التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

تمہید -- تفسیر انوار النجف


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
تمہید
حَامِداً وَّ مُصَلِّیاً:
مدت سے طبیعت میں خیال پیدا ہوا تھا اور چند روزہ دل میںتڑپ بھی پیدا ہوئی تھی لیکن عرصہ محدود کیلئے اور وہ صرف اس لئے کہ نہ حالات مقتضی تھے اور نہ اسباب موافق تھے، نہ وقت میں گنجائش تھی اور نہ ہمت میں اس قدر یارا تھا، بس دل ہی دل میں ہاں اور نہ کی کشمکش تھوڑے وقت تک رہ کر منصرم ہو جاتی تھی، نجف اشرف میں گو اتنا وقت گزارنے کا موقعہ نہ مل سکا جتنا طبیعت چاہتی تھی، تاہم اپنے فرائض کا احساس تھوڑے ہی عرصہ میں پھر از سرِ نو پیدا ہو کر تیز سے تیز تر ہوتا گیا حتی کہ باوجود اسباب ظاہریہ کی عدم مساعدت کے اضمحلال پذیر نہ ہو سکا۔
وہ خیال یہ کہ خدمت علوم آل محمدعلیہم السلام میں تدریسی فرائض سنبھالنے کے علاوہ تصنیف و تالیف کی طرف بھی اقدام کروں تاکہ مِدَادُ الْعُلَمَائِ أفْضَلُ مِنْ دِمَائِ الشُّہَدَائِ کا مقدس جملہ صرف کانوں تک ہی محدود نہ رہ جائے بلکہ عملی اقدام کر کے امیدوارانِ اَجر کے زمرہ میں خواہ آخری نمبر پر ہی سہی شمار ہو جائوں، متعدد گوشوں میں خیال دوڑایا کہ کس چیز پر قلم اٹھائوں؟ پھر کافی ذہنی جوڑ توڑ کے بعد اسی نظریہ پر پہنچ کر آخر کار طبیعت نے قرار پکڑا کہ قرآن مجید ہی کی خدمت پر لمحاتِ فرصت کو صرف کروں کیونکہ یہ اساسِ دین بھی ہے اور اصل علوم بھی، لہذا باوجود انتہائی ہمت شکن حالات کے اسی نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کا عزم مصمم کر کے تفسیر قرآن کے لکھنے پر کمر باندھی۔
چنانچہ اپنے دماغ میں یہ فیصلہ کر کے نجف اشرف کے زمانِ قیام میں ہی بعض عنوانات قائم کرکے بطورِ مقدمۂ تفسیر لکھنا شروع کر دیا، تاکہ شہِ نجف، بابِ مدینۂ علوم نبویہ کی بارگاہِ فیض بار سے اس خیرِ کثیر کی ابتدأ و انتہأ تک پہنچنے کی بشارت کی حامل ہو، صرف فال نیک قرار دے کر وہاں ابتدا ٔکر لی اور اس کے بعد فوراً مراجعت وطن مألوف (پاکستان) کا مرحلہ پیش آگیا۔
یہاں پہنچ کر پھر خیالات میں تشتُّت و افتراق سا پیدا ہو گیا، چنانچہ خواب میں مولائے کونین، ابوالحسنین، بابُ العلوم النبویہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی بارگاہِ اقدس سے اشارہ پا کر اپنے گھر میں ہی مدرسہ ٔ دینیہ کی تشکیل کا ارادہ کیا، جس کا نام اپنے حسن عقیدت کی بنأ پر’’جامعۂ علمیہ باب النجف‘‘ تجویز کیا، جس کی پہلی تحریک ۴ شوال ۱۳۷۴؁ھ بروز جمعہ ہوئی اوراسی ماہ کے آخر میں سنگِ بنیاد رکھا گیا اور ساتھ ساتھ طلبائے کرام کے پہنچ جانے پر تدریس کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔
دوسال کا عرصہ تو دوڑ دھوپ اور مدرسہ کے ابتدائی حالات کو سنوارنے کی کوشش میں صرف ہوگیا، جب قدرے فرصت ملی تو ارادۂ سابقہ کی تکمیل کا خیال پیدا ہوا، لیکن مدرسہ کی تعمیری منازل ابھی ختم نہیں ہوئی تھیں لہذا صرف دو چار ورق مسوَّدہ کے طور پر لکھنے کے بعد دفتر کتابت کو بند کر دیا۔
