امت وسط :اہل بیت عصمت سے روایات بکثرت
اس بارہ میں منقول ہیں کہ امت وسط سے مراد آئمہ اہل بیت ہیں حضرت صادق علیہ
السلام سے منقول ہے کہ نَحْنُ الْاُمَّۃُ الْوُسْطٰی وَنَحْنُ شُھَدَآئُ
اللّٰہِ عَلٰی خَلْقِہٖ وَحُجَّتُۃٗ فِیْ اَرْضِہٖ ہم امت وسطی ہیں ہم اللہ کی طرف
سے لوگوں پر گواہ ہیں اورہم حجت اللہ ہیں تفسیر برہان میں اس مضمون کی دس روایتیں
منقول ہیں ایک روایت میں فرماتے ہیں کہ لوگوں کا خیال ہے کہ سب اہل قبلہ (مسلمان)
اس آیت کے مصداق ہیں لیکن تعجب کی بات ہے
قدنری تقلب وجھک فی السماء فلنولینک قبل ۃ ترضھا
فول وجھک شطرالمسجد الحرام وحیث ماکنتم فولواوجوھکم شطرہ
ہم دیکھتے ہیں آپ کے چہرے کا پلٹنا آسمان کی طرف
پس حرور ہم پھیر دیں گے آپ کو اس قبلہ کی طرف جس پر آپ خوش ہیں پس پھیر دوآپ نے
منہ کو طرف مسجد الحرام کے اور(اے مومنین) تم جہاں بھی ہو پس پھیردو اپنے مونہوں
کو طرف اس کے
کہ جس شخص کی دنیا میں کھجور کے ایک ضاع کے متعلق
شہادت قابل قبول نہیں ہوتی کیا قیامت کے دن خداس کی شہادت لے گا اورگذشتہ امتوں کے
روبرو اس کی گواہی کو شرف قبولیت بخشے گا ہر گز ہر گز خدانے اس آیت میں امت وسط
کی لفظ سے تمام امت اسلامیہ مراد نہیں لی بلکہ اس امت سے وہی امت مراد ہے جس کے
متعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعافرمائی تھی رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا
مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَتِنَا اُمَّۃً مُسْلِمَاًۃ لَّکَ اوراسی امت کے
متعلق خدافرماتا ہے (کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِنَّاسِ پ۴
اوران ہر دوایتوں کی تفسیر میں آئمہ اہل بیت سے
مروی ہے کہ اُمَّۃً مَسْلِمَۃً سے مراد بھی آل محمد ہیں اورخیر
ا مت بھی آل محمد ہیں
اس میں تو کوئی شک وشبہ بہیں کہ ہجرت کے بعد کچھ عرصہ
تک بیت المقدس قبلہ رہالیکن وہ کتنی مدت تھی اس میں اختلاف ہے جس طرح تفسیر مجمع
البیان میں منقول ہے بقول ابن عباس ۱۷ماہ
یعنی ایک سال پانچ مہینے اوربروایت براء بن عازب ایک سال چارمہیے اوربقول انس بن
مالک ۹ یا ۱۰ماہ اورحضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سات
ماہ مروی ہیں
قَدْنَرٰی علامہ طبرسی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے
روایت کی ہے کہ جب یہود نے اں حضرت پر اعتراضات کئے تو آپ بہت رنجیدہ خاطر ہوئے
اوررات کو گھر سے باہر تشریف لاکر امر خدا کی انتظار میں آسمان کی طرف دیکھتے رہے
جب صبح ہوئی اورنماز ظہر کا وقت ایا آپ نبی سالم کی مسجد میں نماز ظہر کی دورکعت
ادا فرماچکے تھے تو جبرائیل نازل ہوااوراپ کے بازووں سے پکڑ کر آپ کو کعبہ کی طرف
پھیر دیا اوریہی آیت اُتری
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحویل قبلہ کیلئے آپ
کو اس قدر انتظار کیوں تھی کہ رات کو گھر سے باہر نکل کر آسمان کی طرف دیکھتے
اوروحی کا انتظار فرماتے تھے تو اس کیلئے کئی وجوہ بیان کی گئی ہیں
۱خدا
کا وعدہ تھا کہ آپ کا قبلہ بیت المقدس سے تبدیل کر کے خانہ کعبہ کو قرار دیا جائے
گا لہذا آپ منتظر تھے
۲ابن
عباس سے مروی ہے کعبہ حضرت ابراہیم ودیگر آپ کے اباء طاہرین کا قبلہ تھا اس لئے
آپ کو اس سے محبت تھی
وان الذین اوتو االکتب لیعلمون انہ الحق من ربھم
ومااللہ مغافل عمایعملوم ۱۴۴
اورتحقیق وہ لوگا جن کو کتاب دی گئی ہے البتہ
جانتے ہیں کہ یہ حق ہے انکے رب کی طرف سے اورخداغافل نہیں ان کے عمل سے
ولئن اتیت الذین اوتو االکتب بکل ایۃ ماتبعواقبلتک
