التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

تفسیر رکو ع ۴ -- خدا کی راہ میں خرچ کرنا

تفسیر رکو ع ۴ -- خدا کی راہ میں خرچ کرنا
تفسیر رکو ع ۴ -- خدا کی راہ میں خرچ کرنا


مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْبَتَتْم سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍوَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ وَاسِع عَلِیْم( 261 ) اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ لا یُتْبِعُوْنَ مَا اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّلا اَذًیل لَّھُمْ اَجْرُھُمْ عَنْدَ رَبِّھِمْ وَ لا خَوْف عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (262) قَوْل مَّعْرُوْف وَّمَغْفِرَة خَیْر مِّنْ صَدَ قَةٍ یَّتْبَعُھَآ اَذً ی وَاللّٰہُ غَنِیّ حَلِیْم  ( 263 )
ترجمہ:
مثال ان لوگوں کی جو خرچ کرتے ہیں اپنے اموال کو اللہ کی راہ میں مثل اس دانے کے ہے جو اگائے سات خوشے کہ ہر خوشے میں ایک سو دانہ ہو اور خدا زیادہ کرتا ہے جس کے لئے چاہے اور خدا صاحب وسعت و علم ہے o وہ لوگ جو خرچ کرتے ہیں اپنے اموال کو اللہ کی راہ میں پھر اس کے پیچھے احسان بھی نہیں جتلاتے اور نہ اذیت دیتے ہیں تو ان کا اجر ان کے ربّ کے پاس ہے اور نہ ان پر خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گےo نیک بات اور درگذر بہتر ہے اس صدقہ سے جس کے بعد اذیت ہو اور اللہ غنی اور صاحب حوصلہ ہے o

تفسیر رکو ع ۴
خدا کی راہ میں خرچ کرنا
مَثَلُ الَّذِیْنَ: امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ مومن جو بھی نیکی کرے خداوند کریم اس کو ہر نیکی کا بدلہ سات سو گنا جزاکرامت فرمائے گا اور آپ ؑنے اسی آیت مجید سے استشہاد فرمایا۔
منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امیر المومنین ؑ گھر سے تشریف لائے حسنین ؑ شریفین کو بے تاب دیکھا جناب فاطمہ زہرا ؑ نے عرض کیا کہ شہزادے بھوک سے ہیںاور تین روز کا ان کو فاقہ ہے پس آپ ؑ گھر سے باہرتشریف لائے اور عبداللہ بن عوف سے ایک دینار قرض طلب فرمایا اس نے ایک تھیلی جس میں ایک سو دنیار تھے بطور صدقہ کے پیش کی تو آپ ؑ نے فرمایا کہ میں نے جناب رسول خدا سے سنا ہے کہ دینے والا ہاتھ لینے والے سے بہتر ہے پس میں کسی کا احسان مندنہیں ہوناچاہتا مجھے قرض دیجئے کیونکہ حضور نے فرمایا ہے کہ صدقہ کا ثواب دس گنا ہے اور قرضہ کا ثواب اٹھارہ گنا ہے، پس ایک دینار لے کر بازار کی طرف روانہ ہوئے دیکھا کہ راستے میں مقداد بیٹھے ہیں آپ ؑ نے فرمایا مقداد! ایسی گرمی میں کیسے گھر سے نکلنا ہوا؟ مقداد نے عرض کیا کہ چار روز سے فاقہ ہے لہذا مجبوراًگھر سے نکلا ہوںکہ شاید کچھ میسر آجائے تو آپ ؑ نے وہ دینار مقداد کو دے دیا اور فرمایا کہ تو ہم سے زیادہ مستحق ہے کیونکہ ہمارے گھر تین روز سے فاقہ ہے اور تجھے چوتھا روز ہے پس مسجد میں تشریف لائے تو آیت اتری وَ یُوْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ دوسرے دن ایک سوار آیا حضرت علی ؑ کو ایک تھیلی پیش کی اور غائب ہو گیا حضرت علی ؑ اس کو لے کر خدمت سرکار رسالت میں وارد ہوئے اور ماجرا سنایا آپ نے تھیلی کو کھولا تو اس میں سات سو دینار تھے فرمایا اے علی ؑ! کیا تو نے اس ناقہ سوار کو پہچانا تھا؟ وہ تو حضرت جبرائیل تھے اور بحکم خدا آئے تھے اور یہ تھیلی اس ایک دینا کا عوض ہے جو آپ ؑ نے کل مقداد کے حوالہ کیا تھا اور آخرت میں خدا اس کا بدلہ اس بھی زیادہ عطا فرمائے گا، پس حضرت علی ؑ نے فرمایا کہ بےشک فرمانِ خدا درست و صحیح ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی جزامثل اس ایک دانے کےلئے جس سے سات سو دانہ پیدا ہو، اس کے بعد آپ ؑ نے ایک دینار قرض خواہ کو واپس دیا اور باقی اہل بیت ؑ اور فقراپر تقسیم فرمایا۔
مَنَّا وَّلا اَذًی: مجمع البیان میں جناب رسالتمآب سے مروی ہے کہ جو شخص کسی پر احسان کر کے پھر جتلائے تو خدا بروز محشر اس کو اپنے کلام و نظر رحمت سے محروم کرے گا اور نہ ہی اس کا عمل پاکیزہ ہوگا (تاکہ قابل جزاہو) اور اس کےلئے دردناک عذاب ہو گا سائل کو اذیت دینے کا مطلب یہ ہے کہ تر شروئی سے اس کے پیش آئے یا جھڑک کر اس کو کچھ دے یا احسان کرنے کے بعد اس سے اپنے کام کاج کروائے تو اس قسم کی چیزیں احسان کی جزاکو باطل کر دیتی ہےں۔
قَوْل مَّعْرُوْفاگر سائل سخت لہجہ میں سوال کرے یا خدا و رسول و آئمہ کی قسمیں دینے لگ جائے یا بے وقت اور بے جا سوال کرے جس سے دل کو تکلیف پہنچے تو ایسے حالات میں اس سے در گزر کرنا اور اس سے چشم پوشی کرنا بہتر ہے بہر کیف اس کو نیک بات کہہ کر ٹال دینا یا اس کی بے جا ولیچڑ باتوں سے در گزر کرنا اس دینے سے بہتر ہے جو ترشروئی سے جھڑک کر دیا جائے یا اس کو کوئی اور قولی یا فعلی تکلیف دی جائے۔
تفسیر عمدة البیان میں ہے کہ حضرت امیر المومنین ؑ نے ایک دفعہ حضرت خضر ؑسے فرمایا کہ کوئی کلمہ حکمت سنائیے؟ حضرت خضر ؑ نے فرمایا: غنی اور مالدار لوگوں کی فقرالوگوں پر شفقت و مہربانی اگر حصولِ ثواب کےلئے ہو تو کیا خوب ہے؟ آپ ؑ نے فرمایا کہ اس سے بہتر چیز سنائیے؟ انہوں نے فرمایا اس سے بہتر اور نہیں ہے تو آپ ؑ نے فرمایا کہ اس سے بہتر ہے غنی اور مالدار لوگوں کے سامنے فقراکی خود داری جو خدا پر توکل کر کے کسی اور کے زیر بار احسان ہونا پسند نہ کریں۔
اس مقام پر صرف صدقہ و خیرات کرنے کا ذکر ہے یہ تصریح نہیں کہ واجب ہو یا غیر واجب اور راہِ خدا میں خرچ کرنے کی مد ّات بھی متعدد ہیں فقراو مساکین کی اعانت تعمیر مساجد عزاداری حضرت سید الشہدا ؑاور ترویجِ علومِ آلِ محمد و غیرہ ان سب پر خرچ کرنا اللہ کی راہ میں خرچ ہے لیکن ان میں سے بعض کو بعض پر فوقیت حاصل ہے اور بمطابق مضمونِ احادیث ترویجِ علومِ آلِ محمد کےلئے مدارسِ دینیہ پر خرچ کرنا سب سے افضل ہے کیونکہ علم تمام نیکیوں کی اصل ہے اور اسی لئے کہا گیا ہے کہ عالم یا متعلّم کی امداد کرنا خواہ معمولی ہو تعمیر کعبہ کا ثواب رکھتی ہے۔







یٰٓاَ یُّھَا الَّذِ یْنَ اٰمَنُوْا لا تُبْطِلُوْا صَدَقتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی  کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَہ رِئَآئَ النَّاسِ وَلا یُوْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَمَثَلُہ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْہِ تُرَاب فَاَصَابَہ وَابِل فَتَرَکَہ صَلْدًا لا یَقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْئٍ مِّمَّا کَسَبُوْا  وَاللّٰہُ لایَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ (264) وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَ تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ کَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ اَصَابَھَا وَابِل فَاٰ تَتْ اُکُلَھَا ضِعْفَیْنِ  فَاِنْ لَّمْ یُصِبْھَا وَابِل فَطَلّ  وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْر ( 265)
ترجمہ:
اے ایمان والو! نہ باطل کرو اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور اذیت دے کر مثل ان کے جو خرچ کرتا ہے مال اپنا لوگوں کے دکھانے کے لئے حالانکہ نہ اللہ پر اس کا ایمان ہے اور نہ قیامت پر پس اس کی مثال اس صاف پتھر کی سی ہے جس پر گرد پڑی ہو پس اس پر زور کی بارش آئے اور اس کو صاف کر دے وہ لوگ کچھ بھی نہ وصول کریں گے اپنے کئے کا بدلہ اور خدا نہیں ہدایت فرماتا کافر لوگوں کو o اور مثال ان کی جو خرچ کرتے ہیں اپنے اموال کو واسطے حاصل کرنے خوشنودی خدا کے اور ساتھ قوت ایمانی کے مثل اس باغ کے ہے جو بلندی پر ہو اور اس پر زور کا مینہ پڑے پس وہ اپنی آمدنی دگنی دے پس اگر نہ بھی پڑے تو معمولی بارش (شبنم) اور وہ اللہ تمہارے اعمال کو دیکھنے والا ہےo

اپنے صدقات کو باطل نہ کرو!
یٰٓا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: امام جعفر صادقؑ سے مروی ہے کہ جناب رسول خدا نے فرمایا کہ جو شخص مومن پر احسان کرے اور پھر اس کو کلام کے ساتھ اذیت دے یا اس پر اپنا احسان جتلائے تو گویا اس نے اپنی خیرات کو باطل کر دیا، جیسا کہ آیت مجیدہ میں خدا وند کریم ارشاد فرما رہا ہے کہ احسان جتلانے اور اذیت دینے سے اپنے صدقات کو باطل نہ کرو اور اس قسم کا صدقہ اس طرح باطل ہے جس طرح ریاکاری کی خیرات باطل ہے۔
اور پھر مزید وضاحت کےلئے اس کی مثال بیان فرمائی ہے کہ جس طرح پتھر پر پڑی ہوئی گرد بارش پڑنے سے بالکل دہل جاتی ہے اور پتھر بالکل صاف نکل آتا ہے اسی طرح صدقہ احسان جتلانے یا اذیت دینے کے بعد بالکل ضائع اور بر باد ہو جاتا ہے۔
بحارالانوار ج ۵۱میں جناب رسالتمآب سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ بروز محشر پہلے پہل تین قسم کے لوگوں کو حاضر کیا جائے گا: قاری قرآ ن ، مجاہد ، مالدار
قاری سے سوال ہو گا کہ تو نے علم قرآن حاصل کرنے کے باوجود کیا عمل کیا؟ وہ جواب دے گا کہ میں نے شب و روز عبادت کی پس ارشاد ہو گا کہ غلط کہتا ہے بلکہ تونے تو صرف لوگوں کے دکھاوے کی خاطر ہی سب کچھ کیا تھا
مالدار سے سوال ہو گا کہ تو نے میرے عطا کردہ مال سے کیا عمل کیا تھا؟ وہ جواب دے گا کہ میں نے فلاں صلہ رحمی کی فلاں صدقہ دیا، تو جواب ملے گا کہ غلط کہتا ہے بلکہ تو نے تو یہ سب کچھ اس لئے کیا تھا کہ لوگ تجھے سخی کہیں
مجاہد سے سوال ہو گا تو وہ کہے گا کہ میں نے تیری راہ میں جہاد کیا تھا پس جواب ملے گا کہ یہ تو نے شہرت حاصل کرنے کےلئے کیا تھا پس ان کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا خدا وند کریم جملہ مومنین کو اس مرض سے بچائے (آمین)
وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ: یعنی جو لوگ خوشنودی خدا کےلئے اور ایمانداری سے خیرات کرتے ہیں نہ احسان جتلاتے ہیں اور نہ اذیت دیتے ہیں ان کی مثال اس باغ جیسی ہے جو بلندی پر ہوا ور بارش کی وجہ سے اس کی آمدنی دگنی ہو جائے (یعنی ان کا اجر دگنا ہو جاتاہے) اور اگر بارش نہ آئے تو معمولی بوندا باندی یا شبنم بھی اس کےلئے فائدہ مند ہو اکرتی ہے بہر صورت وہ نققصان میں نہیں رہتے۔
امام محمد باقرعلیہ السلام سے مروی ہے کہ اس سے پہلی آیت بنی امیہ کے حق میں اُتری اور دوسری آیت کے مصداق حضرت امیر المومنین علیہ السلام ہیں۔

اَیَوَدُّ اَحَدُکُمْ اَنْ تَکُوْنَ لَہ جَنَّة مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّاَعْنَابٍ تَجْرِیْ مَنْ تَحْتِھَا الْاَنْھرُ لَہ فِیْھَا مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ وَ اَصَابَہُ الْکِبَرُ وَلَہ ذُرِّیَّة ضُعَفَآئُ فَاَصَابَھَآ اِعْصَار فِیْہِ نَار فَاحْتَرَقَتْ  کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْایٰتِ لَعَلَّکمْ تَتَفَکَّرُوْنَ (266)ع
ترجمہ:
کیا تم میں سے کوئی چاہتا ہے کہ ہو اس کا ایک باغ کجھوروں اور انگوروں کا کہ جاری ہوں اس کے نیچے نہریں جس میں اس کے لئے ہر قسم کے پھل ہوں اور اس پر بڑھاپا آجائے اور اس کے بچے (چھوٹے) کمزور ہوں پس اس باغ پر ایک بگولہ ایسا آئے جس میں آگ ہو پس وہ جل جائے اس طرح بیان فرماتا ہے خدا تمہارے لئے آیات کو تاکہ تم فکر کرو (سوچو) o
ریاکاری
اَیَوَدُّ اَحَدُکُمْ: یہ ریا کاری سے خرچ کرنے والے کی مثال ہے کہ جس طرح ایک شخص محنت کر کے باغ تیار کرے(جس میں ہر قسم کے میوہ جات کے درخت ہوں) وہ بوڑھا بھی ہو اور بچے بھی چھوٹے ہوں اور جب اس کا باغ تیار ہوجائے تو ایک گرم ہوا آکر اس کے سب باغ کو جلا دے تو اس وقت جس طرح اس بوڑھے کو حسرت ہو گی اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے کیونکہ عمر گزر چکی ہے جوانی واپس نہیں آتی تاکہ دوبارہ محنت کر کے بچوں کے مستقبل کے لئے کوئی انتظام کر سکے اسی طرح ریاکاری سے خرچ کرنے والا میدان محشر میںجبکہ اس کو کمائی اپنی کی بہت زیادہ ضرورت ہو گی کیونکہ اب نہ دنیا میں واپس آ سکتا ہے اور نہ عمل صالح کرنے کا موقعہ مل سکتا ہے اور جو کچھ اس نے کیا تھا اس کو ریاکاری نے اسی طرح جلا کر نیست و نابود کر دیاتھا جس طرح کہ گرم لو باغ کو تباہ کر دیتی ہے پس معلوم ہوا کہ جو صدقہ و خیرات احسان جتلانے کےلئے یا اذیت کےلئے یا ریاکاری کے طور پر کیا جائے وہ بالکل برباد و رائیگاں جاتاہے ۔
چنانچہ عمدة البیان میں حضرت امیر علیہ السلام سے منقول ہے کہ جوانمردی چار چیزوں میں ہے:
        غنی ہوتے ہوئے تواضع کرنا      وجود قدرت کے انتقام نہ لینا
             باوجود دشمنی کے خیر خواہی کرنا       احسان جتلائے بغیر کسی کو کچھ دینا
نیز آپ سے منقول ہے سخی لوگ دنیا و عقبیٰ کے سردار ہیں نیز فرمایا تعجب ان لوگوں پر ہے جو غلام خرید کر آزاد کرتے ہیں بھلا وہ احسان کر کے آزادوں کو اپنا دائمی غلام کیوں نہیں بنا لیتے؟ جناب رسول خدا سے مروی ہے کہ اَلْجَنَّةُ دَارُ الْاَسْخِیَائِ بہشت سخیوں کےلئے ہے۔
پس انسان کو چاہیے کہ خوشنودی خدا کےلئے ہی فقرامومنین کی اپنے مال حلال سے اعانت کرے کیونکہ بعض احادیث میں ان کو اللہ کی عیال سے تعبیر کیا گیا ہے اور صدقہ کرنا بہت سے مصائب کو دفع کرتا ہے، اگر سفر میں صدقہ کیا جائے تو وہ سفر کی مصیبتوں سے نجات دلانے کا موجب ہو جایا کرتا ہے اور سفر سے پہلے صدقہ و خیرات کر کے گھر سے روانگی ایام کی نحوست کو برطرف کر دیا کرتی ہے ۔
تنبیہ
انسان نے آخر مر جانا ہے اور اس دنیا کے مال میں سے انسان کا حصہ صرف وہی ہے جو کچھ اس نے کھایا پیا اور راہِ خدا میں خرچ کیا۔
ایک دفعہ حضرت ابو ذر کے پاس ایک مہمان وارد ہوا تو آپ نے فرمایا کہ میں کچھ مشغول ہوں میرے اونٹوں میں سے ایک اچھا اونٹ تلاش کر لائیے پس وہ ایک کمزور اونٹ لائے حضرت ابو ذر نے فرمایا کہ تم نے خیانت سے کام لیا ہے یعنی عمدہ اونٹ کیوں نہیں لائے؟ تو جواب دیا گیا کہ عمدہ اونٹ موجود تھا لیکن آپ کی اشد ضرورت کے وقت وہ کام آئے گا آپ نے فرمایا کہ میرا سخت ترین وقت قبر سے زیادہ اور کون سا ہو گا؟ اور لَنْ تَنَالُوْاالْبِر کی آیت تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ وہ اونٹ میرا محبوب ترین مال ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اسے اپنے کام میں لاوں نیز مجمع البیان میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ مال میں تین شریک ہیں:
ز       تقدیر جو موت و ہلاکت سے اچھے یا برے مال کو لے جائے گی
ز       وارث جو موت کے منتظر ہیں مالک مر گیا تو وہ لے جائیں گ
        خود مالک پس اسے باقیوں سے سست نہیں ہو نا چاہیے
 اور پھر وہی آیت تلاوت فرمائی لَنْ تَنَالُوا الْبِر تو خوش نصیب ہے وہ مالک مال جو اپنے اختیار سے اپنے مال سے خود فائدہ اٹھائے۔
بعض اوقات جب انسان کے پاس مال ہوتا ہے تو راہِ خدا میں خرچ کرنے سے اس لئے گریز کرتا ہے کہ کہیں فقر و فاقہ میں مبتلا نہ ہو جائے؟ چنانچہ اگلے رکوع میں خدا اسی خیال کی نشاندہی فرما رہا ہے کہ یہ وسوسہ انسان کو شیطان کی طرف سے آیا کرتا ہے کیونکہ جب انسان زکوٰة یا خمس یا کوئی اور خیرات کرنا چاہے تو چپکے سے شیطان یہ سبق پڑھاتا ہے کہ خبردار ! یہ خرچ نہ کر ورنہ تیرا اس قدر مال بے فائدہ ضائع ہو جائے گا تیرے بال بچے بھوکے رہیں گے۔
چنانچہ ارشاد قدرت ہے اَلشَّیْطَانُ یَعِدُکُمُ الْفُقَرَاء یعنی شیطان ہی یہ باتیں دل میں ڈالتا ہے حالانکہ خدا بخشش اورزیادتی مال کا وعدہ کر چکا ہے اور یہ انسان کی کمال بد بختی کی نشانی ہے کہ شیطانی وسوسے میں پھنس کر خدا کے وعدہ کو نظر انداز کر دے؟ ہم نے کئی ایسے انسان دیکھے ہیں جو زکوٰة و خمس وغیر ہ کے پابند ہیں اور جس قدر راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں خدا ان کو اس سے کہیں زیادہ رزق عطا فرماتا ہے اور بہت سے ایسے بھی دیکھے ہیں جو اپنے مال سے حقوق واجبہ کی ادائیگی نہیں کرتے اور دن بہ دن بدحالی کی طرف ان کے قدم بڑھتے ہیں۔
حلال کھانے والے اور حقوق مالیہ کے ادا کرنے والے بالعموم آفاتِ سماویہ و ارضیہ سے اللہ کی امان میں ہوتے ہیں اور حرام کھانے والے اور حقوق کے ادا کرنے سے جی چرانے والے آفاتِ ارضیہ و سماویہ میں گرفتار ہوتے ہیں، ہاں اگر بعض اوقات ایسے لوگوں میں کوئی عذابِ خدا نہ بھی آئے تو اس کو اللہ کی رضا مندی پر محمول نہیں کیا جا سکتا بلکہ خدا اس کے وبال و عذاب کو آخرت پر ملتوی کر دیتا ہے جیسا کہ نمرود و شداد و فرعون و ہامان وغیرہ کہ مثالوں سے خدا نے قرآن مجید میں تصریح فرما دی ہے، پس انسان پر لازم ہے کہ اپنے مال سے اپنی دنیا و عقبیٰ کی فلاح و بہبود کا انتظام کرے۔
راہِ خدا میں مال حلال کے خرچ کرنے والے کا بھروسہ خدا پر ہوتا ہے لہذا اس کی زندگی اطمینان سے گزرتی ہے لیکن بخل کرنے والا اور اپنے حقوق واجبہ کی ادائیگی سے گریز کرنے والا چونکہ اللہ پر بھروسہ نہیں کرتا لہذا کبھی اس کو چین نصیب نہیں ہوتا۔
نیز سخی شخص عقبیٰ کی فلاح کے علاوہ دنیا میں نیک نام زندگی بسر کرتا ہے اور مرنے کے بعد بھی اپنا ذکر خیر چھوڑ جاتا ہے اور بخیل آخرت کا عذاب خریدنے کے علاوہ دنیا میں بھی بد نام ہو تا ہے ہے اور مرنے کے بعد بھی مستحق لعن و طعن رہتا ہے، اسی طرح راہِ خدا میں خرچ کرنے کا عادی قناعت کی دولت سے فیض یاب ہو کر اللہ کی عطا کردہ نعمت پر راضی رہتا ہے لیکن بخیل کے حرص میں اضافہ اور اس کی ہائے ہائے میں روز افزوں ترقی ہوتی ہے خواہ خزائن کا مالک ہی کیوں نہ ہو؟

ایک تبصرہ شائع کریں