اس مقام پر پہنچ کر یہ بات خود بخود واضح وعیا ں
ہو جا تی ہے کی تقلید اَعلم کا مسئلہ جو عا م مشہو ر ہے با لکل خا لی از دلیل ہے
اور بے بنیا د ہے۔۔۔ ا لبتہ اگر ایک ہی شہر یا علا قہ میں متعد دفقیہ مو جو د ہو ں
اور ان کے فتاویٰ میں اختلا ف ہو تو اس صو ر ت میںاَعلم کی طرف رجوع ضر وری ہے،
جیسا کہ کا فی میںعمر بن حنظلہ کی روا یت سے ثا بت ہوتا ہے ورنہ جب زما نِ آ ئمہ
ؑ میں یہ سہولت ملحوظ تھی کہ ہر شہر و علاقہ کے لوگ اپنے قریب ترین اَعلم کی طرف
مسا ئلِ دینیہ میں رجوع کر کے اعمال کی صحت کر یں۔۔۔ اگر اَعلم کی طرف رجو ع واجب
ہوتی تو اس زما نہ کے شیعو ں کے لئے سوائے امام علیہ السلام کے اور کسی کی طرف رجو
ع کرنے کی اجازت نہ ہوتی حتی کہ زمانِ رسا لت میں یہ چیز صرف سر کارِ رسالت تک ہی
محدود رہتی۔۔۔ اور اسی طرح حضرت امیرالمو منین علیہ السلام کے زمانہ میں آنحضرت ؑ
تک محدود ہوتا اور نائبین کی صورت اوّل سے آخر تک سب باطل ہوتی، کیونکہ ہر دور کے
نا ئبین اپنے اپنے مقامات پر نا قلِ فتو یٰ نہیں تھے بلکہ خود اپنے اجتہادات سے
فتو یٰ دیا کر تے تھے۔۔۔ حالانکہ ان اَعلم خود نبی یا امام معصوم مو جو د تھے۔
خدا وند کر یم نے ہر قو م میں متعددفقیہ پید ا کر
نے کا حکم صا در فر ما کر مر جع تقلید کو عا م قر ار دیا ہے تا کہ احکا مِ شریعت
کے سیکھنے اور سکھا نے میں عسر و ہر ج نہ رہے اور دین خدا آسا ن و سہل ہو اور اسی
بنا ٔ زما نِ رسالت سے تا زما نِ حضرت امام حسن عسکری ؑ اسی سہو لت کو بر قرار
رکھا گیا اور عوام کی مر جعیت کو عام کیا گیا اور یہ پابند ی نہ رکھی گئی کہ معصوم
ہی سے دریافت کیا جائے اور بس۔۔۔ ور نہ عوام پر ایک نا قا بل بر داشت بو جھ ہو تا
جس کو روا رکھنا تکلیف مالایطاق کے مترادف ہے، پس جب اس وقت اس آسانی کو ملحو ظ
رکھا گیا تو زما نِ غیبت شیعو ں سے بلا وجہ یہ سہو لت کیوں سلب کر لی گئی؟
نیز قرآن میں ہر قوم کو متعدد فقیہ پیدا کرنے کا
کیوں حکم ہوا؟ جب کے پو ری روئے زمین پر صر ف ایک ہی مفتی کی تقلید واجب تھی؟ جب
ایک کے علا و ہ با قیو ں سے مسئلہ پو چھنا نا جائز ہو تو بتانا کیسے واجب ہو سکتا
ہے؟ تو پھر اس کا فقیہ بننا کس کا م کا؟
جن جن احا د یث میں تقلید کا حکم دیا گیا ہے ان
میں کہیں نہیں کہ صر ف ایک ہی اَعلم کی تقلید واجب ہے بلکہ روایات میں صا ف طو ر
پر ہے کہ جو بھی حرام حلال جا ننے وا لا۔۔۔ خو ا ہش نفس کا مخا لف۔۔۔ اللہ کا
اطاعت گزار وغیر ہ شرائط رکھتا ہے عوا م کو اس کی طر ف رجو ع کر نا چا ہیے، ابتد
ائے زما نہ غیبت سے آج تک ہر دو ر میں ہزا رو ں کی تعد اد میں نہیں تو سیکڑو ں کی
تعد اد میں تو ضر و ر مجتہد ین رہے ہیں۔۔۔ اور ہر مجتہد اپنے حلقہ تقلید میں فتویٰ
دیتا رہا ہے اور اس کے فتاویٰ پر اس کے مقلدین عمل کر تے رہے ہیں، اس دور میں تو
یقینا ہز ا رو ں کی تعد اد میں مجتہدین مو جو د ہیں اور بہت کے رسائل طبا عت شدہ
ہیں۔۔۔ ان کے مقلدین بھی مو جو د ہیں، اگر صرف ایک اَعلم کی تقلید واجب ہو تو مند
ر جہ ذیل چند خرابیوں کا لا زم آنا ضرو ری ہے جن کا علا ج بھی سوچنا پڑے گا:
ض اللہ
کے نزدیک سب سے بڑا عالم (اَعلم) ایک زمانہ میں تو ایک ہی ہو سکتا ہے پس اس ایک کی
تقلید واجب ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ دوسروں کی تقلید حرام ہو۔۔۔ لہذا اللہ کے نزدیک
تو اسی ایک ہی مجتہد (اَعلم) کے مقلدین کے اعمال ٹھیک اور قابل قبول ہونگے، پس وہ
مجتہد عالم بھی مستحق نجات اور اس کے مقلدین بھی ناجی۔۔۔ اور اس مجتہد اَعلم کے
علاوہ جتنے مجتہدین نے اَعلم کی موجودگی میں فتویٰ دیا انہوں نے غلط اور ناجائز
کیا، اور جن لوگوں نے ان سے فتویٰ لیا انہوں نے بھی غلط کیا اور فعل حرام کیا،
لہذا اُن تمام کے اعمال رائیگاں اور برباد ہونگے، پس نہ غیر اَعلم مجتہد ناجی ہوئے
اور نہ ان کے مقلدین، گویا دورِ حاضر میں ہزاروں کی تعداد میں ایک (اَعلم ) کے
علاوہ سب مجتہدین اور لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں ان کے تمام مقلدین غلط
راستے پر ہوئے۔۔۔ اور ان سب کے اعمال ضائع و بیکار ہوئے!!
یہ ممکن ہے کہ جس شخص کو ایک آدمی نے اَعلم سمجھ
کر اس کی تقلید کی ہے اللہ کے نزدیک وہ اَعلم نہ ہو اور دورِ حاضر میں اکثر
صاحبانِ رسالہ مجتہدین کے رسائل عملیہ کے ٹائیٹل پیج (سرورق) پر جس مجتہد کا وہ
رسالہ ہوتا ہے اس کے نام کے ساتھ اَعلم لکھا ہوا ہوتا ہے گویا ہر صاحب رسالہ اپنے
آپ کو اَعلم قرار دیتا ہے ورنہ جب اس کا فتویٰ کہ ’’ تقلید صرف اَعلم
کی ہی کی جا سکتی ہے‘‘ تو اگر اپنے آپ کو
غیر اَعلم سمجھے تو رسالہ عملیہ ہی کیوں لکھے؟
اب واقع میں تو اَعلم صرف ایک ہی ہے اور تقلید بھی
صرف اسی ایک ہی کی جائز ہے اور دعویٰ اَعلمیت کرنے والے ہیں زیادہ۔۔۔ پس نہ اَعلم
کا صحیح فیصلہ ہوگا اور نہ کوئی شیعہ دریں صورت دعویٰ کر سکتا ہے کہ میری تقلید
اور اعمال درست ہیں۔۔۔ لہذا اگر تقلید اَعلم واجب ہو تو اعمال کی کشتی اس طوفانی
بھنور میں پھنسی ہی رہے گی؟
ض اگر
اَعلم کی تقلید واجب ہو اور غیر اَعلم کی حرام ہو تو جس طرح عوام پر واجب ہے کہ
اَعلم کی تشخیص کریں اور پھر اس کی تقلید کریں اسی طرح مجتہدین صاحبانِ فتویٰ میں
سے ہر ایک پر واجب ہونا چاہیے کہ جب تک ان کو اپنی اَعلمیت کا یقین پیدا نہ ہوجائے
فتویٰ نہ دیں، تو جس طرح عوام کے لئے تعیینِ اَعلم کے لئے علامات قرار دئیے گئے
ہیں اسی طرح اُن کے پاس بھی تشخیص اَعلمیت کا کوئی ذریعہ ہو۔۔۔ بلکہ عوام کے لئے
متعدد دعویٰ داروں میں سے ایک کا اَعلم ہونا معلوم کرنا زیادہ مشکل ہے بہ نسبت اُن
کے۔۔ کیونکہ ان سب کا اگر تشخیص اَعلمیت کے بغیر فتویٰ حرام ہو تو تاریخ مقرر کر
کے یکجا جمع ہو کر چند روزہ تبادلہ ٔ خیالات سے کسی ایک کی اَعلمیت پر یقین پید
اکر لیں گے، پس تمام لوگوں کو اسی ایک کے فتویٰ پر عمل کرنے کی دعوت دیں اور خود
سوائے اسی ایک کے فتویٰ سے دست برداری اختیار کر لیں۔
اور یہ اجتماع متنا فیین ہے کہ ان میں سے ہر ایک
