قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی فِیْ کِتَابِہٖ الْعَزِیْز
۔۔۔ خدا قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
٭ مَنْ
یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ۔۔۔ وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ
ذَرَّۃٍ شَرًّا یَرَہٗ۔
ترجمہ: جو شخص ذرّہ برابر نیکی کرے گا اُسے دیکھ
لے گا (اس کی جزا پائے گا) جو شخص ذرّہ بھر برائی کرے گا اُسے دیکھے گا (اس کی سزا
پائے گا)
٭ مَنْ
جَائَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہُ عَشْرُاَمْثَالَھَا وَمَنْ جَائَ
بِالسَّیِّئَۃِ فَلا یُجْزیٰ اِلَّامِثْلَھَاوَھُمْ لا یُظْلَمُوْنَ۔
ترجمہ: جو شخص نیکی کرے اس کے لیے اس کا دس گنا
ثواب ہے۔۔۔ اور جو شخص برائی کرے پس اس کو اس کا اس کے مثل ہی دیا جائے گا اور اُن
پر ظلم نہ کیا جائے گا۔
٭ وَ
مَا اللّٰہُ یُرِیْدُ ظُلْمًا لِلْعِبَادِ۔۔۔ ھَلْ جَزَائُ الْاِحْسَانِ اِلَّا
الْاِحْسَان۔
ترجمہ: خدا اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرنا چاہتا۔۔۔
احسان کا بدلہ احسان ہی ہے۔
بہر کیف قرآن مجید میں اس مضمون کی آیات بہت
زیادہ ہیں تمام کو یکجا کرنے کی خاص ضرورت نہیں۔۔۔ کتاب ’’جامع الاخبار‘‘ میں عدل
کے بیان میں عبادبن صہیب سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ابو حنیفہ حضرت امام موسیٰ کاظم
ؑ سے ہم کلام ہوا۔۔۔امام ؑ کا عالمِ شباب تھا، ابو حنیفہ نے امام ؑ کو یوں
خطاب کیا اے جوان بتا گناہ کس سے سر زد
ہوتے ہیں؟
آپ ؑ نے جواب فرمایا اے بڈھے تین صورتوں سے
خالی نہیں۔۔۔ یا تو صرف اللہ کی طرف سے ہیں۔۔۔ یا صرف بندوں کی جانب سے ہیں۔۔۔ یا اللہ و
بندے دونوں کی شرکت سے ہیں:
* اگر
پہلی صورت ہو یعنی خدا سے ہی صادر ہو تو بندہ بے قصور ہے۔۔۔ لہذا اس کو سزا نہیں
ملنی چاہیے۔
* اگر
تیسری صورت کہ دونوں فعل گناہ میں شریک ہو ں تو دونوں برابر کے مجرم ہیں۔۔۔ صرف
فرق یہ ہے وہ صاحب طاقت ہے اور یہ کمزور ہے، پس سزا صرف کمزور پر کیوں رکھی گئی؟
حالا نکہ طاقتور کے لئے کمزور پر ظلم کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔۔۔ گناہ کرنے
میں برابر کے شریک اور سزا صرف کمزور پر؟
* باقی
صرف ایک صورت رہ گئی ہے اور وہ یہ کہ بندہ خود مختار ہے اور نیکی و بدی کی جزا
وسزا کا بھی خود مستحق و سزا وار ہے۔
پس ابو
حنیفہ اُٹھا اور امام ؑ عالی مقام کی پیشانی اقدس پر بوسہ دے کر کہنے لگا کہ واقعی
آپ ؑ وارثِ رسول ہیں۔
تمام علما ئے امامیہ کا اتفاق ہے کہ خداوند کریم
عادل ہے اور قطعاً اُس سے ظلم صادر نہیں ہو سکتا کیونکہ ظلم فی نفسہٖ قبیح اور عیب
ہے اور خدا جملہ عیوب و قباحتوں سے پاک و منز ّہ ہے۔۔۔ نیز انسانِ سلیم الطبع اگر
اپنے وجدان کی طرف دھیان کرے تو اس کو صاف طور پر معلوم ہو گا کہ وہ جو کام کرتا
ہے اپنے ذاتی اختیار سے ہی کرتا ہے اس میں اس کو کوئی چیز مجبور نہیں کررہی ہوتی
نہ نیکی میں نہ برائی میں۔۔۔ اگر خدا کسی آدمی کو نیکی پر اور کسی کو برائی پر
مجبور کر دے اور پھر نیک کو انعام اور برے کو سزا کا سزاوار قرار دے تو اس قسم کا
غیر منصفانہ رویہ تو عام انسانوں کے لئے بھی زیب نہیں چہ جائیکہ خالق کائنات یہ
رویہ اختیار کرے۔
ہا ں خدا وند کریم نے انسان کو خیر و شر کی طاقت
عطا کر دی ہے اس کے بعد انسان کو اپنے اختیا ر سے سب کچھ کرنا ہے خواہ اپنی طاقت
کو نیکی کے کاموں میں استعمال کرے یا برائی کے کاموں میں استعمال کرے اُس نے اپنے
دین میں کوئی جبرو اکراہ روا نہیں رکھا۔۔۔ مثال کے طور پر اگر ایک شریف کسی فقیر
مسکین کو کچھ روپے بطورِ اعانت عطا کر دے تا کہ وہ بیوی بچوں کے اخراجات و مصارف
میں صَرف کر کے آسودہ حال ہو جائے، فقیر کے پاس پیسہ آ جانے کے بعد اس کو اختیار
ہے کہ وہ پیسہ اپنے خانگی ضروریات پر خرچ کر کے اپنے فرائض منصبیہ سے عہدہ برآ ہو
جائے یا اُدھر سے پیسہ وصول کر کے اِدھر فضول خرچی کر کے ویسے کا ویسا گھر آ
جائے، اب یہ شخص ہر دو صورتوں میں ہرگز مجبور نہیں ہے ۔۔ اگر بالفرض یہ شخص وہی
پیسہ برائی پر خرچ کر دے تو اس پیسہ دینے والے شریف انسان کا قصور ہرگز قرار نہ
دیا جائے گا اور یہ کہنا بالکل بے جا ہو گا کہ اس کے افعال بد کا موجب وہ شریف
آدمی ہے اگر اس نے یہ امداد نہ کی ہوتی تو اس سے یہ فعل سرزد نہ ہوتا!!
