پاکیزہ رزق
یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ
اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتٍ مَّا کَسَبْتُمْ وَ مِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِنَ
الْاَرْضِ وَ لا تَیَمَّمُوا الْخَبیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَلَسْتُمْ
بِاٰخِذِیہِ اِلاَّ ٓاَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ وَاعْلَمُوْآ اَنَّ اللّٰہَ غَنِیّ
حَمِیْد( 267) اَلشَّیطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَآئ ِ
وَاللّٰہُ یَعِدُ کُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْہُ وَفَضْلاً وَاللّٰہُ وَاسِع عَلِیْم (268)
ترجمہ:
اے ایمان والو! (راہ خدا میں) خرچ کرو اپنے
پاکیزہ کسب سے اور ان چیزوں سے جو پیدا کیں ہم نے تمہارے لئے زمین سے اور نہ قصد
کرو بڑے مال کا کہ اس سے خرچ کرو حالانکہ تم خود ایسی چیز کا لینا پسند نہیں کرتے
مگر بصورت چشم پوشی اور جانو تحقیق اللہ غنی (اور) لائق حمد ہے o شیطان تمہیں فقر سے ڈراتا
ہے اور حکم دیتا ہے تم کو برائی کا اور خدا تم سے وعدہ بخشش و زیادتی کرتا ہے اور
اللہ صاحب وسعت و علم ہےo
تفسیر رکوع ۵
طَیِّبَاتٍ مَّا کَسَبْتُمْ: مفسرین نے
پاکیزہ کسب سے مراد تجارت لیا ہے چونکہ جناب رسول خدا سے مروی ہے رزق کے دس حصوں
میں سے نو حصے تجارت میں ہیں اور ایک حصہ باقی کسبوں میں ہے۔
اور آپ سے پاکیزہ رزق کے متعلق دریافت کیا
گیا تو فرمایا اس سے مراد ہے انسان کا اپنے ہاتھ سے کمانا اور نیکی سے خرید و
فروخت کرنا اس مقام پر اپنی حلال کمائی اور زمین کی پیداوار سے راہِ خدا میں خرچ
کرنا کا حکم ہے لیکن فرماتا ہے کہ جو چیز دو اچھی دو۔
وَ لا تَیَمَّمُوْا الْخَبِیْثَ: کا مقصد یہ
ہے کہ اپنے مال سے ردی اور نکمّی چیز کو راہِ خدا میں نہ دو۔
چنانچہ متعدد احادیث میں وارد ہے کہ بعض لوگ
جناب رسول خدا کے زمانہ میں بھی جب کھجوروں کی زکوٰة (صدقہ) ادا کرتے تھے تو اچھی
کھجور رکھ لیتے تھے اور ردی کھجور صدقہ میں پیش کرتے تھے جس کی گٹھلی موٹی اور
اوپر معمولی سا چھلکا ہوا کرتا تھا پس یہ آیت نازل ہوئی کہ ایسا نہ کیا کریں اور
فرماتا ہے کہ ایسی چیزیں راہ خدا میں نہ دو کہ اگر وہ تم کو لینی پڑ جائیں تو تم
ان کو لینے سے گریز کرتے ہو اور با دلِ نخواستہ قبول کرنے پر آمادہ ہوتے ہو۔
تفسیر برہان میں مروی ہے کہ ابراہیم نخعی کا
گزر ایک عورت سے ہوا کہ اپنے گھر کے دروازہ پر بیٹھ کر صبح سویرے چرخہ کات رہی تھی
اور نام اس کا امّ بکر تھا یہ کہنے لگا اے امّ بکر! تو تو بوڑھی ہے اب بھی چرخہ
کاتنے سے باز نہیں آتی؟ وہ کہنے لگی کہ میں اس کام کو کیسے چھوڑ دوں حالانکہ میں
امیر المومنین علی ؑ سے اپنے کانوں سن چکی ہوں کہ چرخہ کاتنا پاکیزہ رزق ہے۔
یُّوتِی الْحِکْمَةَ مَنْ یَّشَآئُ وَمَنْ
یُّوْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْراً وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّا
اُوْلُوا الْاَلْبَابِ (269) وَ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَّفَقَةٍ اَوْ نَذَرْتُمْ
مِّنْ نَّذْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُہ
وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ (270) اِنْ تُبْدُوْا الصَّدَقٰتِ
فَنِعِمَّا ھِیَ اِنْ تُخْفُوْھَا وَتُوْتُوْھَا الْفُقَرَآئَ فَھُوَ خَیْر
لَّکُمْ وَیُکَفِّرُ عَنْکُمْ مِّنْ سَیِّاٰ تِکُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْر ( 271)
ترجمہ:
دیتا ہے حکمت جسے چاہے اور جو بھی حکمت دیا
جائے پس اس کو گویا خیر کثیر دی گئی اور نہیں نصیحت قبول کرتے مگر صاحبانِ عقل و
دانش o اور جو
بھی تم خرچ کرو کوئی خرچ یا جو بھی تم نذر مانو کوئی نذر پس تحقیق اللہ اس کو
جانتا ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا o اگر تم ظاہر بظاہر دو صدقات
تو خوب ہے اور اگر خفیہ طور پر دے دوفقراکو تو وہ بہتر ہے تمہارے لئے اور کفارہ
ہوگا تم سے تمہاری برائیوں کا اور اللہ تمہارے اعمال سے آگاہ ہےo
حکمت
اور خیر ِکثیر
یُوْتِی الْحِکْمَةَ: روایاتِ امامیہ میں
اہل بیت سے حکمت کی تفسیر اطاعت خدا معرفت امام اور گناہوں سے اجتناب کی گئی ہے
اسی طرح خیر کثیر سے مراد بھی معرفت ولایت آئمہ طاہرین علیہم السلام لی گئی ہے
(برہان)
مجمع البیان میں ابن عباس و ابن مسعود سے
مروی ہے کہ حکمت قرآن سے مراد ہے علم قرآن یعنی ناسخ و منسوخ محکم و متشابہ مقدم و
موخر حلال و حرام اور امثال وغیرہ بعض نے کہا ہے کہ حکمت کا مطلب ہے گفتار و کردار
کی صحت اور اسی طرح علم دین نبوت معرفت فہم خوف خدا قرآن و فقہ وغیرہ بھی مفسرین
نے حکمت سے مراد لئے ہیں۔
جناب رسالتمآب سے مروی ہے کہ خدا نے مجھے
قرآن و حکمت عطا فرمائی ہے اور جس گھر میں حکمت نہیں وہ گھر بر باد ہے اللہ سے ڈرو
فقہ حاصل کرو اور علم سیکھو تاکہ جاہل ہو کر نہ مرو؟
امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ حکمت کا
معنی ہے معرفت اور دین میں فقہ حاصل کرنا پس جس نے فقہ حاصل کر لی وہ صاحب حکمت ہے
اور کسی مومن کی موت ابلیس کو ایک فقیہ کی موت سے محبوب تر نہیں ہے۔
جناب رسالتمآب سے مروی ہے کہ خدا نے اپنے
بندوں پر جو نعمات تقسیم فرمائی ہیں ان میں عقل و علم سے بہتر اور کوئی نعمت نہیں
ہے کیونکہ:
عاقل
(عالم) کی نیند جاہل کی شب بیداری سے افضل ہے
عاقل
(عالم) کا گھر رہنا جاہل کے سفر سے بہتر ہے
خدا
نے کسی نبی و رسول کو مبعوث نہیں فرمایا جب تک کہ اس کو عقل و علم میں کامل نہیں
کیا
نبی
کا عقل و علم تمام امت کے عقول و علوم سے افضل ہوتا ہے
انبیا کی پوشیدہ باتیں کوشش کرنے والوں کی
ظاہری کوششوں سے بہتر ہوا کرتی ہے اور کسی انسان کا فریضہ کو ادا کرنا درست نہیں
انجام پاتا جب تک اس کو اس کا علم نہ اور تمام عبادت گزار مل کر بھی عبادت کا وہ
مرتبہ حاصل نہیں کر سکتے جو ایک عالم کو عطا ہوتا ہے اور انہی کو خدا نے اُوْلُوا
الْاَلْبَابِ کہا ہے، اور حضرت امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ حکمت معرفت کا نور
تقویٰ کی میراث اور سچائی کا پھل ہے، اگر میں کہوں کہ نعماتِ خدا وندی میں سے کوئی
نعمت حکمت سے زیادہ قیمتی اور بلند تر نہیں ہے تو بجا ہوگا۔
انفاق فی سبیل اللہ
وَ مَا اَنْفَقْتُمْ: یعنی انسان جو بھی
خیرات کرے خواہ صدقہ واجبہ ہو یا مستحبہ اور جو بھی نذر کرے خدا سب کو جانتا ہے
اور اس کے بعد فرماتا ہے کہ ظا لمین کا مدد گار کو ئی نہ ہو گا، مقصد یہ ہے اگر
صدقہ و نذر میں ظلم کرے گا مثلاً صدقہ ریاکار ی کے لیے کرے یا مالِ حرام سے کرے یا
کسی اور غرضِ باطل کے پیش نظر کرے اور طرح نذر اور منت خدا کی نافرمانی میں کرے
اور کسی ناجائزکام کے لیے کرے یانذر غیرطریق شرعی سے کرے تو خدا اس کو سزادے گا
اور اس کا کو ئی ناصر و مدد گار نہ ہو گا پس اگر نیت نیک سے کام کرے تو مستحق
جزاورنہ مستحق سزا ہو گا۔
اِنْ تُبْدُ وا الصَّدَ قَاتِ: حضرت امام
محمد باقرؑ سے منقول ہے کہ ظاہر بظاہر جن صدقات کا دینا بہتر ہے اس سے مراد صدقاتِ
مستحبہ ہیں اور اسی مضمون کی امام جعفر صادقؑ سے بھی متعدد روایات منقول ہیں اور
تفسیر مجمع البیان میں خفیہ طور پر اور چھپا کر صدقہ دینے کے متعلق منقول ہے کہ
چھپا کر صدقہ دینا للہ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور گناہوں کو اس طرح بجھاتا ہے جس
طرح پانی آگ کو بجھاتا ہے اور ستر قسم کی مصیبتوں کو دور کرتا ہے۔
نیز معصوم ؑ نے فرمایا کہ سات قسم کے آدمیوں
کو خدا بروز محشر اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے گا جس دن اس کے سوا اور کوئی سایہ کا
مقام نہ ہو گا:
امامِ
عادل جوانِ عبادت گزار مساجد سے محبت رکھنے والا وہ مرد جس کو حسن و جمال والی عورت بدکاری کی
دعوت دے اور وہ خوفِ خدا کو ملحوظ رکھ کر اس کو ٹھکرا دے
وہ
شخص جو عالم تنہائی میں خدا کو یاد کر کے روئے اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلیں
دو
شخص جو خوشنودی خد اکےلئے ایک دوسرے سے محبت کریں اور اسی پر ان کی نشست و برخاست
ہو
وہ
شخص وجو خفیہ طور پر اور چھپا کر صدقہ دے حتیٰ کہ اس کے بائیں ہاتھ کے فعل کی
دائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو مقصد یہ ہے کہ اس کے قریب ترین رشتہ دار اور دوست بھی
مطلع نہ ہو سکیں
لَیْسَ عَلَیْکَ ھُدٰ ھُمْ وَلٰکِنَّ
اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ وَمَاتُنْفِقُوْامِنْ خَیْرٍ فَلِاَ نْفُسِکُمْ
وَمَاتُنْفِقُوْنَ اِلَّاابْتِغَآئَ وَجْہِ اللّٰہِ وَمَاتُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ
اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لاتُظْلَمُوْنَ (272) لِلْفُقَرَآئِ الَّذِیْنَ
اُحْصِرُوْافِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَایَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًافِی الْاَرْضِ
یَحْسَبُھُمُ الْجَاھِلُ اَغْنِیَآئَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُھُمْ بِسِیْمٰھُمْ
لایَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا
وَمَاتُنْفِقُوْامِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہ عَلِیْم( 273)ع
ترجمہ:
نہیں ہے تیرے اوپر واجب ان کا راہِ ہدایت پر
لانا اللہ راہ ِ ہدایت پر لاتا ہے جسے چاہے اور جو کچھ تم خرچ کرو کارخیر میں وہ
تمہارے اپنے لئے ہی ہے اور تم نہیں خرچ کرتے مگر واسطے طلب رضائے خدا کے اور جو
بھی تم خرچ کرو کار خیر میں (اس کا بدلہ) پورا دیا جائے گا تمہیں اور تم کو کوئی
خسارہ نہ دیا جائے گاo (یہ صدقات) ان فقراکے لئے ہیں جو بند ہو گئے ہوں
اللہ کے راستے میں جو نہ طاقت رکھتے ہوں کسی طرف جانے کی زمین میں جاہل سمجھتے ہیں
کہ ہو غنی ہیں بوجہ ترک سوال کے تم ان کو پہچانو گے ان کی علامتوں سے وہ نہیں سوال
کرتے لوگوں سے گڑگڑاتے ہوئے اور جو بھی خرچ کرو کارِ خیر میں تحقیق اللہ اس کے
جاننے والا ہےo
لَیْسَ
عَلَیْکَ ھُدَاھُمْ : مقصد یہ ہے کہ صدقات کے ادا کرنے کا طریقہ آپ ان کو بیان
فرما دیں اس کے بعد وہ عمل کریں یا نہ کریں اس کی ذمہ داری آپ پر نہیں آپ کا کام
ہے صرف راہ ردکھا دینا ان کو مجبور کر کے راہِ راست پر لانا آپ کا فریضہ نہیں ہے۔
وَ مَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا : یعنی اے
مومنو! تمہاری تو شان ہی یہی ہے کہ صرف خوشنودی خدا کے پیش نظر تم خرچ کرنے والے
بنو اور تمہاری شان سے بعید ہے کہ ریاکاری یا احسان جتلانے یا اذیت دینے کےلئے تم
خرچ کر و اور ممکن ہے جملہ خبر اور معنی انشا میں ہو۔
بحار الانوار ج ۵۱ باب السخاجمیل بن درّاج
نے حضرت امام جعفر صادقؑ سے روایت کی ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا کہ تمہارے اچھے وہ ہیں
جو سخی ہوں اور تمہارے برے وہ ہیں جو بخیل ہوں برادرانِ ایمانی سے حسن سلوک اور ان
کی حاجت برا ٓوری عمل صالح ہے اور شیطان کی ذلت دوزخ سے دوری اور بہشت میں داخلے
کا وسیلہ ہے، پس یہ حدیث اپنے بر گزیدہ صحابیوں تک پہنچا دینا جمیل نے عرض کیا
حضور ! پسندیدہ و بر گزیدہ صحابی کون ہےں؟ تو فرمایا کہ جو برادرانِ ایمانی کے
ساتھ تنگی و خوشحالی میں احسان سے پیش آئیں آپ ؑ نے فرمایا جو شخص اپنے مال سے حق
واجب نکال کر مستحقین تک پہنچا دے وہ سخی ہے اور جو حقوق واجبہ ادا نہ کرے وہ بخیل
ہے۔
حضرت