کے لیے صا حب فتو ی ہو نا جائز ہے اور عوام پر صرف ایک اَعلم کی تقلید اور ان کے
فتوی پر عمل کرنا وا جب اور با قیو ں کے فتا ویٰ کو رد ّکر دینا ضروری۔۔۔ اور عجیب
و غریب معمہ ہے کہ فتویٰ دینے کے لئے مجتہد پر اپنی اَعلمیت کا علم پیدا کر نا
واجب نہ ہو اور عو ام پر فتویٰ قبول کر نے کے لیے تشخیص اَعلم ضروری ہو۔۔۔ جب غیر
اَعلم کی با ت سننا ناجا ئز ہے تو غیر اَعلم کو با ت کر نے کی اجا زت دینا کو ن سا
عد ل ہے؟
ض اگر
تقلید اَعلم وا جب ہو تو آیت نفر (لَوْ لا نَفَرٌ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ )معاذ اللہ
بے معنی رہ جائے گی، کیونکہ اس مذکو رہ آیت میں تو ارشا د خد اوندی ہے کہ ہر قوم
میں سے متعدد فقہا ہو نے چاہئیں جو اپنے حلقہ ا ثر میں تبلیغا تِ قرآنیہ اور احکا
مِ شر عیہ کو لو گو ں تک پہنچائیں اور لو گو ں کو عذابِ خدا سے خو فزدہ کر یں۔۔۔
اگر صرف اَعلم کے علا وہ دوسر وں کے فتویٰ پر عمل کر نا نا جا ئز ہو تو ہر قو م
میں متعدد فقہا پیدا کر نے کا حکم دینا بیکا ر ہے اور وہی اجتما ع متنا فیین یا
خلافِ عد ل ہی لا زم آئے گا، کہ اُدھر حکم ہے علمأ کے لیے کہ زیا دہ فقیہ بنو
اور مفتی بن کر اپنی اپنی اقوام میں احکا مِ شر عیہ کی تردیج کر و اور اِدھر عوا م
کو حکم ہے کہ صر ف ایک ہی کا فتویٰ ما نو جو سب سے بڑا ہو اور اس کہ علا وہ کسی کی
نہ سنو۔۔۔ دریں صو رت تو کیا اچھا ہوتا کہ اُدھر علمأ کو فر ما دیتا کہ تم سب
تکلیف نہ کرو صر ف ایک ہی فتوی دینے کے کا فی ہے پس یہ اشتباہ ختم ہوجاتا۔
ض اگر
تمام روئے زمین پر صر ف ایک اَعلم کی تقلید واجب ہو تو رفتہ رفتہ علم فقہ دنیا سے
اُٹھ جائے گا، کیو نکہ اَعلم کی تقلید کے وجو ب کا مطلب تو یہ ہے کہ با قیو ں سے
کوئی فتویٰ نہ لے۔۔۔ تو جس شخص نے اپنی عمر کا عزیز ترین حصہ طلب علو م دینیہ میں
صرف کیا اور صرف اس لیے کہ فراغت کے بعد مذہب کی خدمت انجا م دوں گا، تو جب یہ فا
رغ ہو گا اور سب مسائل شرعیہ حا صل کر لے گا تو چو نکہ تقلید واجب ہے صر ف اَعلم
نہ تو یہ خود غیر کی تقلید کر سکتا ہے۔۔۔ کیو نکہ خود مجتہد ہے اور نہ غیر مجتہد،
عوام اس کی تقلید کر سکتے ہیں کیو نکہ یہ اَعلم نہیں اگر مذہب کی خد مت کر ے تو
کیو نکر؟ کیو نکہ اگر زبا نی خد مت کر ے تو یہ صرف نقل قو ل ہی کر سکتا ہے اپنی
علمی تحقیقا ت کو منظر عا م پر نہیں لا سکتا۔۔۔ کیو نکہ لو گ اس کے مقلد نہیں ہیں
اور اگر تصنیف کی طرف قدم بڑھائے تو وہاں بھی نقل قول پر ہی اسے منحصر رہنا چاہیے
کیونکہ اس کی ذاتی تحقیقات ناقابل قبول ہیں اس لئے کہ وہ اَعلم نہیں، پس اس کی
قومی و مذہبی خدمات صرف نقل قول تک ہی منحصر رہ گئیں تو اتنی کافی مدت تک اس کی
سردردی کا کیا فائدہ؟ اگر اپنی علمی تحقیقات کو ظاہر کرنے کے لئے یا عوام کو قبول
کرنے کے لئے شرعی اجازت نہیں تو مذہبی خدمات کا جذبہ لے کر اپنی عمرعزیز کو
رائیگاں ہی کرتا رہا پھرتو سرے سے اس کوتحفۃالعوام یا دیگر عملیات کو تھوڑے عرصہ
میں عبور کرکے پیش نماز ہو کر قوم کی خدمات کرتا رہنا چاہیے تھا۔
دریں صورت جو شخص تحصیل علم کے میدان میں قدم رکھے
اُسے یقین کر لینا چاہیے کہ آخری درجہ تک پہنچ جانے کے بعدبھی میری حیثیت ناقل کی
ہو گی۔۔۔ عالمانہ حیثیت تب حاصل ہو گی جب روئے زمیں میں اَعلم صرف میں ہی ہوں گا
تو سرے سے جذبہ تحصیل علم رفتہ رفتہ ختم ہو جائے گا۔۔۔ اور علومِ شرعیہ اُٹھ جائیں
گے۔
ض بحار
الانوار میں سرکارِ رسالت سے منقول ہے فرمایا: عُلَمَائُ اُمَّتِیْ
کأنْبِیَائِ بَنِیْ اِسْرَائِیْل (میری امت کے علمأ بنی اسرائیل کے انبیا ٔ کی
طرح ہیں) کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ جس طرح بنی اسرائیل کے انبیا ٔ بیک وقت ہزاروں
یا سینکڑوں کی تعداد میں عہدۂ تبلیغ نبوت پر فائز تھے اور اپنی اپنی بستی یا قوم
یا گھرمیں فرائض تبلیغ انجام دیا کرتے تھے؟ اسی طرح میری اُمت کے علمأ ہزاروں یا
سینکڑوں کی تعداد میں بستی یا قوم قوم میں اپنے اپنے مقامات پر خدماتِ دینیہ انجام
دیں گے۔۔۔ اگر یہ فریضہ صرف اَعلم کے ذمہ دار ہو تو اس تشبیہ کا کیا فائدہ؟
ض یُرِیْدُاللّٰہُ
بِکُمُ الْیُسْرَ وَلا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ خدا تمہاری آسانی چاہتا ہے اور
تمہاری تنگی نہیں چاہتا اگر پوری دنیا میں صرف ایک اَعلم کی طرف رجوع کرنا واجب ہو
تو نت نئے نئے پیش آمدہ مسائل جن کا ان کے رسالۂ عملیہ میں ذکر نہ ہو اور اطرافِ
عالم میں اُن کا پیش آنا بھی ضروری ہے۔۔۔ اگر ان سب میں صرف اسی ایک ہی کی طرف
رجوع کرنا ضروری ہو تو ایک آدمی اُن سب کے جوابات کیسے دے گا؟اور یہ دریافت کرنے
والے جواب کی آمد تک کون سی زندگی گزاریں گے؟ جبکہ یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کے
جواب کی باری کب آئے گی؟
تو اس کا مطلب تو یہی ہے کہ معاملہ سب گڑ بڑ رہے
گا۔۔۔ پس نہ مجتہد کو کسی وقت ان جوابات سے فراغت ملے گی تاکہ اس کی زندگی کا کوئی
لمحہ آرام سے گزرنے پائے اور نہ عوام کو مسا ئل شر عیہ میں صحیح ر ہبر ی حا صل ہو
سکے، بخلا ف اسکے اگرہر جگہ کی عوام کو اپنے قر یب تر ین مجتہد کی طرف رجو ع کر نے
کا حکم ہو جس طر ح کہ آئمہ کے زما نے میں تھا تو عوام کے مسا ئلِ دینیہ و احکا مِ
شر عیہ حا صل کرنے میں بھی آسانی ہو اور مفتی پر بھی بوجھ کم۔۔۔ اگر ایسانہ ہو تو
شریعت سہلہ کی لفظ بے کا ر اور آیت نفی عسر مذکور بے معنی ہو گی۔
ض آ ئمہ
طاہرین علیہم ا لسلا م نے دُور دُور کے شیعو ں کو اپنے قریب تر ین عا لم راویٔ حد
یث کی طر ف رجو ع کر نے کا حکم کیوں دیا؟ جس طر ح کہ ص۲۵۸،۲۵۹ پر گزر چکا ہے، اگر صرف ایک اَعلم کی طرف رجو ع واجب تھا تو
حضرات آئمہ طاہرین ؑ اَعلم بھی تھے اور معصوم بھی۔۔۔ پس جب معصومین ؑ نے اپنے
حضور کے زمانے میں دُوردراز کے شیعوں پر یہ بھارڈالنا گوا را نہ فرمایا تو زمانہ
غیبت میں اس بوجھ کو گوارا کیوںکیا گیا؟ کیا زما نہ حضوؐر اور زما نہ غیبت کی
شریعت جدا جدا ہے؟ پس نتیجہ یہی نکلا کہ تقلید اَعلم کا وجوب دعوائے بلا دلیل اور
