بارے میں اُتری؟ اور کہاں اُتری؟ تحقیق میرے اللہ نے مجھے قلب فہیم اور زبان گو یا عطافرمائی ہے۔
دعوت فکر
علا مہ سیو طی نے جامعینِ قرآن، حضرات اصحابِ ثلاثہ کو عالم قرآن ثابت کرنے کی سعی ٔ بلیغ میں اپنی طر ف سے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا، لیکن چونکہ واقعات اورتاریخ کے حقائق مویّدنہ تھے بلکہ برعکس تھے تو عجیب منطق لڑانے کی سوجھی۔۔۔ ایک طرف عوام کالانعام کی آنکھو ں میں دھول جھانک دی اور دوسری طرف دھیمی آواز میں حقیقت کے چہرے سے نقاب بھی اُلٹ دی۔
 پہلے پہل بڑے زور و شو ر سے نعرہ لگا دیا کہ صحابہ میںسے مشہور مفسر قرآن دس آدمی تھے اور پہلے نمبر پر خلفائے اربعہ کا نام لیا، عوام بالکل مطمئن ہو گئے اور دل میں پختہ عقیدہ جمالیا کہ واقعی چاروں خلیفے مشہور مفسر قرآن تھے اوریہ چیز رسوخ میں اُن کے دل ودماغ پر (کَالنَّقْشِ عَلٰی الْحَجَر)ہو گئی، کیو نکہ عو ام بیچاروںکادستور ہے کہ جو بات مولوی صاحب نے کہہ دی اُنہوں نے فوراً تسلیم کر لی،انہیں دلیل طلب کرنے کی مزید ضرورت نہیں ہوتی بلکہ مولوی صاحب کا فرمان ان کے لیے اٹل فیصلہ اوربرہانِ قاطع ہواکرتا ہے اور پھر بجائے عام مولوی کے اور وہ بھی سیو طی جیسا کہ جسے نویں صدی کا مجدّد بھی کہا جاتا ہواگر بات کہہ دے توعوام کے لیے ان کے قول سے بڑھ کر اور کون سی دلیل کی ضرورت رہ جاتی ہے؟ لیکن پڑھا لکھا سنجید ہ طبقہ مولوی لوگوں کی اس قسم کی قلابازیوں میں مشکل سے پھنستا ہے، علامہ سیوطی کو محسوس ہونے لگا کہ عوام سے داد۔۔۔ تحسین۔۔۔ مرحبا۔۔۔ واہ واہ۔۔۔ کا صلہ حاصل کرنے کے لئے تو صرف پہلا فقرہ ہی کافی ہے کہ وہ مشہور مفسر قرآن تھے، لیکن مبادا کوئی سمجھدار پڑھا لکھا آدمی اس دعویٰ کے ثبوت کے لئے دلیل طلب کرلے تو حقیقت چونکہ اس کے خلاف ہے جواب میں شرمساری ہو گی، لہٰذا دس آدمیوں کے نام گنوانے کے فوراً بعد کہہ دیا ’’وَالرِّوَایَۃُ عَنِ الثَّلاثَۃِ  نَزَرٌ جِدًّا‘‘کہ پہلے تینوں حضرات خلفأ سے تفسیرِقرآن بہت کم مروی ہے۔
دروغ گو را حافظہ نہ باشد۔۔۔۔۔ پہلے کہہ دیا کہ مفسر مشہور تھے اور ایک منٹ کا وقفہ کئے بغیر بول اٹھے کہ ان سے آثار تفسیر بہت ہی کم منقول ہیں!؟ علامہ کہلوانے والے شخص سے اس قسم کی تضاد بیانی ایک عجوبہ یا اضحو کہ نہیں تو اورکیا ہے؟ اس کے بعد ایک اور عذر دماغ میں سوجھا کہ کہیں یہ تضاد بیانی رفع ہوجائے، لیکن بقولے:   عذر گناہ بد تراز گناہ فرماتے ہیں شاید ان کی تقدم وفات ہی اس کاسبب ہے یعنی تفسیر قرآن کے بیان کرنے کا ان کو موت نے موقعہ نہ دیا، گویا وہ مشہور مفسرین کی فہرست میں شامل بھی رہے اور ان سے آثار تفسیر کا کم منقول ہونا بھی بلاوجہ نہیں!!