جو لوگ خیر و شرّ کو اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں
وہ عدل خداوندی کے قائل نہیں، وہ قرآن مجید کی اُن آیات سے لوگوں کو دھوکا دینے
کی کوشش کرتے ہیں جن میں ہدایت و ضلالت کی نسبت خدا کی طرف ہے یا ختم وطبع کو خدا
نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے۔۔۔۔۔ ان چیزوں کے مفصل بیانات تو اپنے مناسب وقت پر
آئیں گے لیکن اس مقام پر بھی اس شبہ کا ازالہ مختصر طور پر کر دینا ضروری ہے:
خداوند عالم جو محسن و خالق کائنات ہے اس نے اپنے
فضل عمیم سے اشیا ٔ کو خلق فرما کر ان میں علیّت و معلولیت اور سبییّت و مسببیّت
تفویض فرما دی۔۔۔ انسان کو اعضا ٔ عطا فرمائے اور ان کو افعال کا سبب قرار دیا،
پائوں کو چلنے کی۔۔۔ ہاتھوں کو پکڑنے کی۔۔۔ آنکھوں کو دیکھنے کی و علی ہذا القیاس
طاقتیں عطافرمائیں اور دل عطا فرمایا جس کو اچھائی یا برائی کی طرف میلان کی قوت
عطا فرمائی تاکہ اس کی طرف میلان کے بعد قوتِ ارادیہ بذریعہ حرکاتِ اعضا ٔ کے
افعال کا ظہور ہو۔۔۔۔۔ اب اعضا ٔ افعال بد کی طرف بھی چل سکتے ہیں اور افعال حسنہ
کی طرف بھی بڑھ سکتے ہیں لیکن
ہیں تابع ارادہ کے اور ارادہ بھی ہر دو طرف ہو سکتا ہے لیکن نفع و نقصان کے تصور
کے تابع ہے، اور تصور میں نفع و نقصان کا امتیاز اور ان کا صحیح فیصلہ قوتِ عاقلہ
پر موقوف ہے اگر قوتِ عاقلہ نہ عطا کرتا تو نفع و نقصان کا صحیح فیـصلہ نہ ہو
سکتا، لہذا میلانِ قلب اور اس کی قوتِ ارادیہ اور افعالِ صادرہ سب کے سب قابل باز
پرس نہ رہتے اور جزا و سزا کا قصہ سرے سے ساقط ہو جاتا۔۔۔ اور اگر قوتوں کو صرف
ایک ہی رُخ عطا فرماتا اور دوسری طرف ان کا قطعاً رُخ ہی نہ ہوتا تو پھر بھی تکلیف
ساقط تھی کیونکہ انسان اس صورت میں اسی ایک رُخ پر چلنے کے لئے مجبور محض
ہوجاتا۔۔۔ پس انسان کو اعضائے سلیمہ، قوتِ عاقلہ اور قوتِ ارادیہ کا عطا فرمانا
ذاتِ احدیت کا عینِ فضل اور کمالِ احسان ہے، لیکن خدا کے بذریعہ انبیا ٔ و کتب
سماویہ عقل کو صحیح و فاسد۔۔۔ جائز و ناجائز کی طرف متوجہ کرنے کے بعد اپنے اختیار
اور قوتِ ارادیہ کو صحیح اور جائز کی طرف موڑنا انسان کا فرضِ عین ہے۔
اب قرآن مجید میں ہدایت و ضلالت یا ختم و طبع کا
خدا کی طرف منسوب ہونا اس کا مطلب ہے کہ اس نے تما م طاقتیں عطا کر نے کے بعد اس
کو اختیا ر دے دیا ہے اور اس نے بذریعہ انبیا ٔ و رسل خیر و شرّکے راستے واضح فرما
دئیے ہیں۔۔۔۔۔ کوئی خیر کے راستے پر چلے تو اپنے اختیا ر سے اور شرّ کا راستہ پسند
کرے تو اپنی مر ضی سے۔۔۔۔۔ فرماتا ہے: اِنَّا
ھَدَیْنَاہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوْرًا قرآن میںہر دو کا
اللہ کی طرف منسوب ہو نا اس لئے ہے کہ وہ ان تمام قوتوں اور قوتِ ارادیہ کا خالق
ہے اگر اس نے یہ قوتیں نہ دی ہوتیں تو انسان سے یہ اعمال کیونکر سر زد ہوتے؟
لیکن اعتراض تو جب وارد ہوتا ہے کہ اس نے صحیح
راہنمائی نہ فرمائی ہوتی؟ پس خدا کی طرف نسبت اسی طرح ہے جس طرح سبب کی طرف
نسب دی جاتی ہے، جیسا کہ مجازاً مثالِ گذشتہ میں فقیر کے افعال ناشائستہ کو پیسہ
دینے والے شریف انسان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس نے اس سے یہ
کام کروایا ہے حالانکہ وہ صرف اس کا محسن ہی ہے اور اس کے افعال ناشائستہ کا قطعاً
ذمہ دار نہیں۔۔۔ پس خدا وند کریم محسن ہے اور انسان کے افعال کی ذمہ داری قطعاً اس
پر عائد نہیں ہوتی اور انسان اپنے اختیا ر سے عمل کرنے کے بعد سزا وجزا کا مستحق
بھی ہے اور یہی مقتضائے عدل ہے۔
انسان کے اُوپر جس طرح خالق کے احسانِ عمیم اور
فضل جسیم کا شکر ادا کرنا وا جب ہے اسی طرح اس کے فرستادہ پیغمبروں کے حقوق سے
عہدہ بر آہونا بھی انسان پر واجب و لازم ہے جنہوں نے ہماری صحیح راہنمائی فرمائی
اور مفید اصولوں سے آگاہ فرمایا۔۔۔ پس جس طرح خدا کا انکار اور اس کی نافرمانی
موجب ِعتاب و عقاب ہے اسی طرح اس کے بھیجے ہوئے رسولوں کا انکار اور ان کے حکم سے
سرتابی در حقیقت خدا کے اوا مر و نواہی کی توہین اور اس کی اس نعمت ِعظمیٰ کی
تحقیر کے مترادف ہونے کی حیثیت سے مستو جب ِعذاب ہے۔
اب اگر کوئی انسان اپنے مقام پر خلق خدا کا خادم
ہو اور کسی کو بلاوجہ تکلیف نہ پہچا تا ہو اور اس کے تمام اعضا ٔ عقل کے کنڑول میں
ہوں لیکن معرفت خدا نہ رکھتا ہو تو اس کے تمام کارہائے حسنہ جزائے اُخروی اور
نعماتِ اَبدیہ کے مستحق قرار نہیں دیئے جا سکتے بلکہ اُخروی لحاظ سے یہ سب اس وقت
ثمر آور ہوں گے جب اللہ کی معرفت بھی ہو گی، نیز معرفت خدا کے بعد بھی اس کے
اعمال موجبِ جزاتب ہوں گے جب اس کے تعلیم کردہ اصولوں کے ماتحت ادا کئے جائیں ورنہ
اپنی ایجاد کردہ عبادت کا کوئی فا ئدہ نہیں۔
چنانچہ تفسیر برہان میں حضرت امام جعفر صادق علیہ
السلام سے منقول ہے کہ حضرت آدم ؑ کے سجدہ سے انکار کرنے کے بعد ابلیس نے کہا تھا
کہ اے میرے اللہ مجھے حضرت آدم ؑ کے سجدہ سے معاف کر۔۔ ویسے میں تیری اس قدر
عبادت کروں گا جو نہ کسی ملکِ مقرب نے کی ہو گی اور نہ نبی ٔ مرسل اتنی عبادت کرے
گا۔۔۔ پس ارشادِ قدرت ہوا مجھے تیری عبادت کی ضرورت نہیں میں وہ عبادت چاہتا ہوں
جو میری مرضی کے مطابق ہو اور مرضی خدا کے مطابق صرف وہی عبادت ہو سکتی ہے جو اُس
کے بھیجے ہوئے پیغمبر کی تعلیمات کے مطابق ہو۔۔۔ پس معلوم ہوا کہ خدا کی اطاعت
رسول کی اطاعت سے جدا نہیں اور رسول کی اطاعت خدا کی اطاعت سے علیحدہ نہیں۔
پس جس طر ح خد ا کا منکر و نا فر ما ن سزا و عذاب
کا سزا وار ہے اسی طر ح رسو ل کا منکر ونا فر ما ن بھی عذاب کا مستحق ہے۔۔۔ تو رسو
ل کے دنیا سے چلے جا نے کے بعد جس کو وہ اپنا جا نشین مقر ر کر کے جائیں چو نکہ وہ
بھی رسو ل کی قائمقامی میں رسو ل کی طر ح تعلیما تِ الٰہیہ کا مبلّغ ومدرّس ہے لہذ
ااس کی اطاعت مثل خد ا اور رسو ل کی اطا عت کے فرض ہے اور اس کی نافرمانی مثل خدا
ور رسول کی نافرمانی کے مو جب عتا ب و عقاب ہے۔۔۔ اور مقبو لیت اعما ل کے فصل میں
متعدد احادیث اسی مو ضو ع کی ذکر میں کی جا چکی ہیں کہ خلفائے رسو ل میں سے کسی
ایک کا منکر کا فر ہے اور جس نے ان میںسے کسی ایک کا انکا ر کیا گو یا اس نے سب کا
انکار کیا۔۔۔ اور ان کا منکر ایک لا کھ چو بیس ہزار نبیوں کے منکر کی مثل ہے اور
ان کا منکر گو یا خدا کا منکر ہے تو جس طرح نبی کا نافرمان خدا کا نافرمان شمار ہو
تا ہے اسی طرح ان کے برحق جانشین کا انکار و نا فر ما نی چو نکہ احکامِ نبویہ کی
تو ہین کے مترادف ہے لہذا خدا اور رسول کا انکا ر و نا فر ما نی شما ر ہوتی ہے۔
پس معلوم ہوا کہ انسان اپنی مر ضی کے مطابق خواہ
کتنے ہی اعما لِ صالحہ کر تا رہے مقبولِ بار گاہِ احدیت صرف وہی اعمال ہو ں گے جو
خدا کے حکم کے ما تحت رسول اور خلفا ئے رسول کی رہبری سے ادا ہوں۔۔۔ تو جو شخص
خلفا ئے رسول کا منکر ہو اس کے تمام اعمال نہ خدا اور رسول کی مر ضی کے مطابق ہو
