میں نے آپ حضرات کے سامنے قرآن مجید کی وہ ممتاز آیت تلاوت
کی ہے یہ وہ آیت ہے جس کا نام تمام مفسرین آیت تطہیر لکھتے ہیں، یہ آیت قرآن
میں آلِ محمد کے فضائل پر نص قاطع ہے، اگر کوئی دشمن آلِ محمد کے فضائل کو
چھپانا چاہے۔۔ تاریخ کا رُخ بدلنا چاہے۔۔ تفسیر کا رخ موڑنا چاہے۔۔ واقعات کو الٹ
پلٹ کر پیش کرنا چاہے تاکہ آلِ محمد کی فضیلت چھپ جائے میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ
جب تک آیت تطہیر قرآن میں موجود ہے آلِ محمد کی کسی فضیلت پر پردہ نہیں ڈالا جا
سکتا۔
اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ
أہْلَ الْبَیْتِ خداوند کریم کی منشا ٔ یہ ہے کہ اہل بیت ؑ سے رجس کو دور رکھے۔۔۔
جو چیز بھی رجس ہے اہل بیت ؑ سے دور ہے، خداوند نے رجس کو اہل بیت ؑ سے دور رکھا۔
تو معلوم ہوتا ہے کہ جو بھی اہل بیت ؑ سے دور ہے وہ رجس ہے اور
جو رجس ہے وہ ان سے دور ہے۔۔۔ رجس ان کے نزدیک نہیں آ سکتا اور جو رجس نہیں وہ ان
کی غلامی کرتا ہے، رجس چاہے جو چیز بھی ہو۔۔۔۔چاہے زمیں کی۔۔چاہے آسمان کی۔۔چاہے
بندوں میں سے۔۔چاہے حیوانوں میں سے۔۔۔خداوند کریم کی مخلوق میں سے کوئی چیز ہو جو
رجس ہو وہ اہل بیت ؑ سے دور ہے۔
ہمیں پہچاننے کا آسان طریقہ مل گیا کہ جو آلِ محمد ؑ کے
نزدیک وہ رجس نہیں اور جو اُن سے دور وہ رجس۔۔۔ خداوند کریم کا ارشاد ہے کہ میں نے
اہل بیت ؑ سے رجس کو دور رکھا ہے رجس سے دور رہنے کا مطلب ہے تطہیر یعنی پاک رکھنا
جیسے پاک رکھنے کا حق ہو۔
رجس کے مقابلے میں ہے طہارت۔۔۔۔۔ پس ہر عیب رجس۔۔ ہر کمزوری
رجس۔۔ جہالت رجس مقابلے میں علم طہارت۔۔ بزدلی رجس شجاعت طہارت۔۔ بخل رجس سخاوت
طہارت۔۔ ہر بدعادت رجس ہر نیک عادت طہارت۔
تطہیر کا کیا معنی ہے؟ اس کا معنی ہے کسی چیز کو پاک کرنا جیسے
پاک کرنے کا حق ہو۔۔ یہ فقرہ آپ کی اور ہماری زبان میں بھی استعمال ہوتا ہے کہ
میں نے مہمان کو ایسے کھانا کھلایا جیسے کھلانے کا حق ہے۔۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یا
تو میرے دسترخوان پر کچھ نہیں رہا یا مہمان شکم سیر ہو چکا ہے۔۔ یا یہ کہ مہمان کا
ظرف پُر ہے یا میرا دامن خالی ہے۔۔۔۔۔ میں نے کسی کو اتنا پڑھایا جتنا پڑھانے کا
حق ہے یعنی یا شاگرد کا دماغ اتنا نہیں کہ مزید پڑھ سکے یا میرے پاس اتنا علم نہیں
کہ میں اسے پڑھا سکوں؟
خدا فرماتا ہے کہ میں نے آپ کو ایسے طاہر کیا جیسے طاہر کرنے
کا حق ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تو ہم کہہ نہیں سکتے کہ خدا کے پاس کچھ نہیںرہا
اس لئے کہ یہ توحید کی توہین ہے۔۔ وہ تو ہر چیز پر قادر ہے،معلوم ہوتا ہے عالم
امکان کا ظرف پُر ہو گیا اُن کو اتنا دیا کہ جتنا عالم امکان میں گنجائش تھی، خداوند
فرماتا ہے کہ اِس سے آگے میری حدود ہیں بندے کی رسائی نہیں۔
قیامت کے دن خداوند پوچھے گا کہ ہادی کسے بنایا ہے؟ نماز و
روزہ وغیرہ عبادات کس کے کہنے پر بجا لاتا رہا؟ حالانکہ تیرے پاس جبریل تو
آیا نہیں یہ کس نے بتایا کہ نماز اس طریقے سے ادا کرو اور روزہ اس طرح رکھو؟ بندہ
کیا کہے گا میرے پاس تو جبریل نہیں آیا پروردگار تیرے ہادی نے بتایا، خدا پوچھے
گا وہ ہادی تو نے انتخاب کیا تھا یا میں نے؟ بندہ کہے کہ میں اس کی ظاہری
شکل سے بھول گیا تھا میں اس کو ہادی مقرر کر کے عبادات اوراعمال بجالاتا رہا۔
ایک شیعہ قوم ایسی ہے کہ جب ہم سے پوچھاگیا تو بتائیں گے کہ
ہادی نے بتایا۔۔ تو اگر خدا ہم سے سوال کیاہادی تمہارا نامزد تھا یا میرا؟ تو ہم
یہ نہیں کہیں گے کہ سفید پوش تھا جس کی وجہ سے ہم اس کے ظاہر پر بھول گئے بلکہ ہم
واضح طور پر آیت تطہیر پڑھ کر دربارِ توحید میں کہیں گے پروردگار! تطہیر بھیج کر
پاکیزگی کی سند تو نے دی ہے اور امام مان کر اتباع ہم نے کی ہے۔
ملکہ تطہیر مسند ِعصمت پر حجرۂ عظمت میں تشریف فرما تھیں کہ
عالمین کے سلطان رسول یا یہ کہوں کہ برجِ رسالت کے نیّرِ اعظم آسمانِ نبوت کے
آفتابِ معظم اپنی مسند ِمخصوص پر جلوہ گر تھے۔۔ خیالِ رسالت میں یہ بات گزری کہ
آج جا کر درِ دولت ِ زہرا ؑ پر خراجِ عقیدت پیش کروں، اِدھر نبوت نے اپنا مقام
چھوڑ کر دروازۂ تطہیر کا رُخ کیا اُدھر ملکہ عصمت کے مشامِ اطہر میں بابا کی
رسالت کی خوشبو نے مہکنا شروع کیا، اُدھر سے کرسی نبوت چھوڑ کر محمد مصطفی چلے
