التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

احراقِ قرآن کا مسئلہ



یہ بات قابل غور ہے کہ حضرت عثمان نے باقی ماندہ قرآنوں کو جلا دینے کا حکم صادر فرمایا؟ اس مقام پر مرزا حیرت دہلوی نے ترجمہ صحیح بخاری میں حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے، کیونکہ بخاری کے الفاظ یہ ہیں:  وَاَمَرَبِمَا سِوَاہُ مِنَ الْقُرْآنِ فِیْ کُلِّ صَحِیْفَۃٍ اَوْ مُصْحَفٍ اَنْ یُّحْرَق یعنی حضرت حفصہ کی طرف سے آئے ہوئے صحیفوں پر جس قدر قرآن درج تھا اسے متعدد مصاحف میں نقل کروا لینے کے بعد وہ صحیفے تو حضرت حفصہ کو واپس بھیج دئیے لیکن اس قرآن کے علاوہ جس قدر قرآن دوسرے صحیفوں میں مرقوم تھا اسے جلا دینے حکم دے دیا۔
یہ فرق یاد رہے کہ باقی صحیفوں کو نہیں جلایا بلکہ ان صحیفوں میں جس قدر قرآن ماسوائے اس قرآن کے تھا جو حضرت حفصہ کے صحیفوں سے نقل کیا گیا تھا اُسے جلانے کا حکم دیا، بخاری کی اصل عبارت ملاحظہ فرمائیے:
٭      فَاَرْسَلَ اِلٰی حَفْصَۃٍ اَنْ اَرْسِلِیْ اِلَیْنَا الصُّحُفَ نُنْسِخُھَا فِی الْمُصْحَفِ ثُمَّ نُرَدُّھَا اِلَیْکِ فَاَرْسَلَتْ بِھَا حَفْصَۃٍ اِلٰی عُثْمَانَ فَاَمَرَ زَیْدَ بْنِ ثَابِتٍ وَ عَبْدُاللّٰہِ بْنِ زُبَیْرٍ وَ سَعِیْدِ بْنِ الْعَاصِ وَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہُشَامٍ فَنَسَخُوْھَا فِی الْمُصَاحِفِ وَقَالَ عُثْمَانَ لِلرَّھْطِ الْقُرَیْشِیْنِ الثَّلاثَۃِ اِذَا اخْتَلَفْتُمْ اَنْتُمْ وَ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ فِیْ شَیْئٍ مِنَ الْقُرْآنِ فَاکْتُبُوْہُ بِلِسَانِ قُرَیْشٍ فَاِنَّہُ اِنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِھِمْ فَفَعَلُوْا حَتّٰی اِذَا نَسَخُوْا الصُّحُفَ فِی الْمُصَاحِفِ رَدَّ عُثْمَانَ الصُّحُفَ اِلٰی حَفْصَۃٍ وَ اَرْسَلَ اِلٰی کُلِّ اُفُقٍ بِمُصْحَفٍ مِمَّا نَسَخُوْا وَ اَمَرَ بِمَا سِوَاہُ مِنَ الْقُرْآنِ فِیْ کُلِّ صَحِیْفَۃٍ اَوْ مُصْحَفٍ اَنْ یُّحْرَقَ۔
ترجمہ: پس حضرت عثمان نے حضرت حفصہ کے پاس آدمی بھیجا کہ اپنے صحیفے بھیج دو تاہم ان کو اور مصاحف میں نقل کر لیں پھر اصل تمہیں واپس بھیج دیں گے، حضرت حفصہ نے وہ حضرت عثمان کی طرف بھیج دئیے پس انہوں نے زید بن ثابت اور عبداللہ بن زبیر اور سعید بن عاص اور عبدالرحمن بن حارث بن ہشام کو حکم دیا کہ نقل کر لیں، پس انہوں نے متعدد نسخے لکھ لئے اور حضرت عثمان نے تینوں قریشیوں سے کہہ دیا کہ جب تمہارا اور زید کا قرأت میں سے کسی بات پر اختلاف ہو جائے تو قریش کی لغت میں لکھنا کیونکہ قرآن انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے، پس انہوں نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ انہوں نے جب ان صحیفوں کو متعدد مصاحف میں لکھ لیا تو وہ صحیفے حضرت عثمان نے حضرت حفصہ کو واپس بھیج دئیے اور ہر طرف انہی نقل شدہ مصاحف میں سے ایک ایک نسخہ بھیج دیا اور اس کے ماسوا جس قدر قرآن دیگر صحیفوں میں یا کسی اور مصحف میں تھا اس کو جلانے کا حکم دے دیا۔
