اشتباہ: اس مقام پر بعض لوگوں کو اشتباہ ہوتا ہے کہ بعض دعاوٴں کے
الفاظ یہ بتلاتے ہیں کہ حضرات آئمہ طاہرین قضائے حاجات کے لئے خود کفیل ہیں اوروسیلہ نہیں، گویا مطلب یہ نکلتا ہے کہ
صرف انہی کو پکارا جائے اورانہی سے مدد وغیرہ طلب کی جائے اللہ تعالیٰ سے مانگنے
اورمدد طلب کرنے کی کوئی ضرورت نہیں یعنی ان دعاوٴں سے تفویض کے مسلک کی درستی
ثابت ہوتی ہے چنانچہ دعائے فرج کے الفاظ یہ ہیں:
یَامُحَمَّدُ
یَاعَلِیُّ یَاعَلِیُّ یَامُحَمَّدُ اِکفِیَانِی فَاِنَّکُمَا کَافِیَایَ وَ
اُنصُرَانِی فَاِنَّکُمَا نَاصِرَایَ یَا مَولانَا یَا صَاحِبَ الزَّمَانِ اَلغَوث
اَلغَوث اَلغَوث اَدرِکنِی اَدرِکنِی اَدرِکنِی اَلسَّاعَة اَلسَّاعَة اَلسَّاعَة
اَلعَجَل اَلعَجَل اَلعَجَل یَا اَرحَمَ الرَّاحِمِینَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَّ آلِہ
الطَّاھِرِین [1]
ترجمہ: اے محمدﷺ اے علی! آپ دونوں میری کفایت کریں کیونکہ آپ
دونوں مجھے کافی ہیں اور میری مدد کریں کیونکہ آپ میرے مددگارہیں، اے ہمارے
مولاصاحبُ الزمان فریاد فریاد فریاد میری مدد کو پہنچئے پہنچئے پہنچئے ابھی ابھی
ابھی جلدی جلدی جلدی اے ارحم الراحمین حضرت محمد مصطفےٰﷺ اوران کی آلِ طاہرہ کے صدقہ میں-
پس اس دعا میں وسیلہ ہونے کا
کوئی ذکر نہیں؟
جوابِ اشتباہ: صرف تخریب ِعقائد کے لئے انہی جملوں کو پیش کرنا ناخدا
ترسی بلکہ تعلیماتِ آئمہ کے خلاف اعلانِ جنگ کے
مترادف ہے، اگر چشم بصیر ت سے ان کو ملاحظہ کیا جائے تو اس دعا میں عقائد ِحقہ کے
خلاف کوئی بات نہیں نکلتی بلکہ یہ دعا بھی پہلی دعاوٴں کے اقتباساتِ گزشتہ کی
تائید کرتی ہے کیونکہ انہی جملوں سے پہلے صاف طور پر یہ کلمات ہیں:
اَللّٰھُمَّ
صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ اُولِی الاَمرِ الَّذِینَ فَرَضتَ
عَلَینَا طَاعَتَھُم وَ عَرَّفتَنَا بِذٰلِکَ مَنزِلَتَھُم فَفَرِّج عَنَّا
بِحَقِّھِم فَرَجًا عَاجِلًا قَرِیبًا کَلَمحِ البَصَرِ اَو ھُوَ اَقرَبُ
ترجمہ: اے اللہ! محمد
وآلِ محمد پر رحمت نازل فرما وہ جو صاحبانِ امر ہیں جن کی تو نے ہم پر
اطاعت فرض کی اور اسی سے تونے ہم کو ان کی منزلت کی معرفت عطاکی، پس انہی کے حق کا
واسطہ دے کر ہم عرض کرتے ہیں کہ ہمیں جملہ مصائب سے فوری پلک جھپکنے یا اس سے بھی
جلدی نجات عطافرما-
اب یہ الفاظ ببانگ دہل پکار
رہے ہیں کہ مقصود بالذات ندا ذاتِ احدیت ہے اورمحمد وآلِ محمد وسیلہ و واسطہ ہیں، اب اس کے بعد یامحمدﷺ اور یاعلی کہہ کر یہ کہنا کہ تم ہی میری مدد کرو اورتم ہی میری کفایت کرو کیونکہ تم
دونوں مدد گار اورکافی ہو اورحضرت حجت کو ندا کرکے ان سے فریاد کرنا وطالب دعا ہونا اس سب کا مطلب
یہی ہے کہ تم وسیلہ وواسطہ بننے میں میرے لئے کافی ہواوراس امر کےلئے مجھے کسی
اورسے مددطلب کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ سوائے تمہارے وسیلہ کے باقی ذرائع میری
کفایت مہم کےلئے ناکافی ہیں اورنیز دعائے مذکور کے آخری کلمات کہ یَا
اَرحَمَ الرَّاحِمِینَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَّ آلِہ الطَّاھِرِین بھی
اسی مطلب کی تائید کررہے ہیں کہ ان کو پکارنا اوران سے فریاد کرنا صرف وسیلہ قرار
دینے کی خاطر تھا ورنہ اللہ تعالیٰ کو خطاب کرکے بِحَقِّ
مُحَمَّدٍ وَّ آلِہ الطَّاھِرِین کہنا بے معنی ہوجاتا ہے-