التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

بتیسویں مجلس -- مَنْ مَّاتَ عَلٰی حُبِّ اٰلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ شَھِیْدًا ألا وَ مَنْ مَّاتَ عَلٰی حُبِّ اٰلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ مَغْفُوْرًا ألا وَ مَنْ مَّاتَ عَلٰی حُبِّ اٰلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ کَامِلُ الْاِیْمَان

(یہ مجلس دوبئی قبرستان میں پڑھی گئی)
جو آلِ محمد کی محبت پر مرا وہ شہید ہوا۔۔ جو بھی محبت ِآلِ محمد پر مرا وہ بخشا ہوا مرا۔۔ جو آلِ محمد کی محبت پر مرا وہ کامل الایمان ہوکے مرا۔۔ جو آلِ محمد کی محبت پر مرتا ہے اس کی قبر ملائکہ ٔرحمت کی زیارت گاہ بن جاتی ہے۔۔ جو آلِ محمد کی محبت پر مرتا ہے اس کی قبر میںجنت کا دروازہ کھل جاتا ہے۔
اِن کے مقابلہ میں دوسری حدیثیں ہیں:
مَنْ مَّاتَ عَلٰی بُغْضِ اٰلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ کافِرًا جو آلِ محمد کا دشمن ہوکر مرتا ہے وہ کافر ہو کر مرتا ہے۔۔ جو شخص آلِ محمد کی دشمنی لے کر مرتا ہے اس کی قبر میں دوزخ کے دروازے کھل جاتے ہیں۔۔ جو آلِ محمد کی دشمنی پر مرتاہے اس کی پیشانی پر لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہے۔
یعنی جو بھی مرے۔۔ جہاں مرے۔۔ جس ملک میںمرے۔۔ جس حالت میں مرے۔۔ اگر محبت ِآل محمد لے کر مرتاہے تو وہ شہید ہوتا ہے اور اس کے آگے بہشت کے دروازے کھل جاتے ہیں او راگر دشمن آلِ محمد ہو کر مرے تو وہ کافر مرتا ہے اور اس کے سامنے دوزخ کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
مرنے والا جو بھی ہو مرد ہو یا عورت۔۔ عالم ہو یا جاہل اور کہیں کا بھی ہو مکی ہو یا مدنی ہو۔۔ گورا ہو یا کالا۔۔ سوہرا ہو یا سالا ہو، اگر محب آلِ محمد ہے تو اس کی موت ایمان پر ہے او ر شہید ہے لیکن اگر دشمن آلِ محمد ہے تو اس کی موت کفر کی ہے۔
ان احادیث کے مقابلہ میں ایک حدیث ہے جس کو سنی وشیعہ دونوں نے نقل کیا ہے  مَنْ مَّاتَ وَ لَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ  زَمَانِہٖ مَاتَ مِیْتَۃَ الْجَاھِلِیَّۃ   یعنی جو اپنے زمانہ کے امام کی معرفت کے بغیرمر جائے وہ جاہلیت (کفر) کی موت مرتا ہے۔
 اس حدیث اور پہلی احادیث میں مطابقت تب ہوسکتی ہے کہ امام آلِ محمد سے ہی ہو، کیونکہ اگر امام آلِ محمد سے نہ ہو اور اس کی معرفت ہو جائے مگر آلِ محمد سے دشمنی ہو تو معرفت والی حدیث کہتی ہے کہ وہ کفر کی موت نہیں مرا لیکن حُبّ آلِ محمد والی حدیث کہتی ہے کہ وہ کفر کی موت مرا ہے۔۔۔ اسی طرح وہ امام جو آلِ محمد سے نہیں اگر اس کی معرفت نہ ہو لیکن آلِ محمد سے محبت ہو تو معرفت والی حدیث کی رو سے اس کی موت کفر پر ہے اور حُبّ آلِ محمد والی حدیث کی رو سے اس کی موت شہادت کی ہے؟ تو اِن دو قسم کی حدیثوں میں مطابقت اس وقت ہوگی جب امام اسی خاندان سے ہوجس کی محبت واجب ہے۔۔ پس چونکہ محبت آلِ محمد سے واجب سے اسلئے امام بھی آلِ محمد سے ہونا ضروری ہے۔
