مچھلی کا شکار کرنے والے
تفسیر برہان میں امام زین العابدین سے منقول ہے کہ بنی اسرائیل میں سے ایک قوم دریا کے کنارے پر رہتی تھی جن کے شہر کا نام
ایلہ تھا، خداوندکریم نے اُن کو بذریعہ اُن کے انبیاکے سنیچر کے دن مچھلی کے شکار
سے منع فرمایا تھا پس انہوں نے اللہ کے حرام کو حلال بنانے کیلئے ایک حیلہ تلاش
کیا اوروہ یہ کہ دریا کے کنارے انہوں نے حوض بنالئے اوردریاسے بذریعہ چھوٹی نالیوں
کے اُن کو ملادیا تاکہ مچھلیاں نالیوں کے
ذریعہ سے ان حوضوں میں داخل ہو سکیں اوروہاں سے نکل کر واپس دریا کی طرف نہ
جاسکیں، پس مچھلیاں سنیچر کے روز اللہ کی
امان سمجھ کر آجاتی تھیں اوراُن نالیوں سے پھر پھر اکرحوضوں میں داخل ہو جاتی تھیں
لیکن جب بوقت شام واپس دریا کی طرف جانا چاہتی تھیں تاکہ کل کے شکارسے بچ جائیں تو
واپس نہ جاسکتی تھیں اوررات کو وہاں بندرہ جاتی تھیں پس صبح اتوارکو وہ لو گ ان کو
آسانی سے پکڑلیا کرتے تھے اورکہتے تھے کہ ہم نے سنیچر کو تو یہ شکار نہیں کیا بلکہ
اتوار کو یہ شکار کیا ہے لہذا یہ ہم پر حرام نہیں حالانکہ وہ دشمنانِ خداجھوٹے تھے
کیونکہ درحقیقت وہ مچھلیاں سنیچر کے دن ہی پکڑی جاچکی تھیں، پس اس حیلہ وبہانہ سے
وہ لوگ بڑے مالدار ودولتمند ہوگئے اورعیش وعشرت کی زندگی گزارنے لگے اوراس شہر کی
آبادی اَسّی ہزار سے زیادہ تھی جن میں سے ستر ہزار آدمی اس جرم میں مبتلاتھے اوردس
ہزار سے کچھ اوپر اس فعل حرام سے محفوظ تھے، پس یہ لوگ ان کو عذاب خداسے ڈراتے
اوران کو اس فعل بد سے باز آنے کی دعوت دیتے تھے لیکن کچھ اثر نہ ہوتا تھا، پس وہ
کہتے تھے کہ ہم نے اپنا فریضہ ادا کردیا ہے کیونکہ ہمیں امر بالمعروف اورنہی عن
المنکر کا حکم تھا، پس اللہ کے سامنے ہمارا عذر معقول ہے کہ ہم نے نہی کا فریضہ
ادا کردیا ہے اورہم دل سے اس فعل کو برا جانتے ہیں شاید کوئی ہماری نصیحت سے عذابِ
خداسے بچنے پر موفق ہو جائے جب انہوں نے دیکھا کہ ان لوگوں پر ہمارا وعظ ونصیحت
کچھ اثرنہیں کرتا تو انہوں نے اس شہر سے ہجرت کرکے ایک علیحدہ بستی بسالی اوروہاں
آباد ہوگئے تاکہ مبادا خداکا عذاب نازل ہو کرہمیں بوجہ مجاورت کے اپنی لپیٹ میں لے
لے-
پس ایک رات کو مچھلی کاشکار
کرنے والے سوئے جب اُٹھے تو سب بندروں کی شکل میں زن ومرد مسخ ہو چکے تھے[1]
شہر کے دروازے ویسے کے ویسے بندرہ گئے نہ کوئی وہاں سے باہر آتا تھا اورنہ کوئی
اندرداخل ہوسکتا تھا، جب بیرونی بستی والوں نے سنا تو انہوں نے شہر کا قصد کیا
اوردیواروں پر چڑھ کر جھا نکا تو سب عورتوں مردوں کو بندروں کی شکل میں مسخ دیکھا،
جب یہ دیکھنے والے ان میں سے اپنے کسی قریبی یا تعلق دار کو کسی علامت سے پہچانتے
تو پوچھتے کہ تو فلاں مرد ہے یا تو فلاں عورت ہے تو وہ سر ہلا کر ہاں کا جواب دیتے
تھے اوران کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑتے تھے، پس تین روز تک اسی حالت میں رہے پھر
خداوند کریم نے بارش اورآندھی بھیج کر اُن کو ختم کر دیا اوردریا میں ڈال دیا
اورکوئی مسخ شدہ جانور تین دن سے زیادہ نہیں رہتا، ہاں جن کو تم بندردیکھتے ہو یہ
وہ مسخ شدہ نہیں ہیں بلکہ ان کی شکلوں کے مشابہ ہیں اوریہ جانور ان کی نسل سے
نہیں-
مجمع البیان میں ابن عباس سے
منقول ہے کہ خداوند نے ان کو مسخ کیا تو
تین د ن تک زندہ رہے اور ایک دوسرے کو بھونکتے تھے، نہ انہوں نے کھایا نہ
پیا نہ
نرومادہ آپس میں جمع ہوئے،پھر خدا نے ان کو ہلاک کر دیا اور تیز ہوا نے ان کو دریا
میں پھینک دیا، پس یہ بندر اور سور ان کی اولاد نہیں ہیں بلکہ شکل میں ان کے مشابہ
ہیں-
پھر حضرت امام زین العابدین نے فرمایا
کہ خداوند کریم نے جب مچھلی کے شکار کرنے والوں کو مسخ کر دیا تو کیا حال ہو گا
اُن لوگوں کا جنہوں نے ناحق اولادِ رسولﷺ کو قتل کیا اور اُن کی حرمت کی ہتک کی؟
خداوند کریم نے دنیا میں گو ان کو سزائے مسخ نہیں دی لیکن عذاب آخرت
جوان کے لئے تیا ر ہے وہ اس مسخ ہونے سے بہت زیا دہ ہے، پس ایک شخص نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ بعض ناصبی ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ اگر
قتل حسین ناجائز ہوتا اور بنی اسرائیل کے مچھلی کے شکار سے اس کا جرم
سنگین ہوتا تو پھر قاتلانِ حسین پرخدا کا غضب کیوں نازل نہیں ہوا؟
جیساکہ بنی اسرائیل کے مچھلی کے شکاریوں پر نازل ہوا؟آپ نے فرمایا کہ ان ناصبیوں
سے کہو ابلیس کا گناہ ان لوگوں سے سنگین ہے جو اس کے بہکانے سے گمراہ ہوئے لیکن وہ
غرق ہوگئے جن کا گناہ ہلکا تھا اور وہ غرق نہیں ہوا جس کا گناہ سنگین تھا؟ پس خدا
نے اپنی مصلحت سے سنگین جرم والے کو مہلت دے دی اور ہلکے جرم والوں کو معذب کر
دیا، اسی طرح بنی اسرائیل کے شکاری جو ہلکے جرم والے تھے معذب ہو گئے اور امام
حسین کے قاتل ابلیس کی طرح ایک وقت تک
مہلت دیئے گئےحالانکہ ان کا جرم سنگین تھا-
نیز آپﷺ سے سوال کیا گیا کہ یہ فعل گزشتہ زمانہ کے بنی سرائیل کا تھا پھر زمانہ اسلام
کے بنی اسرائیل کو اس فعل سے کیوں مخاطب کیا جارہا ہے ؟تو آپﷺ نے فرمایا جس کا ماحصل یہ ہے کہ ایک شخص کی قوم اگر کسی کو قتل کردے یا کہیں
ڈاکہ ڈال دے تو اس شخص کو کہا جاسکتا ہے کہ تم نے فلاں کو قتل کیا یا فلاں مقام پر
ڈاکہ ڈالا حالانکہ یہ اس قتل یا ڈاکہ میں شریک نہیں تھا اور نیز اس زمانہ کے بنی
اسرائیل چونکہ اپنے اسلاف کے افعال پر راضی تھے لہذا اُن کو اُن کے فعل کا شریک
قرار دیا گیا اور ان کو توبیخ و سرزنش کی گئی تاکہ اپنے عقیدہ فاسدہ سے باز آکر اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں-
فَجَعَلنَا ھَا نَکَالًا :”ھَا
“کی ضمیر کا مرجع اگر بستی ہو تو معنی ہو گا کہ اس بستی کو ہم نے عبرت قرار دے دیا
اور اگر ضمیر کا مرجع عقوبت اور سزا ہوتو
معنی ہو گا ہم نے عبرت بنا دیا-
اسی طرح لِمَا
بَینَ یَدَیْھَاوَمَاخَلْفَھَا میں
مَابَینَ یَدَیھَا اورمَاخَلفَھَا
میں کئی احتمالات ہوسکتے ہیں:
• مَابَیْنَ
یَدَیْھَاسے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے آنکھوں سے اُن لوگوں کو
مبتلائے عذاب دیکھا اور مَاخَلْفَھَاسے
مراد بعد میں آنے والی نسلیں ہیں-
• مَابَیْنَ
یَدَیْھَا سے مراد قریب کی بستیاں اور
مَاخَلْفَھَاسے مراد دُور دُور کی بستیاں ہیں-
• مَابَیْنَ
یَدَیْھَاسے مراد اُن کے سابقہ گناہ اور مَاخَلْفَھَاسے
مراد بعد والا گناہ جس میں مواخذہ ہوئے-
حضرات صادقین کی روایت سے
پہلے احتمال کی تائید ملتی ہے اور تمام احتمالات کی رُو سے معنی آیت کا یہ ہوگا کہ
ہم نے اسی بستی کو یا اسی بستی والوں کے عقاب مسخ کو باعث عبرت قرار دیا دیکھنے
اور سننے والوں کیلئے اور نزدیک دور والوں کے لئے اور اگر ”نَکال“
کا معنی عذاب لیا جائے تو پھر آخری
احتمال سے معنی درست ہوگا یعنی وہ عذاب ان کے اگلے و پچھلے سب گناہوں کی سزا ہم نے
قرار دیا وَاللَّہُ اَعْلَمُ