عالی جاہ!  مان لیا کہ موت پہلے آگئی اور ان کی دل کی بات دل میں رہی لیکن کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ آپ کو ان کے مشہور مفسر قرآن ہونے کا علم کیسے ہو گیا؟ جب موت نے انکوعلم قرآن کے ظاہر کرنے کی مہلت ہی نہیں دی آپ نے ان کی کون سی علمی تحقیق یا مشکلاتِ قرآن کے حل کی تصدیق پالی؟کہ یقین کر کے بیٹھ گئے اور ساتھ دعویٰ بھی کر دیا کہ مشہو ر مفسرقرآن تھے؟ بیشک وہ مفسرقرا ٓن ہو ںہمیں اس بات کی خوشی ہے لیکن کیا آپ کے کہنے پر ہم بھی کہہ دیں کہ ہا ں بے شک تھے!  نہ انہو ںنے کچھ سنا یا۔۔۔ نہ بیا ن کیا۔۔۔نہ مشکلاتِ قران کا حل بتا یا۔۔۔ تاویل وتنزیل کے متعلق کچھ نہ سمجھا یا۔۔۔ تو دریں حالات کوئی کس منہ سے کہنے کی جرأت کرسکتا ہے کہ جی وہ تھے اور ضرور تھے؟اس کا مطلب تو یہ ہو اکہ آپ کو کسی طرف کا الہام ہوا اور کہہ گزرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم کسی شہرت کے پیچھے کیوں جا ئیں جب تحقیق اس کے خلا ف ہو؟  رُبَّ شُھْرَۃٍ لا اَصْلَ لَھَا(بعض شہا دتیں بے بنیا د ہو اکر تی ہیں)
 ہم جرأت کے سا تھ کہہ سکتے ہیں کہ خدا بھی خدا ئی کے آثار ظاہر نہ کرتا تو خدا نہ مانا جاتا، کیونکہ بجزآثا رکے نہ کوئی پہچانتا نہ مانتا، ا سی طرح ایک نبی اپنی امت میں ہزا ربرس گو گزار دے، جب تک علم نبوت کو ظا ہر نہ کرے گا، نہ اس کی نبو ت پہچا نی جا ئے گی اور نہ اسے نبی مانا جائے گا، اسی طرح کو ئی بڑے سے بڑا عالم لاکھوں۔۔کروڑوںدانائوں کے مجمع میں بیٹھا رہے اور کچھ دیر کے بعد بغیر کچھ سنانے کے اٹھ کر چلا جائے، میرے خیال میں تو نہ کوئی اسے عالم سمجھے گا اور نہ کہے گا،وعلی ہٰذاالقیاس ہر صاحب فن کی یہی حالت ہے، پس جب بغیر آثار کے خدا نہیں پہچاناجا سکتا ہزار وںبر س کسی اُمت میں رہ کر بغیر علم نبوت کے اظہا رکے نبی کی تصدیق نہیں ہوسکتی، پاس بیٹھنے والامجمع بغیراظہار علم کے کسی کو عالم ماننے پر تیارنہیں ہوتابلکہ اُسے عالم کہنے والا بیوقوف سمجھا جاتا ہے، تو نہ معلوم نو سوبرس کے بعد آنے والاشخص غائبا نہ طورپر نہ شکل دیکھی۔۔۔ نہ صورت۔۔۔ نہ علم۔۔۔ نہ اثر۔۔۔ کس عقل وخرد سے نظریہ قائم کرسکتا ہے کہ صرف مفسر نہیں بلکہ مشہو ر مفسر قران تھے؟  بر ایں عقل ودانش ببایدگریست !!