معصوم ؑسے پوچھا گیا موت کیا ہے؟ فرمایا مومن کیلئے جنت کی طرف کھلنے والے دروازے کا نام ہے اورکافر کیلئے دوزخ کی طرف کھلنے والے دروازے کا نام ہے۔
اگر انسان ایک ملک سے دوسرے ملک کی طرف منتقل ہونا چاہے تو اس کے پاس دوچیزوں کا ہونا ضروری ہے۔۔ اِس ملک سے جانے کا اجازت نامہ جس کو پاسپورٹ کہا جاتاہے اور اُس ملک میں داخل ہونے کا اجازت نامہ جس کو ویزا کہا جاتا ہے اگر پاسپورٹ نہ ہو تو یہاں سے جانا مشکل اور اگر ویزا نہ ہو تو وہاں کا داخلہ ناممکن۔
پس جب دنیا سے ہر آدمی جاتا ہے اورآخرت کے لیے ملک صرف دوہیں ایک دوزخیوں کی رہائش گاہ جس کا نام جہنم ہے اور دوسری مومنوں کی قیام گاہ جس کانام بہشت ہے اورحضرت پیغمبرؐ نے صریح الفاظ میں فرمایا ہے کہ مملکت ِجنت کی سلطانی امام حسن ؑ و امام حسین ؑ کے پاس ہے اور وہی اس ملک کے حکمران و سلطان ہیں۔
پس یہاں سے جانے کا پاسپورٹ تو موجود ہے کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْت  اگر جنت میںجانے کا خواہشمند ہے تو ویزا بہشت کی حکومت سے لینا ضروری ہے، کیونکہ ویزا سرحد پار کرنے کے بعد نہیں ملا کرتا پس حسینی سرکار کے نمائندوں سے جنت کا ویزا یہاں رہ کرحاصل کر نا پڑے گا ورنہ جنت میں داخلہ ممکن نہیں ہو گا۔
بیشک امام حسن ؑ و امام حسین ؑ جنت کے سلطان ہیں۔۔ دیکھئے!  کسی ملک کا بادشاہ ملک کے اندر ہو یا باہر جہاںبھی ہو اپنے ملک سے جو چاہے منگوا سکتا ہے چاہے تو وہاں سے کھانا منگوا لے۔۔ چاہے لباس منگوالے۔۔ دنیا کے بادشاہوں کو فخر ہوتا ہے کہ میرا لباس لندن یا واشنگٹن سے آیا ہے، اور امام حسن ؑ وامام حسین ؑ وہ سلطان ہیں جن کا لباس جنت سے آیا۔۔ بلکہ ضرور ت پڑی تو درزی جنت کا۔۔ دھوبی جنت کا۔۔ رنگ ریز بھی جنت کا۔۔ حتیٰ کہ جھولا جھلانے والا خادم بھی جنت کا؟
کتنا نیک بخت ہے وہ مرنے والا جس کی روح نے پرواز کیا توجنت کے ائیرپورٹ پر امام حسن ؑ و امام حسین ؑ نے اُسے أہْلًا وَ سَہْلًا کہہ کر مہمان بنا لیا؟
مرنے والے بعض ایسے ہوتے ہیں جن کی موت موجودہ لوگوں کے لیے راحت کا پیغام ہوتی ہے او ربعض ایسے ہوتے جن کی موت موجب غم ہوتی ہے تو معصوم ؑکے فرمان کے مطابق مومن وہ ہے جو دنیا میں آئے تو راحت لے کر آئے اور دنیا والے اس کی آمدکو رحمت سمجھیں اوردنیا سے جائے تو دنیا والے اس کے فراق کو ناقابل تلافی نقصان قرار دیں، پس دنیا میں آئو تو راحت بن کر آئو اورجائو تو عبرت بن کر جائو۔۔۔ یعنی آئو تو ہنسنے والے تمہارا استقبال کریں اورجائو تو رونے والے تمہیں الوداع کہیں، ایسا نہ ہو کہ آئو تو تمہاری آمد کو دنیا مصیبت اور تاوان سمجھے اور جائو تو دنیا تمہاری موت کو راحت ِجاں سمجھے۔