بجائے نفع کے نقصانِ عظیم کا مو جب ہے۔۔۔ بلکہ ہر مجتہدجامع الشرائط کی تقلید جا
ئز ہے اور اسکے فتوی پر عمل کیا جا سکتا ہے۔
سوا ل: سوال
پیدا ہو تا ہے کہ اگر اَعلم کی تقلید واجب نہ ہو تو وحدتِ مرکز ختم ہو جائے گی؟
جو اب: اس
کا جواب یہ ہے کہ تما م شیعہ کا مر کز ِواحد صر ف حضرت حجت علیہ السلام مو جو د
ہیں اور تما م علمأ اس کی شعا عیں ہیں۔۔۔ اور اگر خواہ مخواہ مر کز ِظا ہر ی کی
ہی وحد ت کا مطا لبہ ہو تو وہ قطعاً زما نہ غیبت میں حا صل ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔کیو
نکہ اَعلم کی تقلید کی صو رت میں وحدت مر کز تو تب ہو گی کہ جب اَعلمیت کا مدّعی
صرف ایک ہی ہو جب ہر رسالۂ عملیہ کے سرورق پر مجتہد صا حب رسا لہ کے نا م کے سا
تھ اَعلم کی لفظ موجود ہو تو اَعلمیت کا فیصلہ کیونکر ہوگا؟ اور وحدت کیسے آئے
گی؟ اور ممکن ہے کہ جسکو ایک طبقہ والو ں نے اَعلم کہا ہے دوسرے طبقہ کے نزدیک ان
کانظریہ غلط ہو بلکہ ان کی نگا ہو ں میں اَعلم کوئی اور ہو۔۔۔ صرف شہر ت بھی
تشخیصِ اَعلم میں نا کا م ہے کیو نکہ ہو سکتا ہے کہ ایک طبقہ میں ایک کی اَعلمیت
کا شہرہ ہو اور دوسرے طبقہ میں دوسرے کی شہرت ہو اور تیسر ے طبقہ میں ان دو نو ں
کہ علا وہ کو ئی اور زیادہ شہرت کا حامل ہو۔۔۔ جس طرح دَورِ حاضر میں یہ چیز
عیاں راچہ بیاں کی مصداق ہے، نہ اس
اَعلمیت کا تسویہ ہو سکتا ہے اور نہ وحدت قائم ہو سکتی ہے۔
سوال: اب
سوال یہ پید ا ہو گا کہ عقلا ًاَعلم کی طر ف رجوع کر نا واجب ہے؟
کیو نکہ مقتضا ے عقل یہ ہے کہ ہر فن میں بوقت ضر
ورت اس فن کے ما ہر تر ین انسا ن کی طر ف رجو ع کیا جائے مثلاً بیما ر کو علاج کے
لیے اعلیٰ داکٹر کی طر ف رجو ع کرنے کی عقل دعوت دیتی ہے۔۔۔ مکان کے لیے اعلیٰ
معما ر۔۔۔ قانون کے لیے اعلیٰ وکیل۔۔۔ پڑھنے کے لیے اعلیٰ استا د وعلی ہذا لقیاس،
گو یا ہر فن میں فن کے ما ہر ترین انسا ن کی طر ف رجو ع کرنا عقل کا اٹل فیصلہ ہے
پس مسا ئل شر عیہ میں اَعلم کی طرف رجو ع کر نا ضرو ری ہے۔
جواب: اولاً : تو یہ ہے کہ زما نِ آئمہ ؑ میں عملی طو
رپر اس نظریہ کے خلاف کر کے اس کو ردّ کر دیا جا چکا ہے۔
ثانیاً: یہ کہ ہر فن میں ما ہر ترین
فن کی تلا ش قطعاً عقلاً واجب نہیں کیو نکہ دنیا بھر میں ہر فن کا ما ہر ترین تو
ایک وقت میں صرف ایک ہی ہو سکتا ہے۔۔۔ اگر پوری دنیا والوں کے لئے صرف اسی ایک کی
طرف رجوع کرنا واجب عقلی ہوتا تو تمام دنیا کا نظام معطل ہو جاتا؟ ہاںعقلاً اتنا
واجب ضرور ہے کہ ضرورت کہ وقت پہلے پہل قریب ترین عالم فن کی طرف رجوع کیا جائے
اگر اس سے ضرورت پوری نہ ہو سکے تو علاقہ بھرکے ماہرین کی طرف رجوع کیا جائے۔۔ اگر
اس سے بھی مطلب حل نہ ہو توحسب حیثیت آگے قدم بڑھاتا چلاجائے بلکہ گھر میں بیٹھ
کر قریب ترین ماہر سے مطلب پورا ہو سکنے کے باوجود دُور درازکے سفر کی تکالیف
برداشت کرنااور قریب والوں کو ناراض کرنا خلاف عقل ہے، پس مسائل شرعیہ کے حاصل
کرنے کے لئے بھی عقلی نقطہ نگاہ یہی ہے کہ اوّلاً قریب ترین عالم کی طرف رجوع ہو