سکتے ہیں اور نہ مر تبہ مقبولیت کو پہنچ سکتے ہیں، اسی بنا ٔ پر مقبولیت اعمال کی
گذشتہ فصل میں متعدد احا دیث ذکر کی جا چکی ہیں کہ آلِ محمد کی اطاعت و محبت کے
بغیر نماز۔۔ روزہ۔۔ حج۔۔زکواۃ وغیرہ تمام عبادات رائیگاں اور نا قابل قبو ل ہیں
اور یہ چیز خدا کے عدل کے منا فی نہیں بلکہ عینِ عدل ہے۔
اس کی واضح مثال یوں سمجھئے کہ ایک شخص ایک ملک
میں نہا یت نیک اور وطن پرست ہو حکومت کے سر کا ری ٹیکس وغیرہ بلا کم و کاست ادا
کر تاہو چور۔۔ ڈاکو بھی نہ ہو اَراکین حکومت کیلئے کسی اندرونی نظامی معا ملہ میں
با عث تکلیف بھی نہ ہو، لیکن باین ہمہ حکومت کو حکو مت نہ سمجھتا ہو اس کے اعلیٰ
آفیسر ان کو وقار کی نگا ہ سے نہ دیکھتا ہو بلکہ حکو مت کے احکام پر نکتہ چینی
اور ا س کے خلاف پر و پیگنڈا کر نے سے گریز نہ کر تا ہو۔۔ تو آپ اندازہ فر مائیں
کہ اس کے جملہ افعال و کردار کی حکومت کی نگاہوں میں کیا وقعت ہو گی؟ ایسا شخص
حکومت کی نظروں میں چوروں۔۔ ڈاکوئوں۔۔ غنڈوں اور بدمعاشوں سے بھی زیا دہ خطرنا ک
ہو گا اور نظامی معا ملات میں با عث تکلیف ہونے والے مجر موں سے اس کی سزا سنگین
تر ہو گی۔۔ کیونکہ وہ لو گ جو کہ حکومت کو حکومت ماننے کے بعد نظامی معا ملات
میںجر م کا ارتکاب کر تے ہیں ان کے جرم کا اثر نہایت محدود ہوتا ہے لہذا وہ محدود
سزا کے سزا وار گردانے جا تے ہیں، بخلاف اس کے جو لوگ باقی ہر طرح نیک ہو ں اور
قوم و وطن کے خیر خواہ بھی ہوں لیکن حکومت کو تسلیم نہ کر تے ہوں حکومت کے ضا بطہ
قا نون پر عمل کرتے ہوں لیکن جن کو حکومت کے ضا بطہ قا نون کے نفاذ کے لئے مقرر
کیا گیا ہو ان سے دشمنی رکھتے ہوں ا ن کا حلقہ تخریب وسیع تر ہوگا۔۔ گو یا ایسے
لوگ ایک وقت میں حکومت کا تختہ اُلٹنے کے منتظر ہیں پس ایسے لوگ گرفتا ری اور
ثبوتِ جرم کے بعد کسی مراعات کے مستحق نہ ہوں گے ان کو کوئی عمل خیر۔۔ عمل خیر نہ
شمار نہ ہو گا اور ان کے ضا بطہ قا نون کا احترام کر نا بے سود محض قرار دیا جا ئے
گا پس صرف یہ شخص سزا ہی سزا کا بلکہ ڈبل سزا کا مستوجب ہو گا تا کہ اس کی عبر تنا
ک سزا سے دوسروں کو نصیحت حا صل ہو۔۔۔ اب یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس کی با قی خو
بیا ں کیوں نظر انداز کی گئیں؟ اس کا احترامِ قا نون کیوں موجب ِانعام نہ ہوا؟
بلکہ صا حب ِہوش اس کی فرد جرم پر نگاہ کر نے کے بعد یہی کہے گا اس کو ایسی ہی سزا
ملنی چاہیے تھی اور یہی عینِ دا نائی اور مقتضائے عدل ہے۔
پس بعینہٖ اسی طرح ایک انسان کتنا ہی صا لح۔۔عبادت
گذار ہو اور حکومت الہٰیہ کے ضا بطہ قا نون (قرآن مجید) کا احترام بھی کر تا ہو
اس کے قوانین کی خلاف ورزی حسب امکان نہ کرتاہو اور بایں ہمہ نظام حکوتِ الہٰیہ کے
حفظ و ضبط کے لئے جو خدا نے فر ما نروامعین فر ما ئے اور جناب رسالتمآبؐ نے ضا
بطہ قوانین اسلامیہ (قرآن مجید )کی حفاظت و نفاذ و ترویح کے لئے جن پا ک و معصوم
ہستیوں کو بذریعہ حدیث متواتر (ثقلین ) و دیگر فر امینِ نبویہ امت کے لئے تاقیامت
نامزد فر ما یا اور بذریعہ حدیث غدیر متواتر با زو پکڑکر لا کھوں کے اجتماع عظیم
میں بلند کر کے دکھایا اگر ان کو حکومت الٰہیہ کا صحیح فرمانروانہ سمجھے اوران کی
حکومت کو قطعاً تسلیم نہ کرے تو وہ دیگر اخلاقی۔۔ نجی معاملات کے مجرمین کی بہ
نسبت سنگین ترین مجرم ہے۔۔ اور وہ بعد از گرفتاری و پیشی عدالت عالیہ الٰہیہ و
ثبوت جرم کسی اپنی نیکی کو بروئے کار لانے کا سزا وار نہ ہوگا۔۔۔ اور نہ اس کی
کوئی نیکی۔۔ نیکی قرار دی جائے گی۔۔۔ اور نہ اس کا احترام قرآن موجب ِاجر قرار
پائے گا بلکہ وہ صرف سزا کا اور ڈبل سزا کا مستحق ہوگا۔۔۔ اور اس کی سزا تمام اہل
محشر کیلئے باعث ِعبرت ہو گی۔۔۔ اور ہر اہل دل سمجھ سکتاہے کہ اس قسم کے مجرم
کیلئے مراعات کی امیدر کھنا بھی خلافِ عقل ہے اور ایسے شخص کی دوسری عا م نیکیو ں
کو مو جب اجر قرا ر دینا قطعاً مبنی بر انصا ف نہیں۔۔ پس اس کی نیکیوں کا رائیگاں
قرا ر دینا اور اس کو سخت ترین سزا دینا عینِ عد ل ہے اور ایسے مجرم کو قابل معا
فی سمجھنا ظلم عظیم ہے۔
اسی بنا ٔ
پر حضرت رسالتمآبؐ نے جنا ب امیر المو منین علی ؑ ابن ابی طا لب ؑ کوقَسِیْمُ
النَّارِ وَالْجَنَّۃِ فر ما یا ، حضرت امام شا فعی کی طر ف یہ اشعا
منسو ب ہیں:
عَلِیٌّ
حُبُّہُ جُنَّۃ
اِمَامُ الْاِنْسِ وَالْجِنَّۃ
وَصِی الْمُصْطَفٰی حَقًّا
قَسِیْمُ
النَّارِ وَالْجَنَّۃ
علی ؑ کی
محبت دوزخ کی ڈھا ل ہے۔۔ ۔علی ؑ جنو ں اور انسا نو ں کا اما م ہے
محمد مصطفیٰ
کا بر حق وصی ہے۔۔۔ جنت ونا ر کا تقسیم کر نے والا ہے
اور صوا عق محر قہ اور دیگر کتب عا مہ وخاصہ سے
منقول ہے کہ حضرت رسالتمآبؐ نے فر ما یا کہ کوئی شخص صرا ط سے نہ گزر پائے گا جب
تک علی ؑ اس کو گزرنے کا اجا زت نا مہ نہ لکھ دیں۔
سابقہ مثا
ل سے یہ واضح کر دیا جا چکا ہے کہ معصیت دو قسمو ں پر ہے۔۔۔ ایک اصو لی اور دوسرا
فروعی:
اصل حکو مت کی مخا لفت اصو لی معصیت ہے اور حکو مت
کی تسلیم کے بعد نظا می معاملا ت میں کو تا ہی فرعی معصیت ہے۔۔۔ دوسری نوع معصیت
کی سزا بہ نسبت پہلی نوع کے خفیف ہے، پہلی نوع کے مخالف کو معاف کرنا اور اس کو
سزا نہ دینا خلافِ عدل ہے جب تک کہ وہ سابقہ نظریۂ فاسدہ سے تائب ہو کر اپنی وفا
داری کا عہد نہ کرے۔۔ لیکن دوسری نوع کے مخالف کو بعض مصالح کی بنا ٔ پر معاف کر
دینا بعید از عقل نہیں۔
توحید، نبوت اور امامت چونکہ اصو ل اسلا م میں سے
ہیںلہذاان کی مخالفت وانکا ر اصو لی معصیت میں داخل ہے اور ان تین اصو لو ں کے
اقرار کے بعد اسلا م کے فرائض و وا جبات مثلاً نما زو روزہ وغیر ہ میں کو تاہی
فروعی معصیت ہے۔۔۔ پس پہلی نو ع قابل عفو قطعاً نہیں جب تک کہ تا ئب نہ ہو اور
خاتمہ ایما ن پر نہ ہو لیکن اگر اصو ل کا انکاری نہ ہو تو فروعی معصیت اگر خدا چا
ہے تو معاف کر سکتا ہے۔
پس اطاعت بھی ایک اصولی ہے اور دوسری فروعی۔۔۔ اگر
انسا ن اصولی طو ر پر ا طا عت گز ار ہو یعنی توحید و نبوت و اما مت کا قا ئل ہو۔۔۔
لیکن فروعی اطا عت میں کچھ کو تاہی کر تا ہو تو اس کا جر م قا بل عفو ہے وہ دا ئمی
عذا ب کا سزاوار نہیں قرار دیا سکتا کیو نکہ فر وعی اطا عت کو تر ک کر نے سے اس کی
اصو لی اطاعت کو خا لی از جز اوثواب نہیں کہا جا سکتا، ہا ں اصو لی اطا عت نہ ہو
تے ہوئے فروعی ہزارھا اطاعتیں کر تا پھرے ان میں سے ایک بھی قا بل قبول نہیں اور ایسا
شخص آخرت میں ابدی سزا کا مستحق ہو گا۔
کیو نکہ فرع (شاخ)کے کٹنے سے اصل خشک نہیں ہو جا
یا کر تی لیکن اگر اصل کٹ جائے یا خشک ہو جائے تو فروعات کا خشک اور ضائع ہو جا نا
یقینی ہے۔۔۔ چو نکہ اقرارِ اما مت جس کو اقر ارِ نبو ت وتو حید لا زم ہے اصل ہے
تما م اعمالِ خیر کی اور انکا ر ِامامت جس کو انکا ر ِنبو ت وتوحید لا زم ہے اصل
ہے تما م اعما ل بد کی، پس جس کے پا س پہلی اصل ہو اس کے لیے اس کے فروعات کا کٹ
جا نا یا خشک ہو جا نا (بلا لحاظِ شرائط اس کا بجا لانا) عذا ب دائمی کا مو جب