اِدھر بستر عظمت چھوڑ کر بتولِ معظمہ دروازہ کو کشادہ کرنے کیلئے چلیں۔۔ نبوت
دروازے کے باہر پہنچی عصمت دروازہ کے اندر پہنچی۔۔ دروازہ کشادہ کیا نبوت نے جھک
کر چادرِ تطہیر پر بوسہ دیا ملکہ عصمت نے مقام نبوت سنوارا اور فرمایا میرے بابا
تشریف فرمائیے یہاں پر بیٹھیں؟ حضورؐ نے فرمایا کہ آج میں یہاں بیٹھنے نہیں آیا
آج میرے جسم میں نقاہت ہے۔
حدیث کسا کے ظاہری الفاظ ایسے ہیں کہ میرے جسم میں نقاہت ہے
میں چاہتا ہوں کہ حجرہ کے گوشہ میں آرام کروں؟ پیغمبر اکرم ؐ پہنچے۔۔ حجرہ کے
گوشہ میں آرام فرماتھے۔۔ یہ ظاہر بیان کر رہا ہوں۔
میں متعدد مقامات پر بیان کر چکا ہوں کہ قرآن محمد مصطفی کا
طالب ہے لیکن محمد مصطفی قرآن کے طالب نہیں۔۔ جہاں حضوؐر گئے وہاں قرآن گیا۔۔۔
حضوؐر مکہ میں تو قرآن مکہ میں۔۔ حضوؐر سفر میں تو قرآن سفر میں۔۔ جس طرف رُخِ
محمدؐ اس طرف قرآن۔۔ قرآن کے مزاج شناس نبی ہر آیت کی آمد کو سمجھتے تھے، کسی
آیت کا موضوع حضوؐر نے خود تیار نہیں کیا بلکہ آئے ہوئے موضوع کے مطابق آیت
اُتری، آج آیت تطہیر آنے والی ہے حضوؐر نے اس کا موضوع صاف کرنا شروع کیا کہ
آیت تطہیر جب نازل ہو تو مجھے کس رنگ میں ہونا چاہیے؟
آیت نے بیان کیا کہ اے اس گھر والو! میں نے تمہیں پاک
رکھا ہے جس طرح پاک رکھنے کا حق تھا۔۔۔ وہ کونسا گھر ہے جس پر آیت آئے اور گھر
والے سب پاکیزہ ہوں؟ جتنا ارادہ وسیع۔۔ اشارہ وسیع اُتنا دور اور جتنا محدود
اتنا نزدیک۔۔ اگر حدیں نہیں تو اشارہ بعید اگر حدیں ہیں تو اشارہ قریب مثال کے طور
پر اگر میں اشارہ کروں آسمان کی طرف درمیان میں کوئی حائل نہ ہو تو اشارہ آسمان
تک جائے گا لہذا یہ اشارہ دور کا ہو گا اوراگر میں اشارہ کروں اور درمیان میں کوئی
بادل ہو تو اشارہ بادل تک محدود اور اگر سائبان ہو تو سائبان تک محدود ہو گا۔
اے اس گھر والو! جتنی گھر کی حدیں وسیع ہوں گی اشارہ
آخر تک چلا جائے گا جتنی حدیں محدود ہوں گی اشارہ قریب تک ہو گا۔۔۔ حضوؐر نے
دیکھا کہ میں اشارے کو محدود رکھوں آیت نے آ کر اشارہ پیش کرنا ہے مصداق وہ ہوں
جو اشارے کے اندر آجائیں۔۔۔۔۔ مسجد چھوڑی اس لئے کہ اگر آیت تطہیر مسجد میں نازل
ہوئی تو آیت کا موضوع تھا اے اِس گھر والو؟ تو مسجد گھر شمار ہوتی اور جو اس میں
موجود مکی۔۔ مدنی۔۔ مہاجر۔۔ اصحاب۔۔ مومن۔۔ منافق۔۔ غیرملکی سفیر۔۔ یہودو نصاریٰ
ہر قسم کا مجمع ہوتا، اگر آیت آجاتی اے اِس گھر والو! تو سب کہتے کہ ہم
پاک ہیں؟
اس لئے مسجد چھوڑی گھر کا رُخ کیا گھر میں حویلی کا رقبہ زیادہ
تھا، یہاں پر بسنے والے تھوڑے تھے۔۔ آیت آ جاتی تو سب شامل ہوتا اسلئے گھر کی
حدوں کو محدود کیا ایک حجرہ میں گئے جس میں ملکہ تطہیر تشریف فرما تھیں۔۔ اس بستر
کے قریب گئے یہاں پر دیکھا کہ امّ المومنین جناب امّ سلمیٰ بھی تشریف فرما ہیں طبق
روایت۔
پیغمبر اکرم ؐ چاہتے تھے کہ تطہیر والے سب یہاں پر ہوں تاکہ اس
گھر کے کسی مومن یا امّ سلمیٰ کو باہر بھیجوں یا خود باہر جائوں؟ آپ تو جا
نہیں سکتے کیونکہ ملکہ تطہیر خود تشریف فرما تھیں اور جناب امّ سلمیٰ سے یہ کہنا
کہ تو نکل جا یہ الفاظ کہنے بھی مشکل؟ کیونکہ جسے پیغمبر اکرؐم فرما دیں نکل جا اس
کے ایمان پر بھی شک؟ جناب امّ سلمیٰ کو نکل جا کہتے نہیں اسلئے کہ ان کے ایمان پر
شک کرانا نہیں چاہتے۔۔ آپ خود باہر نہیں جاسکتے کیونکہ ملکہ تطہیر یہاں موجود
ہیں۔
ایک تجویز سوجھی پیغمبر اکرؐم نے۔۔ ظاہر وہ تھا اور باطن یہ ہے
کہ تدبیر سوجھی پیغمبر اکرم ؐ نے کہ اس حجرے کے اندر تطہیر کا ایک نیا کیمپ قائم
کروں فرماتے ہیں کہ اے میری بیٹی زہراؑ! مجھے چاد راُٹھا دے اپنے اوپر تان
کر تطہیر کا کیمپ بناتا ہوں، حجرہ میں سے کسی کو نہیں نکالتالیکن کیمپ میں وہی
آئے گا جسے میں چاہوں گا؟ حضرت زہراؑ کی چادر بن گئی تطہیر کا کیمپ، حضرت زہراؑ
کے بابا صدرِ مجلس کی حیثیت سے تشریف فرما ہوئے۔
جنہوں نے اس بزم میں آنا تھا ذاتِ توحید نے مخصوص انداز کے
ساتھ بغیر جبریل کے اپنی مخصوص وائرلس کے ذریعے ہر ایک کواطلاع دی۔۔ آنے والے
دعوتی شروع ہوگئے اسلئے کہ بزمِ تطہیر میں کیمپ نصب ہے اور صدر موجود ہے۔
سب سے پہلے امام حسن مجتبیٰ یا یوں کہوں کہ زینت ِدین کبریا۔۔
رونق دوشِ مصطفی حضرت حسن مجتبیٰ ۔۔درِدولت ِزہراؑ پر تشریف فرماہوئے۔۔۔ بتول ؑنے دروازہ
کشادہ کیا امام حسن مجتبیٰ نے ماں کا سلام کیا، جناب زہراؑ نے گود کی زینت بنا یا
پیشانی پر بوسہ دیا عرض کرتے ہیں کہ اے مادرِ گرامی آج مجھے حجرہ میں سے جدّ امجد
کی خوشبو آرہی ہے؟ فرماتی ہیں کہ اے میرے نہ بھولنے والے بیٹے سچ کہہ رہے ہو،
میری آنکھ کی ٹھنڈک۔۔ میرے دل کا سرور واقعا ًمیرے بابا کل کائنات کے قبلہ و کعبہ
زیر کسا ٔ تشریف فرماہیں، عرض کرتے ہیں آپ کی گود کی ٹھنڈک ہر وقت نصیب ہوتی ہے
آج جدّ امجد اتفاق سے پہلے تشریف فرما ہیں اے مادر گرامی اگر آپ کی اجازت ہوتو
آپ کی گود کو سلام کرکے جدّ امجد کی خدمت میں پہنچوں؟ فرماتی ہیں کہ میری آنکھیں
ٹھنڈی ہوں گی جا جدّ امجد کے پاس سو جا، آئے کسا ٔ کے قریب جدّ امجد کو سلام کیا
جواب ملا پھر اجازت مانگی۔۔۔ اجازت ملی تو امام حسن مجتبیٰ نے چادر کا دامن
اُٹھایا اور زیر کسا محمد مصطفی کے کندھے پر سر رکھ کر سوئے۔
اتنے میں بزم تطہیر کا تیسرا فرد شہید کربلا ۔۔والی ٔنینوا۔۔
دکھی بہنوں کا آسرا۔۔ آپ سب کا پیشوا درِزہرا ؑپر آئے، سلام کیا گود کی زینب
بنے عرض کرتے ہیں اے اما ں جان مجھے نانا کی خوشبو آرہی ہے۔۔ فرماتی ہیں جی ہاں
وہ تیرے بھائی حسن مجتبیٰ کے ساتھ زیر کسا موجود ہیں، فرماتے ہیں کہ اے اماں جان
آپ کی گود کی ٹھنڈک ہر وقت نصیب ہوتی ہے اگر اجازت ہوتو جدّ امجد کے پاس جائوں؟
فرماتی ہیں جا میرے لخت جگر۔۔ خدا جانے ہمارے جانے کے بعدتجھے امت کہاں کہاں لائے
گی؟ جا نا نا کے پاس سو جا، آئے سلام کیا جواب ملا اجازت مانگی داخل کسا ہوئے اور
دوسرے کندھے پر سر رکھ کے سو گئے۔
پھر اَمِیْرُ الْمُوْمِنِیْن۔۔ قَائِدُ الْغُرِّ
الْمُہَجَّلِیْن۔۔ اِمَامُ الْمُتَّقِیْن۔۔ قبلہ آسمان و زمین درِدولت
زہراؑ پر تشریف لائے، اپنے پاک شوہر کی تعظیم کی خاطر مسند ِطہارت سے بلند ہوئیں
اور در پر آکر اپنے سردار کا سلام کیاا ور دروازہ کشادہ کیا۔۔ مسندِ ولایت کی
پیشکش کی، حضرت علی ؑفرماتے ہیں کہ نہیں آج ہمارا پروگرام اور ہے میں سمجھتا ہوں
کہ آپ کے والد گرامی کی تشریف آوری ہے مجھے نبوت کی خوشبو آرہی ہے؟ عرض کرتی
ہیں جی ہاں میرے سردار آپ کی جوڑی کے ساتھ میرے والد آرام فرماہیں۔۔ آپ کسا ٔکے
قریب گئے سلام کیا جواب ملا اجازت ملی زیر کسا ٔ پہنچے۔۔ پہلے فقط رسول اکرم تھے
اب تین اور کا اضافہ ہوگیا کل چار بن گئے، ایک شمسِ نبوت تین شموسِ امامت۔۔ درمیان
میں نبوت ارد گرد پہرۂ امامت۔۔ نیچے بتول کا بستر اُوپر بتول کی چادر۔۔ درمیان
میں نبوت و امامت۔
عالمہ غیر معلمہ بابا کے ہر انداز کو سمجھنے والی مستور مزاج
شناسِ نبوت جو کہ جانتی ہیں کہ جس رنگ میں میرے بابا ہوں قرآن اُسی رنگ میں نازل
ہوتا ہے اگر کملی پہنیں تو یَأیُّھَا الْمُزَّمِّل کے لباس میں قرآن اُترتا ہے،
اگر لحاف اوڑھیں تو یَأیُّھَا الْمُدَّثِرْ کے لباس میں قرآن آ تا ہے، اگر کرسی
نبوت پر بیٹھیں تو قرآن یٰسِیْن کے لقب سے نوازتا ہے، پیغام رسالت پہنچائیں تو
یَأیُّھَا الرَّسُوْل کے خطاب سے نواز ے جاتے ہیں، اگر وضو کریں تو طٰہَ کے
لقب سے نوازے جاتے ہیں۔
فرماتی ہیں کہ یہ رنگ جلوے عمومی ہیں لیکن آج میرے بابا کسی
خصوصی جلوہ میںہیں آج بستر خاص۔۔ رفاقت خاص۔۔ چادر خاص۔۔ حجرہ خاص، ہو سکتا ہے کہ
قرآن مجید کی کوئی خاص آیت میرے والد گرامی کی اس نشست کو بیان کرے؟ اپنے آپ سے
فرماتی ہیں کہ اے زہراؑ تو نیچے نہ بیٹھ بلکہ اس بزم میں شامل ہو جا تاکہ جو آیت
آئے اس کا عنوان تو بنے، اپنے مقام سے بلند ہوئیں جب تک نبوت و امامت چادرمیں رہی
اُس وقت تک لسانِ توحید خاموش رہی۔۔ بزمِ لاہوت چپ چاپ رہی۔۔ خداوند کی طرف سے
کوئی ارشاد جاری نہ ہوا۔
ملکہ تطہیر نے سوچا کہ میںبزم میں شامل ہو جائوں۔۔ اپنی مسندِ
عصمت و طہارت سے اٹھ کر کسا ٔکے قریب پہنچیں اور فرمایا اَلسَّلامُ عَلَیْکَ
یَا أبَتَاہُ یَا رَسُوْلِ اللّٰہ میرے رسول بابا بیٹی کا سلام ہو۔۔رسول اکرؐم نے
جواب دیا، اجازت مانگی(یہ میرا اپنا انداز ہے حدیث کسا کا مضمون) حضوؐر نے فرمایا
میری بیٹی تو پوچھ رہی ہے تو خود بتا یہ حجرہ کس کاہے ؟ یہ بستر کس کا ہے؟ یہ چادر
کس کی ہے؟ یہ بابا کس کا ہے؟ یہ شوہر کس کا ہے؟ یہ بیٹے کس کے ہیں؟ جب سب تیرے تو
اجازت کس بات کی؟ پس چادر کا دامن اٹھایا اور زیر کسا ٔپہنچیں۔
یہ مستور معمولی مستور نہیں؟ یہ رمزشناسِ نبوت۔۔ مزاجِ شناسِ