ا س عبارت کا صاف طورپر یہ مطلب ہے کہ حضرت حفصہ کے پاس سے آئے ہوئے صحیفوں میں جس قدر قرآن تھا صرف وہی متعدد مصاحف میں نقل کیا گیا اور اس کے ماسوا (باقی ماندہ صحیفوں میں) جس قدر قرآن تھا سب کو جلا دیا گیا، باقی صحیفوں کو نہیں بلکہ ان میں سے جو قرآن حضرت حفصہ کے صحیفوں میں لکھے ہوئے قرآن کے علاوہ (ماسوا) تھا صرف اُسی کو جلانے کا حکم دیا گیا؟ لیکن مرزا حیرت دہلوی مترجم بخاری نے اس آخری ٹکڑے کا ترجمہ یوں کیا ہے:  پہلے کے جو قرآنی مسوّدات تھے سب کو جلا دینے کا حکم فرما دیا۔۔۔۔۔ ص ۱۶۳ پر ملاحظہ ہو۔
مسوّدہ تو اس رَف خاکہ کو کہا جاتا ہے جو دوسرے اصلی مقام پر نقل کر لینے کے بعد بیکار قرار دیا جائے، اس لحاظ سے تو حضرت حفصہ کے صحیفے ہی مسوّدات سے تعبیر کئے جا سکتے ہیں لیکن انہیں نہیں جلایا گیا، اور اس کو اِس طرح مسوّدہ سے تعبیر کیا جائے گا جس کو نقل کئے بغیر تلف کیا گیا ہو؟ البتہ اپنے تیار شدہ مضامین میں یہ گنجائش ہوا کرتی ہے کہ اس کی کاٹ چھانٹ کی جائے۔۔۔ زائد رَف کو ترک کر دیا جائے اور ناقص رَف کی کمی کو پورا کیا جائے، لیکن کلامُ اللہ تو اس قسم کا مسوّدہ نہیں تھا جس کی کاٹ چھانٹ کا اختیار کسی جامع قرآن کے ہاتھ میں ہوتا اگر ایسا ہوتا تو جناب رسالتمآبؐ خود بنفس نفیس اس کام کو سر انجام فرما کر جاتے!؟ وہ تو ساری امت کو تاکیدی حکم فرما گئے ہیں کہ ’’اِنِّیْ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْن‘‘ میں تم میں دو گرانقدرچیزیں چھوڑے جاتا ہوں ایک اہل بیت ؑ دوسرا قرآن مجید، اگر قرآنی مسوّدات میں جلائے جانے کے قابل کوئی رَف زیادتی ہوتی تو اوّلاً اُسے حضور خود ہی تلف کر جاتے، ثانیاً یہ کہ ہمیں اس سے تمسک کا حکم ہرگز نہ فرماتے!!
مترجم بخاری نے جلائے جانے والے قرآن کو مسوّدات سے تعبیر کیا ہے لیکن جلال الدین سیوطی نے الاتقان جلد ۲ میں آدابِ کتابت کے بیان کے آخر میں یہ تأویل پیدا کر لی کہ’’اَحْرَقَ مَصَاحِفَ کَانَ فِیْھَا آیَاتٌ وَ قِرْآتٌ مَنْسُوْخَۃٌ‘‘ یعنی حضرت عثمان نے صرف وہ مصحف جلائے جن میں منسوخ آیتیں اور قرائتیں تھیں۔۔۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس قدر قرآن کو جمع یا نقل کرا کے اطرافِ مملکت روانہ کیا گیا ان میں تو کوئی آیت ایسی نہیں جو منسوخ ہو چکی ہو؟ کتب تفاسیر اور آثار سے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ اس موجودہ قرآن میں بھی بہت سی آیات ایسی ہیں جو منسوخ ہو چکی ہیں۔