التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

نسوانی زندگی پر اسلام کا احسان

Explore the status of women in Islam, their rights, and the concept of نسوانی زندگی پر اسلام کا احسان in civilized and non-civilized societies.

نسوانی زندگی پر اسلام کا احسان

عورت کی حیثیت متمدن اورغیر متمدن اقوام میں ہمیشہ جدا گا نہ رہی ہے لیکن مجموعی طور پر اسے انسانی زندگی کے حقوق سے محروم ہی رکھا گیا ہے، بعض ملکوں میں عورت کی حیثیت عام پالتوحیوان کی سی تھی مرد کو کلی اختیار تھا کہ اس کوفردخت کرے یاعاریةً کسی کو دے دے اسی طرح اس کے کھانے پینے اوررہنے سہنے کےلئے حیوانات کاساسلوک ہوتاتھا اورساتھ ساتھ گھر کے تمام کاروبار کابوجھ اسی کے سر پر رہتا تھا حتی کہ بعض مقامات پرحسب ضرورت اس کوذبح کرکے کھالینا بھی معیوب نہ تھا بلکہ مرسوم تھا۔
اور بعض ملکوں میں شوہر کی موت عورت کےلئے بدترین طریقہ پر پیغام اجل تھی کیونکہ یاتو اُسے نذر آتش یا زندہ درگور کیا جاتا تھا اوریا پھر انتہائی بد حالی کس مپرسی اورذلت شعاری کی زندگی کے لمحات گزار نے اس کو نصیب ہوتے تھے، عورت کے ساتھ کھانا مرد اپنی تو ہین سمجھتے تھے عرب لوگ لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے پر فخر محسوس کرتے تھے اورجب کسی کے ہاں لڑکی پیدا بھی ہو جاتی تو شرمساری سے اس کا سرجھک جاتا اورمنہ سیاہ ہو جاتا، ہاں لڑکوں کی پیدائش پر بڑی خوشی محسوس کرتے اوران کی کثرت پر ناز کیا کرتے تھے خواہ حلال طریقے سے پیدا ہوئے ہوں یاحرام طریقے سے، بعض اوقات ایسا بھی ہوا کرتا تھا کہ ایک لڑکے کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے متعددلوگ دعویدار ہوجایا کرتے تھے اورآخر کار قرعہ اندازی سے فیصلہ ہوا کرتا اورجس کو لڑکامل جاتا اس کے گھر میں خوشی ہوتی اوراس کو تہنیتی پیغامات پہنچتے تھے۔
لڑکی کو زندہ درگور کرنے کی ابتدابنی تمیم نے کی تھی جس کی وجہ یہ ہو ئی کہ نعمان بن منذر بادشاہِ عرب کے ساتھ ایک مرتبہ اس کی ٹکرہوئی جس میں اس کی شکست ہوئی اورنعمان بن منذر نے ان کی بہت سی لڑکیوں کو اپنی اسیری وکنیزی میں لے لیا جس کا انہیں بڑا درد ہوا پس اس کے ردّ عمل میں انہوںنے اس فعل شنیع کا ارتکاب کیا اوررفتہ رفتہ ان کی اس بدرسم نے روئی کی آگ بن کر عرب کے دیگر قبائل کو بھی اپنی لپیٹ لے لیا۔
غرضیکہ اسلام سے قبل عورت کی زندگی عمومی طور پر حیواناتی زندگی تھی اسلام جو ایک فطری دین ہے اس نے عورت کے حقوق کی پامالی پر مبصرانہ تنقید کرتے ہوئے انسان کو عدل وانصاف کی دعوت دی اورصنف ناز ک کے حقوق پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے انسانی زندگی میں مردوں کے دوش بدوش کھڑا کیا اورفطرت کے اصولوں پر مرد وعورت ہر دوکو انسانیت کی تعمیر وتخریب میں برابر کا ذمہ دار ٹھہرایا، پس ابتدئے عالم سے آج تک کی تمام غلط رسوم اورانصاف کش نظریات پر قلم نسخ پھیر دیا اورصنف نسواں کو حیوانیت کے تاریک ونحس دور سے نکال کر انہیں انسانیت کی پاک اورروشن فضامیں رہنے کی جگہ دی نیز مردوں کو ان کی اہمیت کی طرف متوجہ فرماکر انہیں ان کابرابرطورپر شریک زندگی قراردیا۔

پیدائشی مساوات

قرآن نے صاف طور پر اورکھلے لفظوں میں اعلان فرمایا کہ ہم نے تم کو نر ومادہ سے پیداکیاہے یعنی مرد و عورت عالمِ وجود میں انسانی مشینری کے دو اہم پر زے ہیں اورجس مادّہ وعنصر سے مرد کی تخلیق ہوئی ہے عورت کی پیدائش بھی اسی سے ہے لہذا پیدائشی حق میں عورت مرد کے ساتھ برابر کی حصہ دار ہے۔

