لفظ ِ”خَتْم“ کی وضاحت
بعض احادیث میں وارد ہے جن
کا مضمون یہ ہے کہ انسان جب فعل بد کا ارتکاب کرتاہے تو اُس کے دل میں سیاہ نقطہ
پیدا ہوتا ہے پس اگر توبہ کرلے تو صاف ہوجاتا ہے اوراگر توبہ نہ کرے بلکہ پھر کوئی
دوسراگناہ کرے تو پھر دل کی سیاہی میں زیادتی پیدا ہوتی ہے، پھر اگر توبہ سے اُس
کو نہ مٹائے اورگناہ میں اضافہ کرتا جائے تو سیاہی بڑھتی جاتی ہے حتی کہ پورا دل
سیاہ ہوجاتا ہے اور اس کے بعد نہ کسی نصیحت کو قبول کرتا ہے اورنہ قرآن وحدیث سے
کوئی اثر حاصل کرتا ہے اور اِسی معنی کو قرآن مجید میں ”خَتمَ
، وَقر ، غِلاف ، غِشَاوَة “وغیرہ کی لفظوں سے ادا کیا گیا ہے
اوربنیادی قوتیں چونکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہیں اِسلئے آیت مجیدہ میں ”خَتْم“
کو خداوند کی طرف منسوب کیا گیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدانے ہی واقعی
اُن کے دِلوں کانوں اور آنکھوں پر پر دے ڈال دئیے ہیں کیونکہ خداوند کسی کے دل یا
کان یا آنکھ پر پر دہ نہیں ڈالتا اگر ایساکرنا ہوتا تو پھر انبیا ورسلبھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟ کتابیں نازل کرنے کا کیا فائدہ تھا؟ بلکہ مطلب یہ ہے
کہ پے درپے نافرمانیاں کرنے کے بعد اُن کے دل اِس قدر سیاہ ہوگئے ہیں کہ وہ حق کو
نہ دیکھنا پسند کرتے ہیں نہ سننا گوارا کرتے ہیں اورنہ سوچنے کے
لئے بات کو دل میں جگہ دیتے ہیں-
جو لوگ عقیدہ جبر کے قائل
ہیں وہ اِس قسم کی آیات سے دھوکہ کھاکر کہہ بیٹھتے ہیں کہ کافر کفر میں مجبور تھے
اور مومن ایمان میں مجبور ہیں، کافر کا کفر اورمومن کا ایمان اللہ تعالیٰ کی جانب
سے ہے کیونکہ خداوند فرماتاہے کہ میں نے
مہر لگادی ہے حالانکہ فاسدعقیدہ والے
حقیقت سے نا آشناہیں اُن کو اپنے قیاسات واستحسانات نے اِس ورطہ مظلمات میں دھکیل
دیاہے اور خاندانِ عصمت سے عناد ہی اُن کی گمراہی
کا موجب ہے-
سوال: اگر جبریہ کی طرف سے یہ سوال پیدا کیا جائے کہ جب خداوند
کو علم تھا کہ کافر لوگ ایمان نہ لائیں گے جس طرح خود فرماتاہے اِنَّ
الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْھِمْ ءَاَنذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھِم
لا یُوْمِنُون تحقیق وہ لوگ جو کافر ہیں اُن کے لئے برابر ہے خواہ
اُن کو ڈراوٴ یا نہ ڈراوٴ یہ ایمان نہ لائیں گے، تو اِس صورت میں اُن کےلئے
ایمان لانا محال ہے کیونکہ اُن کے ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ خدانے یہ خبر خلاف
واقع دی ہے اورجب خداکا علم خلاف واقع ہو ہی نہیں سکتا تو اِس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ
وہ لوگ اپنے کفر میں مجبور تھے-
جواب(۱): علم ازلی خداوند ی فعل عبد کے اختیاری ہونے کو باطل نہیں کرتا
چنانچہ اس کو علم تھا کہ فرعون ایمان نہ لائے گا لیکن پھر موسیٰ وہارون علیٰ
نبیّنا و کو حکم ہوا کہ جاوٴ اور
فرعون کو تبلیغ کر واور نرم لہجہ میں اس کو سمجھاوٴ شاید وہ نصیحت قبول کرے
یاڈرجائے لَعَلَّہُ
یَتَذَکَّرُ اَو یَخشٰی [1]
جملہ صاف طور پر بتا رہاہے کہ اس کا علم
فرعون کے ایمان لانے میں رکاوٹ کا باعث نہ تھا ورنہ موسیٰکوحکم تبلیغ نہ دیتا-
جواب(۲): خود فرماتا ہے یَمحُوا
اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثَبِّتُ وَعِندَہ اُمُّ الکتاب [2]