وماانت ابتابع قبلتھم ومابعضھم بتابع قبلۃ بعض ولئن اتبعت اھواھم من بعد ماجائک من
العلم انک اذ لمن الظلمین
اوراگر آپ لائیں انلوگوں کے سامنے جن کو کتاب دی
گئی ہے ہر قسم کی دلیلیں تب بھی وہ نہ مانیں گے تیرے قبلہ کو اورنہ آپ اتباع
کرسکتے ہیں ان کے قبلہ کی اورنہ وہ ایک دوسرے کے قبلہ کو قبول کرتے ہیں اوراگرا پ
اتباع کریں انکی خواہشات کی بعد علم ہو جانیکے توتحقیق آپ بھی ظلم کرنے والوں میں
سے ہوجائیں گے اورخواہش تھی کہ ہمارا قبلہ بھی وہی ہو
۳
یہود کی طعنہ زنی حد سے بڑھ چکی تھی
۴
چونکہ عرب اقوال کو کعبہ سے انس تھا اس لئے کعبہ کے قبلہ ہونے کی خواہش آپ
کے دل میں تھی تاکہ عرب قومیں زیادہ سے زیادہ دین اسلام میں داخل ہو سکیں اورعلامہ
طبرسی نے احتمال کی صورت میں فیصلہ فرمایا ہے کہ ممکن ہے یہ سب صورتیں ملحوظ
خاطر ہوں کیونکہ ان وجوہ میں منافات کرئی نہیں
تفسیر برہان میں مروی ہے کہ بنی عبدالاشہل اپنی
مسجد میں دورکعت نماز بیت المقدس کی طرف ہو چکے تھے تو ان کو کہا گیا کہ تمہارے
نبی نے کعبہ کو قبلہ بنالیاہے پس انہوں نے فورا کعبہ کی طرف منہ پھیر لیا پہلے مرد
اگے تھے اورعورتیں پیچھے اس تبدیلی کی وجہ سے معاملہ بر عکس ہو گیا اورباقی
دورکعتیں انہوں نے کعبہ کی طرف منہ کرکے پڑھیں اوران کی ایک نماز دوقبلوں کی طرف
ادا ہوئی لہذاان کی مسجد کو مسجد القبلتین کہاجاتا ہے
وَاَنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُواالْکِتٰبَ الخ ان سے مراد علمائے یہود
نصاری ہیں انہیں یہ معلوم تھا کہ قبلہ کی تبدیلی کا حکم اللہ کی جانب کی
بشارت بھی تھی کہ انے والے نبی کی صفات فلاں فلاں ہوں گی اورمنجملہ ان کی صفات کے
ایک یہ بھی ہے کہ وہ قبلوں کی طرف نماز پڑھے گا
وَلَئِنْ اَتَیْتَ الَّذِیْنَ الخ جناب
رسالتمآبؐ کو ان کے قلبی رجحانات سے اگاہی دی گئی ہے کہ وہ عنا دمیں اس
اتینھم الکتب یعرفونہ کمایعرمون ابناء ھم وان
فریقا منھم لیکتمون الحق وھم یعلمون ۱۴۶
کتاب دی ہے وہ اس کو پہچانتے ہیں جس طرح اپنے
بیتوں کو پہچانتے ہیں اورتحقیق ایک گروہ ان سے البتہ حق پر جان بوجھ کر پردہ
دیتاہے
الحق من ربک فلاتکومم من الممترین ۱۴۷
حق تیرے رب کی طرف سے ہے پس آپ کو ہر گز شک میں
نہیں پڑنا چاہے
حد تک پہنچ گئے ہیں کہ حق بات کو قبول کرتے ہی
نہیں ان کے اعتراضات حق کی تلاش کیلئے نہیں بلکہ صرف عنادہی عناد ہے اگر آپ دلائل
وبراہین کے ڈھیر لگا دیں تب بھی وہ ماننے کے نہیں اورنہ اب آپ کو ان کے قبلہ کی
طرف منہ کرنے کی اجازت ہے کیونکہ پہلا حکم منسوخ ہو چکا ہے اوراہل کتاب کے درمیان
بھی قبلہ میں اختلاف ہے وہ بھی ایک دوسرے کے قبلہ کی طرف نہیں جھکتے
مجمع البیان میں بیان کیا گیاہے کہ نصاری مشرق کی
طرف منہ کرتے تھے جس طرف حضرت عیسی ؑکی جائے ولادت تھی اوریہودی بیت امقدس کی طرف
منہ کیا کرتے تھے
وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَائَھُمْ
ظاہرا خطاب جناب رسا لتماب کی طرف ہے اورمراد امت اسلامیہ ہے
اَلَّذِیْنَ اَتَیْنَا ھُمُ الْکِتٰابَ
یعنی جناب رسالتمآبؐ کی جو اوصا ف گذشتہ کتابوں میں مذکور تھیں ان کی
روسے اہل کتاب کو جناب محمد مصطفےؐ کے برحق نبی ہونے کا اس طرح علم تھا جس طرح کہ
ہر شخص اپنی اولاد کا علم رکھتا ہے لیکن باوجود علم ہونے کے ان کے علماء عوام سے
یہ بات چھپاتے تھے پس خداوند کریم نے اسی وجہ سے ان کی مذمت فرمائی ہے
اَلقحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ یہ خطاب بھی
ظاہر اجناب رسالتماب کی طرف ہے اورمراد تمام امت ہے واللہ اعلم