احادیث ظہور قائم آلِ
محمد ، رکوع نمبر 2
وَلِکُلِّ وِجْھَۃٌ
الخ ۱۹۳اس آیت کے متعدد معانی کئے گئے ہیں ایک وہ جو زیر
آیت موجود ہے ۲ وِجْھَۃٌ کا معنی طریقہ یعنی ہر نبی
اورصاحب ملت کیلئے ایک ہی طریقہ ہے جس پر وہ عامل رہاہے اوروہ طریقہ اسلام ہے اگر
چہ وقتی مصالح کے لحاظ سے جزوی احکام میں فرق رہاہے ۳ھُوَ کی ضمیر کا مرجع
ذات خداہو یعنی ہر قوم کیلئے اپنا اپنا قبلہ ہے لیکن خداوندکریم سب کو کعبہ کی طرف
ہی رخ کرنے کا حکم دیتا ہے کیونکہ سابق ادیان منسوخ ہوگئے ہیں ۴وِجْھَۃٌ کا
معنی جہت یعنی ہر شخص اپنے اپنے مقام پر ایک نہ ایک جہت میں ہے کوئی مشرق میں ہے
کوئی مغرب میں کوئی شمال میں کوئی جنوب میں لیکن خداسب جہات والوںکونمازوں میں
کعبہ کی طرف منہ کرنے کاحکم دیتا ہے
اَیْنَ مَاتَکُوْنُوْ
ا الخ اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ تم جس جگہ بھی ہو بروز محشر خداسب
کو یکجاکردے گا لیکن تفسیر اہبیت میں ہے کہ یہ آیت حضرت قائم آل محمد کیساتھ
مختص ہے چنانچہ مجمع البیان میں امام رضا علیہ السلام سے مروی ہے کہ جب
ولکل وجھۃ ھو مولیھا
فاستبقو االخیرات این ماتکونو ایات بکم اللہ جمیعا ان اللہ علی کل شیء
قدیر ۱۴۸
اورہر صاحب ملت کیلئے
ایک قبلہ ہے جس کی طرف وہ منہ کرتا ہے پس نیکیوں کی طرف بڑھو تم جہاں بھی ہو
گے سب کو خدا جمع کرے گا بلاشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے
ومن حیث خرجت فول وجھک
شطر المسجد الحرام وانہ للحق من ربک ومااللہ بغافل عما تعملون ۱۴۹
اورجہاں آپ باہر
نکلیں پس اس جگہ سے پھیر دیں اپنا رخ مسجد ال حرام کے اورتحقیق یہ حکم حق ہے تیرے
رب کی طرف سے اورخداتمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے
حضرت قائم کا ظہورہو
گا تو خدا ہر گوشئہ دنیا سے ہمارے شیعوں کو ان کی طرف جمع کردے گا اورہو سکتا ہے
کہ ظاہر کے لحاظ سے پہلا معنی مراد ہو اورباطن کے اعتبار سے دوسرا معنی مراد ہو
لہذا کوئی منافات نہیں ہے
تفسیر برہان
حضرت زین العابدین علیہ السلام اورامام محمد باقر علیہ السلام سے مروی
ہے کہ حضرت قائم کے اصحاب رات کو آپ نے بستر پر سوئیں گے اورصبح کو مکہ میں موجود
ہوں گے چنانچہ یہ آیت اسی چیز پردلالت کرتی ہے
اَیْنَ
مَاتَکُوْنُوْ یَاتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیْعًا
حضرت امام جعفر صادق
علیہ السلام سے مروی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ حضرت قائم کی ندا سے تین سوتیرہ
آدمی فورا آپ کے پاس پہنچ جائیں گے اوریہ لوگ ان کی فوج کے علمبر دار یعنی
نشانچی ہوں گے ان میں بعض رات کو گھر سوئیں گے اورصبح کو ان کی بارگاہ اقدس میں
حاضر ہوں گے اوربعض دن کو بادل پر سوار ہو کر حاضر خدمت ہوں گے حضرت قائم ان کے
