پانچ نکات
• کافرین کے
متعلق یہ پیشین گوئی ہے کہ ان کو ڈراوٴ یا نہ ڈاروٴ ایمان نہیں لائیں گے حرف بحرف
سچی ثابت ہوئی اوریہ قرآن مجید کے معجزہ ہونے اورپیغمبر ﷺکے صادق ہونے کی واضح دلیل ہے-
• سَوَاءٌ
عَلَیھِم فرمایا یعنی ان کی
ہٹ دھرمی اورسوئےاختیار کی بنا
پر تیرا ڈرانا یا نہ ڈارنا ان کے لئے برابر ہے یعنی وہ اثر قبول کرنے سے محروم ہیں
یہ نہیں فرمایاکہ سَوَاء
عَلَیک یعنی ان کو ڈرانایا نہ ڈرانا تیرے لئے برابر ہے کیونکہ حضورﷺ کے لئے ان کو ڈرانا اِتمام حجت تھا اوریہ آپؐ کا فریضہ تھا جس کی ادائیگی میں
آپؐ پوری طرح کامیاب رہے اورنہ ڈرانے کی صورت میں آپؐ ایک اہم فریضہ نبوت کی
ادائیگی سے محروم ہوجاتے پس آپؐ کے حق میں ڈرانا اورنہ ڈرانا برابر نہیں بلکہ
ڈرانا کامیابی اورنہ ڈرانا کوتاہی تھا -
• ”خَتْم“
کی اللہ کی طرف نسبت اس بنا پر ہے کہ اللہ نے خیر وشر کی دونوں قوتیں دے کر ان کو
قبول حق پر مجبور نہیں فرمایا پس چونکہ بنیادی طاقتیں اللہ کی عطا کردہ تھیں اسلئے”خَتْم“
کی نسبت مجاز ًا اللہ کی طرف دی گئی مقصد یہ ہے کہ ضد اورہٹ دھرمی کی وجہ سے انکے
کان کلمہ حق سننے سے آنکھیں مناظر حق دیکھنے سے اوردل راہ حق کو اپنانے کی جراٴت
سے یکسر محروم ہو چکے ہیں جس طرح کہ ان کے اوپر مہر لگادی گئی ہو اور وہ بے بس ہو چکے ہوں -
• ”قَلْب“
و”بَصَر“ا
عضا کے نام ہیں اسلئے ان کو جمع کے لفظ سے ذکر کیا گیا ہے اور ”سَمْع“ چونکہ مصدر ہے اورواحد وجمع دونوں کیلئے اس کا استعمال جائز ہے اسلئے اس کو مفرد کے صیغے سے ذکر
کیا گیا ہے-
• چونکہ دل کی
سوچ بچار کسی ایک سمت کی پابند نہیں اسی طرح کان کی سماعت میں بھی کسی خاص سمت کی
تخصیص نہیں ہے بلکہ ہر طرف سے پہنچنے والی آوازوں کو سن سکتا ہے اسلئے دل اور کان
کےلئے ”خَتْم“
کے لفظ کو ذکر کیا گیا ہے جو ہر جانب سے ادراک کے دروازے بند کردیتا ہے اور آنکھ
چونکہ صرف سامنے کی جانب ہی دیکھ سکتی ہے اور اس کے ادراک کی سمت صرف ایک ہی ہے پس
اس کو روکنے کے لئے صرف سامنے کی جانب حجاب ہی کافی ہے لہذا اس کےلئے” غِشَاوَة
“کا ذکر کیا یعنی ان آنکھوں پر پردہ ہے –