کسی نے پوچھا ہم لو گ موت کو کیوں نہیں پسند کرتے؟تو جواب ملا اس کی وجہ ہے کہ عَمَّرْتُمُ الدُّنْیَا وَ خَرَبْتُمُ الْاٰخِرَۃ  یعنی تم نے دنیا کو آباد کر رکھا ہے اور آخرت کو برباد کیا ہوا ہے۔۔ اسلئے آبادی سے نکل کر بربادی کی طرف جانے کو پسند نہیں کرتے؟ اگر تمہاری آخرت آبادہوتی اور دنیا کو قید خانہ سمجھتے تو قید خانہ سے نکل کر آبادی کی طرف جانے کو ضرور پسند کرتے، ہاں دنیا کافر کیلئے جنت ہے اور آخرت اُس کیلئے قید خانہ ہے اسلئے وہ جنت سے نکل کر قید خانہ میں جانا پسند نہیں کرتا۔
ایک دفعہ غالباً کسی یہودی نے معصوم ؑسے سوال کیا کہ دنیا کافرکے لئے جنت اورمومن کے لئے قید کس طرح ہے؟ دیکھئے میں یہودی ہوں اور دنیاوی لحاظ سے بدحال و کنگال ہوں اور آپ کی امیرانہ زندگی ہے یہ تو آپ کے لئے جنت ہے اور میرے لیے قید خانہ ہے؟
آپ نے فرمایا اگر تو نے اپنا آخر ت کا گھر (جہنم) دیکھا ہوتا تو تجھے پتہ چلتا کہ آخرت کے عذاب کے مقابلہ میں دنیا کی یہی بدحال زندگی تیرے لیے جنت ہے او رتو نے میرا مقام (جنت) میں دیکھا ہوتا تو سمجھتا کہ جنت کے نعمات و لذات کے مقابلہ میں امیرا نہ زندگی بھی جہنم ہے؟ گناہوں کو چھوڑنے کے لیے ہمارا جی نہیں چاہتا اسلئے کہ آخرت کے انعامات کو دیکھا نہیں ورنہ اگر آخرت کی لذت کا علم ہوتا تو دنیا میں قینچی سے کتراجانا برداشت کر لیتا لیکن گناہ کی طرف قدم نہ بڑھاتا۔
ایک شخص نے حضرت پیغمبراکرؐم سے عرض کیا کہ مجھ سے گناہ نہیں چھوٹتے؟ آپ نے فرمایا صرف ایک نیکی کا مجھ سے وعدہ کرلو گناہ خو د بخود چھوٹ جائیں گے اور وہ یہ کہ روزانہ میرے پاس آیا کرو اور جھوٹ نہ بولا کرو؟ اس نے عرض کیا یہ تو آسان بات ہے پس وعدہ کرکے چلا گیا۔۔۔ اب جو گناہ کرنے کا وقت آیا تو سوچا کہ پیغمبرؐ کے پاس بھی جانا ہے اور جھوٹ بھی نہیں بولنا اگر یہ گناہ کر لوں تو اُن کو کیا منہ دکھائوں گا جبکہ جھوٹ بولنا نہیں؟ پس اس گناہ کو چھوڑ دیا اور رفتہ رفتہ اس طرح وہ اپنے گناہوں سے تائب ہوگیا۔
ایک شخص نے حضر ت امام سجاد ؑ سے اپنے گناہوں کا شکوہ کیا تو آپ نے فرمایا میر ی چند باتوں پر عمل کرو اور بے شک گناہ کرتے رہو۔۔۔ اس نے عرض کیا حضور فرمائیے، آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا رزق کھانا چھوڑ دو پھر بے شک گناہ کرتے پھرو، اس نے عرض کیا حضور اس کا رزق نہ کھائیں تو کیا کھائیں؟ آپ نے فرمایا اگر اس کا رزق نہیں چھوڑ سکتے تو اس کے ملک سے نکل جائو پھر بے شک گناہ کرتے رہو، تو اس نے عرض کیا مولا یہ بھی ناممکن ہے کیونکہ جہاں بھی جائوں اسی کا ہی ملک ہے؟ تو آپ نے فرمایا پھر اپنے جسم میں اس قدر طاقت پیدا کر لو کہ جب ملک الموت آئے تو اس کو دھکے مار کر گھر سے نکال دو اور اس کو روح قبض نہ کرنے دو، اس نے عرض کیا حضور یہ بھی مشکل ہے؟ تو آپ نے فرمایا اے بندہ خدا جب تم اس قدر عاجز و بے بس ہو کہ نہ اس کے رزق کے بغیر تمہارا گزارا ہو سکتا ہے۔۔ نہ اس کے ملک سے نکل سکتے ہو۔۔ نہ اس سے چوری کرسکتے ہو اور نہ موت سے گریز کرسکتے ہو تو پھر شرم کرو پس اس نے فوراََ توبہ کرلی۔