پہلے مفسر کے بارے میں فرماتے ہیں کہ مجھے بہت سارے کم آثار مل سکتے ہیں جو دس سے زیادہ نہیں، چلو دس ہی سہی،گو یا وہ دس لفظوں کی تشریح ہوگی یا زیادہ سے زیادہ دس آیات کی تفسیرہو گی، خود سیوطی نے ’’الاتقان‘‘ میں باب عددُالآیات میں بقول ابن عبا س کل آیا تِ قرآنیہ کی تعداد چھ ہزار چھ سو سولہ(۶۶۱۶) بیان کی ہے اور اس سے کم وبیش کے اقول اور بھی ہیں۔
اب جو مشہور مفسر قرآن کی علم تفسیر میں شہرت ِعامہ کے ساتھ ان کی طرف سے آثا رِمنقولہ پر نگاہ دوڑائی تو تعجب ناک بلکہ انتہا ی حسرت ناک صو رت حال سامنے آئی،خیال تھا کہ مشہو ر مفسر سے علو مِ قر آنیہ کے بہت بڑے ذخائر بر آمد ہوںگے لیکن جب کل قرآ ن کے مقابلے میں ان کی علمی تحقیقات کو سامنے کیا تو ۶۶۱۶ آیا ت میں سے صرف دس آیتوں کے متعلق ہی ان کا علم ثابت ہو سکا۔
لہذا باقی ہر دو مشہور مفسرین کی علمی تحقیقات کے پیچھے پڑنے کی جرأت نہ ہوئی اور ممکن ہے کہ ان کے اقوال کی تلاش بھی کی ہو لیکن پہلے کی بہ نسبت یہاں طبیعت زیادہ سیر ہو گئی ہو کیونکہ ان کے متعلق بھی اگر دس تک اقوال دستیاب ہو جاتے تو مقام فخر تھا ذکر کرنے میں ہرگز بخل نہ کرتے، لہذا ان کی لفظی شہرت کے ڈھنڈورا پیٹنے پر اکتفا کر لی اور آگے قدم رکھنا مناسب نہ سمجھا۔
میرے خیال میں تو یہ سب کمزوری ناقلانِ حدیث کی ہے کہ جب انہوں نے صحابہ کرام کے فضائل میں حدیثوں کے طومار لکھ دیئے اور یہ خیال تک نہ کیا کہ ہمارے یہ سب طومار بیکار ہیں جب اصل ہی خیر ہے، مرید کہاں تک کسی کو اڑائیں گے جب پیر میں اڑنے کی صلاحیت ہی نہ ہو؟
کسی کو عالم کہنے سے وہ عالم نہیں بنا کرتا۔۔۔۔۔ اسی طرح اگر کوئی عالم ہو تو اس کو عالم نہ کہنے سے اس کا علم چلا نہیں جاتا۔۔۔ ایسے کسی بہادر کو بہادر کہنے سے وہ بہادر ہو نہیں جاتا اور بہادر کو بہادر نہ کہنے سے اس کی بہادری ختم نہیں ہو جاتا کرتی، اگر آپ کسی کو عالم کہیں گے تو ہم ضرور اس کے علمی آثار دیکھیں گے صرف آپ کا دعوائے شہرت بلادلیل و حجت ہر گز قابل تسلیم نہیں ہو گا۔۔۔ اسی طرح آپ مشہور کر دیں کہ فلاں بہت بڑا بہادر تھا تو اس دعویٰ کی تصدیق کے لئے اس کے آثار شجاعت دیکھیں گے۔۔۔۔۔ بات اگرچہ موضوع سے خارج ہے لیکن عرض کر دوں کہ فتوحات اسلامیہ دلیل شجاعت نہیں!  ہاں ۔۔۔ دلیل سیاست ضرور ہیں، فوج و لشکر بھیج کر کسی ملک کا فاتح بننا اور بات ہے اور سپاہی مرد میدان بن کر معرکہ کارزار پر چھا جانا اور شجاعانِ زمانہ و آزمودہ کارانِ حرب و ضرب کو تہِ تیغ کر کے میدان جیتنا اور بات ہے، اور یہ صرف حضرت امیرالمومنین ۔۔۔ علی ابن ابی طالب ؑ ہی کا حصہ ہے۔۔۔ بس یوں کہیے کہ نام نام ہے اور کام کام ہے۔
موضوع زیر بحث میں سیوطی صرف بڑا نام سن کر اور بڑے چرچے اور ہائو ہُو سے متاثر ہو کر ان کی شہرتِ علم تفسیر کا دعویٰ کر بیٹھا لیکن جب مقام اثبات میں آیا تو آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا  تَسْمَعُ بِالْمُعِیْدِیْ خَیْرٌ مِنْ اَنْ تَرَاہ
 بقول شاعرؔ:
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرہ تو اک قطرۂ خون نکلا
اگر پورے قرآن مجید میں سے پچاس ساٹھ فیصدی علم تفسیر ثابت ہو جاتا تو بہت غنیمت شمار ہوتا، لیکن یہاں تو دس فیصدی کیا۔۔۔ دس فی ہزار ایک فیصدی بھی نہیں، فرماتے ہیں پورے قرآن میں سے دس قول یعنی ۶۶۱۶/ ۱۰ گویا ۶/۱ فیصدی سے بھی کم اقوال مجھے دستیاب ہو چکے ہیں۔
حالانکہ جانشین رسالتمآبؐ کے لئے قرآن کا سو فیصدی علم ضروری ہے اگر ایسا نہ ہو تو ہرگز مسند رسالت پر قدم نہیں رکھ سکتا اور وہ سوائے علی ابن ابی طالب ؑ کے صحابہ رسول میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے چنانچہ حضرت علی ؑ کے متعلق اسی بیان کی ابتدا میں اور گذشتہ متعدد مقامات پر جناب رسالتمآب کی تصریحات سے قطع نظر خود صحابہ کرام کے اعترافی الفاظ گذر چکے ہیں اور اس کے بعد بھی انشاء اللہ بیان ہو ں گے (ملاحظہ ہوں ص ۱۰۱ ، ص۱۸۷)
 صاحب ’’الاتقان‘‘ نے اچھا کیا کہ باقی دو حضرات کی علمی تحقیقا ت کے پیچھے پڑکر وقت ضا ئع نہیں کیا اور صرف بنا بر شہر ت کے ان کو مشہو ر مفسر کہہ دینے پر اکتفا کیا، خو اہ حسد و تعصب اس امر کے اظہا ر کی اجا زت دے یا نہ دے، یہ اور با ت ہے اپنے اندر یہ نظریہ ضرور قائم کر لیا ہو گا کہ  رُبَّ شُھْرَۃٍ لا اَصْلَ لَھَا بعض مشہور باتیں بے اصل ہو جایا کرتی ہیں۔
نیز ان سے آثا رحدیث کے کم منقول ہو نے کا بھی یہی عذر قرار دیا کہ تقد م وفات کی وجہ سے وہ حد یث بھی زیادہ نہ روایت کر سکے۔۔۔۔۔ کیا میں یہ دریا فت کر سکتا ہو ں کہ کیا جنا ب فاطمہ زہرا ؑبنت رسو ل اللہ کو فد ک یا وراثت سے محرو م کر نے اور ان کو غضبناک کرنے کے لئے ہی صرف موت نے ان کو مہلت دی اور حدیث یا د آ گئی نَحْنُ مَعْشَرُ الْاَنْبِیَائِ لانَرِثُ وَلا نُوَرِّث یعنی ہم گروہِ انبیا ٔ نہ کسی کے وارث ہم ہیں اور نہ ہمارا کوئی وارث ہے اور اس کے بعد اڑھائی سال تک موت سے ہر اساں رہے؟ وہ تو مسند رسالت پر قابض تھے ان کو بیان کرنے کا اب حق تھا لوگ آتے ہونگے پوچھتے ہوں گے اگر ہر نامزد کے بعد ایک ایک مسئلہ بھی بیان کیا ہوتا تو بہت کافی ہو جاتا صرف عترت طاہرہ کے رلانے کا ہی ڈھنگ تھا اور بس؟ معتقد ین کو بھی مو قعہ مل گیا کہ تقد م وفا ت کی وجہ سے وہ بیا ن کچھ نہ کر سکے ورنہ علم میں کمی نہیں تھی اور توجب یہ کہ حضرت عمر سے تفسیر قرآن کم بیا ن ہو نے کی وجہ بھی تقدم وفا ت ہی کو بیا ن کیا،حالانکہ وہ جنا ب رسالتمآبؐ کے بعد بارہ برس سے زیادہ زندہ رہے اتنی لمبی چوڑی فتوحاتِ ملکیہ اور دیگر کارہائے حکومت جو نمایا ںحیثیت کے حامل ہیں ان سب کا موقع ملا اور صرف تفسیر قرآن شریف کا مو قع دستیا ب نہ ہو سکا،موت نے مہلت نہ دی اگر زیا دہ زندہ رہتے تو بیا ن کر جا تے یہ معلو م رہے کہ اس زما نے میں علم حدیث وتفسیر کتا بو ں میں نہیں تھا،تا کہ کہا جائے کہ ان کو مطا لعے کا وقت نہیں مل سکتا تھا،دور اوّل میں علم شرعیہ فقہ و تفسیر وحدیث وغیر ہ سب صحا بہ کے سینو ں میں تھا،بس جس جس کے سینے میں کچھ تھا وہ وہی بیا ن کر تا تھا۔
بارہ تیر ہ برس کے عر صہ میں تو کم از کم بھی روزانہ بیا ن ہوا کر تا تو پو ری تفسیر قرآن پر عبو ر ہو سکتا تھا چل پھرکر بیا ن کر سکتے تھے خطبا ت جمعہ وعید ین میں بیا ن ہو سکتا تھا ہر تقر ر میں کچھ نہ کچھ بیا ن کیا جا سکتا تھا حتی کہ میدا ن جنگ میں بھی بیا ن کر نے کا مو قع مل سکتا تھا،اگر مسائل جہا د کی ضرورت ہو گی،خود ہی انصا ف فر ما ہے کہ تقدم وفا ت صرف قرآن سے ہی ما نع تھا،صا ف کہہ دیجیے کہ قرآن حفظ نہ تھا،تفسیر معلو م نہ تھی، پس سیا ست ملکیہ میں خوب ما ہر تھے۔
اور تعجب با لائے تعجب یہ کہ حضرت عثما ن کے متعلق بھی تقد م وفا ت کا بھی عذر ہے حا لا نکہ حضرت رسالتمآبؐ کے بعد پو رے پچیس بر س زندہ رہے،گو یا اتنے طویل عر صہ تک قر آن مجید کی تفسیر کے متعلق خا مو ش رہے اپنے دور خلا فت میں صرف یہ کیا کہ کا تبین سے متعدد نسخے لکھوا کر اطرافِ مملکت بھیج دئیے اور بس۔
سیو طی کو تقد م وفا ت کا عذر مبا رک رسا لتمآبؐ کے بعد کو ئی شخص دو اڑھا ئی برس یا با رہ یا پچیس بر س تک زندہ رہے، چو نکہ اس سے کوئی علمی با ت منقو ل نہیں ہوئی لہذابہا نہ سب نے یکسا ں پیش کر دیا،یہی خیا ل ہو گا کہ عو ام سن کر خا مو ش ہو جائے گی۔۔۔ با قی کو ن پو چھتا ہے، بس ضد ہے جس کو علی ؑ کے مقا بلہ میں کھڑا کر دیا ہے،اب اسے عالم بھی ضرور کہنا ہے خواہ وا قعات وحقا ئق اس کی تا ئید کریں یانہ کریں۔
اب ذرا علامہ سیو طی کی تا ریخ الخلفا ٔ میں تفسیر قرآن کے متعلق حضرت ابوبکر سے نقل شدہ اقوال کا ملا حظہ فرمائیے:
٭      عَنْ اَبِیْ مَلِیْکَۃ قَالَ سُئِلَ اَبُوْبَکْر عَنْ آیۃٍ فَقَالَ اَیّ اَرْضٍ تَسَعُنِیْ وَاَیّ سَمَائٍ تَظِلُّنِیْ اِنْ قُلْتُ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ مَا لَمْ یَرِدِ اللّٰہ۔
ترجمہ: ابو ملیکہ سے مروی ہے کہ ابوبکر سے ایک آیت کا معنی پوچھا گیا تو فرمایا کہ مجھے کونسی زمین جگہ دے گی اور کونسا آسمان مجھے سایہ دے گا اگر میں اللہ تعالیٰ کی کتاب میں وہ بات کر بیٹھوں جو خدا کی مراد کے خلاف ہو (یعنی مجھے اس کا معنی یاد نہیں)
٭      سُئِلَ اَبُوْبَکْر عَنْ قَوْلِہٖ تَعَالٰی وَفَاکِھَۃً وَّاَبَّا فَقَالَ اَیّ السَّمَائُ تَظِلُّنِیْ وَاَیّ اَرْضٍ تَقِلُّنِیْ اِنْ قُلْتُ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ مَا لَمْ اَعْلَمْ۔
ترجمہ: حضرت ابوبکر سے خدا وند کے قول ’’وَفَاکِھَۃً وَّاَبَّا‘‘ کا معنی پوچھا گیا تو جواب دیا کہ میں کس آسمان کے سایہ میں اور کس زمین کے اوپر بسوں گا اگر میں قرآن کا وہ معنی بتائوں جو میں نہیں جانتا۔
٭      اَنَّہُ سُئِلَ عَنِ الْکَلالَۃِ فَقَالَ اِنِّیْ سَاَقُوْلُ فِیْھَا بِرَأی فَاِنْ یَکُنْ صَوَابًا فَمِنَ اللّٰہِ وَاِنْ یَکُنْ خَطَأً فَمِنِّیْ وَمِنَ الشَّیْطَانِ۔۔۔ اَرَاہُ مَا خَلا الْوَلَدِ وَالْوَالِدِ فَلَمَّا اسْتَخْلَفَ عُمَر قَالَ اِنِّیْ لاسْتَحْی اَنْ ارَدَّ شَیْئًا قَالَ اَبُوْبَکْر۔