عبادت میں مساوات

قرآن نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ خداعورت یامرد میں سے کسی کے اعمال کو ضائع نہیں کرتا اورنیز ارشاد فرمایا کہ اللہ کے نزدیک مکرّم وہ ہے جو اس سے زیادہ تقویٰ کرے پس خدانے اپنے قرب کامعیار تقویٰ کو قرار دے کر عورت ومرد کو برابر طور پر اپنی طرف دعوت دی، بنابریں منازلِ عرفان وایقان اورمراتب اعمال وافعال میں آگے بڑھنے کےلئے عور ت کو مرد کے دوش بدوش چلنے کا حکم دیا پس وہ عورت جو ایمان میں راسخ عمل میں کامل علم ودانش میں سابق اورحسن اخلاق میں بلند ہو وہ اسلامی نقطہ نظر سے ان مردوں سے افضل وار فع ہے جوان صفات سے تہی دامن ہوں۔
پس جس طرح مرد ترقی کرسکتا ہے اسی طرح عورت کےلئے بھی یہ راہیں مسدود نہیں جنت کی بشارت میں مردوعورت دونوں یکساں خطاب ہے اورجہنم کی عقوبت بصورت نافرمانی مردوعورت دونوں کےلئے برابر ہے، اورقرآن نے عربوں کی اس رسم کی بھی پر زور مذمت فرمائی جس کے ماتحت وہ معصوم لڑکیوں کو زندہ دفن کرتے تھے، بہر کیف اللہ کے نزدیک اطاعت گزارکی قدر ومنزلت ہے خواہ مرد ہو یاعورت اوراس کی بارگاہِ قرب اورساحت عزّوشرف سے دور بلکہ اس کے قہر وغضب کا مورد وہ ہے جو نافرمانی کرے خواہ مردہو یاعورت ہو۔
مسلمانوں میں انہی سابقہ رسوم میں سے بعض جاہلی رسمیں تا حال موجود ہیں مثلاً خداوندکریم کے نزدیک زناکاری گناہِ کبیرہ ہے اورا س جرم کے مرتکب کے لئے سنگساری کی سزا ہے اورعورت ومرد دونوں اس سزا میں شریک ہیں لیکن رسم جاہلی کے ما تحت زنا میں صرف عورت کو مجرم سمجھا جاتا ہے اور مرد کو کوئی پوچھنے والاہی نہیں ہوتا، عورت کی زنا کاری خاندان کے لئے شرمساری کی موجب سمجھی جاتی ہے بخلاف اس کے مرد کی زنا کاری پر پورے خاندان میں اگر افتخار کا اظہار نہ بھی ہو تاہم شرمساری کا تو نام و نشان ہی نہیں ہوتا اور عرب کی جاہلی رسم کا ایک شرمناک مظاہرہ ہے۔

تمدنی مساوات

قرآن نے انسانی تمدن میں عورت کو مرد کے ساتھ برابر کا حصہ دار قرار دیا ہے خورد نوش اور تمام لوازمِ زندگی میں جس طرح مرد کما نے کا حق رکھتا ہے اسی طرح عورت بھی حقدار ہے چنانچہ فرمایا ہے کہ مردوں کے لئے اپنا کما یا، مرد اگر عورت کا وارث ہے تو عورت بھی مرد کی وارث ہے، ہا ں اگر ایک طرف وراثت میںمرد کو عورت سے دگنا دیا جاتا ہے تو دوسری طرف مصارفِ زندگی میں عورت پر اخراجات کی ذمہ داری کا کوئی بوجھ نہیںرکھا جاتا۔
پس قرآن نے احکامِ عبادات وشرائع میں عورتوں کو مردوں کے ساتھ برابر کا شریک کیاہے سوائے بعض خصوصی موارد کے جن سے عورتوں کو مستثنیٰ قرار دیا گیاہے جن کا تعلق ان کی صنفی کمزوری ومعذوری سے ہے اوراسی طرح صنفی موزونیت کے ماتحت بعض احکام عورتوں سے ہی اختصاص رکھتے ہیں اوران سے مرد مستثنیٰ ہیں بالجملہ خداوند کریم نے ہر لحاظ سے عورت کو حیوانیت کی پست زندگی سے نجات دے کر اسلام کے ذریعہ سے اس کو انسانیت کی بلند سطح پر قرآن کی روشنی میں قدم آگے بڑھانے کی اجازت دی ہے اوراس کی صنفی اوروضعی بعض کمزوریوں کے پیش نظر اس کو بعض ایسے امور میں داخل ہونے سے منع فرمایاہے جو اس کی وضع کے منافی ہیں جس طرح جنگ وجہاد اورحکومت وقضا وغیرہ اوربعض امور کی پابندی اس پر خصوصیت سے عائد کردی ہے جو اس کی صنفی وضع کے لئے انتہائی طور پر موزوں ومناسب ہیں مثلاًپردہ داری اطاعت شوہر اورتربیت اولاد وغیرہ۔

ایک تبصرہ شائع کریں