تعدُّدِ نکاح
چونکہ فطری طور پر مرد و عورت میں سے ہر ایک
اپنی اولاد میں برابر کا شریک ہے جس طرح وہ اولاد مرد کی ہے اسی طرح عورت کی بھی
ہے لیکن مرد کی فطری حاکمانہ پوزیشن اور عورت کی فطری محکومانہ زندگی کا اقتضا یہ
ہے کہ جس طرح جملہ معاملات میں ملکیتی پہلو مرد کی طرف منسوب ہوا کرتا ہے مثلاً یہ
گھر فلاں کا ہے یا یہ زمین فلاں کی ہے حالانکہ میاں بیوی دونوں انتفاع میں برابر
کے شریک ہوا کرتے ہیں بلکہ بہ نسبت مرد کے عورت انتفاع زیادہ حاصل کرتی ہے کیونکہ
گھر میں مرد کم رہتا ہے اور عورت زیادہ رہتی ہے اسی طرح تمام خانگی منفعت کی چیزوں
میں گو ملکیت مرد کی طرف منسوب ہے لیکن موقعہ پر زیادہ سے زیادہ فائدہ عورت ہی
اٹھاسکتی ہے کیونکہ وہ گھر سے کم باہر نکلتی ہے، پس اسی مناسبت سے اولاد کو بھی
باپ کی طرف ہی منسوب کیا جاتا ہے حالانکہ دونوں ماں باپ ان میں برابر کے شریک ہوتے
ہیں۔
بنابریں عورت کے لیے بیک وقت متعد د نکاح
مردوں میںاولاد کے پیش نظر نزاع و فساد کا پیش خیمہ تھے جو نوع انسانی کے لیے موجب
خطر ہے لیکن مرد کے لیے متعد د نکاح اس خطرہ سے باہر ہیں کیونکہ ملکیتی پہلو اس کی
طرف منسوب ہے نیز پہلی صورت میں نسلی امتیاز قطعاً موجود نہیں رہ سکتا اور دوسری
صورت میں نسلی امتیاز یقینا موجود ہے نیز عورت کی محکومانہ پوزیشن اور خانگی امور
کی ذمہ داری اور بچوں کی تربیت و نگہداری بیک وقت ایک سے زیادہ نکاح کے لیے اس کو
قطعاًاجازت نہیں دیتی بخلاف مرد کے کیونکہ وہ فطری حاکمانہ حیثیت کے ماتحت ان ذمہ
داریوں سے بری الذمہ ہے۔
علاوہ ازیں مرد پیدائشی طور پر تعداد میں
عورت سے کم ہوا کرتے ہیں چنانچہ عام ملکوں کی مردم شماری کے اعلانات صاف بتلاتے
ہیں کہ عورتیں تعداد میں مردوں سے زیادہ ہیں پس قدرتی نظام اس ا مر کا متقاضی ہے
کہ مرد کے لیے بیک وقت متعدد نکاح کی اجازت ہو ورنہ انسانی عمومی نظام کنٹرول سے
باہر ہو جائے گا۔
اورسب سے اہم بات یہ ہے کہ مرد کو جسمانی
ساخت قوت وتوانائی وجملہ اوصاف مردانہ کے ماتحت جہاد دشمن کاسامنا بھی ہوا کرتا ہے
اورعورت سے یہ فریضہ اس کی فطری وضع کے ماتحت ساقط ہے لہذا مردوں کا ایسے موقع میں
مارا جانا خلاف توقع نہیں اوراگر جنگ نہ بھی ہو تب بھی حفاظت مال وجان اورناموس کے
سلسلہ میں مردوں کو متعدد دفعہ جان پر کھیلنا پڑتا ہے بہر کیف قتل وغارت میں صرف
مردوں کا ہی حصہ ہے اورعموماً عورت ان حالات سے بری ہوتی ہے لہذا مرد کیلئے متعدد
نکاح اگر جائز نہ ہوتے تو نظام انسانی میں ہرج ومرج واقع ہوجاتی اورایک عورت کیلئے
بیک وقت متعدد نکاح تو جلتی پر تیل کاکام دیتے، پس معلوم ہوا کہ تعدُّدِ ازدواج
مرد کا فطری حق ہے جس کی قرآن کریم نے ترجمانی فرمائی ہے اس کو مرد کی بے راہ روی
یا عورت کی حق تلفی پر محمول کرنا فطری اقدار کا مقابلہ اورقدرتی نظام سے بغاوت
نہیں تو اورکیا ہے۔