امامت۔۔ عالمہ غیر معلمہ۔۔ شریکہ کارِ ولایت۔۔ محافظہ ناموسِ وحدت ہے۔۔۔ چادر کے
نیچے پہنچی تو پہلے چار تھے اب پانچ ہو گئے۔۔ چار مرد پانچویں مستور، مرد
پہلے پہنچے مستور آخر میں پہنچی لیکن جب تک نہ پہنچی بزمِ توحید میں خاموشی طاری
رہی؟ کرسی وحدت سناٹے میں رہی؟ عالم لاہوت میں خاموش چھائی رہی؟ اس کے پہنچنے کی
دیر تھی کہ کرسی ٔوحدت کا سکوت ختم ہوا ۔۔عالم لاہوت کا سناٹا ختم ہوا۔
کرسی ٔوحدت کے واحد مکین نے اپنے مقامِ توحید سے اپنی زبانِ بے
زبانی سے اِن پانچوں کی اجتماعی صورت کو اس بزم تطہیر کے پُر ہونے کو بیان کرنے کا
ارادہ کیا عالم ملکوت میں خود دعوت دی کہ اے ملکوت! جمع ہو جائو آج میں نے
ایک تقریر کرنی ہے کہ جسکا موضوع ہے۔۔ پنجتن پاک
آج جبریل سے نہیںکہا کہ ملائکہ کو اکٹھا کرو۔۔ نہ ہی میکائیل
سے فرمایا کہ عالم ملکوت کو جمع کرو بلکہ خود اپنی زبان بے زبانی سے تمام عالم
ملکوت کو فرمایا:
یَا مَلائِکَتِیْ وَ یَا سُکَّانَ سَمٰوٰ تِیْ وَ عِزَّتِیْ وَ
جَلالِیْ اِنِّیْ مَا خَلَقْتُ سَمَآئً مَبْنِیَّۃً وَّلا اَرْضًا مَّدْحِیَّۃً
وَّ لا قَمَرًا مُّنِیْرًا وَّ لا شَمْسًا مُّضِیْئَۃً وَّ لا فَلَکًا یَّدُوْرُ
وَ لا بَحْرًا یَّجْرِیْ وَ لا فُلْکًا تَسْرِیْ اِلَّا فِیْ مُحَبَّۃِ ھٰؤُلآئِ
الْخَمْسَۃِ الَّذِیْنَ ھُمْ تَحْتَ الْکِسَآئِ
اے آسمان کے آسمانی فرشتے! اے آسمانی مخلوق! قروبییّن!
حاملین عرش! عبادت گزار! تمام ملائکہ قدسییّن کو میں اللہ دعوت دے رہا ہوں اپنے
مکانِ عبادت و مصلاہائے عبادت لپیٹ کر رکھ دو، کرسی وحدت کے سامنے جمع ہو جائو،
میں نے ایک بیان جاری کرنا ہے تم سب میرے اس بیان کو کان دھر کر سنو، جمع ہو گئی
مخلوق قدسی، تقریرکی ابتدا ٔ کی خود کرسی وحدت کے مکین نے، ابتدا ٔ یہ ہے کہ مجھے
اپنی عزت کی قسَم مجھے اپنی جلالت کی قسَم میںنے نہ سورج کو روشنی، نہ چاند کو
چمک، نہ ستاروں کو دھمک، نہ دریا کو روانی، نہ کشتی کا چلنا، نہ پہاڑوں کی بلندی
گویا کائناب عالم کا کوئی ذرّہ زیورِ تخلیق سے آراستہ نہ کرتا اگر ان پانچ کو خلق
نہ کرتا جو کہ چادر تطہیر کے نیچے ہیں؟
تقریر جتنی بھی اچھی ہو مقرر جتنا فصیح و بلیغ ہو لیکن اگر
سامعین بے ذوق ہوں تو تقریر بے اثر رہتی ہے کیونکہ بے ذوق افرد اچھے خاصے مقرر
کوشش وپنچ میں مبتلا کر دیتے ہیں۔۔ باذوق افراد تقریر کی زینت ہوا کرتے اگر بات
بیہودہ اور فضول ہو تو باذوق افراد تحمل نہیں کر سکتے اور بے ذوق ٹس سے مس نہیں
ہوتے؟
عالم ملکوت میں مقرر معمولی نہیں۔۔ مجمع بے ذوق نہیں۔۔ اجتماع
ہے نوریوں کا اور مقرر ہے خالق الانوار۔۔ نہ بولنے والا کمزور۔۔نہ مجمع بے ذوق۔۔
نہ تقریر بی ثبات؟
تقریر کو زور دار بنانے کے چار اسباب ہوتے ہیں جو کہ خالق
کائنات کی تقریر میں چاروں اسباب موجود تھے: مجمع باذو ق ۔۔ مکانِ عظیم ۔۔
لہجہ اچھا ۔۔ ماحول صاف
لہجہ طاقتور تو تقریر طاقتور۔۔ لہجہ کمزور تو تقریر کمزور، اسی
طرح تقریر کرنے والی زبان بھی بلند ہو اگر کوئی گھٹیا شخص بات کرے اگرچہ بات حق کی
ہو گی لیکن چونکہ بات کرنے والی زبان گھٹیا ہے تو بات بے اثر۔۔۔ لیکن اگر زبان
بلند ہو تو اس کی قیمت بھی زیادہ اور بات کا اثر و رسوخ بھی زیادہ۔۔ مثال کے طور
پر اگر غریب کوئی بات کہہ دے باوجود حق ہونے کے بھی اس کی بات کو ٹال دیا جائے گا
اور اگر امیر کوئی فضول اور بیہودہ بات کرے گا تب بھی خوشامدی افراد کہیں گے کہ
سردار کی زبان سے پھول برس رہے ہیں، کتنا اچھا کلام ہے، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ
بیہودہ گوئی ہے لیکن پھر بھی چونکہ زبان بلند ہے اس زبان کو بیہودہ کہنا گوارہ
نہیں؟
یہاں پر مقرر خدا ہے کہ جس سے بڑھ کر بولنے والا نہیں۔۔۔ جس
مقام پر بول رہا ہے اُس سے اونچا مقام نہیں۔۔۔ جس مجمع میں بول رہا اُس سے بلند
کوئی مجمع نہیں۔۔۔ بلند لہجے میں وہ قسَم کھائی جس سے اُونچی قسَم نہیں اور فرمایا
کہ میں خدا کہہ رہا ہوں کہ اگر ان پانچ کو خلق نہ کرتا تو کچھ خلق نہ کرتا؟
جب فرشتوں نے سوال کیا کہ وہ پانچ کون ہیں؟ تو خدا وند کریم کا
ارشاد ہوتا ہے کہ ھُمْ أھْلُ بَیْتِ النُّبُوَّۃِ وَ مَعْدِنُ الرِّسَالَۃِ وہ
نبوت کے اہل بیت اور رسالت کی کان ہیں ھُمْ فَاطِمَۃُ وَ أبُوْھَا وَ
بَعْلُھَا وَ بَنُوْھَا وہ فاطمہ اُن کا بابا اور ان کا شوہر اور ا ن کے بیٹے ہیں۔
میں حیران ہوں خدایا ایسا کیوں کیا؟ جہاں پر تعارف کرنا ہو کسی
کا وہاں عورتوں اور مردوں میں سے عورتوں کا نام لینا اور مردوں کا نام نہ لینا
کیسا تعارف ہے؟ تعارف کرتے وقت یوں کہنا کہ عورتیں ہیں اور ساتھ میں مرد ہیں؟ ایسے
تو کوئی نہیں کرتا۔۔ جب چار مرد موجود تھے اور پانچویں مستور تھی، جب فرشتے نے
پوچھا کہ یہ کون ہیں تحت ِکسا؟ تو تو نے چار مردوں کے نام لینے کی بجائے اس
ایک مستور کا نام لیا جسے پردے میں رکھنا تھا اُسے آشکار کر دیا اور جنہیں
آشکار کرنا تھا اُنہیں پردے میں رکھا؟
ھُمْ فَاطِمَۃُ آشکا رکردیا اور نام لے لیا۔۔۔
أبُوْھَا اس کا بابا نام نہ لیا بلکہ پردہ میں رکھا وَ
بَعْلُھَا پردہ میں رکھا نام نہ لیا بلکہ
کہا کہ شوہر اور بَنُوْھَا اس کے
بیٹے نام نہ لینا بلکہ پردہ میں رکھا جنہیں آشکار کرنا تھا انہیں پردہ میں رکھا
اور جسے پردہ میں رکھنا تھا اسے آشکارکر دیا بار الہا ایسا کیوں ؟
فِعْلُ الْحَکِیْمِ لا یَخْلُوْا عَنِ الْحِکْمَۃِ فعل حکیم
حکمت سے خالی نہیں ہوتا حکمت سے باہر نہیں ہوتا۔۔۔ اس لیے ایسا کیا کیو نکہ مرد کے
رشتے بہت ہیں اور عورت کے رشتے محدود ہوتے ہیں، مستور گھر کی چار دیواری کے
اندر ہوتی ہے باہر سے اس کا تعلق نہیں، مستور کے کل رشتے تین ہیں پیدا ہوئی تو
بیٹی رشتہ دار باپ۔۔ شادی کے بعد بیوی رشتہ دار شوہر۔۔ اولاد کے بعد ماں رشتہ دار
بیٹے، نہ عورت کاچوتھا کوئی جوڑ ہے نہ کوئی چوتھا موڑ ہے؟
اگر تعارف مرد کے نام سے ہوتا تو رشتے ڈھیر تھے۔۔ نبی تھے اتنی
امت تھی اتنے اصحاب تھے۔۔ اتنے غوث ہیں۔۔ اتنے کتب ہیں۔۔ اتنے ابدال ہیں اور۔۔۔
یعنی بہت رشتے بن جاتے اور آئینہ تطہیر میں شرکا ٔکا دامن بڑھ جاتا، اللہ تعالیٰ
نے تعارف ایسے رنگ میں کیا کہ حضرت زہراؑ کے تمام رشتے گنے فرمایاکہ چادر کے نیچے
ایک بتول ؑایک اس کا والد پہلا موڑختم اور بتول ؑکا شوہر دو سرا موڑ ختم اور زہراؑ
کے دو فرزند تیسراموڑ بھی ختم، نہ چوتھا موڑ آئے گا زندگی میں نہ چوتھے جوڑ کی
ضرورت پڑے گی؟ اسلئے قیامت تک دنیا اُچھلتی رہے پنجتن پاک پانچ ہیں چھٹا نہیں
ہوسکتا۔
یہاں پر ایک دوسرا سوال بھی ہو سکتا ہے کہ عورت کا نام مردوں
میں لینا اچھا نہیں تو خدا نے شاید یہ جواب دیا ہوگا کہ اس عورت کانام لینا اچھا
نہیں جس کا کردار مشکوک ہو؟ لیکن حضرت زہراؑ کی زندگی میں شک نہ ہے اور نہ ہی شک
کیا جاسکتا ہے۔
یہ ہے آلِ محمد کی عظمت۔۔ یہ ہے ملکہ تطہیر کا مقام۔۔ چھ
مہینے گزرنے کے بعد بھی جب حضور درِ زہراؑ پر تشریف لاتے تو آیت تطہیر پڑھتے ہوئے
رک جاتے جب تک اجازت نہ ملتی گھر میں تشریف نہ لے جاتے؟
ایک دن نابینا صحابی رسول اکرؐم کے ساتھ تھا پیغمبر اکرؐم نے
اجازت طلب کی جناب فاطمہ ؑنے دروازہ کھولنے میں کچھ دیر کی۔۔ تھوڑی دیر کے بعد
اجازت ملی، سرکار اندر تشریف لائے فرمایا اے دختر! آج بابا کو بہت دیر تک دروازے پر روکا؟ فرماتی
ہیں کہ بابا میرے سر پر چادر مو جود نہ تھی اسلئے دروازہ کھولنے میں کچھ دیر ہوگئی
تکلیف معاف۔۔ پیغمبر اکرؐم فرماتے ہیں کہ بیٹی میرے ساتھ جو صحابی تھا وہ تو
نابینا تھااور میں باپ تھا؟ عرض کرتی ہیں کہ اے بابا وہ اگر نابینا تھا میں تو
بینا تھی، زہراؑ یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ اپنی نظر نامحرم پر ڈالے۔۔ خدا تو جانتا
ہے کہ حضرت زہرا ؑنے بہت اچھا وقت گزارا جب بیٹی تھی تو محمد مصطفی کو ناز ۔۔۔جب
بیوی بنی تو علی مرتضیٰ جیسے شوہر کو ناز۔۔۔ جب ماں بنی تو حسنین جیسی اولاد کو
ناز۔۔۔ وقت بہت اچھا گزارا لیکن حضرت زہراؑ کو بہن بننے کا موقعہ نصیب نہ ہوا وہ
کمی پوری کی حضرت زینب ؑ نے، بہت مصائب جھیلے لیکن بھائی کے مشن کو آخر تک پہنچا
یا، اس مشن میں بہت سختیاں جھلیں۔۔ بارہ بھائی جس کے کفش بردار ہوں، جب اونٹ سامنے
آیا تو کبھی دائیں نگا ہ کی کبھی بائیں نگا ہ کی جناب فضہ سوال کرتی ہیں کہ کیا
دیکھتی ہیں؟ فرماتی ہیں ٍکہ مجھ سے سوال کرنے والے جو نہیں؟ بہت تکالیف سہیں مگر
بھائی کے مشن کو کامیابی کے زینے پر پہنچایا۔
تمام کائنات کی بہنوں کو بھائی کے حقوق بتلاگئی۔۔ آج ۶محرم کی رات ہے،ہر طرف سے کہیں نیزوں کی چمک دیکھتی؟ کہیں
تلواروں کی چمک دیکھتی؟ لحظہ بہ لحظہ بھائی سے پوچھتی بھیا! کوئی آپ کا بھی
ہے یاسب لشکر یزید ہے؟ سب مارنے والے ہیں یاکوئی تیرا بھی ہے؟ امام فرماتے ہیں کہ
سب مارنے والے ہیں میرا کوئی نہیں، تو حضرت زینب ؑفرماتی ہیں کہ کسی کی طرف تولکھو
شاید کوئی آجائے؟ اور ہمارے دل کا سہارا بن جائے؟ امام حسین ؑفرماتے ہیں کہ تیرے
کہنے پر لکھتا ہوں فرماتی ہیںکس کی طرف؟ فرماتے ہیں حبیب ابن مظاہر کی طرف خط لکھا
ہے، فرماتی ہیں کہ کسی اورکی طرف بھی خط لکھاہے؟
بعض تواریخ بیان کرتی ہیں کہ امام حسین ؑنے بعض دیگر افراد کی
طرف بھی خط لکھے تھے جن میں سے ایک فرد جس کا نام سعید بن عبداللہ حنفی ہے جو کہ
نوجوان اور نوعمر لڑکا تھا ۔۔۔۔ اس شخصیت کے بارے میں میرے استاذ الاستاذشیخ جعفر
شوشتری فرمایا کرتے تھے کہ یہ بلاگردانِ سید الشہدأ میں سے ہے اور بلاگردان سے
مراد وہ صحابہ ہے کہ جو امام مظلوم ؑ پر ہر آئی مصیبت کا مقابلہ کرتے تھے تاکہ یہ
مصیبت ہمارے آقا تک نہ پہنچے؟ یہ تقریباً دس صحابہ تھے منجملہ: سعید بن عبداللہ
حنفی، حبیب بن مظاہر اسدی، زہیر بن قین، بریر بن خضیر ہمدانی، عابس بن ابی شبیب
شاکری، ہلال بن نافع، شوذب، مسلم بن عوسجہ۔۔ وغیرہ
سعید بن عبداللہ حنفی کے بارے میں دو روایتیں ہیں ایک یہ کہ
مکہ میں چھوڑ گیا تھا پھر امام حسین ؑکے ساتھ کربلا آیا۔
دوسری یہ کہ سعید بن عبداللہ بصرہ کا مکین تھا اور تازہ شادی
ہوئی تھی، شادی کو ابھی تیرھواں یا سترھواں دن تھا۔۔ نو عمر لڑکا تھا، وہ حجلہ
عروسی میں بیٹھا ہے اِدھر امام حسین ؑخط لکھ رہے ہیں۔۔ قاصد دروازے پر پہنچا یہ
سعید حجرہ عروسی میں اپنی زوجہ کے ساتھ کھانے میں مشغول تھا لقمہ ہاتھ سے گرا تڑپ
کے بلند ہوا کہتا ہے کہ آج خیر نہیں (جو وہاں کے مکین ہیں وہ جانتے ہیں کہ اُس
دَور میں بصرہ سے کربلا تیز رفتار سواری پر بھی کم از کم دو دن لگ جاتے تھے) یہ
قاصد بھی امام حسین ؑ کی مجبوری کو دیکھ کر اتنا تیزی سے بصرہ کی طرف آیا کہ چھ
محرم کو کربلا سے روانہ ہوا اور آٹھ کو بصرہ میں پہنچا، امام حسین ؑ نے تاکید کی
تھی کہ جلدی کرنا اور اسے وقت بھی بتلانا کہ وقت بہت کم ہے؟ قاصد نے دروازہ پر
دستک دی سعید دروازہ پر پہنچا دیکھا کہ ایک مسافر کے سر پر خاک ہے۔۔ چہرہ غبار
آلود ہے۔۔ ہاتھ میں تحریر ہے، خط کو وہیں ٹھہر کر پڑھا۔۔ آنکھوں پر لگایا۔۔ بوسہ
دیا، خط کی تحریر عجیب تھی:
مِنْ حُسَیْنِ بْنِ فَاطِمَۃ زہرا ؑکے بیٹے حسین ؑکا خط
ہے۔۔۔ حیران ہو کر کہتا ہے کہ مولا حسین ؑاور ماں کا نام؟ معلوم ہوتا ہے کہ بہت
مجبور ہے، خط کو بوسہ دیا اور رونے لگا اور روتا ہوا اندر آیا۔۔ خیال کیا کہ اپنی
عروس کے حجرہ میں نہ جائوں شاید وہ دیکھ کر گھبرا جائے؟ سیدھا ماں کے پاس چلا گیا
ماں نے روتا دیکھا تو تڑپ کے بلند ہوئی، وہ ماں جس نے اپنے بیٹے کی تازہ شادی کی
ہو وہ اپنے بیٹے کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر تڑپے نہ تو کیا کرے؟ پوچھتی ہے کہ
تجھے کس نے رُلایا؟ خدا تجھے امان دے یہ دروازہ پر کون تھا؟ کہتا ہے کہ ماں بیٹھ
جا اور حوصلے سے میری بات سن؟
ماں یہ بتا کہ کیا تیرا مدینہ کے ساتھ بھی کوئی رشتہ ہے؟ کہتی
ہے ہاں بیٹے مدینے میں میرے امام اور سردار رہتے ہیں۔۔ میرے نبی کی مزار بھی مدینے
میں ہے، امام حسین ؑ سے تیرا کیا رشتہ ہے؟ کہتی ہے کہ وہ میرے مرشد اور حق کے امام
ہیں، کہتا ہے کہ امام حسین ؑ ہیں زہراؑ کے لخت جگر اور میں ہوں تیرا بیٹا اگر تجھے
بتول ؑکے فرزند کے مقابلے میں اپنا بیٹا قربان کرنا پڑے تو کیا کرے گی؟ کہتی ہے کہ
تجھ جیسے لاکھ جوان قربان کروں گی زہراؑ کے بیٹے پر۔۔ تو کہاں اور زہراؑ کا فرزند
کہاں؟یہ نسبت نہ دے۔
سعید نے عرض کیا کہ اگر اتنا ایمان محکم ہے تو یہ خط دیکھ یہ
خط حسین بن علی ؑ کا ہے بہت مجبور ہے علی اکبر ؑ کا بابا۔۔۔ معلوم ہوتا ہے کہ غربت
چھا گئی ہے امام مظلوم پر؟ اسلئے کہ آج خط پر اپنی والدہ محترمہ کا نام لکھا ہے
(مِنْ حُسَیْنِ بْنِ فَاطِمَۃ)
سعید پوچھتا ہے اے مادر! اب کیا ارادہ ہے کیا اپنا بیٹا
زہرا کے فرزند پر نثار کرو گی؟ کہتی ہے کہ تجھ جیسے لاکھ سعید امام حسین ؑ پر
قربان۔۔ کیونکہ امام حسین ؑمیرے دین و ایمان ہیں، لیکن یہ بات اپنی عروس کو نہ
بتانا۔۔ کمزور قوم ہے شاید گھبرا جائے؟
اس عروس نے اپنے کمرے کے دروازے سے جھانک کر دیکھا کہ ساس اور
شوہر دونوں محو ِگریہ ہیں، اپنے حجرے کا دروازہ کھول کر ساس کے پائوں پر گر کر کہا
کہ مجھے کیوں نہیں بتاتے کہ ماجرا کیا ہے؟ سعید کی والدہ کہتی ہے کہ بیٹی میں تیرے
بخت میں حائل نہیں ہونا چاہتی، میں تیری قسمت پر افسوس کرتی ہوں، جوانوں پر جب
مشکل آجاتی ہے تو صبر سے کام لینا چاہیے۔۔ تیرے شوہر کو نصرتِ امام کیلئے سفر پر
جانا ہے ضروری کام ہے رکاوٹ نہ کرنا۔
عروس کہتی ہے کہ راز بتائیں؟ تو سعید کی والدہ کہتی ہے کہ
ہمارا سلطان اور امام ہے حسین ؑ جو کہ اب محاصرہ میں ہے اور میرے بیٹے کو مدد کے
لئے طلب فرمایا ہے امام کی طلب پر مدد کیلئے بیٹے کو روانہ کر رہی ہوں رکاوٹ نہ
بننا؟ قدموں پر گرکر کہتی ہے کہ امام حسین ؑتنہا ہیں؟ تو سعید کی والدہ کہتی
ہے کہ اُن کی بہنیں بھی ہمراہ ہیں۔۔ عروس کہتی ہے کہ اگر آپ بیٹا قربان کر سکتی
ہیں تو میں بھی اپنا بخت لٹا کر امام عالیمقام ؑ کی بہنوں اور ان کے حرم کی خدمت
میں کروں گی۔۔ سعید عرض کرتا ہے کہ تیرے جانے کا وقت نہیں مستورات ساتھ ہوں تو سفر
جلدی طے نہیں ہوتا میں نے جلدی جانا ہے دن کم ہیں شاید وقت ہاتھ سے چلا جائے؟
اجازت بہت مشکل سے لی روانہ ہو گیا۔
نویں محرم کی رات بھی سفر میں نو محرم کا دن بھی سفر میں۔۔
دسویں کی رات بھی سفر میں جب دسویں کا دن طلوع ہوا اس وقت اس کے دل کی دھڑ کن
بڑھی، دل میں کہتا سعید میرا دل بہت دھڑکنے لگا ہے کہیں وقت گزرنہ جائے؟ گھوڑے کو
تیز دوڑانا شروع کیا دریا کے کنارے پہنچا۔۔ گھوڑا دوڑا رہا ہے وہ نشانی بھی ساتھ
دیکھ رہاہے جو کہ قاصد نے بیان کی تھی، اُس بیابان میدان میں داخل ہوا۔۔ دُور ہے
دیکھا کہ اونچے اونچے خیمے دریائے فرات کے کنارے نصب ہیں دل میں خیال کیا کہ میرے
آقاحسین ؑکے ساتھ مستورات بھی ہیں۔۔ حرم بھی ہیں اور بچے بھی ہیں لہذا دریا کے
کنارے پر خیمے یقینا امام حسین ؑکے ہوں گے، بچے ساتھ ہیں پانی سے دور کیسے رہیں،
اس لئے ان خیموں کے قریب آیا جو کہ دریا کے کنارے نصب تھے۔
سعید کی حیرت کی حد نہ رہی اور انگشت عبرت منہ میں ڈالی جب
خیام پر لکھے نام پڑھے کسی خیمہ پر لکھا تھا یہ شمس بن ربیع کا ہے۔۔ کسی پر حصین
بن نمیر۔۔ کسی پر شمر بن ذی الجوشن۔۔ کسی پر عمر بن سعد کا نام لکھا تھا۔۔ کسی کے
دروازہ پر خولی کا نام تھا۔۔ کسی پر سنان ابن انس؟ دل میں کہتا ہے کہ یہ خیام آقا
کے صحابہ کے خیمے تو نہیں؟
سعید نے ایک سپاہی سے جو کہ لشکر یزید سے تعلق رکھتا تھا پوچھا
کہ امام حسین ؑ کے خیام کہاں ہیں؟ تو وہ کہتا ہے کہ وہ دور ایک ٹیلہ پر جو جدا
خیمے نظر آرہے ہیں وہ خیمے امام حسین ؑکے ہیں۔۔۔ گھوڑا دوڑا کر خیموں کے سامنے
آیا اور انگشت ِعبرت منہ میں ڈال کر خیموں کو دیکھنے لگا۔۔۔ اتنے تک دسویں کا دن
ڈھل چکا تھا خیموں میں سناٹاچھا یا ہوا تھا، نہ کوئی بولنے والا مرد تھا نہ کوئی
قرآن کی آواز۔۔ نہ جوانوں کا پہرہ نہ عباس کے ہاتھ میں تلوار؟ دل میں سوچتا ہے
کہ جوان کہاں گئے؟ پھر اس خیمہ کے دروازے پر آیا کہ جس پر رسول اکرؐم کا علَم نصب
تھا، علَم کی چوب کو پکڑ کر گریہ کرنے لگا کہ یہ خاموشی کیوں ہے؟ پھر امام حسین
ؑکے خیمہ بابِ زینبیہ پر آیا یہاں بھی کوئی پہرا نہ کوئی پہرادار؟ نہ مستورات کی
آواز اور نہ ہی مردوں کی صدا؟ بچے ہیں تو خاموش ؟
حیرت میں ڈوب کرکہتا ہے کہ کیسی مشکل چھا گئی؟ میں بھولا تو
نہیں؟ ابھی تک خیمہ کی چوب کو پکڑ کرکھڑا تھا کہ اندر سے گریہ میں ڈوبی ہوئی آواز
آئی بیٹا سعید خیریت سے آئے ہو؟ حیران ہوکر کہتا ہے کہ پردہ دادرں کے دروازے پر
کوئی آئے تو پردہ دار تو نہیں بولتے اے بی بی تجھے کیا مجبوری تھی کوئی بچہ بھیج
دیا ہوتا؟
بی بی نے عرض کیا میرا کوئی نہیں رہا اب تنہا بیٹھی ہوں، سعید
نے پوچھا پہردار کہاں گئے؟ فرماتی ہیں کہ جب سے گئے واپس نہیں آئے۔۔۔ سعید پوچھتا
ہے کہ شہزادہ علی اکبر ؑو قاسم ؑکہاں گئے؟ فرماتی ہیں کہ وہ بھی گئے اور نہیں
آئے؟ تو سعید عرض کرتا ہے کہ میرا نام کیسے جانتی ہیں آپ تو پردہ دار ہیں؟ تو
عرض کرتی ہیں کہ میں امام حسین ؑکی بہن ہوں۔۔ زہراؑکی بیٹی ہوں، سعید پوچھتا ہے کہ
اے بی بی! آپ میرا نام کیسے جانتی ہیں؟
فرماتی ہیں کہ ایک گھنٹہ ہو ا ہے کہ میرا بھا ئی حسین ؑبار بار
تیرا راہ دیکھتا تھا میں جب بھی پوچھتی تھی کہ تیرا کوئی نہیں آیا؟ تو مجھے بھیا
کہتے تھے کہ ایک آرہاہے، ابھی ہے تو بہت دور لیکن آئے گا ضرور۔۔۔ خداجانے دیر
کیوں ہو گئی ایک گھنٹہ انتظار کرتے رہے لیکن آپ کی آمد میں تاخیر ہوگئی اس لئے
بھیا حسین ؑہمیں الوداع کہہ کر میدان کی طرف چلے گئے ہیں، جاتے وقت مجھے کہا کہ
سعید آئے گا اسے میرا سلام کہنا۔
سعید عرض کرتا ہے امام کا کوئی نہیں رہا؟ فرماتی ہیںتک و تنہا
اور اکیلے ہیں، سعید پوچھتا ہے امام کی کوئی خبر یا کو ئی حالت بتائیں؟ تو
بی بی عرض کرتی ہیں کہ امام ؑ کو میدان میں گئے کافی دیر ہو چکی ہے، اور اب میں نے
نعرہ تکبیر نہیں سنا پہلے جب بھی جاتے تھے نعرہ تکبیر لگاتے جس سے مجھے تسلی
ہوجاتی تھی اب بہت دیر ہوچکی ہے میں نعرہ تکبیر نہیں سنا؟ سعید عرض کرتا ہے کہ میں
گھوڑے کو آزاد کرتا ہوں اب گھوڑے پر سوار ہونے کا موقعہ نہیںکیونکہ شہسواران جتنے
تھے وہ سب زمین کربلا پر سو چکے ہیں۔۔ اب جاتا ضرور ہوں آپ دعا کریں کہ خدمت کا
وقت مل جائے۔
سعید اس وقت امام حسین ؑکی خدمت میں پہنچا کہ جب امام مظلوم
ؑکے گرد اشقیا ٔکا ہجوم تھا اور مارو مارو کی صدائیں بلند تھیں جب فوجیں ہٹیں تو
دیکھا کہ امام قبضہ تلوار پر سر رکھ کر زخموں میں چورسُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ کی
تسبیح میں مشغول ہیں۔۔ سعید نے ساتھ ٹھہر کرکہا
ألسَّلامُ عَلَیْکَ یَا أبَا عَبْدِاللّٰہ قبضہ تلوار سے پیشانی اُٹھاکر
امام حسین ؑفرماتے ہیں کہ سعید مجھے نانا کی امت نے اس نو بت پر پہنچادیا ہے؟ تو
نے آنے میں بہت تاخیر کی۔
میرا جوان بیٹا علی اکبر ؑبرچھی کھا کر سوگیا۔۔ میرا قاسم
ؑسوگیا۔۔ میرا بھائی غازی دریا کے کنارے سوگیا۔۔ میرا چھ ماہ کا بیٹا بھی سوگیا۔۔
سعید میرا کوئی نہیں رہا تو نے دیر کردی؟ سعید عر ض کرتا ہے کہ وطن دور تھا گھوڑا
دوڑا کر ابھی پہنچا کوئی خدمت اگر میرے لائق ہوتو بتائیں؟ امام ؑفرماتے ہیں کہ ان
بے دینوں نے مجھے نماز پڑھنے کا موقعہ نہیں دیا اب تیری خدمت یہی ہے کہ تو میرے
سامنے سینہ سپر ہو جا۔۔ ِان ملعونوں نے تیرروکنے نہیں تو یہ تیر مجھ سے روک لے
تاکہ میں نماز ادا کرلوں؟ سعید اپنا سینہ تا ن کر فوج اشقیا کے سامنے ٹھہر گیا
امام ؑنماز ادا کرتے رہے وہ اپنے سینہ کرتان کررکا رہا جس طرف سے تیر آتا تھا وہ
روک لیتا تھا۔۔ بارہ تیر سعید کے سینے سے گزرے تیرھواں تیر دل پر جالگا سعید کی
آنکھیں بند ہونے لگیں۔۔ قدم لڑ کھڑا گئے۔۔ اپنے آپ سے کہتا ہے کہ خدا کرے کہ
امام ؑنے نماز پڑھ لی ہو، اتنے تک امام ؑ نے سلام پڑھا، ادھر سعید کے قدم
ڈگمگائے۔۔ سعید زمین پر آرہاتھا آتے ہوئے سعید کا سرامام ؑنے ہاتھوں پر رکھا
اوراپنی گودی کی زینت بنایا، امام ؑفرماتے ہیں کہ بسم اللہ اے میرے پاکباز دوست۔۔۔
امام ؑنے اپنے زانو پر سعید کا سر رکھا، سعید کے مشام میں امام ؑکی امامت کی خوشبو
پہنچی۔۔ سعید نے ا ٓنکھ کھولی دونوں ہاتھ بلند کرکے امام ؑکی پیشانی پر رکھ کر
سعیدنے عرض کیا مولا! اگر چہ دیر سے آیا ہوں میری خدمت تو قبول فرمائیں؟ امام ؑفرماتے ہیں کہ تیری خدمت قبول ہے تجھ پر
میں راضی ہوں۔۔ میری بہن راضی ہے۔۔ میری ماں زہراؑراضی۔۔ میرا بابا علی ؑراضی۔۔
تیرے کان سن رہے ہیں یا نہیں میری والدہ ماجدہ تجھے جنت سے پکار کر بیٹا کہہ رہی
ہے اور بسم اللہ کہہ رہی ہے۔
سعید نے امام حسین ؑکے زانوپر آہِ سرد بھری۔۔ امام ؑفرماتے
ہیں کہ آہ ِسرد کیوں بھری؟ تو سعید کہنے لگا اسلئے کہ میرا سر بہت بلند مقام پر
ہے میں اس جگہ کے لائق نہیں تھا۔۔ اس جگہ پر سر ہوتا تو علی اکبر ؑکا۔۔ اس جگہ سر
ہوتا تو قاسم ؑکا۔۔ اس جگہ سر ہوتا عباس ؑکا۔۔ نوکر کہاں اورحسین ؑکی
گود کہاں؟
امام ؑفرماتے ہیں کہ کوئی تکلیف تو سعید عرض کرتا ہے کہ مجھے
سینے کے تیر تکلیف دے رہے ہیں۔۔ امام ؑنے اپنے ہاتھوں سے تیر نکالے، امام ؑنے بارہ
تیر نکالے جواطراف میں تھے جو تیر دل میں لگا تھا امام ؑنے بسم اللہ پڑھی اور اس
تیر کونکالنے کے لئے ہاتھ ڈالااِدھر تیرباہر نکلااُدھر سعید نے آخری ہچکی لی،
سعید عرض کرتا ہے کہ اے مولا! آپ نے میرے تیر تو نکالے ہیں۔۔ میں حیران ہوں
جب آپ کو تیر لگیں گے تو آپ کے تیر کون نکالے گا؟ بہنیں مجبور ہوں گی؟ امام سجاد
ؑبیمار ہیں؟ اصحاب شہید ہو چکے ہیں؟ یارو انصار دشت ِغربت میں خواب ِراحت سو چکے
ہیں۔۔بس غلام کا سلام قبول کریں۔
وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَیَّ مُنْقَلَبٍ
یَّنْقَلِبُوْن