التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

جن لوگوں کے لئے روزہ رکھنا جائز ہے

جن لوگوں کے لئے روزہ رکھنا جائز ہے
مسئلہ۔ حالت سفر میں واجب روزہ رکھنا حرام ہے ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ سفر میں روزہ رکھنا ایسا ہے جیسا کہ گھر میں روزہ نہ رکھنا
ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا اگر کوئی شخص سفر میں روزہ کی حلت میں مر جائے تو میں اس پر نماز جنازہ بھی نہ پڑھوگا
ایک روایت میں ہے کہ جب یہ آیت اتری تو جناب رسالتمآب سفر میں نہ واجب روزہ رکھتے تھے اور نہ سنتی
مسئلہ ۔سفر یا مرض میں قضاء ہو نے والے روزے اگلے ماہ  رمضان سے پہلے رکھنے چاہیے ارنہ بلا عذر تا خیر کر نے سے قضاء کے علاوہ ایک مدنی روزہ فدیہ دینا پڑے گا
مسئلہ ۔ قضاء روزوں کا پے درپے بلا ناغۃ واجب نہیں ہے بلکہ متفرق طور پر رکھے جا سکتے ہیں لیکن پے در پے رکھنا مستحب ہے
مسئلہ۔  ماہ رمضان کا قضا روزہ زوال سے پہلے اگر افتار کیا جائے تو اس پر کفارہ نہیں ہیو گالیکن اگر بعد زوال کے بلا عذر افتار کرے تو نا جائز ہے اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھلانا ہے اور یہ نا ممکن ہو تو پھر تیں روزے رکھنا ہے
مسئلہ۔ جس دن سفر کرنے کا ارادہ ہو تو گھر میں روزہ رکھ لے جب روانہ ہو کر حد تر خصسے نکل جائے تب افتار کرے ورنہ اگر پہلے سے افتار کرے گا تو اس قضٓء و کفارہ دونوں واجب ہو جائیں گے
مسئلہ۔  اگر زوال شمس ک بعد سفر اختیار کرے تو اس دن کا روزہ درست ہوگا  اسی طرح اگر قبل ازوال گھر سے روانہ ہو لیکن حد تر خص سے نکلنے سے پہلے زوال ہو جائے تو روزہ صحیح ہو جائے گا اور اگر کچھ کھاپی چکا ہو تو روزہ اگر چہ نہیں لیکن ماہ مبارک کی پاس ادب کیے کھانے پینے سے رکا رہنا مستحب ہے اور اگر بعد زوال کے ھگر پہنچنے تو روزہ نہ ہو سکے گا خواہ اس قبل سارا دن کچھ کھایا پیانہ بھی ہو لیکن ماہ مبارک کے احترام کے پیش نظر کھانے پینے سے اجتناب مستحب ہے ۔
مسئلہ ۔  قضا روزوں میں ئی ضروری نہیں کہ ہر روزہ کی تعین کرے مشلا یہ کہ آج فلاں تاریخ کا قضا روزہ رکھ رہا ہوں بلکہ اتنا کافی ہے کہ جس قدر فوت ہوئے ہیں اتنے دن بنیت قضاء روزے رکھ دے ۔
مندرجہ ذیل افراد کے لیے ماہ رمضان میں افطار کرنا جائز ہے ۔
۱۔ بوڑھا مرد ۔ بوڑھی عورت ۔ اگر روزہ رھنا ان کے لیے موجب حرج و باعث مشقت ہو تو روزہ نہ رکھیں اور ہر روزہ کے عوض میں ایک مد طعام مومن مسکین کو فدیہ دیں ۔
۲۔ حاملہ عورت ۔ جس کو روزہ ضرر دیتا ہو یا اس کے بچہ کو ضرر کا خطرہ ہو تو روہ نہ رکھے اور فدیہ دے لیکن نعد ہیں اس پر ان ایام کے روزوں کی قضا واجب ہے
۳۔  ذولعاش ۔ یعنی جس شخص کو پیاس کی بیماری ہو کر صبر کرنا اس کے لیے ناممکن ہو یا باعث مشقت ہو تو روزہ نہ رکھے اور ہر روزہ کے عوض میں ایک مد طعام مومن مسکین کو دے دے ۔
۴۔ مرضعہ ۔ وہ عورت جو بچہ کو دودھ کم ہے اگر روزہ رکھے  تو اس کو یا اس کے بچہ کو ضرر پہنچنے کا احتمال ہے تو اس کا حکم بھی یہی ہے کہ روزہ نہ رکھے اور ہر دن کا بدلہ ایک مد طعام فدیہ دے اور بعد میں قضا بھی کرے اس میں فرق نہیں کہ بچہ اس کا اپنا ہو یا کسی اعرکا نچہ مزدوری پر یا قربتا الی اللہ  پال رہی ہو ۔
واللہ یرید ۔  یعنی خدا آسانی چاہتا ہے بندوں کی تکلیف اور مشقت میں ڈالنا پسند نہیں فرماتا یہ آیت مجیدہ ان لوگوں کے عقیدہء فاسدہ کو چیلنچ کر رہی ہے جو جبر کے قائل ہیں کیونکہ اگر انسان اپنے اگعال میں مجبور و بے بس ہوتا تو یہ آیت بے معنی ہو جاتی کیونکہ جو انسان فعل بد پر مجبور کیا گیا ہو اس کو نیکی کا حکم دینا تکلیف مالا یطق ہے اور خدا جب عسر کی تکلیف مشقت والے کام کی بجاااوری کا حکم دینا پسند نہیں کرتا تو تکلیف دیناکیسے پسند فرماتا ہے پس معلوم ہو ا کہ انسان اپنے افعال میں مختار ہیں اور خداوند کریم اپنے فضل و کرم سے بندوں کو انہی کاموں کی بجاااوری کا حکم دیتا ہے کس کو وہ خود آسانی سے نبھاسکتے ہیں ۔
ولتکبر وا للہ علی ما ھدا کم ۔  حضر ت امام جعفر صادق ؑ سے مری ہے کہ اس تکبیر سے مراد شب عید الفطر کی تکبیر ات ہیں چنانچہ آپ نے فرمایا کہ شب عیدالفطر تکبیر سنت ہے ۔  راوی نے پوچھا کہ وہ کس وقت ؟تو آپ نے فرمایا کہ نماز مغرب نماز عشاء نماز صبح اور عید کے بعدراوی نے دریافت کایا کہ اس کی کیفیت کیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کیہ کاس طرح کہے ۔
اللہ اکبر اللہ اکنر لاالہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر والللہ الحمد واللہ اکبر علی ما ھدانا
اور روایتا میں ان الفاظ سے کم و بیش الفاظ بھی منقول ہیں جس روایات پر عمل یا جئے سنت ادا ہوسکتی ہے ۔
ماہ رمضان ک فضیلت کے متعلق جناب رسالتمآب سے ایک نقل شدہ حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا یہ مہینہ دوسرے ہزار مہینوں سے افضل ہے اس میں روہ رکھنا فرض ہے اس ماہ میں دورکعت نماز نافلہ دوسری ستر شب کی عبادت کے برابر ہے اس ماہ میں کوئی مستحب کام ادائے فریضہ کا ظوااب رکھتا ہے اور اسکا فریضہ دوسرے مہینوں کے ستر فریضوں کے برابر ہے  یہ صبر اور ہمدودی کا مہینہ ہے خدا اس ماہ میں رزق کا کرتا ہے جو شخص روزہ دار مومن کا روزہ چھڑوائے تو اس کو غلام آزاد کرانے کا ثواب ملے گا اور ھناہ اس کے بخش دئیے جائیں گے کسی نے کہ دیا کہ حضور ! ہم دوسروں کو افطار نہیں کا سکتے تو آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص زیادہ پر قادر نہ ہو تو کھٹے دودھ پر یا اب شیریں کے گھونٹ پر یا کھجور کے چندانوںپر افطار کرا دے پس اسکو بھی ویسا ہی ثواب عطا فرمائے گا اور جو شخص اس ماہ میں اپنے غلام سے تخفیف کرے خدا اس کا قیامت کا حساب ہلکا کرے گا یہ وہ مہینہ ہے کہ اس کا اوّل رحمت اور وسط مغفرت اور آخر اجابت اور جہنم سے آزادی ہے اور نیز آپنے فرمایا کہ روزہ دار کی نیند عبادات اور خاموشی تسبیح اور دعا مقبول اور عمل دوگنا ہوا کتا ہے   (مجمع البیان)
ماہ مبارک رمضان میں قرآن کی تلاوت زیادہ کرے ار تیسرے دن ختم کرے تو خوب ہ اور روزانہ ختم کرے سکے تو زیادہ بہتر ہے ورنہ کم اس کم ماہ  مبارک میں ایک ختم تو ضرور کرے روایت میں ہے کہ ہر چیز کی بہار ہوا کرتی ہے اور ماہ مبارک کی بہار قرآن مجید کی تلاوت ہے اس ماہ مبارک میں زیادہ مناسب ہے کہ انسان اپنی زبان کو حمدو ثنا پرودگار یا درود شریف یا دیگر اذکا ر سے تر رکھے اور شب و روز کی منقول دعائیں پڑھ کر ثواب حاصل کرے مفاتیح الجنان میں ماہ رمضان مبارک کے دب و روزکے اعمال اور ادعیہ منقولہ کافی بسط و تفصیل کے ساتھ درج ہیں ۔
واذا سائلک عبادی عنی فانی قریب   ط اجیب دعوۃ الداع اذا دعان فلیستجیبوا لی ولیومنو ا بی لعلھم یرشدون oاحل لکم لیلۃ الصیام الرفث الی نسائکم ھن لباس لکم وانتم لباس لھن   ط علم اللہ انکم کنتم تحتانون انفسکم فتاب علیکم وعفا عنکم
اور جب آپ سے پوچھیں میرے بندے میرے متعلق فرما دیجیے ککہ میں قریب ہوں قبول کرتا ہوں دیا دعا دعا جب مجھ سے دعا کرے پس انہین چاہیے کہ مری بات کو قبول کریں اور میرے ساتھ ایمان لائیں تاکہ ہدایت یا فتہ ہوں حلال ہے تمہارے لیے روزوں کی راتمیں مباشرت اپنی عورتوں سے وہ تمہارا لباس ہیں تم ان کا لبا س ہو  آگاہ ہے اللہ کہ تحقیق تم خیانت کرتے تھے اپنے نفسوں سے پس اس نے رجون رحمت کیا تم پر اور تنہیں معاف کر دیا
واذا سالک  کسی نے جناب رسول خدا سے سوال کیا کہ آیا خدا قریب ہے یا بعید تاکہ اس کے قریب و بعد کے لحاظ سے اس کے بکارنے میں نیچی یا اونچی آواز کا استعمال کریں تب یہ اایت اتری
اجیب دعوت الداع  جناب رسالتمآب سے مروی ہے کہ عاجز ترین شخص وہ ہے جو دعا سے عاجز ہو اور بخیل ترین وہ جو سلام سے بخل کرے ۔

ایک شخص نے امام جعفر صادق کی خدمت مین عرض کی کہ میں اپنے بھائیوں اور موالیوں کے لیے دعا کرتا رہتا ہوں آپ کی اس مین کیا رئے ہے ؟ توآپ نے فرمایا کہ خدا غارب کی دعا غائب کے لیے قبول فرماتا ہے اور جو شخص مومنین اور مومنات اور اہل مودت کے لیے دعا کرے خدا آدم سے لے کر قیامت تک کے تمام مومنین کے برابر نیکیاں اس کو عطا فرمائے گا پس آپ نے فرمایا کہ خدانے نمازیں بہترین اوقت مین فرض کی ہیں پس نمازوں کے بعد دعا مانگا کرو اس کے  بعد حضرت مے اس کے لیے اور جملہ حاضرین کے لیے دعا کی ۔

ایک تبصرہ شائع کریں