نہیں ہو سکتا کیونکہ عذاب دائمی تو واجب ہو گا کہ اس کے نا مہ اعما ل میں نیکی
کوئی نہ ہو اس کے نا مہ اعما ل میں ولایت و نبوت و توحید کی معرفت و اقرار کی ایسی
نیکی موجود ہے جس کو نہ کوئی دوسری بد اعمالی فاسد کرسکتی ہے اور اس تک ریاکاری یا
ظاہر داری یا دیگر اغراضِ فاسدہ کی رسائی ہے کیونکہ اس کا تعلق محض باطن اعتقاد سے
ہی ہے پس نتیجہ یہی ہو گا کہ فروعی معصیت پر اس کو محددود سزا دے کر آخر جنت میں
اس کو اصولی نیکی کی بنا ٔ پر بھیج دیا جائے گا اور پھر وہ ہمیشہ جنت ہی میں رہے
گا۔
اور جس شخص کے پاس دوسری اصل ہو یعنی انکار امامت
تو اب فرو ع اس کے پاس یا صالحہ ہوں گی یا غیر صالحہ؟ اگر صالحہ ہوں تو بے کار محض
ہیں کیونکہ اصل کے بغیر فرع بے کار ہو تی ہے اور حکومت کے دشمن کے لیے جزوی نیکیاں
قابل جزا نہیں ہو تیں۔۔۔ اور اگر اس کے پاس فروع بھی بد ہوں تو دُگنا مجرم ہو گا،
ہر دو صورت میں اس کے پاس ایسی چیز کوئی بھی نہیں جو اس کو عذا بِ دائمی سے نجات
دلا سکے۔۔۔ فرق دونوں میں یہ ہے کہ صرف اصولی معصیت کے ساتھ ہمیشگی ٔ عذاب ہو گا
لیکن فروعی معصیت کی سزا کا بوجھ نہ ہو گا اور فروعی معصیت کی موجودگی میں دُگنا
عذاب ہو گا حاتم اور نو شیرواں سے تخفیفِ عذاب کا یہی معنی ہے۔
پس ان احا دیث کا مطلب صاف واضح ہو گیا کہ آلِ
محمد کے دشمن کی کوئی نیکی قابل قبول نہیں اور اس کے لیے عذاب دائمی ہے اور اس کی
موت کفر کی موت ہے (اور یہ بھی ثابت کر دیا گیا ہے کہ یہ چیز عین عدل ہے بلکہ اس
کا خلاف۔۔ خلافِ عدل ہے، چنانچہ گذشتہ مثالِ حکومت کی تطبیق سے صاف طور پر واضح
ہے) مزید وضاحت کے لیے چند احادیث اور نقل کرتا ہوں، چنانچہ علامہ حلّی اعلیٰ اللہ
مقامہ نے بعض کتب عامہ سے نقل فرمایا کہ جناب رسالتمآبؐ نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ
اللّٰہَ جَعَلَ لِاَخِیْ عَلِیّ فَضَائِل لا تُحْصٰی کَثْرَۃً فَمَنْ ذَکَرَ
فَضَیلۃً مِنْ فَضَائِلِہٖ مُقِرًّا بِھَا غَفَرَ اللّٰہُ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ
ذَنْبِہٖ وَمَا تَأخَّرَ وَ مَنْ کَتَبَ فَضِیْلَۃً مِنْ فَضَائِلِہٖ لَمْ تزلُ
الْمَلائِکَۃُ تُسْتَغْفَرُ لَہُ مَا بَقِیَ لِتِلْکَ الْکِتَابَۃِ رَسْمٌ وَمَنْ
اِسْتَمَعَ فَضِیْلَۃ مِنْ فَضَائِلِہٖ غَفَرَاللّٰہُ الذّنُوْبَ الَّتِیْ
اکْتَبَھَا بِالْاِسْتِمَاعِ وَ مَنْ نَظَرَ اِلٰی کِتَابٍ مِنْ فَضَائِلِہٖ
غَفَرَ اللّٰہُ لَہُ الذّنُوْبَ الَّتِیْ اکْتَسَبَھَا بِالنَّظْرِ ثُمَّ قَالَ
اَلنَّظْرُ اِلٰی عَلِیّ عِبَادَۃٌ وَلا یَقْبَلُ اللّٰہُ اَیْمَانَ عَبْدٍ اِلَّا
بِوِلایَتِہٖ وَالْبَرَأۃِ مِنْ اَعْدَائِہٖ۔
ترجمہ: تحقیق اللہ نے میرے بھائی علی ؑ کو وہ
فضائل عطافرمائے جو شمارسے باہر ہیں جو شخص علی ؑ کے فضائل میں سے کسی فضیلت کا
ذکر (اس کا اقرار کرتے ہوئے) کرے تو اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔۔۔
اور جو شخص اس کے فضائل میں سے ایک فضیلت لکھے تو جب تک اس کی کتابت کے نشان باقی
رہیں گے ملائکہ اس کے لیے استغفار کرتے ہیں گے۔۔۔ اور جو شخص اس کے فضائل میں سے
کوئی فضیلت سنے تو اس کے وہ گناہ خدامعاف کردے گا جو اس نے کانوں سے کمائے ہوں
گے۔۔۔ اور جو شخص علی ؑ کے لکھے ہوئے فضائل پر نگاہ کرے اس کے خداوہ گناہ معاف کرے
گا جو اس نے آنکھوں سے کمائے ہوںگے۔۔۔۔۔ پھر فرمایا کہ علی ؑ کو دیکھنا عبادت