ناموں سے مع ولدیت کے واقف ہوں گے اوران کا حسب ونسب بھی جانتے ہوں گے پھر آپ نے
مذکورہ بالاایت پڑھی
بروایت جعفر جعفی حضرت
امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ اصحاب قائم جو تین
سوتیرہ ہیں آپ کے پاس بادل کے ٹکڑوں کی طرح فوراادھر ادھر سے جمع ہو جائیں گے
اوررکن ومقام کے درمیان بیت اللہ میں آپ کی بیعت کریں گے اں جناب کے پاس جناب
رسالتمآبؐ کا عہد نامہ ہو گا جو ورثہ میں آپ کو پہنچا ہو گا پھر آپ نے بھی یہی
آیت پڑھی یعنی اَیْنَ مَاتَکُوْنُوْ الخ
بروایت ابو خالد کابلی
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے پہل حضرت
جبرائیل آپ کی بیعت کریں گے اوراس کے بعد ۳۱۳ آپ کے اصحاب
بیعت کریں گے اور فَاسْتَبِقُو االْخَیْرَات کی تفسیر میںآپ نے فرمایاکہ اس سے
مراد ولایت اہل بیت ہے
بروایت ابو بصیر حضرت
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ حضرت قائم علیہ
السلام کے اصحاب جب ایک دوسرے سے ملیں گے تو ایسا معلوم ہو گا کہ سب ایک ماں باپ
کے فرزند ہیں جو رات کو ایک دوسرے سے جدا ہو کر صبح کو ملاقات کررہے ہیں اورآپ نے
فرمایا کہ آیت مذکورہ کی تاویل یہی ہے اورفرمایا کہ حضرت قائم ان کے شکموں
اورپشتوں پر دست شفقت پھیر یں گے جس سے وہ عالم ہو جائیں گے اوراپ کے دور سعادت
میں پھر وہی نجیب قاضئی دین حاکم وقت اورفقیہ ہوں گے
بحوالہ احتجاج حضرت
شہزادہ عبدالعظٰم حسنی سے مروی ہے کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایایہ
ہم میں سے ہر ایک قائم ہے لیکن وہ قائم جس کی بدولت خدا زمین کو کفر والحاد سے پاک
کرے گا اورعدل وانصاف سے پر کرے گا اس کی ولادت لوگوں پر مخفی ہو گی وہ خود غائب
ہوں گے حتی کہ ان کا نام لینا بھی درست نہ ہوگا ان کا نام مبارک حضرت رسول خداکے
نام ی مثل ہو گا اوران کی کنیت بھی وہی ہو گی جو رسول خداکی تھی ان کے لئے زمین
لپٹ جائے گی اورہر سخت ان کے سامنے نر م ہو جائے گا اہل بدر کی تعداد میں ان کے
صحابہ ہوں گے جو اطراف زمین سے ان کے پاس جمع ہوں گے اورخداکا قول اَیْنَ
مَاتَکُوْنُوْ الخ انہی پر صادق ہے جب یہ تعداد جمع ہو جائے گی
تو وہ ظہور فرمائیں گے اورجب تعداد س ہزار تک پہنچے گی تو آپ باذن خدا مصروف جہاد
ہوں گے اوردشمنان خداکو تہ تیغ کریں گے الخبر
اس مقام پر احادیث
کثرت سے وارد ہیں میں نے اختصار کے پیش نظر ترک کردی ہیں
اقول حضرت قائم
آل محمد کے نام لینے کی ممانعت یا تو اس زمانہ کے اعتبار سے ہے جس زمانہ میں آپ
غائب ہوئے تھے اوریہ امتناعی حکم غٰبت کے معاملہ کی تاکید کیلئے ہے کیونکہ اس
زمانہ میں آپ کا نام لینا ان کے راز کو فاش کرنے کے مترادف تھا اورپھر اس حکم کو
مصلحتا عام کودیا گیا اورممکن ہے نام لینے کی ممانعت میں ان کا کمال احترام مقصود
ہو کیونکہ جس کا احترام مقصود ہو تا ہے اس کو اس کے نام سے بلانا یا ویسے اس کا
نام لینا خلاف ادب قرا ر دیا ہے بلکہ محترم ہستیوں کوہمشہ القاب سے ہی یاد کیا
جاتا ہے اسی طرح حجت کو نام لینے کی بجائے ان کے لقب سے ایاد کرنا چاہیے مثلاولی
العصر صاھب الزمان حضرت حجت یا قائم آل محمد وغیرہ واللہ اعلم
دعائے ظہور حضرت حجت
علیہ السلام
اَللّٰھُمَّ کُنْ
لِوَلِّیِکَ الْحُجَّۃِ ابْنِ الْحَسَنِ صَلَوَاتُکَ عَلَیْہِ وَعَلٰی آبَآئِہٖ
فِیْ ھٰذِہِ السَّاعَۃِ وَفِیْ کُلِّ سَاعَۃٍ وَّلِیَّا وَّنَاصِرًاوَّدَلِیْلًا
وَعَیْنًا حَتّٰی تُسْکِانَہٗ اَرْضَکَ طَوْعًا وَتُمَتِّعَہٗ فِیْھَا طَوِیْلً
اَللّٰھُمَّ
صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّدٍ
ومن حیث خرجت
فول وجھک شطر المسجد الحرام وحیث ماکنتم فولواوجوھکم شطرہ لئلایکون للناس علیکم
حجۃ الاالذین ظلمومنھم فلاتخشوھم واخشونی ولاتم نعمتی علیکم ولعلکم تھتدون ۱۵۱
اوراپ جہاں باہر تشریف
لے جائیں اسی مقام سے اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف پھیر دیں اوراے مسلمانوں تم
جہاں بھی ہو پس پھیر دواپنا منہ طرف اس کے تاکہ نہ باقی رہے لوگوں کی تمہارے اوپر
کوئی حجت سوائے ان لوگوں کے جو ان میں ظالم ہیں پس نہ ڈرو ان سے اورمجھ سے ہی ڈرو
اورتاکہ پورا کرو ں میں اپنی نعمت کو تم پر اورتاکہ تم ہدایت پاجاو
وَمِنْ حَیْثُ الخ اس
حکم کو دوبارہ ذکر گیا ہے تاکہ مسلمانوں کے ذہنوں میں راسخ ہو جائے نیز پہلی آیت
میں صرف قبلہ کی طرف منہ پھیر نے اورسابق حکم کے منسوخ کرنے کے وجوہات بیان کئے
گئے ہیں اوریہاں حکم کو دہرایا گیا ہے اوراس کے وجوہات بیان کئے گئے ہیں بعضوں نے
کہاہے کہ پہلی آیت میں حضر کا حکم ہے اوردوسری آیت میں سفر کا حکم ہیں
تحویل قبلہ کی تین
وجہیں خداوند کریم نے اس آیت مجیدہ میں ذکرفرمائی ہیں
۱) لِئَلَّایَکُوْنَ
تاکہ لوگوں کی تم پر حجت باقی نہ رہے اوروہ یہ کہ یہودی جانتے تھے کہ
اخرالزمان پیغمبر کی نماز دوقبلوں کی طرف ہو گی اگر مسلمان ہمیشہ بیت المقدس کی
طرف نماز پرھتے رہتے تو وہ کہہ دیتے کہ یہ وہ نبی نہیں جس کی تو رات نے خبر دی ہے
کیونکہ وہ نبی تو قبلتین کی طرف نماز پڑھے گا
یا یہ کہ اب کعبہ کی
طرف منہ کرنے کا حکم بالکل پکا اورناقبل تنسیخ ہے تم جہا ں بھی ہو ا ب کعبہ کی طرف
منہ کرکے ہی نماز پڑھنا اوربیت المقدس کی طرف منہ نہ کرنا ورنہ یہودی پھر حجت کریں
گے کہ دیکھو ہمارا قبلہ دوست تھا بہر کیف یہودیوں کی حجت بازی کو ختم کرنا مقصود
تھا تاکہ منصف مزاج طبقہ لب کشائی سے رک جائے کیونکہ ظالم اورکج رو کی زنان بندی
مشکل ہوتی ہے
وَلِاُتِمِّ
نِعْمَتِیْ مسلمانوں پر اپنی اس نعمت کا اتمام مقصود تھا کہ جس طرح
رسول کو انہی میں سے مبعوث فرمایا تھا اسی طرح قبلہ بھی کعبہ کو قر ار دیا ہے جس
