فائدہ: چونکہ تلاوتِ کلامُ
اللہ معنوی طور پر حق سبحانہ سے مکا لمہ کی حیثیت رکھتی ہے لہذا شروع سے پہلے تمام
ان علائق خارجیہ سے جو فیضانِ انوارِ قدسیہ سے حرمان یا بُعد کا موجب ہوں اپنے دل
ودماغ کو پاک وصاف کر لینا ضروری ہے اور وساوسِ شیطانیہ کے جال سے طائر خیا ل کو
آزاد کرکے تلاوت کرنا تاکہ فیوضِ قدسیہ الٰہیہ سے زیادہ سے زیادہ بہر ہ ور ہوسکے
لہذا تلاوت سے قبل اَعُوذُبِاللّٰہِ
مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم پڑھے یعنی اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اس شیطان سرکش
سے جو راندہ درگاہِ خدا او ر لعنت کا نشانہ ہے، خود ذا تِ احدیت کا ارشاد ہے کہ فَاِذَا
قَرَاْتَ القُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیْم
یعنی جب قرآ ن پڑھو تو شیطانِ رجیم سے
اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو[1]
اور اسی کو ”استعاذہ“ کہتے ہیں، سورہ فاتحہ پڑھنے سے پہلے بھی اس کا پڑھنا مستحب
ہے اور اسی وجہ سے گو فاتحہ بلکہ قرآن کے کسی سورہ کا یہ جزو نہیں لیکن سورہ فاتحہ
سے پہلے اس کو لکھا جاتا ہے تاکہ پڑھنے والا جب بھی ابتدا سے تلاوت کرے تو پہلے
استعاذہ کر لیا کرے اور پھر قرآن پڑھے، اسی طرح نماز میں بھی سورہ فاتحہ سے پہلے
آہستہ سے استعاذہ پڑھنا مستحب ہے-
فائدہ : سورہ فاتحہ میں جب انسان اوّل منازلِ معرفت کی سیر کرتا ہے
اور پھر مقام اطاعت میں اپنے آپ کو پاکر اپنے مالک حقیقی سے مکالمہ کا شرف حاصل
کرتا ہے اور اس سے راہِ حق پر ثبات قدمی کی دعا مانگتا ہے تو اس وقت گویا تمام
علائق و موانع خارجیہ سے منقطع ہو کر اپنی ذات کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ ا قدس
میں پاکر قربت خداندی کی لذتوں سے بہرہ اندوزہوتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ خدا کے
غضب کردہ اور راہِ راست سے بھٹکے ہوئے لوگوں میں سے میرا شمار نہیں لہذا اختتام
سورہ فاتحہ میں اگر نماز باجماعت ہو تو پیش نماز جب کہے وَلا
الضَّآلِّین آہستہ سے مقتدی کہیں اَلحَمدُ
لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِین گویا معنوی طور پر پیش نماز کی قراٴت
اپنے اور مقتدیوں کے راہِ حق پر گامزن ہونے اور نماز کے مقبول ہو نے کی بشارت ہوتی
ہے لہذا مقتدیوں کےلئے بطورِ شکر آہستہ سے اَلحَمدُ
لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِین پڑھنا مستحب ہے ہمارے نزدیک آمین کہنا اس
مقام پر بے جا ہے اور اگر نماز میں عمداً کہے گا تو نماز باطل ہو گی-