ہے۔۔ اس کا ذکر عبادت ہے۔۔ اور علی ؑ کی ولایت اور اس کے دشمنوں سے بیزاری کے بغیر
خدا کسی عبد کا ایمان قبول ہی نہیں کرتا۔
نیز علامہ
نے بطریق جمہور ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ آدم ؑکی خلقت اور نفح روح کے بعد
ذاتِ احدیت کا حضرت آدم ؑسے یوں ارشاد ہوا:
وَعِزَّتِیْ وَجَلالِیْ لَوْلا عَبْدَانِ اُرِیْدُ
اَخْلُقُھُمَا فِیْ دَارِ الدُّنْیَا مَا خَلَقْتُکَ؟ قَالَ اِلٰھِیْ
فَیَکُوْنَانِ مِنِّیْ؟ قَالَ نَعَمْ یَا آدَمُ اِرْفَعْ رَأسَکَ وَانْظُرْ
فَرَفَعَ رَأسَہُ فَاِذَا مَکْتُوْبٌ عَلٰی الْعَرْشِ لا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ نَبِیّ الرَّحْمَۃِ وَ عَلِیّ مُقِیْمُ الْحُجَّۃِ مَنْ عَرِفَ
حَقّ عَلِیّ زَکا وَ طَابَ وَ مَنْ اَنْکَرَ حَقَّہُ لُعِنَ وَخَابَ اَقْسَمْتُ بِعِزَّتِیْ
وَجَلالِیْ اَنْ اَدْخُلَ الْجَنَّۃَ مَنْ اَطَاعَہُ وِاِنْ عَصَانِیْ وَ
اَقْسَمْتُ بِعِزَّتِیْ اَنْ اَدْخُلَ النَّارَ مَنْ عَصَاہُ وَ اِنْ اَطَاعَنِیْ۔
ترجمہ: مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم اگر دارِ دنیا
میں مجھے دو بندوں کا پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو تجھے پیدا نہ کرتا۔۔۔ حضرت آدمؑ
نے عرض کیا میرے اللہ کیا وہ دونوں میری اولاد سے ہوں گے؟ فرمایا ہاں اے آدم ؑ سر
کو بلند کر اور دیکھ۔۔۔ پس آدمؑ نے سر اُٹھا کر دیکھا تو عرش پرلکھا ہوا پایا
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد مصطفیٰ نبی ٔرحمت ہیں اور حضرت علی ؑ
حجت خدا کے قائم کرنے والے ہیں۔۔۔ پس جو علی ؑ کے حق کا عارف ہو گا وہ پاک و
پاکیزہ ہو گا اور جو اس کے حق کا منکر ہو گا وہ ملعون اور خاسر ہو گا۔۔ ۔۔مجھے
اپنے عز ّو جلال کی قسم کہ اس کے فرمانبردار کو جنت میں داخل کروں گا خواہ میرا نا
فرمان ہی ہو اور مجھے اپنی عزت کی قسم کہ اس کے نافرمان کو جہنم میں داخل کروں گا
خواہ میرا اطاعت گزار ہی ہو۔
وَ نَقَلَ
اَحَادِیْثٌ مِنْھَا۔۔۔ قَالَ لَوْ اِجْتَمَعَ النَّاسُ عَلٰی حُبِّ عَلِیّ لَمْ
یَخْلُقِ اللّٰہُ النَّارَ وَ قَالَ حُبُّ عَلِیّ حَسَنَۃٌ لا یَضُرّ
مَعَھَا سَیِّئَۃٌ وَ بُغْضُ عَلِیّ سَیِّئَۃٌ لا یَنْفَعُ مَعَھَا حَسَنَۃٌ
وَقَالَ مَنْ اَحَبّ عَلِیًّا قَـبّلَ اللّٰہُ صَلٰوتَہُ وَ صِیَامَہُ وَ
اسْتَجَابَ دُعَائُہُ اَلا وَ مَنْ اَحَبّ عَلِیًّا اَعْطَاہُ بِکُلّ عِرْقٍ فِیْ
بَدَنِہٖ مَدِیْنَۃً فِی الْجَنَّۃِ اَلا وَمَنْ اَحَبّ آل مُحَمَّدٍ اَمِنَ
الْحِسَابَ وَ الْمِیْزَانَ وَالصِّرَاطَ (الحدیث)
ترجمہ: علامہ نے متعدد احادیث۔۔ کتب عامہ سے نقل
فرمائی ہیں مثلاً حضوؐر نے فرمایا اگر تمام لوگ علی ؑ کی محبت پر جمع ہو
جاتے تو خدا جہنم کو پیدا نہ کرتا۔۔۔ نیز حضوؐر نے فرمایا علی ؑ کی محبت وہ نیکی
ہے جس کے ساتھ کوئی گناہ نقصان دہ نہیں اور علی ؑ سے بغض رکھنا ایسی برائی ہے جس
کے ساتھ کوئی نیکی فائدہ مند نہیں۔۔۔اور آپؐنے فرمایا جو علی ؑ سے محبت رکھے اس
کی نماز۔۔ روزہ۔۔ قیام خدامقبول فرماتا ہے اور اس کی دعا کو مستجاب کرتا ہے۔۔۔
آگاہ ہو جو بھی علی ؑ سے محبت رکھے اس کے بدن کی ہر رگ کے بدلہ میں خدا اس کو جنت
کا ایک شہر عطا کرے گا۔۔۔ آگاہ ہو جو آلِ محمد سے محبت رکھے گا وہ حساب۔۔ میزان
اور صراط کی منازل میں باامن ہو گا۔
اس قسم کی احادیث بکثرت وارد ہیں جن میں سے بعض