چونکہ تفسیر قرآن لکھنے کے متعلق اشتہارات شائع ہو چکے تھے لہذا جہاں کہیں مجالس کے سلسلہ میں سفر کا اتفاق ہوتا تو اربابِ محبت اور صاحبانِ عقیدت ملاقات ہوتے ہی رسمی احوال پرسی کے بعد تفسیر کے متعلق دریافت فرماتے تھے کہ لکھی ہے یا نہیں؟ کتنی لکھی جا چکی ہے اور کس قدر باقی ہے؟ اس قسم کے سوالات سننے کے بعد خجالت زدہ ہو کر جواب نہ نفی میں دے سکتا تھا نہ اثبات میں، سوائے اِدھر اُدھر کی باتوں میں ٹال دینے کے کوئی چارہ کار نہیں تھا۔
بہر کیف ایک برس کامل اسی طرح ٹال مٹول میں گزر گیا اور یہ مدرسہ کا تیسرا سال تھا، بحمداللہ اسی سال مدرسہ کا تعمیری کام بہت کچھ ختم ہوگیا اور طبیعت میںکافی سکون و اطمینان آگیا لہذا دیرینہ خواہش کی تکمیل کا موقعہ پاکر تفسیر کو لکھنا شروع کیا۔
اس سلسلہ میں لائق صد ستائش ہیں وہ لوگ جنہوں نے تعمیری اخراجات میں میرا بوجھ ہلکا کر کے مجھے اس قسم کے مشاغل سے سبکدوش کردیا، خصوصاً ’’ملک میوہ رک صاحب‘‘ جنہوں نے ’’جامع مسجد باب النجف‘‘ کی تعمیر میں بہت بڑا حصہ لیا اور عالی جناب ’’سید غلام حسین شاہ صاحب‘‘ فرزند سید علی شاہ صاحب مرحوم ساکن سیدعلیاں جنہوں نے تعمیر مسجد باب النجف کے لئے گر انقدر عطیہ کی پیش کش فرمائی۔
اور فخر سادات مخدوم ’’سید محمد راجو سجادہ نشین‘‘ شاہ یوسف گردیز ملتان جنہوں نے جامعہ علمیہ باب النجف کے وسیع احاطہ میں اپنے نام سے ایک علیحدہ مدرسہ بنوایا جو پانچ کمروں پر مشتمل ہے جس کا نام ’’احاطہ یوسفیہ‘‘ تجویر ہوا، اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً مدرسہ کی دیگر امداد بھی فرماتے رہے۔
اور ’’صوفی محمد انور‘‘ آف لاہور جنہوں نے مدرسہ کی باقی تعمیر اور کمروں کی تکمیل میں معتدبہ حصہ لیا ان کے علاوہ ’’سید غلام رضا شاہ صاحب‘‘ ساکن نو شہرہ (سابق ذیلدار) فوت ہو چکے ہیں خداوند کریم انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے، ’’سیدا عبد الغفار شاہ صاحب‘‘ ساکن ممو والی، ’’سید امیر حسنین شاہ صاحب‘‘ ساکن مٹھہ پور، ’’ملک غلام محمد‘‘ ساکن وانڈھی شاہ داود، ’’زوار کالو خان‘‘ ساکن جبار والا جو کہ دنیا سے کوچ کر چکے ہیں اور ’’ملک فدا حسین جاڑا مرحوم‘‘ جنرل سیکرٹری مدرسہ ہذا جنہوں نے عمارتی لکڑی سے مدرسہ ہذا کی بہت اعانت فرمائی، اس سلسلہ میں ’’ملک غلام حیدر جاڑا مرحوم‘‘ لائق صد تحسین ہیں جن کی مساعی جمیلہ سے مدرسہ کے کمروں کی تعمیر میں حائل رکاوٹیں دور ہوئیں، خدا وندکریم ان کے اور باقی سب معاونین کے عطیہ جات کو شرفِ قبولیت مرحمت فرما کر ان کو اَجر جزیل عطا فرمائے (آمین)