یعنی خود جس کو چاہے محو کرتا ہے اور جس کو چاہے ثابت کرتا ہے اور اس کے پاس علم
مخزون ہے گو اس کے علم اَزلی کے لحاظ سے ہونے والے اُمور کے متعلق قضاثابت ہے لیکن
گزشتہ بیان میں معلوم ہوچکا ہے کہ اس کی قضا انسان کے افعالِ اختیاریہ کے متعلق
حتمی ومبرم نہیں ہے-
اور اس آیت میں اس امر کی
صاف وضاحت ہے کہ خداوندکریم علم اَزلی کی روسے مجبور نہیں بلکہ وہ اپنے افعال میں
مختارِ کل ہے اور اس کے علم اَزلی میں ثابت شدہ امور میں سے جس کو چاہے محو کرسکتا
ہے اور جس غیر ثابت کو چاہے ثابت کرسکتا ہے، چنانچہ تفسیر برہان میں اس آیت کی
تفسیر میں حضرت امام جعفر صادق سے مروی ہے ھَل
یُمحٰی اِلَّا مَاکَانَ ثَابِتًا وَھَل یُثبَتُ اِلَّا مَا لَم یَکُن
نہیں محو کیا جاتا مگر اس کو جوپہلے ثابت ہو اور نہیں ثابت کیا جاتا مگر اس کو جو
پہلے ثابت نہ ہو- [3]
وَفِیہِ :عَنِ البَاقِر
وَعِلم عِندَہ مَخزُون یُقَدِّمُ مِنہُ مَا یَشَآءُ وُیُوَخِّرُ مِنہُ مَا یَشَآء
حضرت امام محمد باقر سے منقول ہے کہ اس کے پاس علم مخزون ہے اس میں سے جس کو
چاہے موخر کرے اورجس کو چاہے مقدم کرے اورجس کو چاہے ثابت کرے-
وَ فِیہِ :عَنِ البَاقِر
اِنَّ اللّٰہَ لَم یَدعُ شَیاً کانَ اَو یَکُونُ اِلَّاکَتَبَہ فِی کِتَابِ
اللّٰہِ فَھُوَ مَوضُوع بَینَ یَدَیہِ یَنظُرُ اِلَیہِ فَمَا شَاءَ مِنہُ قَدَّمَ
وَمَا شَاءَ مِنہُ اَخَّرَ وَمَا شَاءَ مِنہُ مَحٰی وَ مَا شَاءَ مِنہُ کَانَ وَ
مَا لَم یَشَاءلَم یَکُن
حضرت امام محمد باقر سے مروی ہے کہ خداوند کریم نے کوئی شئے ہونے والی چیزوں میں
سے ایسی نہیں چھوڑی جس کو کتاب میں درج نہ فرمایا ہو پس وہ کتاب اللہ کے سامنے ہے
وہ اس سے غافل نہیں اس میں سے جس کو چاہے مقدم کرتاہے جس کو چاہے محو کرتا ہے
اورجس کو چاہے وہ ہوتی ہے اورجس کو نہ چاہے نہیں ہوتی-
اس قسم کی احادیث بکثرت
موجود ہیں پس معلوم ہوا کہ کسی کا فر کا کفر علم اَزلی الٰہی کی وجہ سے ناقابل
زوال نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ محووا ثبات پر قادر ہے ورنہ اگر محو و اثبات پر قدرت
نہ ہوتی تو ایسے لوگوں پر سے تکلیف ہی ساقط ہوتی حالانکہ یہ لوگ مکلف ہیں-
جواب(۳): ہر شخص کی زندگی کی مدت کا اللہ کو علم ہے حالانکہ مستحب
ہے کہ انسان طول عمر کی دُعامانگے تو کیا طول عمرکی دعامانگنے کا مطلب یہ ہے کہ
اگر خدالمباکردے تو اس کے سابق علم میں خطا واقع ہو گی؟ نہیں بلکہ اس کواوّل و آخر میں کمی و بیشی کا اختیار ہے وہ بڑھا بھی سکتا ہے
اور کم بھی کرسکتا ہے اگر ایسا نہ ہو تو پھر خود کشی کر نا کیوں حرام ہے؟ حالانکہ
اللہ کے علم اَزلی میں ہی اس کی خود کشی درج تھی اور اس طرح رزق کی دعا طلب اولاد
کی دعابلکہ جملہ دعائیں فضول متصور ہوں گی کیوں کہ اس کے علم اَزلی میں جوکچھ ہے
ہو گا وہی-
پس معلوم ہو اکہ اس کا علم انسان کے افعال
اختیار یہ میں مخل نہیں اور خدا محوو اثبات پر قادر ہے اسی طرح حضرت حجت کے ظہور کی تعجیل کی دعا کی جاتی ہے حالانکہ اللہ کو ایک وقت مقرر کا علم ہے
اگر جلدی ظہور ہونے سے اس کے علم کا خلاف ہو نا لازم آتا تو یہ دُعا قطعاً جائز نہ ہوتی حالانکہ تمام
مسلمان اس دعامیں متفق ہیں-
جواب(۴): خدا چاہے تو اب بھی قیامت لا سکتا ہے لیکن قیامت کےلئے اس
کے علم میں ایک وقت مقرر ہے تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا اب قیامت کے قائم کرنے
