اس کے باپ بشر بن عمرو حضرمی کے تذکرے میں گزر چکا ہے کہ اس کو عین جنگ کے
وقت اپنے بیٹے کی اسیری کی اطلاع دی گئی تھی تو اس نے نہایت جرأت سے کہا تھا کہ
مجھے اس کا اجر خدا دے گا۔۔ گویا فرزند رسول کو نرغۂ اعدا میں چھوڑ کر میں بیٹے
کی رہائی کے لئے ہرگز نہ جائوں گا، تو امام پاک نے اس سے بیعت اٹھا لی اور فرمایا
تجھے میری طرف سے اجازت ہے لیکن اس سراپا ایمان نے جواب دیا کہ میں کسی قیمت میں
آپ ؑ سے جدائی پسند نہیں کرتا، پس آپ ؑنے ایک ہزار دینار کے قیمتی لباس اس کے
عطا فرمائے کہ اپنے بیٹے محمد کو دے کر روانہ کرو تاکہ اپنے بھائی کا فدیہ ادا کر
کے اس کو چھُڑا لائے۔
اس واقعہ کے بعد تاریخ خاموش ہے کہ آیا محمد بن بشر وہ لباس لے کر بھائی
کے چھڑانے کے لئے گیا؟ یا وہیں رہ کر شہید ہو گیا؟ لیکن حالات حاضرہ کا تقاضا یہ
ہے کہ وہ کربلا میں رہ گیا اور درجہ شہادت پر فائز ہوا کیونکہ جہاں ایک طرف اس کا
بھائی اسیری میں مبتلا تھا وہاں آنکھوں کے سامنے اس کا باپ دشمنوں سے مصروف جنگ
تھا تو یہ ایک غیور انسان سے کیسے ممکن ہے کہ اپنے بھائی کی خیرخواہی کے لئے باپ
کو معرضِ قتل میں چھوڑ کر چلا جائے! لہذا مطلب یہ ہے کہ محمدبن بشر بھی اپنے باپ
کے ہمراہ شہدائے کربلا میں داخل ہو گا۔۔۔ واللہ اعلم