اگر تجزیہ کیا جائے تو گناہ کرنا مشکل ہے اور نیکی کو بجالانا آسان ہے مثلاً چوری کرکے کھانا مشکل ہے کیونکہ انتہائی خطرہ مول لے کر چوری کی طرف قدم بڑھایا جاتاہے، ساتھ ساتھ بے آرامی۔۔ فکر مندی۔۔ گرفتاری کا خطرہ لیکن اس کے مقابلہ میں گھر میں آرام سے رہ کر اپنی روکھی سوکھی روٹی کھا کر پیٹ بھر لینا آسان ہے، حرام پانی پر کسی قدر دولت صرف کی جاتی ہے اور حلال پانی بالکل مفت ہے، پس حرام خوری جو مہنگی بھی ہے اور مشکل بھی ہے اس کو کر گزرنا اور حلال خوری جو سستی بھی ہے اور آسان بھی اس سے گریز کرنا صرف اللہ تعالیٰ کی ناقدر شناسی ہے کہ نافرمانی پر رقم خرچ کرنا گوارا ہے اور نیکی جس پر کوئی خرچ نہیں وہ پسند نہیں؟
دیکھئے۔۔ عقل کہتی ہے کہ بے قیمت شئے کو ضائع کردینے میں قباحت نہیں لیکن قیمتی متاع کو ضائع کرنا سعادت نہیں، مثلاً اگر جیب سے ایک روپیہ گر جائے تو معمولی احساس ہوتا ہے لیکن ایک ہزار گر جائے تو انسان بے چین ہوجاتاہے اور شئے کی قیمت جس قدر زیادہ ہو گی اس کے ضائع ہونے کا اتنا ہی درد ہوگا اور اس کے خرچ کرنے میں اتنی ہی احتیاط ہوگی۔
دنیا کی ہر قیمتی شئے سے زندگی بہت قیمتی ہے کیونکہ زندگی کا ایک لمحہ بھی پوری دنیا کے مقابلہ میں قیمتی ہوا کرتا ہے جب موت سر پر آتی ہے تو کوشش کی جاتی ہے کہ جس قدر خرچ ہوجائے پرواہ نہیں صرف ایک لمحہ زندگی کا حاصل ہو جائے، چنانچہ سنا ہے کہ ایران کے شاہی دور کے وزیراعظم عباس ہویدا کو جب شرعی اسلامی عدالت نے سزائے موت کا حکم سنایا تو اس نے چند لمحات کروڑوں ڈالرز کے بدلہ میں مانگے تھے لیکن شرعی عدالت نے اس کی پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا۔
پس اس قدر قیمتی شئے کو برباد کرنے میں ہم کس قدر غیر محتاط ہیں؟ چنانچہ ایک روپیہ کو خرچ کرنے میں تو ہم احتیاط کرتے ہیں لیکن زندگی کی قیمتی گھڑیاں بیہودہ افعال مانند تاش یا کسی دوسرے کام میں ضائع کرنے کا احساس تک نہیں کرتے؟ اور پوری زندگی میں سے جوانی کی زندگی انتہائی قیمتی ہے اور جتنا اس قیمتی حصہ زندگی کو بے دریغ خرچ کرتے ہیں اس کے مقابلہ میں دنیا کی کسی کم قیمت چیز کو بھی بے دردی سے نہیںضائع کیا جاتا؟ تو کس قدر بے حس ہے یہ انسان جو بے قیمت چیز کو ضائع کرنے سے بچتا ہے اور قیمتی متاعِ زندگی کو ضائع کرنے کی پرواہ تک نہیں کرتا؟
البتہ وہ وقت بھی آجاتا ہے جب یہی انسان کہے گا  رَبِّ ارْجِعُوْنِ لَعَلِّیْ أعْمَلُ فِیْمَا تَرَکْتُ کَلَّا اِنَّھَا کَلِمَۃٌ۔۔ اے پروردگار!  ایک دفعہ مجھے واپس پلٹا دے اب میں زندگی کو تیرے امر کے مطابق خرچ کردوں گا؟  تو جواب ملے گا اب ہرگز مہلت نہیں مل سکتی۔۔ پس حسرت لے کر موت کا جام پینا پڑتا ہے، ہم نے عظمت پروردگار کا کبھی تصورہی نہیں کیا تاکہ غلطیوں سے بچنے کی کوشش کریں؟
