اَ لَّذِيْنَ
يَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْ مبَعْدِ
مِيْثَاقِهِ وَيَقْطَعُوْنَ مَا أَمَرَ اللّٰهُ بِهِ أَنْ يُّوْصَلَ
وَيُفْسِدُوْنَ فِیْ الأَرْضِ أُوْلٰٓئِكَ هُمْ الْخَاسِرُوْنَ (27) كَيْفَ
تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتاً فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ
ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ (28) هُوَ الَّذِیْ
خَلَقَ لَكُمْ مَا فِیْ الْأَرْضِ جَمِيْعاً ثُمَّ اسْتَوىٰ إِلٰى السَّمَآءِ
فَسَوّٰهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِيْمٌ (29)
ترجمہ:
جوتوڑتے ہیں اللہ کا عہد بعد پکا کر لینے کے اورقطع کرتے ہیں اس
چیز کو کہ اللہ نے حکم فرمایا ہے اس کے ملانے کا اورفساد کرتے ہیں زمین میں وہی
ہیں خسارہ پانے والے (27)اورکس طرح کفر
کرتے ہو ساتھ اللہ کے حالانکہ تم مردہ تھے پس اس نے تم کو زندہ کیا پھر تمہیں مارے
گا پھر جلائے گا پھر تم اس کی طرف پلٹائے جاوٴ گے (28) وہ وہی خدا ہے
جس نے پیدا کیا تمہارے لیے تمام ان
چیزوں کو جو زمین میں ہیں پھر متوجہ ہوا طرف آ سمان کے پس ٹھیک بنایا ان کو سات آسمان اور وہ ہر شئے کا جاننے والا ہے(29)
اَلَّذِیْنَ یَنّقُضُوْنَ: چنانچہ خداوند فرماتا ہے کہ گمراہ صرف وہی ہو تے ہیں جو
اللہ تعالی ٰکے عہد کو توڑتے ہیں اورجس کو ملانے کا حکم ہے اس کی قطع کرتے ہیں
اورزمین میں فساد بپا کرتے ہیں-
اگر گمراہ اللہ نے کیا ہوتا تو عہد شکنی، قطع
رحمی اور فساد کاری کی نسبت بھی اللہ کی طرف ہوتی ہے، پس معلوم ہوا کہ یہ سب افعال
ان کے اختیاری ہیں اور اسی لیے تو آخر میں فرمایا کہ وہ خسارہ پانے والے ہیں اگر
گمراہی اللہ کا فعل ہوتی تو ان کے خسارہ کی ذمہ داری بھی اللہ پر ہوتی-
اس کے بعد پھر ان کو عار
اورشرم دلانے کے لیے اپنے احسانات کا تذ کرہ فرماتا ہے،چنانچہ ارشاد ہے:
وَ کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ: یعنی اے انسانو! تم
کس ضمیر سے اس اللہ کا کفرانِ نعمت کرتے ہوجس نے تمہیں موت کے بعد حیات دی یعنی
کتم عدم سے نکال کر صفحہ ہستی پر زندگی بخشی اورپھر یہ بھی نہیں کہ تم ہمیشہ اس
زندگی میں رہو اور تمہیں اس کے بعد باز پرس کرنے والا کوئی نہ ہوبلکہ اس کے بعد
وہی خدا تمہیں موت سے ہم آغوش کرے گا اور تمہاری ظاہری کرّوفرّ کو مٹی میں ملا دے
گا اور اس کے بعد پھر تمہیں سوال وجواب کے لیے زندہ کرے گا اور پھر اس کی طرف
تمہاری باز گشت ہوگی-
اب ہر عقلمند انسان ان آیات
میں غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پرپہنچ سکتا ہے کہ اگر ایمان وکفر انسان کے اختیار
میں نہ ہوتے تو ان چیزوں کے ذکر کرنے کا اورعبرت دلانے کا کیا فائدہ؟
ھُوَالَّذِی: پھر اپنے احسانِ خلقت کو جتلا کر دعوت فکر دی ہے اور کفرا نِ نعمت سے باز
رہنے کی تحریک فرمائی ہے کہ کیا اپنے اُس خالق کا کفر کرتے ہو جس نے تمہیں خلعتِ
وجود سے سرفراز فرماکر زمین کی تمام چیزوں کو تمہاری نفع رسانی کےلئے پیدا کردیا
تاکہ تم اس میں رہو اور کھاوٴ اور پیو، لیکن کیا اس محسن کے احسان کا بدلہ یہی ہے
کہ تم سب ان باتوں کو بھول کر شیطان کی پیری کرو؟
ایسا ہرگز نہیں بلکہ تم سوچو اور باربار غوروفکر کرو تمہاری عقلیں
قطعاً تمہیں اس کے کفر وانکار کی اجازت نہ دیں گی،اس احسان کے ذکر فرمانے کے بعد
اپنی عظمت وقدرت پر متنبہ فرما دیا کہ صرف تمہیں اور ان زمین کی مخلوق کو ہی نہیں
بلکہ اس کی قدرت و عظمت کاا دنی کرشمہ ہے کہ اس نے آسمانوں کی خلقت کا ارداہ
فرماکر بغیر ستونوں کے سات آسمان پیدا کردئیے اور ان کو ستاروں کی روشن قندیلوں سے
مزین فرما دیا ا ور شمس وقمر سے عالم کو منور کردیا اور جس طرح وہ ان چیزوں کی
خلقت پر قادر ہے وہ ان تمام اشیاءکے تمام کلی وجزوی امور کو جانتا ہے-
جو لوگ خدا کو فاعل مجبور جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا نے بلا اختیار یہ سب کچھ بنایا ہے یعنی
جس طرح سورج سے بلا اختیار روشنی پھوٹتی ہے اسی طرح خالق کائنات کا یہ فیض اس کی ذات سے خود بخود صادر ہے پس
خداوندکریم نے نعمت خلقت کے ذکر کرنے کے بعد فوراً اس عقیدہ باطلہ کی تردید فرمادی
اور ارشاد فرمایا کہ:
وَ ھُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ: یعنی وہ اللہ جس نے یہ سب کچھ خلق
فرمایا ہے وہ اس سب کچھ کو جاننے والا ہے کیونکہ علم ہو تو ارادہ ہوتا ہے اور
ارادہ کے بعد شئے کا وجود ہوتا ہے یعنی فعل ارادہ کے بعد اور ارادہ علم کے بعد
ہوتا ہے اور اس قسم کے افعال کو )جو ارادہ وعلم
کے بعد معرض وجود میں آئیں( افعالِ اختیار یہ کہا جاتا ہے، بخلاف اس کے افعال
اضطراریہ میں نہ پہلے ارادہ ہوتا ہے اور نہ علم-
پس خدا نے اپنے علیم ہونے کا
ذکر فرما کہ تنبیہ فرمادی ہے کہ میرے تمام احسانات اختیاری ہیں لہذا مخلوق پر ان کا شکر واجب ہے اور اس کی اطاعت
ضروری ہے-
سوال: اس مقام پر یہ
معلو م ہوتا ہے کہ خدواند علیم وحکیم نے زمین کو پہلے خلق فرمادیا ہے اور آسمانوں
کو اس کے بعد خلق کیا ہے لیکن ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:
ءَ اَنتُمْ
اَشَدُّ خَلقًا اَمِ السَّمَآ ءَ بَنَاھَا رَفَعَ سَمکَھَا فَسَوَّھَا اَغطَشَ
لَیْلَھَا وَ اَخرَجَ ضُحٰھَا وَالاَرْضَ بَعدَ ذٰلِکَ دَھَاھًا کیا تمہارا پید
اکرنا زیادہ سخت ہے یا آسمان جس کو اس سے بنایا اس کی چھت کو بلند اور درست کیا اس کی را ت کو تاریک کیااور اس کے دن کو ظاہر فرمایا اور زمین کو اس کے بعد بچھا یا-
[1]
پس اِن آیات سے یہ
معلوم ہوتا ہے کہ آسمان کی تخلیق زمین سے پہلے ہے؟
جواب : زمین کی تخلیق
آسمان سے پہلے ہے جس طرح اس جگہ ارشاد ہے لیکن زمین کا بچھانا اور پھیلانا خلقت
آسمان کے بعد ہے جس طرح اس جگہ موجود ہے، لہذادونوں مقامات پرکوئی تنا فی وغیرہ
نہیں ہے-
لیکن یہاں پھر سوال کی گنجائش ہے کہ:
سوال: اس مقا م پر یہ
فرماتا ہے کہ ز مین کی تمام چیزوں کوتمہارے لئے خلق کیا اور پھر آسمان کی طرف
متوجہ ہوا اور ساتوں آسمان بنا ئے، پس جب زمین کی تمام اشیا خلقت آسمان سے پہلے ہے
تو ظاہر ہے کہ زمین بچھائی بھی پہلے گئی کیونکہ چیزوں کی پیدائش زمین کے بچھائے
جانے سے پہلے نادرست ہے؟
جواب)۱(: تو اس کا جواب یہ ہے کہ زمین کی سب پیداوار آسمانو ں کی
خلقت سے پہلے کہاں ہے ؟ بلکہ زمین میں پیدا ہونے والی چیزیں خواہ انسان ہو یا دیگر
مخلوق علی الترتیب معرض وجود میں آئے ہیں اور قیامت تک خلقت کا یہ سلسلہ برقرا ر رہے گا-
لہذا
خَلَقَ لَکُمْ مَا فِی الاَرْضِ جَمِیْعًا کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ زمین کی سب پیداوار
بیک وقت خلقت آسمان سے پہلے ہوئی بلکہ تدریجی پیدائش مقصود ہے، کیونکہ رات دن اور
زمانہ رفتار فلک سے بنتا ہے اور اوقات کی تعیین شمس و قمر کے دَور سے ہوتی ہے اور
زمین کی اکثر پیداوار اور ان کی نشوونما گردشِ فلک اور اَجرام سماویہ شمس و قمرو
نجوم کی ضیا ءپاشی کی مرہون ہے لہذا ممکن نہیں کہ زمین کی پیداوار سب کی سب خلقت
افلاک سے پہلے ہو، پس آیت میں صرف خلقت زمین کا خلقت آسمان سے مقدم ہونا معلوم
ہوتا ہے اور دوسرے مقام پرا ٓسمان کی خلقت کا زمین کے بچھانے پرمقدم ہونا معلوم
ہوتا ہے اور کوئی منافات نہیں ہے-
جواب (۲): ”
ثُمَّ“ کا
لفظ ہر دومقاموں پر بُعد یت زمانی کے معنی میں نہیں
بلکہ ہر دومقام پر ذاتِ اَحدیت نے اپنی قدرت و حکمت اور احسان وانعام میں انسان کو
دعوت فکر دی ہے-
اس مقام پر انسان کو اپنی پیدائش و موت وزندگی
اور خلقت زمین او ر اس کی جملہ نعمات میں غور کرنے کی دعوت دے کر اپنی عبادت کی
طرف رہنمائی فرمائی ہے اورکفرانِ نعمت سے منع فرمایا ہے اور اس کے بعدخلقت آسمان
میں غور کرنے کی دعوت دی ہے تاکہ انسان علوی وسفلی ہر قسم کی مخلوق میں فکر کرکے
معرفت خدا حاصل کرسکے-
دوسرے مقام پر اپنے مظاہر
قدرت پر روشنی ڈالتے ہوئے خلقت آسمان اورشب وروز کی پیدائش کی طرف متوجہ کرکے زمین
اوراس میں جملہ نعمات میں غور وفکر کرنےکی دعوت دی ہے-
یہاں خلقت ارض
وسماءکے مقدّم یا موخّر ہونے کا ذکر نہیں بلکہ دعوتِ فکر میں مناسبت مقام کے
اعتبار سے تقدیم وتاخیر ہے لہذا کو ئی منافات نہیں-[2]