عقیدہ جبریہ کی تردید
اصول کافی باب ُالجبر والقدر سے مروی ہے کہ حضرت امیر
المومنینجنگ صفین سے واپسی کے بعد کوفہ میں تشریف فرماتھے کہ ایک بوڑھا آدمی دو زانوہو
کر خدمت ِاقدس میں بیٹھ گیا اورعرض کیا یا امیر المومنین ! فرمایئے ہماری شام پر فوج کشی قضا
وقدر سے تھی؟ آپ ؑنے فرمایا ہاں اے شیخ تمہارا ہر بلندی پر چڑھنا یا ہر پستی سے
اُترنا اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر سے تھا، پس اُس نے عرض کیا کہ پھر میں اپنی اِس
تکلیف ومشقت کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں آپ ؑنے فرمایا اے بوڑھے خاموش رہو!
خدا کی قسم تمہاری اِس روانگی میں (حالت سفر یا حالت قیام یا حالت واپسی ہر حال
میں) خداوند نے تمہارے لئے اجر ِعظیم مقرر فرمایا تم ان حالات میں مجبور و مضطر
نہیں تھے (بلکہ تم نے اپنے اختیار سے سب کچھ کیا لہذا تم مستحق اَجر ہو)
بوڑھے نے عرض کیا حضور! واضح
فرمائیے؟ جب ہمارا جانا اور آنا سب قضا و قدر سے تھا تو ہم مجبور و مضطر کیوں نہ
تھے؟ آپ ؑنے فرمایا کیا تو نے یہ سمجھا ہے کہ قضا حتمی اور قدر ضروری تھی؟ قضا و
قدر حتمی و لازمی نہ تھی بلکہ بندے کے ذاتی اختیارکو اُس میں دخل تھا، اگر قضا
حتمی اور قدر ضروری ہوتی تو ثواب و عذاب، امر ونہی اور اَجر وغیرہ باطل ہو جاتے
اور وعدو و عید لغوہوجاتے، نہ بد کار قابل ملامت ہوتا اور نہ نیک لائق ستائش قرار
دیا جاتا بلکہ گنہگار نیک کی بہ نسبت انعام و اکرام کا زیادہ مستحق ہوتا اور نیک
بد کار کی نسبت سزا کا زیادہ سزا وار ہوتا، اِس قسم کا اعتقاد بت پرستوں خدا کے
دشمنوں شیطان والوں اور اِس امت کے قدریہ و مجوسیہ کا ہے، تحقیق خدا وند کریم نے
اختیار دے کر مکلف بنایا اور جہنم سے بچنے کیلئے اپنے نواہی ارشاد فرمائے ہیں وہ تھوڑی سی نیکی پر اجر
ِکثیر عطا فرماتا ہے اُس کی نافرمانی ا س لئے نہیں ہوتی کہ وہ مغلوب ہے اُس کی عطا
اسلئے نہیں کہ وہ مجبور ہے اور انسان کو مالک اس طرح نہیں بنایا کہ وہ مختارِ کل
ہے، بلکہ جب چاہے انسان کے اختیارات واپس لے سکتاہے، آسمان و زمین اوراِن کی
درمیانی مخلوق کو فضول پیدا نہیں کیا اور بشارت و اِنذار کیلئے نبیوں کو عبث نہیں بھیجا، یہ عقائد کافروں کے ہیں اور
کافروں کیلئے وَیل ہے
جہنم سے-
یہ سن کر بوڑھے نے فوراً یہ شعر پڑھے:
اَنتَ
الاِ مَامُ الَّذِی نَرجُوا بِطَاعَتِہ
یَومَ النَّجَاةِ مِنَ الرَّحمٰنِ غُفرَانًا
آپ ؑوہ امام ہیں کہ جن کی اطاعت کی بدولت قیامت کے دن ہم خداوند سے بخشش کی اُمید رکھتے ہیں-
اَوضَحتَ
مِن اَمرِنَا مَا کَانَ مُلتَبِسًا جَزَاکَ
رَبُّکَ بِالاِحسَانِ اِحسَاناً
مروی ہے کہ ایک مرتبہ
ابوحنیفہ حضرت امام موسیٰ کا ظم کے پاس سے گزرا اور آپ ؑسے دریافت کیا کہ بتایئے گناہ کا مرتکب کون ہے؟ آپ ؑنے
فرمایا بیٹھ جاوٴ تا کہ میں بیان کروں پس وہ بیٹھ گیا تو آپ ؑنے فرمایا کہ تین
صورتیں ہیں: گناہ یا تو بندے سے ہوتا ہے، یا اللہ سے ہوتا ہے، یادونوں شریک ہیں-
اگر اللہ سے ہے تو وہ اجل
واعلیٰ ہے کہ اپنے کمزور بندے کو سزادے ایسے کام کی جس میں اُس کاقصور نہ ہو، اگر
اللہ اوربندہ دونوں شریک ہیں تو قوی کو کمزرو پر رحم کرنا چاہیے اوراگر صر ف بندہ
ہی مرتکب فعل ہے تو جزاوسزاکا تعلق بھی اُسی سے ہے اوراَمرونہی بھی اُسی کے لئے ہے
اورثواب وعقاب کا مستحق بھی وہ خود ہے-
مروی ہے کہ ایک مرتبہ حجاج
بن یوسف نے حسن بصری، عمروبن عبید،واصل بن عطا اور عامر شعبی کو خطوط لکھے کہ قضا
وقدر کے متعلق اُن کے پاس جو صحیح مسلک ہو تحریر کریں-
• حسن بصری نے ا ُس
کو لکھا کہ قضا وقدر کے مسئلہ میں فیصلہ کن بات جو مجھ تک پہنچی ہے وہ حضرت امیر
المومنینکا فرمان ہے:
اَتَظُنُّ اَنَّ
الَّذِی نَھَاکَ وَ ھَاکَ اِنَّمَا دَھَاکَ اَسفَلَکَ وَ اَعلاکَ وَ اللّٰہُ بَرِی
مِّن ذَاکَ
ترجمہ: کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ جس نے تجھے ایک چیز سے منع کیا ہے
اُسی نے تجھے اُس کام میں دھوکادیا ہے اورتجھے مبتلاکرکے تجھے نیچے کردیا اورخود
بلند ہوگیا خدا اس سے بیزار ہے- [2]
• عمروبن عبید نے
لکھا کہ قضا وقدر کے معاملہ میں حضرت امیرالمومنین کا فرمان جو مجھے پہنچا ہے اس سے بہتر اور کوئی نظریہ ہو ہی نہیں سکتا:
لَو کَانَ
الوِزرُ فِی الاَصلِ مَحتُومًا کَانَ الوِزرُ فِیہِ مَظلُوماً
ترجمہ: اگر گناہ دراصل محتوم ہوتا توگنہگار گنہگار نہ ہوتا بلکہ
مظلوم ہوتا -[3]
• واصل بن عطا نے
لکھا کہ مسئلہ قدر وقضا میں حضرت امیرالمومنین کا فرمان آخری فیصلہ ہے:
اَیَدُلُّکَ
عَلٰی الطَّرِیقِ وَ یَاخُذُ عَلَیکَ المَضِیقَ
• عامر شعبی نے
لکھا کہ قضا وقدر میں حضرت امیرالمومنین کے فیصلے سے اورکوئی فیصلہ بہتر نہیں آپؑ فرماتے ہیں:
کُلَّمَا
استَغفَرتَ اللّٰہَ مِنہُ فَھُوَمِنکَ وَکُلَّمَا حَمِدتَّ اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیہِ فَھُوَ مِنہُ
ترجمہ: ہر وہ فعل جس کی
معافی تو اللہ تعالی سے طلب کرے سمجھ لے کہ وہ تیرا فعل ہے اورہر وہ فعل جس پر تو
اللہ تعالی کی حمد کرے پس سمجھ کہ وہ اس
کا فعل ہے- [5]
جب حجاج کے پاس یہ خطوط پہنچے اور اُس نے پڑھے
توکہاکہ خداکی قسم یہ اَقوال ایسے صاف وشفاف علمی چشمے سے ماخوذ ہیں جن میں میل ہو
ہی نہیں سکتی-
رُوِیَ اَنَّ رَجُلًا سَاَلَ جَعفَرَ بنَ
مُحَمَّدٍ نِ
الصَّادِقِ عَنِ القَضَاءِ وَالقَدرِ فَقَالَ مَا استَطَعتَ اَن تَلُومَ العَبدَ
عَلَیہِ فَھُوَ فِعلُہ وَمَا لَم تَستَطِع اَن تَلُومَ العَبدَ عَلَیہِ فَھُوَ
فِعلُ اللّٰہِ یَقُولُ اللّٰہُ لِلعَبدِ لِمَ عَصَیتَ لِمَ فَسَقتَ لِمَ شَرِبتَ
الخَمرَ لِمَ زَنَیتَ فَھٰذَا فِعلُ العَبدِ وَ لا یَقُولُ لمَ مَرِضتَ لِمَ
قَصَرتَ لِمَ ابیَضَضتَ لِمَ اسوَدَدتَ لِاَنَّہُ مِن فِعلِ اللّٰہِ فِی العَبدِ
ترجمہ: روایت میں ہے ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق سے قضا وقدر کے مسئلہ کے متعلق دریافت کیا تو آپ ؑنے
فرمایاکہ جس فعل پر تو عبدکی ملامت کرسکے وہ اُس کا فعل ہے اورجس فعل پر تو عبد کی
ملامت نہ کرسکے پس وہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہے، خداوند بندے سے دریافت کرے گا تو نے
گناہ کیوں کیا؟ تو نے فسق کیوں کیا؟ تو نے شراب نوشی کیوں کی؟ تو نے زناکیوں کیا؟
پس یہ افعال بندے کے ہیں اوریہ سوال نہ کرے گا کہ تو بیمار کیوں ہوا؟ تو چھوٹاکیوں
ہوا؟ تو سفید کیوں ہوا؟ تو سیاہ کیوں ہوا؟ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے افعال ہیں- [6]
بہر حال آئمہ اہل بیت سے صحیح تعلیم حاصل نہ کرنے سے اُمت ِاسلامیہ معارف وحقائق سے بہت دُور ہٹ گئی
کیونکہ مسائل عرفانیہ کی منازل علمائے ربانییّن کی رہبری کے بغیر ہرگز طے نہیں کی
جاسکتیں-
[6]
المیزان ج۱ ص ۱۰۴،انوار النعمانیۃ
ج ۲ ص ۲۶۱،مستدرک سفینۃ البحار ج ۲ ص ۱۰،بحار الانوار ج۵ ص ۵۹،طرائف سید ابن طاووس
ص ۳۳۰