 اور بے حد ناشکری بلکہ انتہائی نا قدر شناسی ہو گی اگر اس مقام پر اپنے قبلہ و کعبہ والد ماجد الحاج ’’ملک اللہ بخش جاڑا‘‘ غَفَرَاللّٰہُ لَـہٗ وَاَسْکَنَہٗ فِیْ فَرَادِیْسِ جَنَانِہٖ( جن کی وفات ۱۵، ۱۴ رمضان المبارک۱۳۷۸؁ھ کی درمیانی شب بمطابق ۳۰ اگست ۱۹۷۷؁ شب ۱۰ بجے ہوئی اور علی الصبح ۱۰ بجے بستی جاڑا کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیئے گئے) کو فراموش کر دوں، جن کے وجودِ مسعود کی برکات اور با اخلاص دعائوں کے اثرا ت کے علاوہ جانی و مالی تعاون اور غیر معمولی عملی جدوجہد سے مدرسہ کا خیالی خاکہ ناقابل انکارِ حقیقت بن کر رہا، ضعیفی اور پیری کے باوجود تعمیر مدرسہ میں انہوں نے وہ نمایاں خدمات انجام دیں جنہوں نے نوجوانوں کو محوِ حیرت کر دیا اور یہ سب کچھ اُن کے خلوص اور قوتِ ایمان کا نتیجہ تھا، خداوند متعال انہیں جوارِ آئمہ معصومین ؑمیں جگہ مرحمت فرمائے (آمین)
آخر میں اُن تمام طلبائے کرام کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کے عملی تعاون سے مدرسہ علمیہ باب النجف جاڑا نے جامۂ حقیقت پہنا، سچ ہے کہ اگر طلبائے کرام ہمت ہار جاتے تو مدرسہ کا تعمیری کام جو دِنوں میں پورا ہوا وہ سالوں میں پورا ہوتا، خداوند کریم ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور اس کے صلہ میں ان کے دامن کو دولت ِ علم و عمل سے بھر دے اور انہیں زیادہ سے زیادہ خدمت ِ دین کا شوق عطا فرمائے (آمین)





مدرسہ علمیہ باب النجف جاڑا کی قومی و ملی خدمات
نہایت مختصر وقت میں مدرسہ نے جو خدمات انجام دیں وہ عیاں را چہ بیاں کی مصداق ہیں، جہاں اس مدرسہ نے بڑے بڑے خطیب و واعظ پیدا کئے وہاں لائق صد تحسین مدرّ ِس بھی اس مدرسہ سے فارغ التحصیل ہوئے، جن طلاب کرام نے مدرسہ ہذا میں علوم آلِ محمد سے فیض یاب ہونے کا شرف پایا اُنکی فہرست کچھ یوں ہے:
پہلے مرحلے میں فیض یاب ہونے والے طلابِ کرام:
        مولانا محمد زمان موضع ٹانک ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
        مولانا ناصر الدین حسین خطیب رجوعہ سادات ضلع جھنگ
دوسرے مرحلے میں فیض حاصل کرنے والے محصِّلِین:
        علامہ غلام حسن ملانہ پرنسپل مدرسہ باب النجف جاڑا ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
        علامہ سید صفدر حسین نجفی جامعۃ المنتظرلاہور
        علامہ نور محمد صاحب فاضل نجف اشرف (عراق )
        مولانا سید مرید کاظم شاہ صاحب مظفر آباد (ملتان)
        مولانا سید فرزند علی شاہ صاحب گھگاں والی ضلع گجرات
        مولانا سید اقرار حسین شاہ خطیب مچھر کھادی ضلع سرگودھا
        مولانا نذر حسین ظفر مرحوم سرگودھا
        مولانا حافظ عبدالحلیم صاحب خطیب پنڈ دادنخان ضلع جہلم
تیسرے مرحلے میں علومِ دینی کے متعلِّمین:
        علامہ سید کرامت علی شاہ پرنسپل جامعۃ المصطفیٰ لاہور
        علامہ غلام حسین نجفی صاحب جامعۃ المنتظر لاہور
        علامہ ملک اعجاز حسین صاحب پرنسپل دار العلوم جعفریہ کربلا خوشاب
        علامہ سید بشیر عباس مرحوم آف کلورکوٹ ضلع بھکر
        علامہ سید امداد حسین شیرازی موضع ببی ضلع ڈیرہ غازی خان
        شہید ملت جعفریہ علامہ کاظم حسین اثیر جاڑوی دریاخان ضلع بھکر
        علامہ محمد افضل رکنوی پرنسپل جامعۃ النجف کوٹلی امام حسین ؑ ڈیرہ اسماعیل خان
