التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

تفسیر رکوع ۱۵ -- ذکر ِامتحانِ ابراہیم وعہدہ امامت

تفسیر رکوع ۱۵ -- ذکر ِامتحانِ ابراہیم وعہدہ امامت
تفسیر رکوع ۱۵ -- ذکر ِامتحانِ ابراہیم وعہدہ امامت

  
یٰٓبَنِیْ إِسْرَآئِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلٰى الْعٰلَمِينَ(122) وَاتَّقُوْا يَوْماً لَّا تَجْزِی نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَيْئاً وَّلَاْ يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّلَاْ تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌوَّلَاْهُمْ يُنصَرُوْنَ(123)وَإِذِ ابْتَلٰى إِبْرَاهِيْمَ رَبُّهُ بِكَلِمٰتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِی قَالَ لاَ يَنَالُ عَهْدِی الظّٰلِمِيْنَ (124)
ترجمہ:
اے اولادِ یعقوب یاد کرو میری ا س نعمت کو جو میں نے انعام کیا تمہارے اُوپر اورتحقیق میں نے تمہیں عالمین پر فضیلت دی(122) اورڈرواُس دن سے کہ نہ کفا یت کرے گا کوئی نفس کسی نفس سے کچھ بھی اورنہ قبول کیا جائے گا فد یہ اورنہ نفع مند ہوگی سفارش اورنہ وہ مدد کئے جائیں گے(123) اورجب آزمایا ابراہیم کو اس کے ربّ نے ساتھ چند کلمات کے پس اس نے اُن کو پورا کیا توفرمایاکہ تحقیق میں تجھے لوگوں کا امام بناتا ہوں ابراہیم نےعرض کیا اورمیری اولاد سے بھی فرمایا کہ میرا عہد (عہدہ نبوت وامامت) ظالموں کو نہیں پہنچ سکتا (124)

تفسیر رکوع ۱۵

ذکر ِامتحانِ ابراہیم وعہدہ امامت

یٰبَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ : اگرچہ خداوند کریم نے جناب رسالتمآب کو یہ تسلی دے دی کہ یہ لوگ )جن کی نافرمانیوں اوراحسان فراموشیوں کی اتنی طویل فہرست گزر چکی ہے( ہرگز آپ کی نبوت پر راضی نہ ہوں گے جب تک آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کر یں اورایساکرنا آپ سے بعید ہے لہذا ان کے ایمان لانے کی توقع چھوڑیئے گویا بنی اسرائیل پر یہ واضح کیا گیا کہ تمہارے ایمان کا نہ خدامحتاج ہے اورنہ جناب محمد مصطفی محتاج ہیں لیکن ازراہِ لطف واِتمام حجّت پھر بنی اسرائیل کو نعمات  یاد دِلاکر ان کو راہ ِحق پر گامزن ہونے کی دعوت دی گئی ہے-
بِکَلِمٰتٍ:  تفسیرمجمع البیان اور تفسیر برہان میں بروایت ابن بابویہv حضرت امام جعفر صادق سے مروی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان کلمات سے وہی کلمات مراد ہیں جو حضرت آدم نے اپنے ربّ سے حاصل کئے تھے اوران کی توبہ قبول ہوئی تھی یعنی یَا رَبِّ اَسْئَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَّ عَلِیٍّ وَ فَاطِمَةَ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَیْنِ اِلَّا تُبْتَ عَلَیَّ الخ
فَاَتَمَّھُنَّ: راوی نے پوچھا کہ پھر فَاَتَمَّھُنَّ سے کیا مراد ہے؟ توآپ نے فرمایاکہ امام حسین کی اولاد سے جو نو امام ہیں اُن کو بھی ملا کر حضرت قائم تک کل بارہ امام پورے کئے-
 راوی نے دریافت کیا وَجَعَلَھَا کَلِمَةً بَاقِیَةً فِیْ عَقْبِہِ [1]   میں کلمہ باقیہ سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ امامت امام حسین کی اولاد میں تاقیامت باقی رہے گی، پھر سائل کے جواب میں آپ نے فرمایا جس طرح موسیٰ و ہارون دونوں بھائی تھے لیکن نبوت حضرت ہارون کی پشت میں رہی اور حضرت موسیٰ کی پشت میں نہ آئی لہذا خدا کے فعل پر کیوں کہنا درست نہیں-
اورتفسیر مجمع البیان میں حضرت امام جعفر صادق سے یہ بھی مروی ہے کہ اِبتلائے کلمات سے مراد حضرت اسماعیل کو ذبح کرنے کا امتحان ہے جس کو حضرت ابراہیم نے پورا کیا اوراپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرکے ذبح اسماعیل کا عزم مصمم کرلیا تو ان کی صدقِ نیت کی جزا  اوران کی اطاعت کے ثواب میں خداوند کریم نے ارشاد فرمایا اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا
 اورپھر خداوند کریم نے اُن پر حنیفیت کو نازل فرمایا اوروہ کل دس چیزیں ہیں، پا نچ کا تعلق سر سے ہے اور باقی پانچ بدن سے تعلق رکھتی ہیں:
 جو پانچ سر میں ہیں وہ یہ ہیں:
(۱) مونچھیں کترانا (۲) ڈاڑھی رکھنا (۳) سرکے بالوں کی مانگ نکالنا (۴)مسواک کرنا (۵) خلال کرنا
 اورجو پانچ باقی بدن میں ہیں وہ یہ ہیں:
(۱) تمام بدن کے بال دور کرنا (۲) ختنہ کرنا (۳) ناخن کٹوانا (۴) غسل جنابت کرنا (۵) پانی سے طہارت کرنا [2]
 پس یہی حنیفیت طاہرہ ہے جو حضرت ابراہیم لائے یہ نہ منسوخ ہوئی ہے اورنہ قیامت تک منسوخ ہوگی اوراِسی کے متعلق خدا وند فرماتا ہے وَ اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرَاھِیْمَ حَنِیْفًا 
اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا: تفسیر برہان میں بروایت کتب معتبرہ امامیہ حضرت امام جعفر صادق اور حضر ت امام محمد باقر سے منقول ہے آپ نے فرمایاکہ خداوند کریم نے حضرت ابراہیم کو اپنا عبد بنایا قبل نبی بنانے کے  اورپھر اُن کو نبی بنایا قبل رسول بنانے کے اورپھر رسول بنایا قبل خلیل بنانےکے اورپھر خلیل بنایا قبل درجہ امامت سپر د کرنے کے جب پہلے تمام مراتب پر وہ فائز ہوچکے تب ارشاد فرمایا اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا  اوراس کے بعد امام نے ارشاد فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ عہد ہ امامت کی عظمت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم نے اپنےسابق عہدوں کے لیے اپنی اولاد کے لئے دعانہ مانگی لیکن جب منصب امامت پر فائز ہوئے تو فوراًاپنی اولاد کے لئے اسی عہدہ کو طلب کرنے کی خواہش پیدا ہوئی-
لَاْ یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ: خداوند کریم نے حضرت ابراہیم کی دُعا کو مستجاب فرمایاکیونکہ حضرت ابراہیم نے اپنی تمام اولاد کے لئے امامت نہیں طلب کی تھی، چنانچہ اپنی دعامیں یہ نہیں کہا تھاکہ اے پروردگار میری ساری اولاد کو عہدہ امامت عطافرمادے بلکہ ”مِنْ ذُرِّیَّتِیْ“ کہا تھا اور”مِنْ “تبعیض کا ہے جس کا معنی بعض ہوتا ہے یعنی اپنی اولاد کے بعض افراد کے لئے خواہش ظاہرکی تھی پس خدانے قبول فرمائی اوراس فقرہ سے تنبیہ فرمادی کہ عہدہ امامت ظالم کو نہیں پہنچ سکتا-
 اوراہل سنت کے علامہ بیضاوی نے اس آیت کی تفسیر میں اعتراف کیا ہے کہ اس سے ثابت ہوتا ہے  کہ فاسق کو امامت کا عہدہ نہیں مل سکتا- [3]
 پس یہ آیت نبوت وامامت کی عصمت کی واضح دلیل ہے اوریہاں ظلم سے مراد ہر قسم کی خدا کی نافرمانی ہے پس گناہِ صغیر ہ یا کبیرہ قبل از بعثت یا بعداز بعثت نبی ورسول سے سرزد ہونا عقلا ًباطل ہے اوریہ آیت اس فیصلہ کی نقلی طور پر برہانِ قاطع ہے، ظالم کا لفظ عام ہے خواہ عہد ہ ملنے کے وقت ظالم ہویا اس سے پہلے کسی وقت ظالم رہ چکا ہو اور تمام ظلموں سے شرک بڑا ظلم ہے جیسا کہ خداوند﷯ فرماتا ہے اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ پس جو لوگ اپنی زندگی کے کسی دَور میں مشرک وبت پرست رہ چکے ہوں یاکسی اورگناہ میں مبتلارہ چکے ہوں آیہ مجیدہ کی رُو سے وہ ظالم ہیں اور عہدہ امامت کے قطعاًلائق نہیں بلکہ اس عہدہ پر صرف وہی فائز ہو سکتا ہے جو ابتدائے عمر سے آخر تک تمام گناہوں سے بچاہواہو اورمعصوم ہو اورجناب رسالتمآب کے بعد وہ صرف اہل بیت﷨ہی ہیں-
 چنانچہ صاحب عمدة البیان نے مناقب خوارزمی سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسالتمآب نے فرمایا جس وقت حضرت ابراہیم نے دعاکی کہ میری اولاد میں بھی امام بنا اورخداوندکریم نے اُن کے جواب میں فرمایا کہ  میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا تو اُس وقت حضرت ابراہیم نے دعا کی وَ اجْنُبْنِیْ وَ بَنِیَّ اَنْ نَعْبُدَ الْاَصْنَامِ یعنی یکسورکھ مجھے اے خدااورمیری اولاد کو اس سے کہ پرستش کریں ہم بتوں کی، چنانچہ خدانے میرے اور علی کے حق میں اُن کی دُعاقبول کی اورمجھ کو نبی کیا اورعلی کو وصی کیا -
اوربرہان میں مناقب ابن مغازلی سے مروی ہے کہ عبد اللہ بن مسعود کہتا ہے کہ جناب رسالتمآب نے ارشاد فرمایا کہ میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا کا نتیجہ ہوں، میں نے عرض کیا یارسول اللہ آپ کیسے اپنے والد حضرت ابراہیم کی دعا کا نتیجہ ہو گئے ؟ آپ نے فرمایاکہ جب خدانے حضرت ابراہیم کو وحی کی کہ تجھے امام بناتا ہوں تو حضرت ابراہیم بہت خوش ہوئے، پس عرض کیا میرے اللہ میری اولاد سے بھی میری طرح امام بنا تو جواب ملاکہ میں ایک صورت میں تیری اولاد کو امامت کا عہدہ نہ دوں گا پس انہوں نےعرض کیا وہ کونسی صورت ہے؟ تو فرمایا وہ یہ کہ تیری اولاد میں سے ظالم کو یہ عہدہ نہ ملے گا،حضرت  ابراہیم نے پوچھا کہ میری اولاد میں سے ظالم کون ہوگا؟ توجواب ملاکہ جو بت پرستی کرے گا اس کو کسی وقت بھی یہ عہدہ تفویض نہ کروں گا اوروہ امام نہ ہوسکے گا، پس حضرت ابراہیم نے دعامانگی وَ اجْنُبْنِیْ وَ بَنِیَّ اَنْ نَعْبُدَ الْاَصْنَامِ اے اللہ مجھے اورمیری اولاد کو بت پرستی سے محفوظ رکھنا رَبِّ اِنَّھُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ اے ربّ انہوں (بتوں) نے بہت سوں کو گمراہ کردیاہے، پس اس کے بعد حضور نے فرمایاکہ حضرت ابراہیم کی دعا میرے اورعلی کے حق میں ثابت ہوئی کیونکہ ہم نے کبھی بت پرستی نہیں کی، پس خداوندکریم نے مجھے نبی بنایا اورعلی کو وصی یا (ولی) بنایا -
ربطِ بیان : قرآن مجیدمیں سورہ بقر ہ کے ابتدائی دو رکوع انسان کی تقسیم کے بارے میں تھے کہ انسان کی فطری طور پر تین قسمیں ہیں:
ایک منصف مزاج جو حق کو سن سمجھ کر قبول کرتے اوراس پر عمل پیرا ہوتے ہیں جن کو متقین کے مقدس لفظ سے ملقب کیا گیا-
دوسری قسم ضدی وعنادی لوگوں کی ہے جو کسی صورت میں اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آتے اورسن سمجھ کر حق سے اندھے گونگے اوربہرے ہوتے ہیں جن کو قرآن نے کافر کے لفظ سے موسوم کیا ہے-
تیسری قسم اُن لوگوں کی ہے جن کی فطرت میں دورنگی ہوتی ہے وہ حق والوں کے سامنے بھی جی ہاں اور باطل پرستوں کے سامنے بھی جی ہاں کرتے ہیں، وہ دونوں کے دشمن بھی اوردوست بھی ہوتے ہیں، ان کو اصطلاح قرآن میں منافق سے تعبیر کیا گیا ہے -
اس تمہید کے بعد قرآن نے دعوتِ حق کا بیان شروع کیا ہے اورچونکہ بنی آدم دوگروہوں میں منقسم تھے ایک وہ جو کسی کتابِ سماوی کی پیروی کا دعویٰ رکھتے تھے اوردوسرے عامۃ الناس جن کا کسی کتاب سے واسطہ نہیں تھا بلکہ دیکھا دیکھی اُن کا مذہب تھا جس طرح ماں باپ کو کرتے دیکھا اسی کے پیچھے لگ گئے وہ بت پوجتے تھے لہذا یہ بھی بت پوجنے لگے، وہ ستارہ پرست تھے، سورج پرست یا آتش پرست یا گاوٴ پرست وغیرہ تھے، تو یہ بھی اُنہی کے نقش قدم پر اُن جیسے ہوگئے -
پس دعوت حق میں پہلے پہل خداوند﷯نے عامۃ الناس کو خطاب فرماکر یَآ اَیُّھَاالنَّاسُ اتَّقُوْا سے نصیحت کی ابتدا فرمائی اورنصیحت کے تینوں طریقے استعمال فرمائے:
پہلے اپنے احسانات کاتذکرہ کہ میں نے تمہیں خلعتِ وجود عطا کیا اورزمین وغیرہ تمہارے لئے پیدا کی، پس میں ہی مستحق عبادت ہوں-
 اس کے بعد عذابِ جہنم کا خوف دِلایا جس کا ایندھن انسان اورپتھرہوں گے-
اورپھر اطاعت پر جنت کی بشارت بھی سنائی-
ان ہر سہ طریق کو استعمال کرنے کے بعد تمام انسانوں پر خصوصی نعمت کا احسان بیان فرمایاکہ دیکھو تمہارے باپ آدم کو پیدا کرکے میں نے اس کے سامنے ملائکہ جیسی نوری مخلوق کو سجدہ کرایا اوراس کی خاطر ابلیس کو نوریوں کی صف سے نکال کر مردودِ ابدی قراردیتے ہوئے دربارِ رحمت سے خارج کردیا لیکن پھر تم اُسی آبائی دشمن کے پھندے میں آکر میری عبادت سے منہ پھیرتے ہو؟ گو یا ان واقعات سے انسان کی رگِ حمیّت کو حرکت دی تاکہ انسان محسن اوردشمن میں فرق کرسکے-
ان کی دعوت کے بعد کلام کا رُخ ان لوگوں کی طرف فرمایا جو اپنے تئیں کسی کتابِ سماوی کے قائل وپیرو جانتے تھے اوروہ بنی اسرائیل تھے، ان کی دعوت میں وہی نصیحت کے تینوں طریقے استعمال فرمائے،ان پر اپنے خصوصی احسانات کا ذکر فرمایا اُن کی چالیس یازیادہ سرکشیوں کے باوجود اپنی رحمت درگزرکویاد دلایا، پھر عذاب سے خوفزدہ کیا اور ساتھ ساتھ اطاعت پر انعامات جنت کا وعدہ بھی فرمایا-
اب ان کو نصیحت کے ہرسہ طریق سے دعوتِ حق دینے کے بعد اُن کے جدّاعلیٰ پر احسانات کا تذکرہ فرمایا یعنی جس طرح بنی آدم پر عمومی احسانات کے جتلانے کے بعد بنی آدم کے باپ حضرت آدم پر نعمات کاذکر فرمایاتھا اسی طرح بنی اسرائیل پر عمومی پیغام حق پہنچانے کے بعد اُن کے باپ حضرت ابراہیم پر خصوصی نعمات کا ذکر شروع فرمایا ہے کہ دیکھو اس پر ہم نے کیاکیا احسانات کئے؟ اورکیا عہد لیا؟ اورتمہیں اُنہوں نے ہمارا کیا پیغام سنایا؟ اورباوجود ان سب باتوں کے تم کیا کررہے ہو ؟



[1] سورہ زخرف آیہ ۲۸
[2] تفسیر ابن کثیر ج ۱،مجمع البیان ج۱
[3] تفسیر بیضاوی ج۱ ص ۳۹۸

ایک تبصرہ شائع کریں