اور بصورتِ دیگر آگے قدم رکھا جا ئے اوراس کے خلاف کرناخلافِ عقل ہے اور خلافِ
نقل بھی ہے جس طرح کہ مفصلاً ذکر کیا جا چکا ہے۔
سوال: اب سوال یہ پیدا ہوگا کہ آج تک تمام
علمائے کرام و مجتہدین عظام کا یہی فتوی رہا ہے کہ اَعلم کی تقلید واجب ہے اور اس
کے بغیر اعمال سب باطل ہیں؟
جواب: اس کا جواب یہ ہے کہ تمام مجتہدین کا
اگر یہ فتویٰ ہوتا تو ہر دَور میں متعدد صاحب فتویٰ کیوں موجود ہیں؟ دَور حاضر میں
ایران و عراق و ہند میں متعدد صاحب رسالہ موجود ہیں، اسی طرح کربلا۔۔۔
سامرأ۔۔۔کاظمین اور ایران کے ہر بڑے شہر میں مجتہدین موجود ہیں جن کے فتویٰ پر
عمل ان کے مقلدین کرتے ہیں، اگر ان تمام کے نزدیک صرف اَعلم کی تقلید واجب ہوتی تو
فتویٰ دینے یا رسالۂ عملیہ لکھنے سے پہلے اپنی اَعلمیت کا علم کیوں نہ پیدا کر
لیتے؟
بلکہ مشاہدہ ہے کہ ایک ہی وقت میں اساتذہ مجتہدین
بھی موجود ہیں اور ان کے تلامذئہ مجتہدین بھی موجود ہیں، استاد اور شاگرد ہردوکے
عملیہ بھی موجود ہیں اور علیحدہ علیحدہ مقلدین بھی موجود ہیں۔۔۔ اب اگر اَعلم کی
تقلید واجب ہو تو ان دو میں سے یا استاد اَعلم ہے یا شاگرد؟ پس غیر اَعلم کو چاہیے
کہ فتویٰ سے دست بردار ہو جائے جبکہ وہ جانتا ہے کہ تقلید صرف اَعلم کی ہو سکتی
ہے، لہذا اپنے تمام حلقۂ اَثر میں اپنے سے اَعلم کی طرف رجوع کا حکم دے دے۔۔۔ اور
حدیہ ہے کہ چونکہ بات عام چل چکی ہے کہ اَعلم کی تقلید ہو نی چاہئے، لہذا اساتذہ
کے رسائل عملیہ کے سر ورق پر بھی نام کے ساتھ اَعلم کی لفظ ہے اور تلاندہ کے رسائل
عملیہ کے سر ورق پر بھی ان کے نام کے ساتھ اَعلم کی لفظ موجود ہے۔۔۔ اور بعض اوقات
ایسا بھی ہو جایا کرتا ہے کہ تلاندہ کا حلقہ تقلید واجب ہے یا نہ؟اور ہر ذی شعور
سمجھ سکتا ہے کہ تمام مجتہدین اَعلم کی تقلید واجب نہیں سمجھتے ہیںاور ان کا اپنا
عمل اس کا شاہد بیّن ہے بلکہ ان کا عمل صاف طور پر اعلان کر رہا ہے کہ ہر مجتہد
جامع الشرائط کی تقلید جائز ہے۔
اب ذرا اَعلم کے لفظ پر غور کیجیے اگر مسئلہ تقلید
اَعلم میں اَعلم کا مطلب یہ ہے کہ دَورِ موجود کے تمام مجتہدین سے اَعلم تو سابقہ
براہین وادلّہ سے اس کا فیصلہ ہو چکا ہے کہ اس معنی میں تقلید اَعلم واجب نہیں۔۔۔
ورنہ وہ خرابیاں لازم آئیں گی جو مذکور ہو چکی ہیں، اور نیز نہ اَعلم اس معنی میں
مقلدین کو معلوم ہو سکتا ہے اور نہ خود مجتہدین اس کا فیصلہ کر سکتے ہیں تاکہ اس
پر عمل اقدام کیا جاسکے، پس اَعلم کا معنی ہے (اَعلم فی الجملہ) تو اس اعتبار سے
ہر جامع الشرائط مجتہد عوام کے مقابلہ میں اَعلم ہے۔۔۔ اور اس کی تقلید واجب ہے
اگر اَعلم کا معنی یہ نہ ہو بلکہ وہ پہلا معنی یعنی تمام مجتہدین میں سے اَعلم تو
ہر مجتہد کو فتویٰ دینے یا رسالہ لکھنے سے پہلے ضروری ہو جائے گا کہ تمام مجتہدین
میں سے اپنی اَعلمیت کا علم پیدا کریں اور پھر فتویٰ دیں اور یہ علم پیدا کرنا
مشکل نہیں بلکہ محالات میں سے ہے۔۔۔ لہذا اَعلم کا دوسرا معنی بالکل درست ہے اور
حدیث سابق مَنْ کانَ مِنَ الْفُقَھَائِ صَائِنًا لِنَفْسِہ یعنی فقہا
ٔ میں جوشخص بھی ان شرائط کاجامع ہو عوام اس کی تقلید کر سکتے ہیں۔۔۔ یا اس کے
ساتھ دوسری احادیث مثلاً جو بھی ہمارے حلال و حرام کا جاننے والا اور ہماے احکام
کا عالم ہو وہ ہماری طرف سے تمہارے اُوپر حاکم ہے۔۔۔ یہ ہمارے راویانِ حدیث ہماری
طرف سے تمہارے اوپر حجت ہیں گویا آئمہ ؑ کی یہ سب فرمائشات اسی دوسرے معنی کی
شاہد ہیں، پس تمام مجتہدین اس معنی کے اعتبار سے اَعلم کی صفت سے متصف ہیں کیونکہ
وہ عوام سے یقینا اعلم ہیں لہذا اُن کی تقلیدمیں اعمال بجالانا درست ہے، پس اَعلم
کی لفظ صرف رسمی ہی ہے۔۔۔ ایران و عرااق و ہند وغیرہ میں جہاں جہاں لوگ کسی مجتہد
جامع الشرائط کی تقلید سے اعمال بجالاتے ہیں بالکل درست اور انشاء اللہ موجب اَجر
ہیں۔۔۔ خداوند کریم کسی کے عمل کو ضائع نہیں کرتا اور اس نے اپنے دین کو سہل کیا
ہے وہ اپنے بندوں پر ہرج و عسر نہیں ڈالتا۔
پس تمام مجتہدین جو جامع شرائط فتویٰ ہوں اپنے
اپنے مقامات پر فتویٰ دے سکتے ہیں اور علاقہ والے ان سے استفادہ کر سکتے ہیں۔۔۔
اور ان کے ساتھ حضرت قائم آلِ محمد عجل اللہ فرجہ الشریف کی تائید غیبی شامل حال
ہے۔۔۔ اور وہ سب اُن کے فرائض نیابت عامہ انجام دینے کے اہل ہیں۔۔۔ اور ان کی طرف
سے اس کا خیر کے انجام دینے پر مامور ہیں جس طرح ان کا فرض ہے کہ ان سے کما حقہٗ
استفادہ کریں اور ان کو خدماتِ علمیہ کا موقع دیں۔
بحارا لانوار جلدنمبر۱
حدیث میں وارد ہے کہ بروزِ محشر تین چیزیں اللہ کی بارگاہ میں اپنی کسمپرسی کی
شکایت کریں گی۔
۱: قرآن مجید جس کو لاکر رکھ دیا گیا ہو
اور اس کی تلاوت نہ کی جائے (صرف الماری یا صندوق کی ہی زینت بنارہے)
۲:
وہ مسجد خستہ حال جس میں نماز نہ پڑھی جائے۔
۳:
وہ عالم جس سے مسائل نہ دریافت کئے جائیں۔
تقلید اَعلم کی مشہور اصطلاح کے مطابق جبکہ عوام
کا فریضہ صرف ایک سے ہی دریافت کرنے پر منحصر ہو تو حدیث کے اس فقرہ کا کوئی معنی
ہی نہیں۔۔۔ اس اصطلاح کے مطابق غیر اَعلم مجتہدکی بروزِ محشر شکایت ہی بے جا ہے۔۔۔
پس تمام مجتہدین جو جامع الشرائط ہوں مجموعی طور پر اَعلم ہیں اور حضرت حجت کے
نائبینِ عمومی ہیں تمام عالم میں ان کا فیض در حقیقت انہی کا فیض ہے، جس طرح شہر
میں بجلی گھر ایک ہوتا ہے اور اس سے ربط رکھنے والے قمقمے دُوردُور تک گھروں میں
روشنی پہنچا تے ہیں یہ روشنی ان کی نہیں ہو تی بلکہ درحقیقت اسی مر کز کا فیض ہوا
کر تا ہے جس سے ان قمقموں کی تا ر ملی ہو تی ہے۔۔۔۔۔ یا جس طر ح ایک با دشا ہ سیر
و تفریح یا دیگر امو رِ ضرو ر یہ کے لیے کچھ عر صے کے لیے ملک سے با ہر چلا جائے
یا کسی مصلحت کے ما تحت گھر کے اندر ہی بیٹھ جائے اور باہر نہ نکلے تو اس کا مطلب
ہر گز یہ نہیں ہوا کر تا کہ ملک بادشا ہ کے فیض سے محر وم ہے۔۔۔ کیو نکہ اطرافِ
مملکت میں ہر ضلع یا صوبہ کے مقا می عہد یدا رو کا نظا م سلطنت کو بحال رکھنا اور
ضا بطہ قوا نین مملکت کی پا سد اری و نگہبا نی کر تے رہنا اسی سطا نِ غا ئب کا ہی
