التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

طلاق عقل کی روشنی میں

طلاق عقل کی روشنی میں
طلاق عقل کی روشنی میں
اسلام کے مطابق فطرت قوانین کے ناقابل تنسیخ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایسی مصلحتوں اورخوبیوں کے پیش نظر خالق کی طرف سے وضع شدہ ہیں کہ تاقیامت ان کامصلحتی پہلواضمحلال پزیر نہیں ہوسکتا منجملہ انہی قوانین کے اسلام نے مردوعورت کے باہمی تعلقات کی ناشگفتگی کی صورت میں تعلق زوجیت کو ختم کردینے کاحکم صادر فرمایا ہے جسے طلاق سے تعبیر کیا جاتا ہے، اسلام نے اس قانون کی روسے ازدواجی زندگی سے ان ناخوشگوار خدشات کاازالہ فرمادیاہے جو طلاق کے غیر مروّج ہونے کی صورت میں مرد وعورت کو پیش آتے تھے جن سے ہردوکی زندگی انتہائی بدمزگی سے بسر ہوتی تھی اورازدواجی تعلق ہردوکےلئے حلق کا کانٹا بن کر جان لیواہوجاتا تھا۔
اسلام یہ چاہتا ہے کہ مرد وعورت کی زندگی میں ایسی مسرت افزااورقلب پر ور روح موجود ہوکہ ان کاہر ہر لمحہ باہمی انس اورپیار سے معمور ہو ان کادل باہمی تعاون کے پر خلوص جذبات کاآئینہ دار ہوان کاظرف خاطر آپس کی ہمدردی اورخیر خواہی کی بے پناہ دولت سے لبریز ہو ا محبت سے اٹھنا بیٹھنا ہو اورپیارکا رہنا سہنا ہو تاکہ ان کے دل ودماغ ہر قسم کی دنیادی الجھنوں سے مطمئن ہوکر اللہ کی نعمات کاشکر یہ اداکرسکیں، مرد کاعورت کے ساتھ خلوص ایسا ہو کہ عورت خواہ ہزارھا تفکرات وہموم میں گرفتار ہو لاکھ غم اندوہ میں تڑپ رہی ہو لیکن جب ہی اس کی نظر مرد کے چہرہ پر پڑے تو اس کی ساری کوفت دور اورغم کافور ہوجائے اورعورت بھی ایسی صاحب وفااور باحیا اور مرد کی غمگسار ہوکہ مرد کی دن بھر کی تھکان کو اس کی ایک سادہ سی لبوں پرکھلتی ہوئی مسکراہٹ راہ گیر ملک عدم کردے اوراسی قسم کے مضامین کی احادیث بھی خانوادہ عصمت سے وارد ہیں۔
پس اسی بناپر اسلام نے مرد وعورت ہردو کی آزادی اورخیر وخوشی کوملحوظ رکھتے ہوئے ان کے قفل زوجیت کوبے کلید نہیں بنایا بلکہ اگر مرد وعورت کے تعلقات میں ساز گاری کی کوئی صورت نہ ہوآپس کاباہمی رجحان مفقودہو اوردل سے ایک دوسرے سے بیزار ہوں تو فراخدلی اورکشادہ روی کامظاہرہ کرتے ہوئے آزادانہ فضا میں بذریعہ طلاق ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرلیں تاکہ مرد عورت کےلئے گلے کے ہار کی بجائے خار نہ بنارہے اورعورت مرد کےلئے روح کی بہار کی بجائے فضائے دل فگار نہ بنی رہے پس جب تک اچھا نبھا ہو سکے تو ٹھیک ورنہ ایک دوسرے کےلئے بار خاطر بنے رہنے سے پوری زندگی کو وبالِ جاں بنانے سے کیا فائدہ؟
پس نکاح کے ساتھ ساتھ حکم طلاق عورت ومرد کی خوشگوار زندگی کےلئے وہ پر ازمصلحت اورسراپا حکمت قانون ہے جس میں تاابد کوئی تزلزل آہی نہیں سکتا، جو لوگ صیغہ طلاق کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں یااسے عورت کی توہین قراردیتے ہیں انہیں آزادانہ طور پر یہ بھی سمجھ سوچ لینا چاہیے کہ باہمی نفرت کی صورت میں ان کی بزدلی ایک دوسرے سے میل جول رکھنے کےلئے مجبور کرنا ان ہر دوکوزندہ درگور کرنے کے مترادف نہیں؟ اورکیا باہمی محبت ایسی چیز ہے کہ مجبور کئے جانے سے واپس آسکتی ہے؟ اورکیا اس قسم کے ناخوشگوار حالات میں قید نکاح ان کےلئے زنجیر غلامی نہیں؟ بلکہ جسمانی قیود سے روحانی قیود کہیں زیادہ مہلک وجان فرساہوا کرتی ہیں وہ مما لک جہاں طلاق کو مدت مدید سے عورت کی تو ہین سمجھا جاتا رہاہے وہ بھی ان جیسی مشکلات ومصائب کاجائزہ لیتے ہوئے آج طلاق کوقانونی شکل دینے پر مجبور ہوگئے ہیں جسے اسلام نے تیرہ چودہ سوسال پیشتر ترویج دے کرناقابل تنسیخ قرار دیا تھا۔
مرد سے حق طلاق کو سلب کرنا یااس پر پابندی عائد کرنا عورت کی طرفداری اورخیر خواہی نہیں بلکہ یہ ایک ناعاقبت اندیشی اورکور دماغی ہے جسے کوئی عقل سلیم دامن قبولیت میں جگہ دینے کوتیار نہیں۔
عورت کا ایک مرد سے طلاق حاصل کرکے دوسرے کے نکاح میں جانا اس کی تو ہین نہیں بلکہ فطری حق ہے اورآزاد مزاجی کامظاہرہ ہے اوراسی طرح مرد کا ناساز گار حالات میں عورت کو اپنی قید نکاح سے آزاد کرنااس کی منصف مزاجی اورفراخدلی کا ثبوت ہے اوربخلاف اس کے دونوں کو مکروہ وناپسندیدہ زندگی بسر کرنے پر آمادہ کرنا صرف تنگدلی ہی نہیں بلکہ ان کو اپنے فطری حقوق سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں