اَلَمْ
تَرَ اِلٰی الْمَلَاِ مِنْ بَنِیٓ
اِسْرَآئِیْلَ مِنْم بَعْدِ مُوْسٰی وقف لازم اِذْ قَالُوْا لِنَبِیٍّ لَّھُمْ
ابْعَثْ لَنَا مَلِکًا نُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ قَالَ ھَلْ عَسَیْتُمْ
اِنْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوْط قَالُوْا وَ مَا لَنَآ
اَلَّا نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ قَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَ
اَبْنَآئِ نَا فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْھِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا اِلَّا قَلِیْلاً
مِّنْھُم وَاللّٰہُ عَلِیْمم بِالظّٰلِمِیْنَ (246)
ترجمہ:
کیا تم نے نہیں دیکھا طرف سردارانِ بنی اسرائیل
کے بعد حضرت موسیٰؑ کے جبکہ انہوں نے کہا اپنے ایک نبی کو کہ ہمارے لئے ایک بادشاہ
مقررکیجیے تاکہ ہم اللہ کی راہ میںلڑیں فرمایانبی نے شاید اگر تم پر لڑنا فرض
ہوجائے تو تم نہ لڑو انہوں نے جواب دیا ایسا کب ہوسکتا ہے کہ ہم نہ لڑیں اللہ کی
راہ میں (حالانکہ حکم جہاد کے علاوہ یہ دکھ بھی تو ہے) کہ ہم کو اپنے گھروں سے
نکال دیاگیا اوربیٹوں سے (جداکیا گیا) پس جب ان پر فرض کیا گیا لڑنا تو سب پھر گئے
سوائے چند آدمیوں کے اوراللہ ظالموں کو جانتاہےo
طالوت
کا قصہ اورمعیار انتخاب خداوندی
اَلَمْ تَرَ: تفسیر برہان میں امام محمد
باقرؑ سے مروی ہے کہ حضرت موسیٰؑ کی موت کے بعد بنی اسرائیل نافرمانیوں میں پڑگئے
دین خداکو تبدیل کوڈالااوراللہ کے حکم سے سرکش ہوگئے، ان کو نبی ہدایت کرتا تھا
لیکن اس کی اطاعت نہ کرتے تھے اورایک روایت میں وہ نبی حضرت ارمیا علیہ السلام
تھے، پس خدانے ایک قبطی بادشاہ جالوت نامی کو ان پر مسلّط کردیا کہ اس نے ان کو
ذلیل وخوار کیا ان کے مردوں کو قتل وجلاوطن کردیا مال چھین لئے اوران کی عورتوں کو
قید کرکے کنیزی میں رکھ لیا بنی اسرائیل کا یہ دورِ اسیری اس قدر سخت تھاکہ وہ
تمام شعبہ جات زندگی میں استقلال کی دولت سے یکسر محروم کردیئے تھے، آخر مصائب
وآلام کے وفور نے ان کو ایک دفعہ خواب غفلت سے چونکنے پر مجبور کیا چنانچہ ان میں
تحریک آزادی کی حس بیدار ہوئی اوربہت جلد وہ اپنی تحریک آزادی کی تنظیم کےلئے اپنے
نبی سے قائد اور صدر کے انتخاب کے خواہاں ہوئے اورنبی نے بحکم خداوندی طالوت کو
نامزد فرمادیا جو باوجود ان کے سیخ پاہونے کے معزول نہ ہوسکا۔
مجمع البیان میں ہے کہ اس نبی کے نام میں
اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ وہ شمعون بن صفیہ تھے جو لاوی بن یعقوب کی اولاد سے تھے
بعض نے اس کانام یوشع بن نون بتلایا ہے جو حضرت یوسف ؑ کی اولاد سے تھے اور حضرت
امام محمد باقرؑ سے اس کانام اشموئل منقو ل ہے کہ زبان عربی میں اس کو اسماعیل کہا
جاتاہے اورمروی ہے کہ جب اشمویل کو خدانے مبعوث فرمایا تو چالیس برس تک تو وہ اچھی
حالت میں رہے پھر اس کے بعد جالوت اورعمالقہ کا معاملہ درپیش ہوا۔
تفسیر برہان کی سابقہ روایت میں ہے کہ بنی
اسرائیل میں نبوت ایک خاندان میں ( لاوی بن یعقوب کی اولاد میں) اوربادشاہت دوسرے
خاندان میں ( حضرت یوسف ؑ یایہوداکی اولاد میں) چلی آرہی تھی اورامام جعفر صادقؑ
سے منقول ہے کہ اس زمانہ میں بادشاہ کے پاس لشکر کم ہو اکرتا تھا اورنبی ہی اس کے
معاملہ کو مضبوط کیا کرتا تھا پس اس نبی نے بحکم خدا ان کا بادشاہ مقرر کیا اورجب
جہاد واجب ہوا تو وہ لوگ ثابت قدمی کے عہدسے پھر گئے اورتھوڑے ثابت قدم رہے
اورتفسیر برہان میں امام محمد باقرؑ سے مروی ہے کہ وہ تھوڑے بھی ساٹھ ہزار تھے۔
وَ قَالَ
لَھُمْ نَبِیُّھُمْ اِنَّ اللّٰہَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوْتَ مَلِکاً قَالُوْا
اَنّٰی یَکُوْنُ لَہُ الْمُلْکُ عَلَیْنَا وَ نَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْکِ مِنْہُ
وَ لَمْ یُوْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفہُ عَلَیْکُمْ وَ
زَادَہ بَسْطَةً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْم
وَاللّٰہُ یُوْتِیْ مُلْکَہمَنْ یَّشَآئ ُ وَاللّٰہُ وَاسِع عَلِیْم(247)
وَقَالَ لَھُمْ نَبِیُّھُمْ اِنَّ اٰیَةَ مُلْکِہٓ اَنْ یَّاتِیَکُمُ التَّابُوْتُ
فِیْہِ سَکِیْنَة مِّن رَّبِّکُمْ وَبَقِیَّة مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوْسٰی وَ اٰلُ
ھٰرُوْنَ تَحْمِلُہُ الْمَلٰٓئِکَةُ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَةً لَّکُمْ اِنْ
کُنْتُمْ مُّوْمِنِیْنَ (248)ع
ترجمہ:
اورفرمایاان کو اپنے نبی نے کہ تحقیق اللہ
نے تم پر طالوت کو نبی مقرر فرمایا ہے (وہ چیں بجبیں ہو کر) کہنے لگے وہ کیسے
ہمارے اوپر حکومت کرسکتا ہے حالانکہ ہم اس کی بہ نسبت حکومت کے زیادہ حقدار ہیں
اوراس کے پاس وسعت مال بھی نہیں ہے فرمایا (نبی نے ) کہ تحقیق اللہ نے تم پر اس کا
انتخاب فرمایا ہے اور اس کو بڑھایا ہے وسعت علمی اورکمال جسمی کے لحاظ سے اوراللہ
جس کو چاہتا ہے ملک عطافرماتا اوراللہ ہی صاحب وسعت وعلم ہے o اوران کو اپنے نبی نے بتایا