        علامہ محمد ہاشم صاحب پرنسپل مدرسہ خاتم الانبیا ٔ چکوال
        علامہ عبد الغفور صاحب لاہور
        مولانا مشتاق حسین جاڑا مرحوم  (علامہ حسین بخش جاڑا کے چھوٹے بھائی)
        مولانا ضمیر باقر نجفی صاحب آف کلورکوٹ ضلع بھکر
        مولانا امداد حسین شاہ صاحب فاضل نجف اشرف (عراق)
        مولانا غلام رسول صاحب آف جاڑا ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
        مولانا اعجاز حسین صاحب آف جاڑا ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
        مولانا ملک نجم الحسن اعوان مرحوم آف جاڑا ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
        مولانا صفدر حسین صاحب آف دین پور ضلع مظفر گڑھ
        مولانا مرید کاظم صاحب آف سید علیاں ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
        مولانا شیر محمد شاہ صاحب آف سیدعلیاں ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
        مولانا سید ناصر حسین شاہ صاحب آف مٹھہ پور ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
        مولانا ناصر حسین خان موضع حاجی مورہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
        مولانا سید ملازم حسین شاہ موضع حاجی مورہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
        مولانا سید اعجاز حسین صاحب مدرّس باب النجف جاڑا ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
        مولانا سید ریاض حسین شاہ صاحب موضع ڈیال ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
        مولانا غلام عباس خان ڈیرہ غازی خان
        مولانا غلام رسول صاحب ڈیرہ غازی خان
        مولانا طالب حسین مرحوم آف پنجگرائیں ضلع بھکر
        مولانا حسین بخش صاحب آف روڈی ضلع میانوالی
        مولانا امیر افضل صاحب راکٹ ضلع رحیم یار خان
        مولانا رحیم بخش صاحب آف نتکانی ضلع ڈیرہ غازی خان
        مولان سید نیاز حسن شاہ مرحوم موضع کاٹھگڑھ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
        مولانا سید غلام عباس شاہ مرحوم حویلی کورنگا
        مولانا عاشق حسین صاحب سرگودھا
        مولانا سید ریاض حسین شاہ سرگودھا
        مولانا محمد اعجاز ٹاٹے پوری مرحوم ڈیرہ اسماعیل خان
        مولانا سید فیروز حسین شاہ مرحوم موضع گرہ بلوچ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
        مولانا غلام باقر صاحب موضع گرہ بلوچ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
        مولانا سید ضیا ء الدین شاہ موضع گرہ بلوچ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
        مولانا سید نذر حسین شاہ موضع رک نو ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
        مولانا نذر حسین خان مرحوم آف کہر ضلع ڈیرہ غازی خان
        مولانا محمد سبطین جھمٹ ضلع بھکر
        مولانا محمد حسین گھلو آف مہوٹہ ضلع بھکر
        مولانا محمد حسین آف گوہر والہ ضلع بھکر
        مولانا غلام شبیر موضع گرہ نورنگ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
        مولانا گلزار حسین خان خطیب ٹھٹھہ محمد شاہ ضلع جھنگ
        مولانا حافظ رب نواز جھمکانہ آف حاجی مورہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
        مولانا محمد بشیر موضع خاکی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
        مولانا مرید حسین خان دستی ضلع رحیم یار خان
        مولانا محمد رمضان غفاری شاہ پور لشکرانی  پرنسپل عزیز المدارس چیچہ وطنی
        مولانا محمد عبداللہ خان موضع ہوت ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
        مولانا محمد شاہ صاحب آف جھنگ
        مولانا سید ملازم حسین شاہ خطیب کالا باغ
        مولانا حافظ سید منظور حسین معلّم قرآن وزیر آباد
        مولانا محمد نواز مرحوم جبار والہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
        مولانا محمد نواز صاحب کوریا ضلع بھکر
        مولانا سید غلام مہدی شورکوٹ
        مولانا سید فیض اللہ صاحب ڈورے والہ ضلع بھکر
        مولانا حق نواز آف گلی والہ ضلع بھکر
        مولانا عاشق حسین صاحب سرگودھا
        مولانا فدا حسین صاحب میانوالی
        مولانا اللہ بخش صاحب  ڈیرہ غازی خان
        مولانا مشتاق حسین خطیب شیعہ حسینی چوک کوٹلہ جام
ذاکرین کرام جنہوں نے علامہ مرحوم کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیا:
        ذاکر اہل بیت حافظ محمد علی بلوچ آف سامٹیہ ضلع لیہ
        ذاکر اہل بیت سید صابر حسین شاہ آف بہل ضلع بھکر
        ذاکر اہل بیت ملازم حسین ضلع ڈیرہ غازی خان
        ذاکر اہل بیت غلام حسن نیازی مرحوم آف لیہ
        ذاکر اہل بیت حاجی مداح حسین بونگہ بلوچاں سرگودھا
        ذاکر اہل بیت سید فیروز حسین شاہ آ ف کلورکوٹ
        ذاکر اہل بیت سید امتیاز حسین شاہ آف پہاڑپور تھل
        ذاکر اہل بیت سید اعجاز حسین شاہ صاحب آف سید علیاں ضلع ڈیرہ اسماعیل خان

مدرسہ کی تعمیر میں حصہ لینے والے متعلّمین:
وہ طلاب کرام جو ابتدائے تعمیر سے انتہائے تعمیر تک شریک رہے ان کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں:
        ٭   شہید ملت جعفریہ علامہ کاظم حسین اثیر جاڑوی دریاخان
        ٭   حجۃ الاسلام علامہ محمد ہاشم پرنسپل مدرسہ خاتم الانبیا ٔ چکوال
        ٭   حجۃ الاسلام علامہ سید کرامت علی شاہ پرنسپل جامعۃ المصطفیٰ لاہور
        ٭   حجۃ الاسلام علامہ سید امداد حسین شاہ ساکن علاقہ کارلووالہ تھل ضلع بھکر
        ٭   حجۃ الاسلام مولانا سید ضمیر باقر شاہ ساکن کلورکوٹ ضلع بھکر
        ٭   حجۃ الاسلام مولانا محمد اعجاز ٹاٹے پوری مرحوم ڈیرہ اسماعیل خان
        ٭   جحۃ الاسلام مولانا سید نیاز حسین شاہ مرحوم ساکن کاٹھ گڑھ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
