نقطہ بائے بسم اللہ
علامہ نہاوندیv نے
سید نعمت اللہ جزائر یv کی کتاب
مقامات النجات سے نقل فرمایا ہے کہ حضرت امیر المومنین نے فرمایا:
عِلمُ مَاکَانَ
وَمَایَکُونُ کُلُّہُ فِی القُرآنِ وَعِلمُ القُرآنِ کُلُّہُ فِی الفَاتِحَةِ
وَعِلمُ الفَاتِحَةِ کُلُّہُ فِی بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ وَعِلمُ
البَسمَلَةِ کُلُّہُ فِی بَائِھَا وَ اَنَا النُّقطَةُ تَحتَ البَاء
ترجمہ: ماکان ومایکون کا تمام علم قرآن مجید میں ہے
اورقرآن کا تمام علم سورہ فاتحہ میں ہے اور سورہ فاتحہ کا تمام علم بِسْمِ
اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم میں ہے اوربسم اللہ کا تمام
علم اس کی باءکے نقطے میں اور میں بائے بسم اللہ کا نیچے والانقطہ ہوں-[1]
تقدیم فاتحہ کے عنوان میں یہ
روایت بیان کی جاچکی ہے لیکن ماکان ومایکون کی بجائے اس میں کتب سماویہ کے الفاظ ہیں اورآخری الفاظ یہ ہیں کہ
بائے بسم اللہ میں جو کچھ ہے وہ نقطہ با میں موجود ہے اورمیں وہی نقطہ ہوں-
اعتراض: اُس زمانہ میں قرآن مجید پر نقطے لگائے نہیں گئے تھے جب
نقطے نہ تھے تو کیسے درست ہے کہ حضرت علی نے کہا ہوگا میں بائے بسم اللہ کے نیچے والا نقطہ ہوں، پس معلوم ہوا کہ یہ
حدیث محل اعتبار سے ساقط ہے؟
جواب(۱): یہ درست ہے کہ نقطے بعد میں لگائے گئے لیکن نقطے کا بنانا
اوربات ہے اورلگانا اورشئے ہے، ایسا نہیں کہ نقطے بعد میں بنائے گئے، بلکہ تاریخ
کہتی ہے کہ نقطے بعد میں لگائے گئے کیو نکہ اگر نقطے پہلے سے نہ بنے ہوتے تو ب ت ث
ج ح خ وغیرہ متشا بہ حروف کی تمیز کیسے ہوسکتی؟ یہ اور بات ہے کہ مسلسل تحریر میں
ماہر ین افراد مطلب کو بغیر نقاط کے سمجھ سکتے ہیں اور پڑ ھ سکتے ہیں اور آج کل
بھی شکستہ تحریروں میں عموماً نقاط کا اعتبار نہیں کیا جاتا اور بایں ہمہ قرائن کے
ملانے سے مکتوب الیہم کو پڑھنے اورسمجھنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی لیکن اس کا
یہ مطلب نہیں کہ حروف تہجی میں سے بھی نقاط اُڑادئیے جائیں، ورنہ ابتدائی تعلیم
والوں کےلئے تعلیم کا رستہ ہی بند ہو جائے گا پس اُس زمانہ میں بھی نقاط موجود تھے
اور تعلیم و تعلّم میں حروفِ تہجی کی باہمی شناخت کا دار و مدار نقطوں پر تھا لیکن
عربی ان کی مادری زبان تھی لہذا کاتب لکھتے وقت نقطوں کو نظر انداز کر دیتے تھے
اور ان کے بغیر بلا دقت پڑھ سمجھ لیا کرتے تھے بعد ازاں رفتہ رفتہ اسلام جب اطراف
عالم میں پھیلنا شروع ہوا اور اہل عجم نے قرآن مجید کو حاصل کرنا چاہا تو ان کی
چونکہ مادری زبان نہ تھی لہذا بغیر نقاط کے ان کےلئے پڑھنا مشکل تھا پس نقاط لگا
دئیے گئے اور اہل عجم کی یہ مشکل ختم ہو گئی-
جواب(۲): جس طرح نقطے بعد میں لگوائے گئے تھے اسی طرح اعراب( زبر، زیر ،پیش، جزم وغیرہ) بھی بعد میں لگوائے گئے، تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ پہلے عربی زبان اورقرآن مجید میں اعراب نہ تھے
اوربعد میں ہوئے؟ معلوم ہوا کہ اعراب ونقاط بعد میں بنا ئے نہیں گئے صرف لگائے گئے
ہیں، پہلے اسلام چونکہ صرف عرب میں تھا پس ماہرین لسان کے لئے اپنی زبان کے لکھنے
یا پڑھنے میں اعراب لگانے کی ضرورت نہ تھی اورجب اسلام اہل عجم میں پھیلاتو دونوں
چیزوں کی ضرورت محسوس ہوئی اور اسے پورا کردیا گیا-
جواب(۳): اگر نقطے اوراعراب وغیرہ پہلے سے نہ ہوتے تو بعد میں ان کا
اضافہ تحریف قرآن کا موجب ہوتا اور چونکہ بعد میں ان کا لگنا تحریف کا موجب نہیں
ہوا معلوم ہوا کہ یہ پہلے سے داخل قرآن تھے، پس حضرت امیر المومنین کے فرمان پر اس
قسم کے اعتراضات چشم کوری اوربدباطنی ہی ہے-
سوال: سورہ فاتحہ میں تمام علوم کا ہونا تو مسلّم ہے جیسا کہ
پہلے بیان کیا جاچکا ہے لیکن تمام کا بائے بسم اللہ میں ہونا ہو یا بائے بسم اللہ
کے نقطہ میں ہونا سمجھ میں نہیں آسکتا، بلکہ ظاہراً حروف مفرد میں یا نقطہ میں
علوم قرآنیہ کا سمانا محالات میں سے ہے؟
جواب: اس کی توجیہ علامہ نہا وندی vنے اس طرح فرمائی ہے کہ حروف تہجی میں الف تمام حروف سے
پہلے بھی ہے اورمجرد بھی ہے سید ھا بھی ہے اوربلند بھی ہے پس عالم حروف میں اس کی
حیثیت ایسی ہے جس طرح عالم موجودات میں ذات ربُّ العزت کا وجود، کہ وہ سب سے پہلے
بھی ہے مجرد بھی ہے بلند ومتعالی بھی ہے اورالف کے بعد عالم حروف میں باءحرفِ اوّل
ہے جس طرح وجود ذیجود جناب رسالتمآب ﷺعالم موجودات میں موجود اوّل ہیں، ہم شکل حروف کا باہمی امتیاز نقاط سے کرتے
ہیں لہذابا کو عالم حروف میں اپنے ہم شکل حروف سے تحتانی نقطہ کے ذریعہ تمیز حاصل
ہے اسی طرح عالم موجودات میں مخلوق اوّل حضرت محمد مصطفیﷺ کے وجود ذیجود کو وجود علیکے ساتھ اختصاص وتمیز عطا کی گئی اِنتَھٰی
عالم حروف یاوجود کتابی میں باءاورنقطہ ایک ہی
وجود رکھتے ہیں، اسی طرح عالم موجودات یا وجود خلقی میں نور محمد ﷺونور علیایک ہی نور ہیں جیسا کہ ارشاد ہے اَنَا
وَعَلِیٌّ مِّن نُّورٍ وَّاحِدٍ[2] میں اور علیایک ہی نورسے ہیں، تفسیر ہذا کی جلد اوّل میں حضرت امیر
المومنین کا فرمان ملاحظہ ہو، اور جناب رسالتمآب ﷺکی خلقت نوری کی تفصیلی روایات کتب مفصل میں مذکورہیں اس مقام پران کا ذکرکرنا موضوع سے خارج ہے-
نیز عالم حروف میں باقی تمام
حروف سے باءکو الف سے انتہائی قرب حاصل ہے اسی طرح عالم موجودات میں حضرت رسالتمآبﷺ کواللہ تعالیٰ سے جو قرب حا صل ہے اورکسی کو حاصل نہیں، باءچونکہ الف سے وضعی
طورپر قرب رکھتاہے یعنی حروف بنانے والے نے باءکو الف کے قریب رکھ دیا ہے لہذا
باءمیں قرب رکھ دیا ہے الف کی وجہ سے کوئی ذاتی خصوصیت نہیں ہے اگر آج بھی دنیا
والے حروف کی وضعی ترتیب کو بدل کر باءکے قرب کو الف سے ہٹادیں تو اس میں کوئی
قباحت نہیں نہ پہلے سے اس میں کو ئی خصوصیت تھی اورنہ بعد میں قرب الف حاصل ہونے
کے اس میں کوئی خاص استحقاق کی وجہ پید ا ہوئی ہے لیکن وجود ذیجود رسالتمآب ﷺکی پہلے کی خصوصیت ارادہ کا ملہ ذات احدیت ہے جو خالی از مصلحت نہیں اور اس کا
قرب حقیقی اسی مخلوق کے لئے سزاوارہے جس کو اس نے اپنے اختیار و ارادہ کا ملہ سے
تمام فضائل وکمالات ممکنہ سے سرفراز فرمایا ہواوران کمالات میں باقی کسی کو اس کا
شریک نہ کیا ہو ،پس اس نے اس مخلوق اوّل کو تمام امکانی کمالات میں امتیاز کا مل
عطافرمایا اورافضل موجودات قرار دیا اور وہ تمام صفات حسنہ جو حدود امکان کے اندر
کسی کو عطا ہوسکتی ہیں آنحضورﷺ کو ان سے مشرف فرماکر ارشاد فرمایا لَولاکَ
لَمَا خَلَقتُ الاَفلاکَ[3]
اور علم چونکہ تمام کمالات میں سے
اشرف کمال ہے لہذا حضورﷺ کو علوم ماکان ومایکون میں سے اس قدر عطا فرمایاکہ نطاقِ امکان میں اس سے
زیادہ کی گنجائش نہ تھی، پس معلوم ہوا کہ حضرت امیر المومنین کے اس فرمان میں کہ جمیع علوم ماکا ن ومایکون یا جمیع علوم کتب سماویہ بائے بسم اللہ میں
ہیں اس باءسے مراد تاویلی طور پر وجودِ حضرت خاتم الانبیا ﷺہے نہ کہ ظاہری حرف باءجو حروف تہجی میں دوسرے نمبرپر ہے، چنانچہ حضرت امیر
المومنین کا آخری فقرہ (کہ بائے بسم اللہ کا نقطہ
میں علی ہوں) صاف طور پر اس امر کا کاشف ہے
کہ باءسے مرادآنحضورﷺہی ہیں-
اب مطلب صاف ہوا کہ تمام
علوم قرآنیہ بائے بسم اللہ میں ہیں اوربسم اللہ کے تمام علوم نقطہ بائے بسم اللہ
میں ہیں جو باءکے نیچے ہے یعنی تمام علوم قرآنیہ کا خزانہ حضرت رسالتمآبﷺ اورحضرت رسالتمآبﷺ کے تمام علوم کا خزانہ وجودِ علی ہے جو باقی کا ئنات سے افضل اورحضرت رسالتمآب ﷺکے ماتحت ہے-
اورحضرت علی کا علوم رسالت کا وارث ہونا کتب آثار میں تواترسے ثابت ہے
اسی تفسیر کی جلد اوّل میں احادیث نقل کی گئی ہیں جن سے منصف طبائع اطمینان حاصل
کر سکتی ہیں اورعلوم قرآنیہ میں حضرت علی کی کمال وسعت کے مظاہرے کتب آثار میں اتنی کثرت سے منقول ہیں کہ ان کے
یکجاکرنے سے ضخیم کتابیں پُرہوسکتی ہیں جبھی تو ارشاد فرماتے تھے: لَو
ثُنِّیَت لِیَ الوَسَادَةَ لَذَکَرتُ فِی تَفسِیْرِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ
الرَّحِیمِ حِمْلَ بَعِیْر
ترجمہ: اگر میرے لئے تکیہ
لگایا جائے تو صرف بسم اللہ کی تفسیر اس قدر بیان کروں کہ اونٹ بار ہوجائے -[4]
عَنِ ابنِ
عَبَّاسٍ اَنَّہ شَرَحَ لَہ فِی لَیلَةٍ وَّاحِدَةٍ مِّن حِینَ اَقبَلَ ظِلامُھَا
حَتّٰی صَبَاحِھَا فِی شَرحِ البَاءِ مِن بِسمِ اللّٰہِ وَ لَم یَتَعَدَّ اِلٰی
السِّینِ وَقَالَ لَوشِئتُ لَاَوقَرتُ اَربَعِینَ بَعِیرًا مِّن شَرحِ بِسمِ
اللّٰہِ
ترجمہ: ابن عباس سے مروی ہے
کہ حضرت امیر المومنین نے میرے سامنے ایک رات ابتدائے تاریکی سے
سفیدی صبح تک بائے بسم اللہ کی شرح فرمائی اور سین تک نہ پہنچے اورفرمانے لگے کہ
اگر میں چاہوں توبسم اللہ کی شرح سے چالیس اونٹ بار کردوں-[5]
[3] بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۹۸ ، الانوار ابو الحسن بکری ص ۵، تفسير الآلوسي ج ۳۰
ص ۱۹ ،
ينابيع المودة ج ۱ص ۲۴ ،
تفسير الميزان ج ۱۰ص ۱۵۲، شرح اصول كافی ج ۹ ص ۶۱، کفاية الاثر ص ۷۰ ، عوالم العلوم ص ۲۶ ، مستدرک سفینۃ البحار ج ۳ ص ۳۳۴
[5]
دمعة الساکبہ ص ۶۹ ، بحار الانوار
ج ۴۰ ص ۱۸۶، مشارق الانوار ص۹۶، درر الاخبار ص۲۷۶، تذکرۃ الخواص ۱۵۳، طرائف ج ۱
ص ۲۰۵