امیر المومنین ؑ سے منقول ہے کہ نیکی کے راستے تین ہیں: سخاوت ، خوش گفتاری ، صبر
جناب رسالتمآب نے عدی بن حاتم طائی سے
فرمایا کہ تیرے باپ کو سخاوت نے عذاب شدید سے بچا لیا ہے نیز آپ نے چند وا جب
القتل لوگوں کے قتل کا حکم صادر فرمایا اور ان میں سے ایک کو مستثنیٰ قرار دے دیا
تو اس شخص نے اپنے قتل نہ کئے جانے کی وجہ پوچھی؟ تو آپ نے فرمایا کہ مجھے بذریعہ
وحی اطلاع ملی ہے کہ تو سخی ہے لہذا تجھ سے قتل کی سزا مر فوع ہے پس فوراً اس نے
کلمہ شہادتین جاری کیا اور مسلمان ہو گیا، حضرت امیر المومنین ؑ فرماتے ہیں کہ
سخاوت نے اس کو جنت تک پہنچا دیا مروی ہے کہ سخی نوجوان جو اپنے گناہوں کا معترف
ہو اُس سن رسیدہ عابد سے اللہ کو محبوب تر ہے جو بخیل ہو۔
جناب رسالتمآب نے فرمایا کہ لوگ چار قسموں
پر ہیں: سخی ، کریم ، بخیل ، لئیم
سخی
وہ ہے جو خود بھی کھائے اور دوسروں کو بھی کھلائے
کریم
وہ ہے جو دوسروں کو اپنے نفس پر ترجیح دے یعنی خود نہ کھائے
بخیل
وہ ہے جو خود کھائے دوسروں کو کچھ نہ دے
لئیم
وہ ہے جو نہ خود کھائے اور نہ دوسروں کو کھانے دے
لِلْفُقُرَآئِ: اس سے پہلی آیات میں صدقات
کی ترغیب و ثواب اور دینے کا طریقہ وغیرہ بیان فرمایا، اس آیت مجیدہ میں صدقہ کے
مصرف کا ذکر ہے کہ تمہارے صدقات ایسے فقراکو ملنے چاہییں جو راہ خد امیں بند ہوں
یعنی عبادتِ خدایا تحصیل علوم دینیہ یا اسی قسم کے اور مشاغل شرعیہ میں وہ اس قدر
مصروف ہوں کہ نہ تجارت کر سکیں اور نہ کسی دوسرے طریقہ سے کسب معاش کر سکیں اور
سوال کرنا بھی پسند نہ کرتے ہوں، جاہل لوگ ان کے سوال نہ کرنے سے ان کو غنی سمجھیں
حالانکہ ان کے چہروں اور جسمانی کمزوری کی علامتوں سے خود بخود معلوم ہو جائے گا
کہ یہ لوگ مستحق ہیں۔
دورِ حاضر میں یہ صفت صرف دینی مدارس کے
دینی طلبہ میں ہی پائی جاتی ہے جو موجودہ لادینیت کی بڑھتی ہوئی رفتار کی زد سے بچ
کر اور لا مذہبیت کی عام رو سے علیحدہ ہو کر علم دین کی تحصیل میں شب و روز مصروف
ہیں نہ تو ان کے پاس خود کمانے کا وقت ہوتا ہے اور نہ دیگر مسلمانوں کے مدارس کے
طلبہ کی طرح بھیک مانگ کر غیرت کشی کو پسند کرتے ہیں لہذا ان پر صدقات وغیرہ کا
خرچ کرنا سب سے بہتر اور افضل ہے۔
حدیث میں ہے کہ خدا اپنے بندے پر اپنی نعمت
کا اثر دیکھنا پسند فرماتا ہے اور بدحالی کے اظہار کو ناپسند فرماتا ہے اور اپنے
بندوں سے حلیمِ خود دارکو محبوب رکھتا ہے اور سائلِ بے حیا کو مبغوض رکھتا ہے۔
نیز فرمایا کہ خداتین چیزوں کو ناپسند
فرماتا ہے: قیل و قال ، کثرتِ سوال ، تضییع مال
اور فرمایا ہاتھ تین ہیں: اللہ کا ہاتھ بلند
ہے اور دینے والے کا ہاتھ اس کے نیچے ہے اور مانگے والے کا ہاتھ قیامت تک پست ہی
رہے گا۔
اور فرمایا کہ کفایت کے باوجود جو سوال کرے
بروز محشر اس کا چہرہ بد نما ہو گا اور اس پر خراش کے نشان ہوں گے۔