کہ تحقیق اس کے بادشاہ بننے کی علامت یہ ہے کہ تمہارے پاس تابوت آئے گا جس میں
تسکین ہے (تمہارے لئے) تمہارے ربّ سے اوربقیہ (تبرکات) ان چیزوں سے جو چھو ڑ گئے
حضرت موسیٰؑ وہارون ؑ کہ فرشتے اس کو اٹھالائیں گے تحقیق اس میںتمہارے لئے نشانی
ہے اگر تم ایمان رکھتے ہوo
وَ
قَالَ لَھُمْ نَبِیُّھُمْ: جب بنی اسرائیل نے نبی سے بادشاہ کے تقریر کی خواہش کی
تو نبی نے فرمایا ایسا نہ ہو کہ جہاد فرض ہوجانے کے بعد تم پھر جاﺅ؟ کہنے لگے ایسا ہرگزنہ ہوگا کیونکہ ہمیں اپنی جلاوطنی قتل وغارت اوربیوی
بچوںکی قید کابھی درد ہے ہم ضرور جان توڑ کرلڑیں گے اورثابت قدم رہیں گے، پس نبی
نے فرمادیا کہ خدا کی طرف سے طالوت تمہارا بادشاہ ہے طالوت نہ خاندانِ نبوت ( لاوی
کی اولاد) سے تھے اورنہ خاندانِ شاہی ( یوسف ؑ یا باختلاف یہودا کی اولاد) سے تھے
بلکہ وہ بنیا مین کی اولاد میں سے تھے اورسقائی یا باختلاف رنگریزی کا کام کرتے
تھے، لمبی قد کی وجہ سے ان کو طالوت کہا جاتا تھا ( بعضو ں نے کہا ہے کہ بعد میں
یہ مبعوث بہ نبوت بھی تھے۔
قَالُوْا اَنّٰی یَکُوْن:
مل جل کر انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ خاندانِ نبوت ومملکت میں سے ہم ہیںاوروہ ایک
معمولی پیشہ کا آدمی ہے لہذا وہ خاندانی لوگوں سے کیسے سبقت لے سکتاہے؟ البتہ اگر
وہ مالدار ہوتا تو اس ذریعہ سے ہمارے خاندانی شرف کامقابلہ کرسکتا یاحکومتی
معاملات کو سنبھال سکتا پس بنی اسرائیل نے جذباتی رنگ میں آکر سات زبردست غلطیاں
کیں:
(۱) خدائی انتخاب پر حرف
زنی کی جو قطعا ًناجائز ہے
(۲) علم خداوندی کے مقابلہ
میں اپنے قیاسات کو پیش کیا
(۳) نبی کی نص کے بعد بھی
اس کے خلاف اجماع کا ڈھو نگ رچایا
(۴) معیار انتخاب خداوندی
بھی انہوں نے اپنے غلط نظریہ کے ماتحت کثر ت مال و دولت کو سمجھا ہوا تھا
(۵) محض اس کی غربت
وافلاس کے پیش نظر اس کو خاندان میں گھٹیا قرار دیا حالانکہ وہ بھی انہی کے خاندان
سے تھا اوراولاد یعقوب ؑ میں سے تھا
(۶) اپنے زعم باطل میں
پیسہ کی فراوانی کو خاندانی شرف کے مقابلہ میں لے آئے یعنی جس کے پاس پیسہ ہو خواہ
وہ پست قوم میں سے ہی ہو وہ خاندانی شرف کامقابلہ کرسکتاہے
(۷) لوگوں میں ہر دلعزیزی
اور ان کا نظم ونسق اور ان پر حکومتی کنٹرول وغیرہ کا دارومدار بھی ان کے نزدیک
پیسہ تھا
اورنبی نے مندرجہ وجوہات سے سب کو ردّ
کردیا، تمہارے اعتراضات قیاسات اوراجماعات وغیرہ انتخاب خداوندی کے مقابلہ
میںلغووبے معنی ہیں اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰہ تحقیق اللہ نے ہی اس کا انتخاب کیا ہے
پس جس کو اللہ چن لے تو کسی نبی کے صحابی اس کے انتخاب پر ہزار اعتراض کریں لاکھ
قیاس آرائیاں کرکے اس کے خلاف اجماعی پر وگرام قائم کریں تاہم وہ ا للہ کے انتخاب
کو اپنے مقام سے ایک انچ بھی ادھر ادھر نہیں کرسکتے۔
بنی اسرائیل نے ا گرچہ اپنے نبی سے یہ خواہش
کی تھی کہ آپ ؑخود ہمارے لئے بادشاہ کاتقرر فرمائیں لیکن نبی نے ان کے جواب میں
فرمایا کہ خدانے طالوت کو مقرر فرمایا ہے گویا وہ نبی اپنے صحابہ کو یہ ذہن نشین
کرارہے تھے کہ تمہارا مجھ سے اس انتخاب کی خواہش کرنا بے محل ہے اورانتخاب کاحق
صرف اللہ کی ذات کو حاصل ہے کیونکہ وہ ہر شخص کے ظاہروباطن کی جملہ خوبیوں
یابرائیوں سے مطلع ہے لہذا اس کے انتخاب میں غلطی کا امکان نہیں ہوگا پس اس مقام
پر بنی اسرائیل کے نبی حضرت اشمویل ہوں یاحضرت ارمیا ¿ انہوں نے اس امر کاانکشاف
بھی فرمایا ہے کہ نبی کاکام خدائی فرامین وانتخابات کااعلان کرنا ہے اوربس چنانچہ
پہلی دفعہ فرمایاکہ خدانے اس کو تمہارا بادشاہ مقررکیاہے جب انہوں اپنا اجماع اس
کے خلاف پیش کیا اوربزبانِ اعتراض اپنے قیاسی مواد کو دہرایا توپھر بھی نبی نے
اپنی طرف سے کچھ پیش کرنے کی بجائے سردارانِ بنی اسرائیل سے یہی فرمایا کہ حضرات!
بس اللہ نے اسی کو چنا ہے لہذا تمہاری چون وچرا اورقیل وقال سب بےہودہ ہے۔
پس وہ نبی اپنی طرز کلام ولہجہ جواب سے ان
کے ذہن نشین یہی بات کرا رہے تھے کہ تمہاری میرے اوپر اس معنی میں ناراضگی بے سود
ہے اورمجھ سے اس معاملہ میں نظر ثانی کی درخواست یااس کے انتخاب کی منسوخی کی
خواہش اورجدیدانتخاب کی آرزو سب فضول ہے کیونکہ نہ میں پہلے سے اس قسم کے انتخاب
کامجازتھا اورنہ اب اس کے نسخ وترمیم کامجاز ہوں، پہلے بھی اللہ نے انتخاب کرکے مجھ
سے اعلان کروایا تھا اوراب اس کی منسوخی یاترمیم یا نظر ثانی کاحق بھی اسی کو حاصل
ہے، گویا اللہ کے علاوہ صحیح انتخاب نہ کوئی کرسکتاہے اورنہ کسی کو اس کاحق حاصل
ہے پس نبی کو نہ اس کے جوڑنے کا حق ہے اورنہ توڑنے کا اختیار ہے۔
نیز نبی نے ان کے شور وغوغا سے متاثر ہوکر
خداسے نظرثانی کی اپیل بھی نہیں کی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ انتخاب خداوندی بغیر
مصلحت کے ہو نہیں سکتا اورجب مصلحت سے انتخاب ہوا ہے تو اس پر نظر ثانی کی اپیل کا
مطلب یہ ہے کہ اس کو خلاف مصلحت کرنے کےلئے عر ض کی جائے اوریہ فعل ایک نبی سے
نہیں ہوسکتا تھا۔
آپ ؑ نے فرمایا کہ خدانے
ان کو علمی وسعت عطافرمائی ہے پہلے جواب میں صرف خداکے انتخاب کا ذکر کیا جو ان کے
تمام اعتراضات اورقیل وقال پر حاوی تھا اس جواب میں ان کو انبیا نے اصولی غلطی پر
متنبہ فرمایا ہے کہ علم وجہل کے مقابلہ میں ہر حال میں علم کو ترجیح ہے، علم جہل
پر حاکم ہے جس طرح روشنی تاریکی پر حاکم ہے جہلا کی قیاس آرائیاں عالم کے وقار
علمی میں رخنہ انداز نہیں ہو سکتیں اورچند جہلا کا مل جل کر شور وغوغا کرکے اجماعی
صورت بناکر ایک غلط جمبوریت کی آواز بلند کرنا ایک عالم کے متعلق خدائی انتخاب
کورد نہیں کرسکتا کیونکہ اجماعی وجمبوری انتخاب کا مطلب یہ ہے: ع
جمہوریت اک راج ہے اقبال کہ جس میں
بندوں کوگناکرتے ہیں تولا نہیں کرتے
انہوں
نے غربت وافلاس کومعیار نااہلیت قرار دیا تھا خدانے جہالت کونااہلیت وناموزونیت
کامعیار قرار دیا ہے
انہوں
نے پیسہ کی فراوانی کو معیار انتخاب قرار دیا تھا خدانے علمی وجاہت کو مدار ومحور
حکومت الٰہیہ قراردیا ہے
انہوں
نے مالداری کو خاندانی شرف کے مقابلے میں پیش کیا تھا خدانے علمی برتری کو خاندانی
شرافت پر فوقیت دینے کا اعلان فرمایا
انہوں
نے صاحب افلاس وغربت کو حکومتی نظام سنبھالنے کےلئے اَن فٹ قرار دیا تھا اورخدانے
صاحب جہل کو عوامی نظم ونسق قائم رکھنے کے لئے ناموزوں قرار فرمایاہے
انہوں
نے صاحب زر کو رعایا پر کنٹرول رکھنے کا اہل سمجھا تھا اورخدانے صاحب علم کو اس
عہدہ کےلئے موزوں قرار دے کر منتخب فرمایا
پس عالم بوریانشین تخت دیبا پر بیٹھنے والے
جاہل سے افضل ہے لہذا اگرکوئی غنی ہو تو اپنے مقام پر ہو ا کرے لیکن اللہ کے نزدیک
نہ اس کے خاندانی جاہ وجلال کی کوئی وقعت ہے اورنہ اس کے مالی کروفرکی کچھ قدر
وقیمت ہے، پس وہ حکومت الٰہیہ اوررعایا کے صحیح نظام کو قائم رکھنے کےلئے یقینا نا
اہل اورغیر موزوں ہے اورایسے کا نتخاب دامن انتخاب الٰہی پر ایک بدنماداغ ہے۔
اس کے برعکس اگر کوئی عالم ہے خواہ وہ فاقہ
مست اورخاک نشیں ہی کیوں نہ ہواس کالباس جگہ جگہ سے پیونددار ہی کیوں نہ ہو لیکن
اللہ کے نزدیک عالم کی فاقہ مستی جاہل کی شکم پری سے بہتر عالم کی فقیری جاہل کی
امیری سے بہتر عالم کی فروتنی جاہل کی سج دھج سے افضل اورعالم کی خاک نشینی جاہل
کی سریر آرائی سے محبوب تر ہے، لہذا وہی انتخاب خداوندی کےلئے موزوں اورحکومت
الٰہیہ کے نظام کے سنبھالنے کےلئے سزاوار تر ہے۔
اس کے بعد اس نبی نے ان کو ایک اورغلطی کی
طرف متوجہ فرمایا تاکہ ان کو مصلحت وحکمت انتخاب قدرت سے کسی حدتک آگاہی ہو جائے
وروہ یہ کہ دشمن کے مقابلہ می صف آرائی کےلئے غنی اورمالدار ہونا کافی نہیں بلکہ