ترجمہ:ـ ان سے ’’ کَلالَۃ ‘‘ کا معنی پوچھا گیا تو (پہلے دونوں سوالوں کے جوابوں میں بہت محتاط رہے اور تفسیر بالرائے سے گریز کرتے رہے لیکن دیکھا کہ اگر اب تفسیر بالرائے سے کام نہ لوں تو توہین ہے اور بات ایک دو دن کی نہیں بلکہ نت نئے مسائل وارد ہوں گے پس دل میں ٹھان لی کہ آئے نہ آئے کہنا ضرور ہے) یہ سوچ کر کہا کہ میں اپنی رائے بیان کروں گا اگر درست ہو تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے سمجھنا اور اگر غلط ہو تو میری اور شیطان کی جانب سے سمجھنا، میری رائے میں تو اس کا معنی باپ اور بیٹے کے علاوہ جو رشتہ دار ہیں اُنہیں کلالہ کہا جاتا ہے پھر جب عمر خلیفہ ہوا تو اس نے کہا کہ مجھے شرم آتی ہے کہ ابوبکر کے قول کی تردید کروں۔
٭      عَنْ اَبِیْ بَکْر الصّدِیْق فِیْ قَوْلِہٖ تَعَالٰی لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا الْحُسْنٰی زِیَادَۃٌ قَالَ اَلنَّظْرُ اِلٰی وَجْہِ اللّٰہِ۔
ترجمہ: حضرت ابوبکر نے خدا کے فرمان (احسان کرنے والوں کے لئے بدلہ میں احسان اور زیادتی ہوگی) کے متعلق فرمایا کہ زیادتی سے مراد خدا کے چہرہ کی طرف نظر کرنا ہے۔
اگر خداوند متعال کے قول کو دیکھا جائے تو قرآن کریم میں ہے کہ لا تُدْرِکْہُ الْاَبْصَارُ وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَار کوئی آنکھ اس کا ادراک کر ہی نہیں سکتی اور وہ سب کا ادراک کر سکتا ہے، اب آپ ذرا خلیفہ صاحب کے معنی کی اس آیت سے مطابقت کیجئے!؟
٭      حضرت ابوبکر نے بعض صحابہ سے’’اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْم‘‘ ان ہر دو آیات کا معنی دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ان کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ دین پر مضبوط ہو گئے اور کوئی گناہ نہ کیا اور اپنے ایمان کو خطا کاری سے بچا لیا، حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ تم نے بے جاکہا ہے مطلب یہ ہے کہ رب ہمارا اللہ تعالیٰ ہے اور اس پر مضبوط ہو گئے اور اس کے بعد کسی اور خدا کی عبادت کی طرف نہ جھکے اور اپنے ایمان کے ساتھ شرک کی ملاوٹ نہ کی۔
٭      ان دونوں آیتوں میں سے پہلی آیت کا ترجمہ آپ سے یہ بھی منقول ہے کہ جنہوں نے کلمہ ’’اَللّٰہُ رَبُّنَا‘‘ کہا اور مرتے دم تک اس پر ثابت رہے وہ ہی مستقیم ہیں۔
یہ ہیں سب وہ اقوال جن کے متعلق علامہ سیوطی نے ’’الاتقان‘‘ میں کہا تھا کہ حضرت ابو بکر سے تفسیر قران کے متعلق بہت کم آثار وارد ہیںجو دس سے زیا دہ نہیں،اقوا لِ کلیہ چھ (۶)ہیں،اب دس سے کم کہتے ہوئے ذرا شرم محسوس ہو ئی کہ ادھر دعویٰ مشہو رمفسر کا اور ادھر اقوا ل کل دس سے بھی کم؟ لہذا دس سے کم کہنا با رگاہِ خلا فت میں تو ہین کا مو جب سمجھا اور عوا م کے ’’اِغْرَا بِالْجَھْل‘‘میں اور دس تک کے اشتبا ہ میں شاید خلا فت ما ب کی عزت افزائی سمجھی۔۔۔۔۔ خیر۔۔۔۔۔ کل چار کا فرق ہے اتنی بڑی با ت نہیں اب ذرا ان چھ (۶) اقوال کا تجزیہ کیجیے:
 (۱)  پہلے قول میں تو قصہ بالکل صا ف ہے، آیت کا معنی دریافت کیا گیا تو جوا ب دیاکہ میںکیسے ایسی بات کہو ں۔۔۔ کہ مبادامنشا ٔ خدا کے خلا ف ہو اور اس صورت میں زمین وآسمان کے درمیا ن میں رہنے کے قا بل نہ ہو۔
 (۲)  دوسرا قول’’ وَفَاکِھَۃً وَّاَبَّا‘‘کا معنی دریافت کیا گیا تو مثلِ سابق جوا ب دیا، ان دونوںکا مطلب اپنی لا علمی کے اظہا رکے سوا اور کچھ بھی نہیں،حا لانکہ ہر عر بی دان اس کا معنی لغت کی ورق گردانی کیے بغیر سمجھ سکتا ہے کیو نکہ اس کے فوراًبعد ہے  مَتَاعًالَکُمْ وَ لِاَنْعَامِکُم یعنی فَاکِھَۃً  اور اَبّ  تمہا رے اور تمہا رے چوپایوں کی منفعت کے لیے ہیں لف ّ د نشر مرتب کے دستور کے مطابق ہر ذی شعور سمجھ سکتا ہے کہ فَاکِھَۃ  (میوہ) کا تعلق انسان سے ہے اور اَبّ  کا تعلق چوپائے سے ہے تو اس سے مراد یقیناگھاس ہی ہوگا۔
(۳)     ’’ کَلالَۃ ‘‘  کے معنی میں تفسیر بالرائے سے کام لے کر جرأت کا اظہار کیا، پہلے دونوں کے جو اب میں اپنی لاعلمی کو سکوت کے لباس میں ملبوس رکھا، لیکن اس مقام پر زمین وآسمان کے درمیان بسنے کے کابل نہ رہنے کے خطرہ کو خدا معلوم کیو ں دور کر دیا،حا لا نکہ صورتحال پہلے جیسی ہے اور وہی لاعلمی کا اظہا ر اس جرأت سے بدرجہا بہتر تھا فر ما تے ہیں مجھے آتا بھی نہیں اور کہنا بھی ضرور ہوں لیکن میری رائے اگر درست تو اللہ تعالیٰ سے اورغلط تو مجھ سے اور شیطا ن سے،  ’’ کَلالَۃ ‘‘  کا معنی  مَاخَلاالْوَلَدِ وَالْوَالِد با پ بیٹے کے علاوہ باقی رشتہ دار، اب اہل علم معنی کرنے والے کی علمی قابلیت کا خود اندازہ فر ما لیں کیو نکہ معنی بیا ن کرنے والا مشہور مفسر قرآن بھی ہے اور لوگ اُسے تاجدار رسالت کا جانشین بھی جانتے ہیں اور خود ان کو قرآن کے لفظی ترجمہ میں دقت ہو رہی ہے اور طُرّہ یہ کہ اس کے بعد ہونے والے خلیفہ حضرت عمر نے باوجودیکہ ان کی غلطی کو محسوس کر لیا تا ہم اس غلطی کا ازالہ کرنا خلیفہ اوّل کی توہین سمجھا،فرمایا مجھے شرم آتی ہے حضرت ابوبکر کے قول کی تردیدکر دوں، اب اندازہ فرمائیے کہ قر آن کی تو ہین ہو اس کی پرواہ نہیں لیکن ایسا نہ ہو کہ حضرت ابوبکر کو کوئی جاہل سمجھ بیٹھے۔۔۔۔۔ ماشاء اللہ بڑی احتیا ط سے کا م لیاگیا!!
خلا صہ:   یہ ہو اکہ کل پانچ آیتوں میں سے تین آیتوں کے معنی نہ آئے۔۔۔ پہلے دو کے متعلق خو فِ خدا سے لاعلمی کا اظہار کرکے متقی بن بیٹھے اور تیسر ی آیت میں اپنی جرأت کا مظاہرہ فر ما یا اور لا علمی کا اعتراف کر نے کے باوجود معنی کیا۔۔۔ باقی رہ گئیں دو آیتیں ایک کا ایک معنی اور دوسری کے متعلق ان سے دو معنی نقل کیے گئے۔۔ یہ ہے مفسر قرآن۔۔۔ خلیفہ ٔرسو ل کی ساری کی ساری قرآن دانی اور علمی پونجی۔۔۔ اور یہ ہیں باقی دونوں میں سے زیا دہ عالم اور مسندِ رسالت کے پہلے حقدار!!
اب سیوطی بیچارا پھنس گیا ان کو عالم کہتا ہے تو حقیقت اس کے خلاف ہے اور واقعات جھٹلاتے ہیں اور اگر جاہل کہتا ہے تو خلافت کی نائو بھنور میں آتی ہے۔۔۔۔۔ جو شخص تفسیر و تاویل تو در کنار صرف تحت اللفظی ترجمہ نہ کر سکتا ہو اس کے متعلق مشہور مفسر قرآن ہونے کا ڈھنڈ ورا پیٹنے کے بعد تقدمِ وفات کا عذر نہ کرتا تو اور چار ہ ہی کیا تھا؟
بقولِ ابن عباس۔۔۔ چھ ہزار چھ سو سولہ (۶۶۱۶) آیات میں سے صرف تین آیات کا تحت اللفظی ترجمہ اور مفسرِ قرآن مشہور !!  اَلْعَجَبْ  ’’الاتقان‘‘ کے اشتباہی الفاظ سے تو یہ اندازہ کر لیا گیا تھا کہ زیادہ سے زیادہ ان کو۲/۱ فیصدی قرآن کا علم تھا، لیکن تاریخ الخلفأ کے تفصیلی بیان سے معلوم ہوا کہ ۶۶۱۶/۳ یعنی کل قرآن کا ۲۲/۱ فیصد ی علم ان کو تھا، یعنی ہم تک ان کا علم اس سے زیادہ نہیں پہنچ سکا، مسندِ خلافت کیلئے ایسے ہی علمائے قرآن کا انتخاب شایان شان تھا کیونکہ حضرت علی ؑ کو تو پیچھے ہٹانا ہی ہے خواہ نتیجہ جو بھی ہو!؟
اپنا اعتراف
حضرت ابوبکر خود اپنے متعلق جو نظریہ قائم فرماتے ہیں’’کتا ب الامامتہ والسیاستہ‘‘ میں اہل سنت کے علامہ ابن قتیبہ دینوری تحریر فرماتے ہیں:
٭      قَالَ فِیْ خُطْبَۃٍ اِعْلَمُوْاَیُّھَاالنَّاسْ۔۔۔ اِنِّیْ لَمْ اُجْعَلْ لِھٰذَا الْمَکَانِ اَنْ اَکُوْنَ خَیْرُکُمْ وَلَوُدْتُ اَنَّ بَعْضَکُمْ کَفَانِیَہ وَلَئِنْ اَخَذْتُُمُوْنِیْ بِمَا کَانَ اللّٰہُ یُقِیْمُ بِہٖ رَسُوْلَہُ مِنَ الْوَحْیِ مَا کَانَ ذٰالِکَ عِنْدِیْ وَمَا اَنَا اِلَّا کَأَحْدِکُمْ فَاِذَا رَأَیْتُمُوْنِیْ قَدِ اسْتَقَمْتُ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَاِنْ زُغْتُ فُقُوْمُوْنِیْ وَاعْلَمُوْا اِنَّ لِیْ شَیْطَانًا یَعْتَرِیْنِیْ۔
ترجمہ: آپ (ابوبکر ) نے ایک خطبہ میں ارشاد   ۱؎ فر مایا:  لوگو۔۔۔ جان لو کہ میں اس خلافت کے مقام کے لیے اس لیے منتخب نہیں ہواہوں کہ میں تم سے بہتر ہوں، میں تو چاہتا ہوں تم میں سے کو ئی آدمی یہ کا م سنبھال لے اور اگر تم مجھ سے وہ کا م چاہو جس کے لیے خدا نے اپنے رسول کو بذریعہ وحی کھڑا کیا تھا تو میرے پا س وہ با ت نہیں ہے، میں تو تم ہی جیسا آدمی ہوں پس جب تم مجھے ٹھیک چلتا دیکھو تو میرے پیچھے چلو۔۔۔ کجردی اختیا ر کروں تو مجھے سید ھا ۲؎ کر لیا کرو، اور یقین جا نو کہ میرے لیے ایک شیطا ن ہے جو مجھ پر غا لب آجاتا ہے۔
گذشتہ تا ریخ الخلفأ کے حوا لہ میں ’’ کَلالَۃ‘‘ کی تفسیر کر تے ہوئے بھی آپ نے یہی فر مایا تھا کہ اگر غلط مطلب بیان کروں تو سمجھ لینا کہ میری اورشیطا ن کی مشترکہ رائے سے ہے۔
مدّعی سُست ، گواہ چُست
 حضرت ابوبکر خود ارشاد فرماتے ہیں کہ میں اس خلا فت کا اہل نہیں ہوں۔۔۔اور نہ مجھ سے اس با ت کی توقع رکھوجس کے لیے خدا نے رسول کو بھیجا تھا،غلط کرنے میں یادر ست کرنے میں یا شیطا ن کے پھندے میں آجا نے کے اعتبار سے میں تم جیسا ایک انسا ن ہوں۔