پہلے عنوانات کے تحت مذکور ہو چکی ہیں میرے سابق بیان سے ان کا مطلب بھی صاف واضح
ہے اور یہ عدل الٰہی کے عین مطابق ہے بلکہ اس کا خلاف۔۔ عقل کے خلاف ہے، کیونکہ
دشمن علی ؑ کی نیکیوں اور عبادتوں کے مردود ہونے کی دو وجہیں ہیں:
(۱)
جو علی ؑ کا دشمن ہے وہ نبی کا دشمن ہے اور جو نبی کا دشمن ہے وہ خدا
کا دشمن ہے پس دشمن علی ؑ جب حکومت الٰہیہ کا اصولی طور پر نافرمان ہے تو اس کی
دوسری نیکیوں اور فروعی عبادتوں کی کیا وقعت رہ سکتی ہے؟ جس طرح کہ پہلے واضح کیا
جا چکا ہے۔
(۲)
جس شخص کو خلیفہ ٔ رسول کی معرفت نہیں اس کو رسول کی معرفت نہیں اور
جو رسول کی معرفت نہیں رکھتا وہ صحیح طور پر عارف خدا نہیں۔۔۔ پس ایسی صورت میں اس
کی جملہ عبادات خدا و رسول و خلیفہ ٔ رسول کی ہدایات کے مطابق نہیں ہوں گی بلکہ اس
کا خود سا ختہ طر یقہ ہو گا، اور سا بق میں گزر چکا ہے کہ خد ا صر ف وہ عبادت منظو
ر فر ما تا ہے جو اس کے فر ما ن کے مطا بق ہو اور ہر گز ایسی عبا دت نہیں چاہتا جو
عبد کی اپنی بنا ئی ہوئی ہو۔۔۔ اور خدا کی مر ضی کے مطابق صر ف وہی عبا دت ہی ہو
سکتی ہے جس کا طر یقہ ادائیگی اس کا اپنا فر ستادہ رسول ہی تعلیم فرمائے یا اس کے
بعد اس کا صحیح قائمقا م اس کی طر ف راہنما ی فر مائے پس جو شخص علی ؑسے بغض رکھتا
ہو گا اس کی عبا دات مر ضی خد ا کے خلاف ہو ں گی لہذا ان کا ناقا بل قبو ل ہو نا
عین مطا بق عقل اور مو ا فق عد ل ہے اور سابقہ ابحا ث میں ثا بت کیا جا چکا ہے کہ
رسو ل کا صحیح جا نشین سو ا ئے علی ؑ اور ان کی اولا دِ معصو مین کے اور کو ئی ہو
ہی نہیں سکتا۔
پس حد یث
کے اس حصہ کا مطلب واضح ہو گیا کہ بغض علی ؑ کے ساتھ کوئی عمل مفید نہیں۔۔۔کیو نکہ
اصل کے کٹ جانے یا خشک ہو جا نے کے بعد فرو عا ت خود بخود خشک اور مر دہ ہو جا تے
ہیں، پس یہ درست ہے کہ اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے خو اہ اپنی مر ضی سے کتنی ہی عبا
دتیں کرتا رہے، اب رہا حد یث کا دوسر ا حصہ کہ علی ؑ کے محب کے لیے جنت ضر وری ہے
خو ا ہ خدا کا نا فر ما ن ہی ہو۔۔۔ یا یہ کے علی ؑ کی محبت کے سا تھ کوئی گنا ہ
نقصا ن دہ نہیں ہوتا اس کا یہی مطلب ہے کہ علی ؑ کی محبت بتلا تی ہے کہ یہ رسو ل
کا محب ہے اور خد ا کا بھی محب ہے، گو یا علی ؑ کا عا رف خدا ورسو ل کا عا رف ضرو
ر ہو ا کر تا ہے، پس اصولی طو ر پر تو اس کا قطعاً کو ئی گنا ہ ہے ہی نہیں اور یہ
اصو لی نیکی اس کی قطعاً با طل ہو نہیں سکتی،اب اگر ایسے شخص سے گنا ہ سر زد ہو ں
گے تو وہ فر عی گنا ہ ہو ں گے اور چو نکہ فر ع کی مو ت اصل کی موت کا مو جب نہیں
ہو تی لہذا صرف فر عی سز ا کا مستحق ہو گا۔۔۔۔۔ پس اسی قدر جہنم میں جائے گا جس
قدر اس کے گنا ہ مقتضی ہو ں گے اور اس کے بعد رہا ئی حا صل کر کے اصو لی ا طا عت
کے ما تحت جنت میں دا خل ہو گا۔
پس حد یث کا یہ جملہ کہ علی ؑ کی محبت کے سا تھ
کوئی گنا ہ نقصا ن دہ نہیں یعنی ابد ی جہنم کا مو جب نہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے
کہ اس کو ان فر عی معصیتوں کا بد لہ دنیا میں ہی دے دیا جائے اور آخرت کا عذاب اس
سے سا قط ہو جائے، لیکن دشمن علی ؑ کے اعما ل کی اصل ہی جب مردہ ہے تو فر عی اعما
ل تو مر دہ ہیں ہی۔۔۔لہذ ا ان کے بد لہ کا سو ال ہی پید ا نہیں ہو تا،اور گذشتہ
حکو مت ِظا ہر یہ دنیا ویہ کی مثا ل میں وا ضح کیا گیا ہے کہ اس قسم کے اصو لی
مجرم کو معا ف کر نا خلا فِ عقل اور منا فی عدل ہے۔(جاری ہے )