پر قادر نہیں کیونکہ اب قیامت کے قائم کرنے پر قادر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خدا اپنے علم کو جھٹلا سکتا ہے حالانکہ یہ عقیدہ موجب کفر ہے -
جواب(۵): ہمیشہ علم کا تعلق شئے کی واقعیت سے ہو تاہے واقعہ ہو تو اس کا علم ہوتا ہے یہ نہیں کہ علم ہو تو واقعہ واقعہ
بنتا ہے واقعہ کا علم ہو نا اور بات ہے اور واقعہ کو واقعہ بنانا اور بات ہے پس
خدا کو کافر کے کفر کا علم ہے نہ کہ خدا کے علم نے ان کو کافر بنایا اور نہ خدا کا
علم ان کو کفر سے توبہ کرنے سے روکتا ہے اگر ایسا ہوتا تو ان کو ایمان کی دعوت ہی
نہ دی جاتی -
خَتَمَ اللّٰہُ
عَلٰی قُلُوبِھِم کی علمائے تفسیر نے متعدد
تو جہیں بیان کی ہیں، چنانچہ علامہ طبرسی vنے چند ایک کا ذکر فرمایا ہے :
• کافر جب حالت کفر میں اس حد کو پہنچتا ہے کہ اس کا دل قبول حق کی طرف مائل ہی نہیں ہو
سکتا تو خدا ان کے دلوں پر ایک علامت لگا دیتا جس کو بعض نے سیاہ نقطہ سے
تعبیر کیا ہے پس فرشتے اس کو اس نقطے یا اس علامت سے
پہچانتے ہیں کہ کافر ہے پس وہ اس پر لعنت ونفرین کرتے ہیں گویا ”خَتْم“
کا معنی علامت ہے-
• معنی یہ ہے خدا شاہد ہے کہ ان کے دل اور کان اور
آنکھیں راہ حق سے منحرف ہیں گویا ”خَتْم“
کا معنی شہادت وتصدیق ہے -
• معنی یہ ہے کہ
ان لوگوں کے دل مثل مہر کردہ شئے کے ہیں کہ نہ اس میں کوئی اور چیز داخل ہو سکتی ہے اور نہ اس سے کوئی چیز
خارج ہو سکتی ہے یعنی نہ ان کے دلوں میں اب ایمان داخل ہوسکتا ہے اور نہ ان کے
دلوں سے کفر خاج ہو سکتا ہے-
• کفار کے کلام حق سننے اور سمجھنے سے تنگدلی کرنے کو ”خَتْم“
سے تعبیر فرمایا یعنی ان کے دل، کا ن،
آنکھیں حق سے گھٹتی ہیں-
سوال : دل، کان اور آنکھوں کو خاص طور پر کیوں ذکر کیا گیا ہے ؟
جواب: ان تین اعضا کو خاص طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ علم
حاصل کرنے کے راستے صرف یہی ہیں کیونکہ کان اور آنکھ سے سن اور دیکھ کر انسان دل
میں فکر کرتا ہے تب چیز کی حقیقت معلوم ہوتی اگر یہ تین اعضا معطل ہوجائیں تو علم
حاصل نہیں ہو سکتا پس قرآن
مجید میں جہاں کہیں اس قسم کے لفظ آئیں متذکرہ بالا بیان سے ان کے مطالب تک رسائی
حاصل کی جاسکتی ہے اور اس قسم کی آیات کا صحیح حل میسر نہ آنے کی وجہ سے عقائد میں
خرابی ظہور پذیر ہوتی ہے اور خداوندکریم اجل وارفع ہے اس بات سے کہ انسان کو فعل
بد پر مجبور کرے اور پھر اس کو اس کی سزا بھی دے عقیدہ جبر عدل خداوندی کے سرا سر
خلاف ہے بلکہ اس سے خدا کا ظالم ہونا ثابت ہوتا ہے اور خدا خود فرماتا ہےوَمَااللّٰہُ
یُرِیدُ ظُلمًا لِّلعِبَادِ یعنی اللہ اپنے بندوں پر ظلم کا ارادہ نہیں فرماتا
[4]
اور متعدد مقامات پر فرماتا ہے کہ میں اپنے
بندوں پر ظلم نہیں کرتا-
خداوندکریم مجھے اور جملہ مومنین کو راہ راست پر
ثابت قدم رکھے اور جملہ مسلمانوں کو صراط مستقیم کی ہدایت فرمادے اور اہل بیت عصمت سے تمسک کرنے کی توفیق مرحمت کرے تاکہ ان کے علوم کی روشنی میں جادہٴ حق پر گامزن ہوکراس قسم کے
مزخرفات سے محفوظ رہیں اس مقام پر طول پر بہت ہوگیا ہے لیکن مسئلہ کی نزاکت اور
آیات متعلقہ کا حل اس امر کا مقتصی تھا کہ مقام مذکور کو تشنئہ بیان نہ چھوڑا جائے شاید خدا اس کی بدولت کسی
راہ گم کر دہ کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے-