التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

مقام ابراہیم 

مقام ابراہیم 


وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيْمَ مُصَلًّى وَ عَهِدْنَا إِلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَ إِسْمٰعِيْلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِیَ لِلطَّائِفِيْنَ وَالْعَاكِفِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ (125) وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ قَالَ وَ مَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيْلًا  ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلٰى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ (126)
ترجمہ:
اور جب کہ بنایا ہم نے کعبہ کو جائے ثواب لوگوں کے لئے اور مقام امن اور پکڑو تم مقام ابراہیم کو جائے نماز اور ہم نے عہد کیا طرف ابراہیم اور اسماعیل کے کہ پاک رکھو میرے گھر کو طواف کرنے والوں اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے(125) اور جب دعا مانگی ابراہیم نے کہ اے رب کر اس کو شہر پر امن اور رزق دے اس کے بسنے والوں کو پھلوں سے جو ایمان لائے ساتھ  اللہ کے اوریوم قیامت کے فرمایا کہ جو کافر ہو گا پس اس کو فائدہ دوں گا تھوڑا پھر اس کو داخل کروں گا عذاب دوزخ میں اور وہ بری بازگشت ہے(126)
   
مَثَابَةً لِّلنَّاسِ :مَثَابَہ“ کا معنی جائے رجوع اورجائے پناہ بھی کیا گیا ہے، روایت میں ہے کہ جو شخص مکہ سے واپسی پر آیندہ سال کی حج کی نیت بھی کرلے تو اس کی عمر میں زیادتی ہے اورجو حج کرکے دوبارہ آنے کی نیت نہ کرے تو اس کی موت نزدیک کی جاتی ہے-

مقام ابراہیم

مجمع البیان میں حضرت امام محمد باقر سے مروی ہے کہ جنت سے تین پتھر آئے:
 مقام ابراہیم، حجرِ بنی اسرائیل (جس پر حضرت موسیٰ عصامارتے اورپانی کے چشمے اس سے نکلتے تھے( اور  حجرِ اسود
وَ اتَّخَذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلًّی: آئمہ اہل بیت کی طرف سے احادیث بکثرت واردہیں کہ حاجی کےلئے ضروری ہے کہ طواف بیت اللہ سے فارغ ہوکر دورکعت نمازِ طواف اسی مقام ابراہیم پر پڑھے-
تفسیر بیضاوی میں جابر سے مروی ہے کہ جناب رسالتمآب جب طواف سے فارغ ہوئے تو مقام ابراہیم کا رُخ کیا اوراس کے پیچھے کھڑے ہوکر دورکعت نمازِ طواف ادا فرمائی اورپھر اس آیت کی تلاوت فرمائی وَ اتَّخَذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلًّی اس مقام پر صیغہٴ امر  ہے اوراس کی دلالت وجوب پر ہوتی ہے تو معلوم ہوا کہ نمازِ طواف کا مقام ابراہیم پر پڑ ھنا واجب ہے اورمحمد وآل محمد نے اسی مقام ابرہیم کو ہی مصلیٰ قرار دیا-
حضرت رسول اکرم نے مصلیٰ ابراہیمی کو ہی اختیار فرمایا،بلکہ خود خداوند﷯ نے مصلیٰ ابراہیمی کو مصلیٰ قرار دینے کا حکم صادر فرمایا، تو یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ اس مصلیٰ کو چھوڑ کر الگ ایک دونہیں بلکہ چار مصلے قائم کردئیے جائیں؟
اورعلامہ بیضاوی نے اس اعتراض سے بچنےکے لئے امر کو استحباب پر محمول کرلیا حالانکہ اکثر اصولیوں کے لئے صیغہ امر وجوب کے لئے ہوتا ہے؟ جب تک کہ خلاف کا قرینہ نہ ہواورپھر جب رسول پاک کے عمل سے تائید بھی ہو جائے تو استحباب کا محل ہی باقی نہیں رہتا اوربفرض تسلیم استحباب ہی سہی لیکن سنت رسول پر چلنے کے دعویداروں کےلئے اس استحباب سے کنارہ کشی کیونکر روا ہے؟
بات صرف یہ ہے کہ چونکہ اہل بیت رسول﷨ نے مصلیٰ ابراہیمی کو اختیار فرمایا، پس اہل بیت﷨ سے مفت کی عداوت رکھنے والوں نے سنت رسول کو ترک کرنے میں ہی بھلائی سمجھی کہ کہیں اہل بیت ﷨کی اتباع کا الزام عائد نہ ہوجائے، گویا جب اہل بیت رسول﷨ سے مقابلہ کرنا ہو تو کتابُ اللہ کوکافی سمجھنے والے کتابُ اللہ کو بھی چھوڑ کربھاگ جاتے ہیں-
تفسیر مجمع البیان میں ابن عباس سے مروی ہے کہ جب حضرت ابراہیم حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ کو مکہ میں چھوڑکر واپس چلے گئے اورایک مدت گزر گئی تو یہاں قبیلہ جر ہم آکر آباد ہوا اورحضرت اسماعیل نے اُنہی میں شادی کر لی اور حضرت ہاجرہ کا انتقال ہو گیا، تو حضرت ابراہیم نے حضرت سارہ سے کہاکہ میں ہاجرہ کی خبر گیری کے لیے جاتا ہوں تو حضرت سارہ نے اجازت دی اور یہ شرط کر لی کہ وہاں آپ اپنی سواری سے نہ اُتریں گے-
 پس آپ جب مکہ میں وارد ہوئے تو حضرت ہاجرہ کا انتقال ہو چکا تھا حضرت اسماعیل کے گھر پہنچے اور ان کی بیوی سے ان کا حال پوچھا اس نے کہا وہ بال بچوں کی خوراک کےلئے شکارکو گئے ہیں (کیونکہ مکہ کی زمین میں زراعت وغیرہ نہ تھی) اور حضرت اسماعیل حرم سے باہر جاکر شکار پکڑلاتے تھے پس حضرت ابرہیم نے کھانا طلب کیا تو اس نے کہا کہ نہ میرے پاس کھانا ہے اور نہ کوئی دوسرا آدمی ہے (کہ یہ انتظام کر سکے) پس حضرت ابراہیم نے واپس جاتے ہوئے فرمایا کہ جب تیرا شوہر واپس آئے تو میر اسلام کہنا اور کہنا کہ گھر کا دروازہ تبدیل کرے یہ کہہ کر آپ چلے گئے، جب حضرت اسماعیل واپس آئے تو انہوں نے اپنے باپ کی خوشبو محسوس کر کے زوجہ سے دریافت کیا تو اس نے حقارت آمیز لہجہ میں کہا کہ ہاں فلاں فلاں صفت کا ایک بوڑھا آدمی یہاں آیاتھا، آپ نے پوچھا کہ کچھ کہتا بھی تھا؟ عورت نے جواب دیا کہ ہاںوہ کہتا تھا کہ اپنے شوہر کو میرا سلام دے کر کہنا کہ  اپنے گھر کے دروازہ کو تبدیل کرے، پس حضرت اسماعیل نے فوراً اسےطلاق دے کر دوسری شادی کر لی-
 کچھ عرصہ کے بعد حضرت ابرہیم نے اپنی زوجہ حضرت سارہ سے حضرت اسماعیل کو ملنے کی خواہش ظاہر کی تو اس نے اجازت دی اور وہی شرط لگائی کہ آپ سواری سے نہ  اتریں گے، پس جب حضرت ابراہیم حضرت اسماعیل کے گھر پہنچے تو اس موجودہ بیوی سے اُس کے شوہرکا حال پوچھا، اس نے جواب دیا کہ وہ شکار کو گئے ہیں اورا بھی تشریف لاتے ہیں انشاءاللہ خدا آپ پر رحم فرمائے تشریف رکھیے آپ نے کھانا طلب فرمایا تو فوراً دودھ اور گوشت سے آپ کی ضیافت کی، آپ نے برکت کی دعا فرمائی،  اس نیک بخت عورت نے آپ سے اترنے کی خواہش کی تاکہ آپ کے سر سے گردوغبار سفر کو دھوئے لیکن آپ نہ اُترے وہ فوراً ایک پتھر اُٹھا لائی اور آپ کے دائیں طرف رکھ دیا آپ نے اس پراپنا قدم رکھا جس کا نشان پتھر پر  باقی ہے تو اس نےآکےدائیں حصہ کو غسل دیا پھر پتھر بائیں طرف لا کر رکھ دیا آپ نے اس پر بایاں قدم رکھا جس کا نشان موجود ہے اس نے آپ کے سر کا بایاں حصہ دھویا پس فارغ ہو کر جب آپ نے واپس پلٹنے کا ارادہ فرمایا تو فرمایا کہ اپنے شوہر کو سلام  کہنا اور کہنا کہ اب تیرے گھر کا دروازہ ٹھیک ہے-
جب حضرت اسماعیل واپس آئے اورباپ کی خوشبوسونگھی تو عورت سے دریافت فرمایااس نے جواب دیا کہ ہاں نہایت خوبصورت وپاکیزہ  خوشبو ایک بزرگ تشریف لائے تھے انہوں نے ایسا ایسا فرمایا تھااورمیں نے یہ یہ عرض کیا تھا اوران کے سر کو غسل بھی دیا تھا، چنانچہ اس پتھر پر ان کے قدم کے نشانات باقی ہیں حضرت اسماعیل نے فرمایا کہ وہ میرے والد حضرت ابراہیم تھے اِنتَھٰی ملخصًا
یہ وہی مقام ابراہیم ہے جس کو مصلیٰ بنانے کا اُمت اسلامیہ کو حکم ہے-
علامہ بیضاوی نے لکھا ہے کہ مقام ابراہیم وہ مقام ہے جس پر کھڑے  ہو کرحضرت ابراہیم نے لوگوں کو حج کی دعوت دی تھی اوریہ بھی کہا گیا ہےکہ یہ وہ مقام ہے جہاں کھڑے  ہوکر آپ نے بیت اللہ کی تعمیر فرمائی تھی، جس پتھر پر حضرت ابراہیم کے قدموں کے نشان ہیں اس کے متعلق بعض اربابِ تحقیق نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ حضرت ابراہیم کا یہ معجزہ تھا کہ ان کے پاوٴں کے نیچے پتھر مٹی کی طرح نر م ہو جاتا تھا جس سے ان کے پاوٴں کا نشان باقی رہتا تھا-
رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا: جناب رسالتمآب سے منقول ہے کہ ابتدائے خلقت سے مکہ جائے حرمت ہے اوراس قسم کی روایات بہت زیادہ ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے مکہ مکرمہ حضرت ابراہیم کی دعاسے پیشتر حرم خدااورجائے امن قرار دیا گیا تھا، جیسا کہ علامہ طبرسی vنے ذکر فرمایاہے[1]  اورحضرت ابراہیم کی دعا سے اس کی حرمت زیادہ موکدہوگئی ہے-
اوربعض نے کہاہے کہ حضرت ابراہیم کی دعاکے بعد مکہ حرم قرار پایاہے، چنانچہ اس سلسلہ میں جناب رسالتمآب کا ایک فرمان بھی ہےکہ حضرت ابراہیم نے مکہ کو حرم بنایا اورہم نے مدینے کو حرم بنایا ہے-
بعض لوگ ان دونوں کو اس طرح جمع کرتے ہیں کہ مکہ حضرت ابراہیم کی دعاسے پہلے بھی جائے امن تھا لیکن دنیاوی عذاب و خسف وغیرہ سے لیکن حضرت ابراہیم کی دعاکے بعد جائے امن اورحرم بن گیا عظمت وہیبت کے لحاظ سے اوربعض مفسرین نے کہاہے کہ حرم پہلے سے تھا اورحضرت ابراہیم نے اس کے دوام کی دعامانگی تھی-
حضرت امام جعفر صادق سے مروی ہے کہ جو انسان مکہ کی پناہ لے لے وہ خداکے عذاب سے بچ جاتا ہے اورجو جانور پرندہ وغیرہ اس میں داخل ہوجائے وہ لوگوں کی اذیت وگر فت سے امن میں آجاتا ہے-
خداوند کریم نے عرب اقوام کے دلوں میں بھی اس کی تعظیم داخل کردی تھی کہ جو بھی اس میں داخل ہوجاتا تھا اس کا جان ومال محفوظ سمجھا جاتا تھا حتی کہ قبل ازاسلام اگر کوئی شخص حرم مکہ کے اندر اپنے باپ کے قاتل کو بھی پالیتا تھا تو حرم کی عظمت کے پیش نظر اس سے انتقام نہ لیتا تھا اوریہ عقیدہ حضرت اسماعیل سے ان کو ورثہ میں ملاتھا -
مسئلہ: اگر کسی شخص پر حدِّشرعی واجب ہو اور بھاگ کر حرم میں داخل ہو جائے تو شرعاً اس پر حرم کی حدود کے اندر حدّ لگانا حرام ہے جب تک کہ وہ حرم سے باہر نہ جائے بشرطیکہ اس نے ارتکاب جرم حرم کی حدود سے باہر کیا ہو-[2]
وَ ارْزُقْ اَھْلَہُ مِنَ الثَّمَرَاتِ: مجمع البیان میں حضرت امام محمد باقر سے مروی ہے کہ ”ثَمَرَات“ سے مراد وہ میوہ جات وغیرہ ہیں جو گردونواح سے اُن کی طرف پہنچائے جائیں-
اورحضرت امام جعفرصادق سے مروی ہے کہ اس سے میوہ ہائے دل مراد ہیں یعنی اے اللہ! اس کے ساکنین کو لوگوں کا محبوب بنا دے تاکہ آس پاس سے کھچ کر ان کی طرف آئیں او رحضرت ابراہیم نے رزق کی دعا اہل مکہ میں سے ان لوگوں کے لئے  مخصوص فرمادی جو ایمان والے ہوں کیونکہ جب انہوں نے امامت کے لئے اپنی اولاد کا بالعموم نام لیا تھا تو ارشاد قدرت ہوا تھا کہ یہ عہدہ ظالموں کو نہ دیا جائے گا لہذااب کی مرتبہ دعامیں محتاط رویّہ اختیار فرماتے ہوئے صرف مومنین کو مخصوص فرمادیا-
بعض مفسّرین کہتے ہیں کہ دعا کو اہل ایمان کے ساتھ اس لئے مخصوص کیا ہے کہ اگر وسعت رزق کی دعامیں مومن وکافر ہر ایک کو شریک کیا گیا تو کفار کی مکہ میں زیادتی فساد کی موجب ہوگی اوروہ مومنوں کو اعمال حج سے منع کرنے لگیں گے لہذا دعاہی صرف مومنوں کے لئے فرمائی-
وَ مَنْ کَفَرَ فَاُمَتِّعُہُ قَلِیْلًا: یعنی کفار کو وہاں تھوڑا رزق دوں گا، اس سے مرادیہ ہے کہ  صرف دنیاوی زندگی  ان کی ہوگی اس کے بعد عذاب دائمی میں گرفتار ہوں گے اوردنیاوی زندگی  اُخروی زندگی کےمقابلہ میں متاعِ قلیل ہی ہے، بعض نے کہا ہے کہ کفار کو مدتِ قلیلہ تک وہاں رزق ملے گا اوراس سے مراد حضرت رسول اکرم کی بعثت یا فتح تک کا زمانہ ہے-
وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمٰعِيْلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ (127) رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَآ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ (128) رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ العَزِيْزُ الحَكِيْمُ (129)
ترجمہ:
اور جب بلند کرتا تھا ابراہیم بنیادیں کعبہ کی اور اسماعیل بھی اے ربّ ہم سے قبول کر تحقیق تو سننے جاننے والا ہے اے ربّ ہم )باپ ، بیٹے( دونوں کو اپنے حکم کے سامنے جھکنے والا قرار دے اور ہماری اولاد میں بھی ایک ایسا گروہ پیدا کر جو تیرے حکم کے سامنے جھکنے والے ہوں اور ہمیں اپنے مناسک سے آگاہ فرما اور ہم پر رجوع رحمت فرما تحقیق تو بہت رجوع رحمت کرنے والا مہربان ہے(128)  اے ربّ اور بھیج ان میں ایک رسول ان میں سے جو پڑھے ان کے سامنے تیری آیات اور تعلیم دے ان کو کتاب و شریعت کی اور ان کو پاک کرے تحقیق تو غالب حکمت والا ہے(129)

وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرَاھِیْمَ الْقَوَاعِدَ: روایات آئمہ میں ہے کہ بیت اللہ کی بنا حضرت آدم نے قائم کی تھی جو بعد میں ناپید ہو گئی اور اسی کو حضرت ابراہیم نے از سر نو کھڑا کیا-
حضرت امیر المومنین سے منقول ہے کہ آسمان سے پہلی چیز جو نازل ہوئی وہ یہی بیت اللہ ہے جو مکہ میں رکھا گیااور یہ یا قوتِ سرخ کا تھا جب حضرت نوح کی قوم نے فسق کیا تو اس کو اٹھا لیا گیا-
بعض روایات میں ہے کہ سفید موتی کا تھا جسے اٹھا لیا گیا اور اس کی بنیاد پر حضرت ابراہیم نے تعمیر نَوکا کام شروع کر دیا، حضرت اسماعیل ان کو پتھر اٹھا کر دیتے تھے اور وہ دیوار بناتے تھے-
اور روایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم کی زبان عبرانی تھی پس وہ اپنی عبرانی زبان میں حضرت اسماعیل کو فرماتے تھے جس کا مطلب تھا پتھر لاوٴ اور حضرت اسماعیل عربی میں جواب دیتے تھے یَا اَبَاہُ ھَاکَ الْحَجَرُ ابا جان پتھر لیجئے، پس حضرت اسماعیل پہلے شخص ہیں اولادِ ابراہیم سے جنہوں نے عربی کو اپنی زبا ن بنایا-
وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْن: حضرت اسماعیل و حضرت ابراہیم کی دعا ہے کہ ہمیں اپنے حکم کےسامنے جھکنے والا قرار دے کہ تیرے ہر حکم کے سامنے ہمارا سر تسلیم خم رہے اور اس کی مزید وضاحت سورہ صافّات کی تفسیر میں آئے گی- [3]
وَ ابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا: اس سے مراد حضرت محمد مصطفی ہیں کیونکہ دعا مانگنے والے حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل کی اولاد سے سوائے آنحضور کے اور کوئی نبی ہوا ہی نہیں اور حضور کا ارشاد بھی ہے کہ میں حضرت ابراہیم کی دعا اور حضرت عیسیٰ کی بشارت کا مصداق ہوں -


[1] مجمع البیان ج۲
[2] مجمع البیان ج۲
[3] تفسیر انوار النجف فی اسرار المصحف ج۱۲

ایک تبصرہ شائع کریں