فیض ہوا کرتا ہے اور وہ ملک بھی اسی کا ملک کہلا تا ہے یہ سب اسی کے ملازمین شما ر
ہو تے ہیں، با دشاہ کا آنکھو ں کے سا منے ہو نا یا غا ئب ہو نا اس کے فیض عا م
میں دخیل نہیں ہو ا کر تا بلکہ شا ہی نظا م کی کفا لت ہی اس کا فیض ہے۔
پس زما نِ غیبت میں علمائے کرام اپنے عہد کے ذمہ
دار ہیں اور ان کی کو تاہیاں مو جب با زپر س ہیں اور ان کی اپنے فر ائض کی انجا م
وہی مو جب اَجر عظیم ہے۔۔۔ چنا نچہ جو علمأ خو شنو دیٔ خدا کو ملحو ظ رکھ کر احکا
م قر آن کو زندہ کریں اور احادیث اہل بیت عصمت اور ان کی صحیح تعلیما ت سے لو گو
ں کو رو شنا س کر ائیں اور خد مت دینیہ کو کماحقہٗ بجا لائیں ان کے متعلق وارد ہے
کہ وہ ’’کا فلِ ایتا مِ آ لِ محمد‘‘ کے نام سے پکا رے جا ئیں گے۔
کتا ب بحا ر الا نوا ر جلد ۱
میں جنا ب رسا لتما ب صلی اللہ علیہ وا ٓ لہ وسلم سے منقو ل ہے کہ حضوؐر نے فر ما
یا:
اپنے حقیقی با پ سے محروم رہنے وا لے یتیمو ں سے
بھی بڑا یتیم وہ شخص ہے جو اپنے اما م کے ظلِ عاطفت سے محروم ہو جائے اور ان تک
پہنچ نہ سکے۔۔۔ اس کو یہ معلو م نہ ہو کہ جن مسا ئلِ دینیہ سے مجھے تعلق ہے اور
مجھ سے باز پر س ہے۔۔۔ ان کے احکا م کیا ہیں؟
آ گا ہ رہو۔۔۔۔۔ جو شخص ہما رے شیعو ں میں سے ہما
رے علو م کا عالم ہو تو۔۔۔ شخصِ جا ہل جو نہ ہمارے احکام جانتا ہے اور نہ ہم تک
پہنچ سکتا ہے اس کی گو د میں بمنزلہ یتیم کے ہے۔۔۔ پس جو اس کو ہد ایت کر ے گا اور
اس کی رہبری کر کے اس کو ہماری شریعت کے مسائل سکھا ئے گا وہ ہمارے سا تھ رفیق
اعلیٰ میں ہو گا (علامہ مجلسی قدہ نے رفیق کے متعلق فرمایا ہے کہ مراد اس سے انبیا
ٔ کی جما عت ہے جو اعلیٰ علیین میں ہو گی۔
نیز بحارالانوار میں سر کا رِ رسا لت ؐ سے پا نچ
کا موں کو عبادت کے نام سے مو سوم کر نا منقول ہے آپؐ نے فر ما یا:
(۱)
علمأ کے ساتھ بیٹھنا عبادت ہے (علما ئے صا لحین جن کا مقصدرضا ئے خداکے لئے
ترویج دین خدا ہو)
(۲)
حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے۔
(۳)
قرآن شریف پر نظر کر نا عبادت ہے (تلاوت وغیرہ کا ثواب الگ ہے)
(۴)
بیتُ اللہ (کعبہ ) کا دیکھنا عبا دت ہے۔
(۵)
والدین کی طرف (مہر و محبت سے ) نظر کر نا عبادت ہے۔
پس بہر کیف بفر مانِ آئمہ طاہرین ؑ ۔۔۔عوام پر
علمأ حاکم و حجت ہیں اور ان پر آئمہ حجت خدا و حا کم ہیں۔۔۔ تو جس طرح عوام پر
ان کے حقوق ہیں اور وہ ان کی حقوق تلفی میں مسئول و ما خوذ ہو ں گے اسی طرح آئمہ
کی طرف سے عوام کے ان پر حقو ق ہیں جن کے وہ مسئول ہو ں گے۔
اپنے فرا ئض منصبیہ کی ادا ئیگی پر عوام سے اُجرت
طلب کر نا یادیگر منا فع دنیا پرنظررکھنا علمأ کی شا ن نیابت کے سرا سر منا فی
ہے۔۔۔ بلکہ ان کو تو اپنے حسنِ کر دار اور بلندیٔ سیرت سے عو ام کو سیرتِ آئمہ کی
طر ف جذب کر نا ضروری ہے اور یہی ان کی شان ہے، ورنہ جس طرح جنت کے اعلیٰ درجات
میں علمائے عاملین کا مقام ہے اسی طرح جہنم کے اَسفل درکات میں علمائے سوء کی جگہ
ہے۔