        ٭   شہید ملت جعفریہ مولانا فیروز حسین شاہ گرہ بلوچ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
        ٭   مولانا مشتاق حسین جاڑا مرحوم ساکن بستی جاڑا ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
        ٭   مولانا سید ضیا حسین شاہ ساکن گرہ بلوچ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
        ٭   مولانا غلام باقر ساکن نورنگ ضلع ٹانک
        ٭   مولانا ربنواز ساکن جھوک قریشی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
خداوند کریم انہیں اور باقی تمام طلبائے علوم آل محمد کو تحصیل علوم دینیہ میں بلند حوصلگی عطا فرمائے اور مجھے ان کی صحیح خدمت کرنے کی زیادہ سے زیادہ توفیق مرحمت فرمائے (آمین)
علامہ مرحوم کے شاگردوں میں سے مندرجہ بالا شاگرد مدرسہ باب النجف کے تعمیری کام میں شامل تھے، لیکن ان کے علاوہ جنہوں نے مختلف مدارس دینیہ میں علامہ کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیا اُن میں سے بعض یہ ہیں:
        ٭   علامہ محمد حسین نجفی ڈھکو پرنسپل سلطان المدارس سرگودھا
        ٭   علامہ وزیر حیدر آف کوٹ سمابہ ضلع رحیم یار خان
        ٭   مولانا سید محمد حسن آف سید کسراں ضلع راولپنڈی
        ٭   مولانا حافظ سید کاظم رضا نقوی آف ملہووالی ضلع اٹک
        ٭   مولانا غلام رضا ناصر آف بھلوال
        ٭  مولانا ابوالعرفان عطامحمدخان جتوئی آف ڈیرہ غازی خان
        ٭  مولانا ظفر عباس آف دوسا ضلع جھنگ
        ٭  مولانا سید ضمیر الحسن نقوی پرنسپل مدرسہ جامعہ الرضا کروڑ لعل عیسن ضلع لیہ
        ٭  مولانا ضمیر الحسن خطیب شیعہ گل گشت کالونی ملتان
        ٭  مولانا ناصر مہدی جاڑا  خطیب شیعہ مسجد علاقہ نواب صاحب لاہور
        ٭  مولانا ظہیر مہدی جاڑا  خطیب شیعہ حویلی کورنگہ
        ٭  مولانا سید تسلیم حسین کاظمی آف سید کسراں ضلع راولپنڈی
        ٭  مولانا سید اصغر علی شاہ صاحب مدرسۃ الواعظین ایمپرس روڈ لاہور
        ٭  مولانا اصغر علی جاڑا خطیب جامع مسجد کمرمشانی ضلع میانوالی
        ٭  مولانا سید اشتیاق حسین شاہ کاظمی صاحب آف جہلم
        ٭  مولانا مقبول حسین ڈھکو آف شاہ جیونہ ضلع جھنگ
مذکورہ بالا طلاب کرام کے علاوہ بھی مختلف محصّلین نے قبلہ علامہ کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور علوم دینی کے سلسلہ میں اُن سے فیض یاب ہوتے رہے ہیں، خداوند متعال کے حضور دُعا ہے کہ وہ تمام طلاب کرام کو علم کی لازوال نعمت سے مالا مال فرمائے(آمین)
جامع مسجد باب النجف کی ابتدائے تعمیر ۲۰جمادی الثانیہ ۱۳۷۶؁ ھ کو ہوئی اور اس کی تکمیل ۱۲ربیع الاول ۱۳۷۷؁ھ کو ہوئی اور شمال و جنوب میں (مسجد کی ہر دو طرف) جو اٹھارہ کمرے ( مع مدرسہ احاطہ یوسفیہ) ہیں انکی ابتدائے تعمیر ۲۰جمادی الثانیہ ۱۳۷۷؁ھ کو اور تکمیل حسب سابق ۱۲ربیع الاول ۱۳۷۸؁ھ کو ہوئی، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن۔