وہاں جسمانی قوت کی ضرورت ہے اوراس میں طالوت تم سب سے زیادہ ہے پس خدائی انتخاب
کا تعلق ظاہری جذبات سے نہیں بلکہ حقیقی مصالح سے ہے، جہاں دشمن سے جہاد کرنے کی
ضرورت ہو وہاں سپاہ کی سرکردگی کے لئے وہی موزوں تر ہوسکتاہے جو شجاع اورمرد میدان
ہو خواہ ظاہر ی نگاہوں میں فقرو فاقہ کی وجہ سے نظر اندازہی کیوں نہ کیا جاتا ہو
اوریقینا ایسے مقام پر ایسے شخص کا انتخاب جو مرد میدان نہ ہو خواہ مالدار وغنی ہو
اکرے ناقابل عفو عقلی وروایتی غلطی ہے کیونکہ دشمن پر فتح یابی حاصل کرنے کے لئے
بہادری اورقوت جسمانی کی ضرورت ہے نہ کہ دولتمندی اورتوانگری کی۔
اعتراض: طالوت کو بھی علم وجسمانی قوت اللہ کی
عطاکردہ ہے اگر یہی چیز یں ان کو عطافرمادیتا توکیا حرج تھا؟ جیسا کہ خداندکریم نے
طالوت کوعطافرمائیں اوران کو سرے سے ان چیزوں سے محروم رکھا تو پھر معیار انتخاب
ان چیزوں کوقرار دینا ہی سب یکطرفہ سودا ہے؟
جواب: اسی
سوال کاجواب وَاللّٰہُ یُوْتَیْ مُلْکہ سے دے دیا ہے یعنی مشیت خداوندی پرکسی کو اعتراض
کاحق نہیں کیونکہ وہ جوچاہتا ہے کرتاہے اوریہ بھی اس کی مشیت ہے۔
الحاصل: بنی اسرائیل کی طرف سے طالوت پر
دواہم اعتراض تھے:
پہلا
یہ تھاکہ وہ شاہی خاندان سے نہیں ہیں اوراس کی تعبیر انہوں نے اپنے استحقا ق کے
اظہار میں کی کہ نَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْک مقصد یہ ہے کہ شاہی خاندان سے تعلق
رکھنے کی وجہ سے ہم حکومت کااستحقاق رکھتے ہیں اوراس میں ضمنی طور پر طالوت کا عدم
استحقاق اوراس کی وجہ بھی معلوم ہوگئی
دوسرا یہ
تھاکہ وہ مالی حیثیت میں کمزور ہیں پس ان کے اعتراض کا جواب تو اس طرح دے دیا گیا
کہ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰہ کہ اللہ نے چن لیا ہے، گویاخاندانی استحقاق اس کے چناﺅ کے مقابلہ میں کوئی وقعت واہمیت نہیں رکھتا اور دوسرے اعتراض کا جواب اس
طرح دیاکہ نظام مملکت کاسنبھالنا مالداری پر موقوف نہیں بلکہ وہ حسن تدبیر اورجوہر
شجاعت کا مرہونِ منت ہے اورجوہر شجاعت قوت وتونائی کامحتاج ہے اورطالوت میں یہ
دونوں خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں لہذانتخاب خداوندی بجااوربرمحل ہے۔
پہلے جواب میں جب یہ ارشاد ہواکہ اس کو اللہ
نے چن لیاہے تو یہ شائبہ پیدا ہوتا تھاکہ بلاوجہ اوربغیر استحقاق کے حکومت کوشاہی
خاندان سے نکال کر دوسرے کے حوالے کرنے میں کیا حکمت ہے؟ پس خداوندکریم نے دوسرے
جواب میں حکمت کاتذکرہ فرمادیا اوراعلان کردیا خدا کے انتخاب کا تعلق اگرچہ اس کی
اپنی مشیت سے ہے لیکن پھر بھی خالی ازحکمت نہیں اوروہ حکمت یہ ہے کہ جس کو چنا
جارہاہے وہ عالم بھی ہے اورشجاع بھی اوربادشاہت کےلئے یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں
لیکن یہ مطلب چونکہ قدرے معرض خفامیں سے تھا لہذا پھر مزید وضاحت کرتے ہوئے صاف
اورکھلے لفظو ں میں اعلان کردیا وَاللّٰہُ یُوْتِیْ مُلْکَہُ مَنْ یَّشَاءکہ کسی
کو ملک کا عطا کرنا خدائی مشیت ہے وہ جسے چاہے دے دے۔
وَاللّٰہُ وَاسِع عَلِیْم: اس فقرہ میں پھر
اسی شبہ کا ازالہ ہے کہ گو ملک کا کسی کو عطا کرنا میری مشیت سے ہوتاہے لیکن اس
کایہ مطلب نہ سمجھنا چاہیے کہ مشیت خالی ازحکمت ہوتی ہے بلکہ اللہ کامشیتی فعل بھی
حکمت کے ماتحت ہی ہوتا ہے، لفظ واسع میں قدرت اور مشیت کے دائرہ کی وسعت کو بیان
کرنا مقصود ہے اورعلیم کی قید اس کی مشیت کی وسعتوں میں حکمت وعلم کے دخل کی طرف
اشارہ کرتی ہے جس طرح کہ صاحبانِ ذوق پر مخفی نہیںہے۔
اعتراض: اگر
بنی اسرائیل نے نبی وخداکے انتخاب پر اعتراض کرنا تھا تو پہلے اپنے میں سے ایک کو
چن لیتے اوربادشاہ بنالیتے نبی سے اس چناﺅ کی درخواست کیوں کی؟
جواب: اس
صورت کے بغیر ان کااپنا چناﺅ کسی صورت میں پایہ تکمیل تک پہنچ ہی نہ سکتاتھا
کیونکہ تمام سربرآوردہ افرادا اورسرداران قوم اپنا نام امیدواروں کی فہرست میں
گنوا دیتے اور اس صورت میں تمام قبیلوں کی آپس میں سر پھٹول ہوجاتی اور بدترین نتیجہ
برآمد ہوتا لیکن جب ان کے سامنے ایک ایسے شخص کا انتخاب ہوا جس کو وہ سب نہ چاہتے
تھے تو اس کے خلاف ہنگامہ آرائی کر کے با ہمی طور پر کسی ایک پر جمع ہو جانا ممکن
تھا کیو نکہ اس صورت میں جذبات کا اُبھار چونکہ ایک معین شخص کے خلاف شدت کی صورت
میں ہوتا ہے لہذا یہ قربانی کرنا آسان ہوتا ہے کہ چلو میں نہ سہی کوئی دوسرا
برادری کا آدمی سہی بہر کیف وہ نہ ہو جس کو متفقہ طور پر نہیں چاہتے۔
نصیحت و عبرت
قرآن مجید میں اس قسم واقعات اورحکایات صرف
ظاہری دلچسپی کے لئے نہیں دہرائے گئے بلکہ چونکہ قرآن مجید قیامت تک کےلئے موعظہ
بھی ہے اوردستور العمل بھی لہذ ا اس کے تمام قصص وحکایا ت تاقیامت اُمت مرحومہ
اسلامیہ کےلئے دعوتِ عمل ہیں ایک نبی کا واقعہ اوران کی امت کے ساتھ گفت
وشنیداعتراضات وجوابات اوران سب کا ردّ عمل یہ باتیں صرف کانوں کی ہوس کو ٹھنڈا
کرنے کےلئے نہیں بلکہ درس حاصل کرنے کےلئے ہیں۔
پس آیات زیر بحث میں جہاں
مقابلہ دشمن میں ثبات قدمی کی دعوت دی گئی ہے اوربزدلی کی مذمت کی گئی ہے وہاں
ساتھ ساتھ اس اہم مطلب کے چہرہ سے بھی نقاب کشائی کی گئی ہے کہ عہدہ حکومت الٰہیہ
کے لئے عہد ہ دارکاانتخاب صرف اللہ تعالے کے ہاتھ میں ہے جس کااعلان کرنے کا نبی
کو حق حاصل ہے اورامت کو نہ اس پر اعتراض کرنے کی اجازت ہے اورنہ اس معاملہ میں ان
کا اجماع کوئی وقعت رکھتا ہے، اب مسلمان ذرا سوچیںکہ ہمارے نبی نے بھی ہمارے اوپر
کوئی حاکم مقرر کیا ہے یاوہ ہم کو اندھیرے میں چھوڑ کرچلے گئے؟
تو اس کاجواب کتب فریقین سے بتواتر ملتاہے
کہ نبی نے ہمیں بار بار بتایا گھر میں بتایا سفر میں بتایا مسجد میں بیان کیا
جنگوں کے مواقع پر بیان کیا فرد اًفرداً سنایا اورکھلے جلسوں میں ببانگ دہل اعلان
فرمایا پہلے پہل دعوت ذوالعشیرہ میں اپنی تصدیق کرنے والے کےلئے اپنے بعدکےلئے خلافت
کی پیشکش فرمائی اورسب سے آخر میدانِ غدیر میں ایک لاکھ سے زیادہ کے مجمع میں کھلے
الفاظ میں خلافت کااعلان فرمایا اورصرف یہ نہیں بلکہ دستار بندی بھی کرائی
اورصحابہ سے بیعت بھی کرائی اورصحابہ کرام نے بَخٍّ بَخٍّ لَک کے گرانقدر الفاظ سے
علی ؑ کو خراجِ عقیدت بھی پیش کیا۔
ان کے علاوہ حدیث مواخات حدیث طیر حدیث
منزلت وغیرہ میں صاف طور پرعلی ؑ کی خلافت کو بیان فرمایا اورحدیث ثقلین کوکئی
باردُہرا دُہرا کر تمام مسلمانوںکے ذہن نشین کرانے کی کوشش فرمائی کہ میرے بعد
سوائے میری آل کے تمہارے لئے کوئی قرآنی مسائل کوحل کرنے کےلئے اہل نہیں ہے یہی
قرآن کے ساتھ ہیں اورقرآن ان کے ساتھ ہے اوریہ آپس میں ایک دوسرے سے ہرگز جدانہ
ہوں گے یہانتک وہ تمہیں حوض کوثر پر میرے پاس لے آئیں گے۔
لیکن افسوس کہ امت اسلامیہ نے گزشتہ واقعات
کو صرف کانوں تک ہی محدود رکھا اورقرآن نے گزشتہ اقوام وامم کے جس جس کردار کو
غلطی اوربے راہ روی سے تعبیر کیا تھا مسلمانوں نے صرف زبان سے قرآن کے فیصلہ کی
تصدیق کرلی لیکن عمل وہی کیا جو گزشتہ امتیں کرگزریں حضرت رسالتمآب کے مقررکردہ
خلفا کو پیچھے ہٹانے اوردوسروں کو آگے بڑھانے میں وہی بہانے تجویز کئے جو گزشتہ امتوں
نے کئے تھے جن کو قرآن نے ردّ کردیا تھا اورباوجودیکہ معیار قرآنی کے مطابق حضرت
علی ؑ انتخاب حکومت الٰہیہ کےلئے تمام سے موزوں تر تھے اورخداکی طرف سے منتخب بھی
تھے پوری امت میں نہ ان سے بڑھ کر کوئی عالم تھااورنہ ان سے زیادہ کوئی شجاع تھا،
دیگر اوصافِ کمالیہ میں بھی وہ اپنی نظیر آپ ہی تھے لیکن امت کارویہ وہی رہاجس
کوتاریخ گزشتہ کے طور پر قرآن نے عبرت حاصل کرنے کے لئے دُہرایا تھا اس مقصد کی
مزید وضاحت ہماری کتاب اسلامی سیاست میں ملاحظہ فرمائیں۔