سے یہ مانوس تھے
وَلَعَلَّکُمْ
تَھْتَدُوْنَ تیسری وجہ یہ بیان فرمائی کہ تاکہ تم ہدایت یافتہ ہو جاو یعنی
غرض پر ست اورخداپرست چونکہ حکم خداکی مخالفت اورموافقت سے پہچانے جاتے ہیں لہذا
تحویل قبلہ کا حکم ہوا تاکہ مومن خداپرست اوراغراض پرست الگ الگ ہو جائیں پس قبلہ
کا یہ رد وبدل مومنین کی ثابت قدمی کیلئے ایک امتحانی مرحلہ تھا جس میں کامیاب
ہونے والے ہی ہدایت یافتہ تھے
کماارسلنا فیکم رسولا
منکم یتلو اعلیکم ایاتنا ویزکیکم ویعلمکم الکتب والحکمۃ ویعلمکم مالم تکونواتعلمون
()
جس طرح ہم نے تم میں
تمہاری قوم سے رسول بھیجا جو تلاوت کرتا ہے تمہارے اوپر ہماری ایات کی اورتمہیں
پاک کرتا ہے اورتمہیں کتاب وحکمت سکھاتاہے اورتمہیں وہ اباتیں سکھا تاہے جن کو تم
نہیں جانتے تھے
فازکرونی ازکرکم
واشکروالی ولاتکفرون ()
پس مجھے یا د ک
کرو تم تاکہ میں یاد کروں تم کو اورمیرا شکر ادا کرو اورمیری نعمات کا کفران نہ
کرو
کَمَا
اَرْسَلْنَافِیْکُمْ الخ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو
دعا مانگی تھی خداوندکریم نے اس کو قبول فرمایا تھا پس حضرت ابراہیم کی دعا میں جو
کلمات تھے خداوندکریم نے اس آیت میں وہی زکر فرمائے کہ میں نے بمطابق دعا ئے
ابراہیم تم میں سے ہی رسول بھیجا ہے جو تمہارے سامنے ہماری ایات کو پڑھتا ہے اورتم
کو بدعادتوں سے پاک کرتا ہے اورتم کو علوم قرآن اوراحکام شریعت کی تعلیم دیتا ہے
اورایسی نیک اوراچھی باتیں تمہیں بتلاتا ہے جن کو تم نہیں جانتے تھے
اس آیت مجیدہ میں
ظاہری اعتبار سے گو حضرت کی بعثت کا امت اسلامیہ پر احسان جتلایا گیا ہے لیکن
کنایا کے طور پر اہل کتاب کو دعوت فکر دی گئی ہے کہ دیکھو جس نبی کیلئے تہارے جدا
علی حضرت ابر ہیم نے دعاطلب کی تھی یہ وہی رسول ہے لہذا تمہارا فرض ہے کہ آپ نے
جدا علی کی روح کو خوش کرنے کیلئے اس رسول کی اطاعت میں داخل ہو جاؤ اوراس کی
تعلیم سے بہرہ ور ہو کر علوم قرآنیہ سے آپنی کدورتیں دور کرو اوردنیا وعقبی کی
نعمات خداوندی کا استحقاق اپنے میں پیدا کرو
فَازْکُرُوْنِیْ
اَزْکُرْکُمْ ان نعمات کے ذکر کرنے کے بعد خداوندکریم اپنی اطاعت کی
طرف متوجہ فرماتاہے اس کی تفسیر میں علامہ طبرسیؒنے حضرت امام محمد باقر علیہ
السلام سے روایت کی ہے کہ جناب رسول خدانے فرمایاکہ فرشتہ انسان کے عمل لکھنے
کیلئے ابتدائے دن میں نازل ہو تا ہے اورابتدائے شب میں بھی اترتا ہے پس ان دونو ں
وقتوں میں اس کو اپنی نیکیاں ہی لکھواو تاکہ وہ درمیان کے گناہ تمہارے خدابخش دے
کیونکہ وہ فرماتاہے تم مجھے یاد کرو اورمیں تمہیں یاد کروں
تفسیر برہان میں امام
محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ تسبیح فاطمہ اللہ کا ذکر کثیر ہے جس کے متعلق
خدا فرماتا ہے فاَزْکُرُوْنِیْ اَزْکُرْکُمْ