التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

کتاب کے معنانی بدلنے والے

کتاب کے معنی بدلنے والے

کتاب کے معنی بدلنے والے 
أَوَلَا يَعْلَمُوْنَ أَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ7)7( وَ مِنْهُمْ أُمِّيُّوْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ إِلَّا أَمَانِیَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّوْنَ 8)7( فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ يَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُوْلُوْنَ هٰذَا مِنْ عِندِ اللّٰهِ لِيَشْتَرُوْا بِهِ ثَمَناً قَلِيْلاً فَوَيْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا يَكْسِبُوْنَ 9)7(  وَقَالُواْ لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَّعْدُوْدَةً قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ اللّٰهِ عَهْدًا فَلَن يُّخْلِفَ اللّٰهُ عَهْدَهُ أَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلٰى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(80) بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَّأَحَاطَتْ بِهِ خَطِٓيْئَتُهُ فَأُوْلٰٓئِكَ أَصْحٰبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (81)وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيْهَا خَالِدُوْنَ(82)
ترجمہ:
کیا وہ نہیں جانتے تحقیق اللہ جانتا ہے جس چیز کو چھپائیں اور جس چیز کو ظاہر کریں7)7( اور بعض ان میں سے اَن پڑھ ہیں جو نہیں جانتے کتاب کو مگر خالی آرزو ئیں اور ان کے پاس کچھ نہیں مگر خیالی پلا وٴ8)7( پس ویل ہے ان لوگوں کے لئے جو لکھتے ہیں کتاب کو اپنے ہاتھوں سے پھر کہتے ہیں یہ ا للہ کی طرف سے ہے تاکہ حاصل کریں ساتھ اس کے مال قلیل پس ویل ہے ان پر ان کے ہاتھوں کے لکھے ہوئے کی وجہ سے اور ویل ہے ان پر ان کے کسب کئے ہوئے کی وجہ سے9)7(  اور کہا انہوں کے ہرگز ہم کو آتش جہنم نہ چھوئے گی مگر چند دن گنے چنے )ان کو( کہو کیا لیا ہے تم نے اللہ سے وعدہ پس ہرگز نہ خلاف کرے گا اپنے وعدہ سے یاتھوپتے ہو اوپر اللہ کے ایسی بات جو تم نہیں جانتے (80) بے شک جو بھی کسب کرے برائی کا اور گھیر لیں اس کو گناہ اس کے پس وہ دوزخی ہیں اس میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے(81) اوروہ لوگ جوایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کئے وہ جنتی ہیں وہ اس )جنت( میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے(82)
اَوَلَا یَعْلَمُوْنَ: خداوند کریم ان کے خیالاتِ فاسدہ کی تردید فرمارہاہے کہ خواہ وہ مسلمانوں سے بیان نہ کریں اورچھپانے میں کتنی ہی احتیاط کریں میں تو ان کی خفیہ وظاہر سب باتوں کو جانتا ہوں-
اُمِّیُّوْنَ: اُمی کی جمع ہے جو لکھ پڑھ نہ سکتا ہو، اُمّ کی طرف منسوب ہے یعنی جس طرح ماں کے شکم سے پیدا ہوا تھا اوراس وقت کچھ نہ جانتا تھااب بھی اسی طرح کچھ نہیں جانتا، یعنی وہ مادرزاد جاہل ہیں اوراپنے خیالی اندازے سے یہ آرزو رکھتے ہیں کہ ہم جنتی ہوں گے اوراُن بے علم یہودیوں کی مذمت ہے جو بے سمجھے سوچے اپنے علمائے سوءکی تقلید کرتے تھے لہذا اُس سے یہ نتائج برآمد ہوتے ہیں:
   اصول دین میں جہاں علم حاصل کرنا واجب ہے اور ممکن بھی ہو وہاں تقلید نا جائزہے-
   کتاب کی حجت عالم لوگوں پر قائم ہے اور ان پر واجب ہے کہ خود کتاب کے معنی کو سمجھیں -
   کتاب کے معنی کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے صرف پڑھ لینا کافی نہیں-
تفسیر امام حسن عسکری سے منقول ہے  کہ حضرت امام جعفر صادق سے سوال کیا گیا کہ عوام یہود و نصاریٰ جو خود کتاب کا علم نہ رکھتے تھے اوران کا دین اپنے علماسے سنی سنائی چیزوں کے تابع تھا اورخدانے ان  )عوام( کی اس لئے مذمت کی ہے کہ وہ اپنے علماکی تقلید میں تھے پس جب ان )عوام(  کے لئے  علماکی تقلید حرام تھی تو ہماری عوام کےلیے علما کی تقلید کیسے جائز ہے؟ آپ نے فرمایا  ہمارے عوام وعلما اور یہود کے عوام وعلمامیں فرق بھی ہے اورایک لحاظ سے مساوات بھی ہے:
عوام یہود کو معلوم تھا کہ اُن کے علماجھوٹ بولتے ہیں، حرام کھاتے ہیں، رشوت لیتے ہیں اورسفارشوں، رشتہ داریوں اوررواداریوں کی بنا پر احکام خدا کو تبدیل کردیتے ہیں جن لوگوں پر ناراض ہوں اُن کو حقوق سے محروم کردیتے ہیں اورجن پر راضی ہوں   اُن کو ناحق اموال دلواتے ہیں وغیرہ، لہذا خداوند کریم نے ان کو اس اندھا دھند تقلید کی مذمت فرمائی ہے-
اسی طرح ہمارے عوام بھی ا گر اپنے علماکو فاسق، کنبہ پر ور، مال دنیا کے طالب اورحرام خور پائیں کہ جس پر راضی ہوں اس کو نا حق مال دلوائیں اور جس پر ناراض ہوں اس کو اپنے جائز حقوق سے بھی محروم کر دیں غرضیکہ بددیانت ہوں توایسے علما کی تقلید کرنے میں ہمارے عوام اور یہود کے عوام میں کوئی فرق نہیں ہے-
لیکن مَنْ کَانَ مِنَ الْفُقَھَاءِ صَائِناً لِنَفْسِہِ حَافِظاً لِدِیْنِہِ مُخَالِفاً لِھَوَاہُ مُطِیْعاً لِاَمْرِ مَوْلاہُ فَلِلْعَوَامِ اَنْ یُّقَلِّدُوْہُ  فقہا میں سے جو شخص اپنے نفس کو حرام سے بچانے والا، دین کا نگہبان، خواہش نفس کا مخالف اور اپنے مولا کے فرمان کا مطیع ہو پس عوام کے لیے اس کی تقلید کرنا جائز ہے اوراس صفت سے ہمارے بعض شیعہ فقہا متصف ہیں سب نہیں، روایت طویل ہے میں نے حسب ضرورت ایک حصہ کا مختصر سا ترجمہ پیش کیا ہے اور یہ حدیث اس تفسیر کی جلد اوّل یعنی مقدمہ میں تقلید کے باب میں مفصل لکھی جا چکی ہے -[1]
فَوَیْلٌ لِلَّذِیْنَ: یہ اُن علماکی مذمت ہے جو کتابِ خدا میں اپنی طرف سے اپنی خواہشات کے مطابق احکام داخل کر کے یا جناب رسالتمآب کی صفات میں تبدیلی کرکے لکھ دیتے تھے اور عوام یہود کو سناتے تھے تاکہ اُمراسے رقمیں وصول کر لیں اور عوام کو دین اسلام سے منحرف کر کے ان پر اپنا وقار قائم رکھیں اور ان سے سالانہ اپنے مقرر شدہ وظائف وصول کرکے شکم پری کرتے رہیں، کیونکہ تورات میں جوجناب رسالتمآب کی صفات درج تھیں اگر عوام کے سامنے وہ بیان کرتے تو عوام اسلام کے حلقہ بگو ش ہوکر ان سے کنارہ کش ہو جاتے اور ان کے دلوں سے ان کا وقار ختم ہو جاتا اور سالانہ آمدنی میں کمی واقع ہوجاتی-
وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُالخ: ابن عباس سے منقول ہے کہ جب جناب رسالتمآب مدینہ میں وارد ہوئے تو یہود یہ کہتے تھے کہ مدتِ دنیا کل سات ہزار سال ہے اورگنہگا رکو ہر ہزار سال کے بدلہ میں ایک دن عذاب ہو گا یعنی کلیہ سات دن عذاب ہو گا پھر ختم ہو جائے گا-
بعض کہتے ہیں کہ ان کا اعتقاد تھا کہ ہم پر عذاب کی کل مدت چالیس دن ہو گی جتنے دن ہم نے گوسالہ پرستی کی تھی، پس یہ آیت نازل ہوئی اوران کے اس خیال کی پر زور مذمت کی گئی –
مَنْ کَسَبَ سَیِّئَةٍ الخ: روایات اہل بیت﷨ میں ہے کہ ”سَیِّئَہ“ سے مراد انکار ولایتِ علی بن ابی طالب ہے، جناب رسالتمآب سے سوال کیا گیا کہ اصحابُ النار سے کون لوگ مراد ہیں؟ تو آپ نے فرمایا جو حضرت علی سے جنگ کریں اورحضرت علی کو فرمایا یاعلی حَرْبُکَ حَرْبِی وَ سِلْمُکَ سِلْمِی یعنی اے علی تیرے ساتھ لڑائی میرے ساتھ لڑائی ہے اور تیرے ساتھ صلح میرے ساتھ صلح کے مترادف ہے الخبر
اور ان آیات میں یہودیوں کے عقیدہ کی تردید ہے یعنی جو برائی کا کسب کریں گے وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے، سات روز یا چالیس روز کا خیال دل سے نکال دیں اور جو نیکی کریں گے ایمان کے ساتھ وہ جنت میں جائیں گے اور وہاں وہ بھی ہمیشہ رہیں گے-



[1] تفسیر انوار النجف فی اسرار المصحف ج ۱، احتجاج ج۲ ص ۲۶۳، بحار الانوار ج ۲ ص۸۸، وسائل الشیعہ باب ۱۰ کتاب القضا

ایک تبصرہ شائع کریں