 اب اس کا م سے کسی حد تک سبکدوش ہو جانے کے بعد تصنیف کی طرف اقدام کی جرأت کی، بہت کوشش کی کہ کوئی نائب مدرّ ِس ایسا ملے جو میری طرف سے طالب علمی حیثیت کو اپناتے ہوئے امور تدریسیہ کی خاطر خواہ انجام دہی کے علاوہ تصنیف و تالیف میں میرا ہاتھ بٹائے، لیکن ز مانہ کی ناساز گار ہوا نے ہم سے وہ رُخ بھی پھیر دئیے جن سے ہمیں بہت زیادہ توقع تھی!! جب پرانے اور با اخلاص اور عقیدت مند شاگردوں کے کندھوں پر سہارا لینے کی کوشش کی تو سوائے مایوسی کے اور کچھ حاصل نہ ہوا، جن پر سو فیصد وفاداری کا ظن و گمان تھا وہ سو فیصد ی خود غرض، مطلب پرست اور بہانہ جو ُ نکلے!؟
بہت عرصہ تک کفِ افسوس ملتا رہا کہ کاش ایسوں سے ایسی توقعات وابستہ نہ کی ہوتیں، خیر جو ہونا تھا وہ ہو ہی گیا، جب اِدھر اُدھر ہاتھ پائوں مار چکنے کے بعد معاون کے میسر نہ آنے کا کسی حد تک یقین ہوا، امیدیں ختم ہوئیں اور اِس طرف ہماری تمدید میں جس قدر اضافہ ہوتا گیا اُس طرف احباب کے اصرار میں بجائے تخفیف کے تشدید کا اتنا ہی اضافہ ہوتا گیا، پس اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر کے تدریسی اوقات سے تھوڑا تھوڑا وقت بچا کر یہ کام شروع کر دیا، چنانچہ ۱۰ جمادی الثانیہ ۱۳۷۸؁ھ بمطابق ۲۲ دسمبر ۱۹۵۸؁ء بمطابق ۸ پوہ ۲۰۱۵؁ بکرمی شب ِسوموار مقدمہ تفسیر کو لکھنا شروع کیا، چونکہ اس کی پہل بارگاہِ مقدس شہ ِ نجف میں ہوئی تھی لہذا تفسیر کے لئے
 ’’  انوار النجف فی اسرار المصحف ‘‘
 نام تجویز کیا، اور بحمد اللہ ۲۱ ربیع الثانی ۱۳۹۶؁ھ بمطابق ۲۲ اپریل ۱۹۷۶؁ء بروز جمعرات ۴ بجے عصر تفسیر کا کام مکمل ہوا۔
 اس تفسیر میں مطمعِ نظر  یہ ہے کہ احادیث و اقوالِ آئمہ اہل بیت ؑ کی روشنی میں مطالب ِقرآنیہ اور مقاصد ِ ربانیہ کی ترجمانی کی جائے، باوجودیکہ اپنی علمی بے بضاعتی اور ذہنی کم مائیگی کے پیش نظر اس مقصد عظیم کو نبھانے کیلئے کمزوری کو بہت زیادہ محسوس کیا، لیکن قرآنی خدمات سے موجودہ دَور کے ذمہ دار حضرات کی غیر معمولی تساہل شعاری بلکہ انتہائی پہلو تہی کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ ڈر بھی محسوس ہوا کہ کہیں اس خیر کثیر کو ترک کر کے زیر بار نہ ہو جائوں۔
خداوندکریم سے دعا ہے کہ مجھے قرآن مجید کی صحیح خدمات انجام دینے والوں کے زمرہ میں محشور فرمائے، اور قرآن کو نظر انداز کرنے والے یا مطالب ِقرآنیہ میں اپنی رائے کو دخل دینے والے گروہوں میں محشور نہ فرمائے اور مجھے اس کار خیر کی انجام دہی میں تائید غیبی سے سرفراز فرما کر توفیقِ اِتمام مرحمت فرمائے (آمین)
وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ     اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِمَّن یَذْکُرُ فَتَنْفَعَہٗ الذِّکْریٰ
بحمد اللہ دعا مستجاب ہوئی اور تقریباً ۱۷ سال ۴ ماہ کی مسلسل محنت و کاوش کے بعد یہ تفسیر پایۂ تکمیل کو پہنچی اور اس مقدمہ کے ساتھ تفسیر ہٰذا کل چودہ جلدوں میں مکمل ہوئی ہے۔