حضر ت امام حسن ؑ کے کانوں میں اذا ن کی آواز آتی۔۔ وضو کرتے تو ان کا رنگ بدل کر پیلا ہوجاتاتھا اورلوگوں کے پوچھنے پر فرماتے تھے بہت بڑی بارگاہ میں حاضری کے لیے جانا ہے۔۔۔۔۔ حضر ت امیر المومنین ؑ شب تاریک میں اپنی ریش مبارک پکڑکر گڑ گڑا کر روتے اور عرض کرتے تھے  آہْ مِنْ قِلَّۃِ الزَّادِ وَ بُعْدِ الطَّرِیْق  ہائے زادِراہ کم ہے اور راستہ لمبا ہے۔
بہر صور ت زندگی سے قیمتی چیز دنیا میں کوئی بھی نہیں۔۔۔ پس اگر زندگی کوخرچ کرنا ہے اور قربان کرنا ہے تو تاش یا تماشہ کے بدلہ میں نہیں بلکہ کسی ایسی قیمتی چیز پر اس کو قربان کیا جائے کہ زندگی دینے کے بعد پچھتاوا اور پریشانی نہ ہو بلکہ راحت و شادمانی نصیب ہو۔۔۔۔ ۔ عظمت ِپروردگار کے پیش نظر دین خداکی خاطر اپنی زندگی کا نذرانہ پیش کرنا موت نہیں بلکہ شہادت ہے ۔
اس مقصد کو جس طرح امام حسین ؑ نے واضح کرکے دنیا کے سامنے پیش کیا کوئی دوسرا پیش نہ کر سکا، مثلاًجوان بیٹے۔۔ بھائیوں۔۔ بھتیجوں اور دیگر جانثاروں کے ریگ ِصحرا پر تڑپتے ہوئے لاشوں کے بیچ گر م ریت پر تیمم کرکے قبلہ رُخ ہو کر کہنا ـ اللہ اکبر اور سجدۂ پروردگار میں سر رکھ کر یہ الفاظ کہنارہتی دنیا تک انسانیت کیلئے مشعل راہ ہیں:
تَرَکْتُ الْخَلْقَ طُرًّا فِیْ ھَوَاکَ
وَ اَیْتَمْتُ الْعَیَالَ لِکَیْ اَرَاکَ
اے پروردگار!  ان عزیزوں اور جانثاروں سے تو کیا پوری مخلوق سے کنارہ کشی آسان ہے لیکن تیری محبت سے کنارہ کشی مشکل ہے۔۔ پس سب خلق کو تیری محبت میں خیر باد کہہ رہا ہوں اور اپنی اولاد کو یتیم کر نا گوارا کر رہا ہوں تاکہ تیرا وصال نصیب ہو۔
پس اپنے آپ کو دین توحید میں فنا کرکے امام حسین ؑ نے موت کو مار دیا اسی لیے امام حسین ؑ کا ذ کر بھی عبادت ہے۔
ہائے کس قدر بے درد تھے وہ لوگ جو زبان پر کلمہ رسول ؐ جاری کرتے تھے اور آلِ محمد کو اسلام سے خارج سمجھتے تھے؟ وہ آل جن کو پیغمبر اکرؐم کی زبان جوانانِ جنت کا سردار کہہ چکی تھی؟
کہتے ہیں گیارہ محرم کو جب فوجِ اشقیا ٔنے اپنے نجس مردوںکو دفن کرنے کا پروگرام بنایا تو جناب زینب ؑبنت علی ؑ نے جناب فضہ سے فرمایا کہ جاکر عمر بن سعد سے کہو اگر تم بھیا حسین ؑکو دفن نہیں کرتے تو نہ سہی ہمیں اجازت دو تاکہ ہم باقی لاشے نہ سہی کم ازکم فرزند رسول کو دفن کردیں؟
جناب فضہ پیغام لے کر گئی لیکن روتی ہوئی پلٹی۔۔بی بی نے پوچھا کیوں روتی ہو؟ تو اس نے جواب دیا وہ ظالم کہتاہے ہمیںصرف مسلمانوں کی لاشوں کو دفن کرنے کا حکم ملا ہے؟ ہائے جناب زینب ؑ نے سنا گا تو منہ پیٹ لیا ہوگا اور نانا کی قبر کی طرف متوجہ ہو کر کہا ہو گا نانا آج تیری امت تیرے حسین ؑکو مسلمان بھی نہیں سمجھتی؟

وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَیَّ مُنْقَلَبٍ  یَّنْقَلِبُوْن