التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

تفسیر رکوع ۱۰ -- والدین کی اطاعت

تفسیر رکوع ۱۰ -،والدین کی اطاعت
تفسیر رکوع ۱۰ -- والدین کی اطاعت


وَ إِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِیٓ  إِسْرَآئِيْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ إِلَّا اللّٰهَ وَ بِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً وَ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْيَتَامٰى وَ الْمَسَاكِيْنِ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْناً وَّ أَقِيمُوْا الصَّلَا ةَ وَ آتُوْا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيْلًا مِّنْكُمْ وَأَنتُمْ مُّعْرِضُوْنَ (83) وَ إِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لاَ تَسْفِكُوْنَ دِمَآءَكُمْ وَ لَا تُخْرِجُوْنَ أَنفُسَكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ  وَ أَنتُمْ تَشْهَدُوْنَ (84)
ترجمہ:
اورجب لیا ہم نے و عدہ اولادِ یعقوب سے کہ نہ عبادت کرنا مگر اللہ کی اوروالدین کے ساتھ نیکی کرنا اورقریبیوں کے ساتھ اوریتیموں اورمسکینوں کے ساتھ اورکہنا لوگوں کو اچھی بات اورقائم کرو نماز اور ادا کرو زکوة پھر تم پِھر گئے مگر قلیل تم میں سے اورتم روگردانی کرنے والے تھے(83)  اورجب لیا ہم نے وعدہ تم سے کہ آپس میں خونریزی نہ کرنا اورنہ نکالنااپنے نفسوں کو اپنے گھروں سے تم نے اقرار کیا اورتم مانتے ہو (84)
تفسیر رکوع ۱۰

والدین کی اطاعت

وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا: والدین کی اطاعت فرض ہے یہاں تک کہ لڑکا مستحباتِ شرعیہ بھی والدین کی اجازت کے بغیر ادا نہیں کرسکتا، البتہ اگر واجبات سے والدین روکیں تو لڑکے پر ان کی یہ اطاعت واجب نہیں بلکہ حرام ہے کیونکہ خدا والدین کے حق سے مقدم ہے-
منقول ہے کہ بد بخت اولاد ہے کہ جن کو والدین کی خدمت کا موقعہ ملے اور وہ ان کی خدمت نہ کر سکیں-
وافی میں کافی سے منقول ہے کہ حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا کہ والدین کے ساتھ  احسان کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ساتھ حسن صحبت رکھو اور ان کی ضروریات کو تم پورا کرو قبل اس کے کہ وہ تم سے سوال کریں، ان کی طرف نظر محبت و پیار سے کرو، اپنی آواز کو ان کی آوازسے بلند نہ کرو، اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ سے اونچا نہ کرواوران کے آگے نہ چلو-
اورجناب رسالتمآب سے مروی ہے کہ باپ کا فرزندپر یہ حق ہے کہ اس کو نام لے کر نہ بلائے اور اس کے سامنے نہ چلے، اس سے پہلے نہ بیٹھے اوراس کو گالی نہ دلوائے-
 ایک شخص نے جناب رسالتمآب کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ مجھے کو ئی وصیت فرمائیں تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا خواہ تجھے آگ میں جلانے کا عذاب دیا جائے، پس تیرے دل کو ایمان کی دولت سے مالامال ہو نا چاہئے اور ماں باپ کی اطاعت کرو خواہ وہ زندہ ہوں یا مرچکے ہوں، حتی کہ اگر وہ تجھے بیوی، بچوں اورمال سے علیحدہ ہونے کا حکم دیں تو تجھ پر اطاعت واجب ہے اوراسی کا نام ایمان ہے-
حضرت امام جعفر صادق سے سوال کیا گیا کہ اعمال میں سے کون سا عمل افضل ہے؟ تو آپ نے فرمایا وقت پر نمازپڑھنا اور ماں باپ کی اطاعت کرنا اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنا -
ایک شخص نے حضرت رسالتمآب کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے جہادسے بڑی محبت ہے، آپ نے فرمایا پس اللہ کے راستے میں جہاد کیا کرو کیونکہ اگر قتل کیا جائے گا تو اللہ کے نزدیک تو زندہ ہوگا اور رزق دیا جائے گا اور اگر مرے گا تو تیرا اَجر اللہ کے نزدیک محفوظ ہوگا اوراگرخیروسلامتی سے پلٹ آئےگاتو ایسا ہے گویا تو گنا ہوں سے پاک ہو گیا جس طرح شکم مادر سے پیدا ہوا تھا، اس نے عرض کیا حضور !میرے ماں باپ بوڑھے ہیں اوران کو مجھ سے بڑی محبت ہے وہ میرا گھر سے باہر جانا پسند نہیں کرتے، تو آپ نے فرمایا کہ اس صورت میں تو ماں باپ کی خدمت میں رہ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ان کا ایک شب وروز تیرے ساتھ میں محبت کرنا ایک سال کے جہاد سے افضل ہے -
اسی طرح ایک نوجوان نے جہاد سے محبت ظاہر کی اور ماں کی محبت کا تذکرہ کیا کہ وہ مجھ سے جدائی نہیں چاہتی تو آپ نے فرمایا تو واپس ماں کی خدمت میں چلا جا، اس ذات کی قسم ہے جس نے مجھے برحق مبعوث برسالت کیا ہے ماں کی تجھ سے ایک رات کی محبت ایک سال کے جہاد فی سبیل اللہ سے افضل ہے -
حضرت امام جعفر صادق کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کیا کہ میرا باپ بہت بوڑھا ہے قضائے حاجت کے لیے بھی ہم اس کو اٹھا کرلے جاتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ اگر تو کر سکتا ہے تو یہ کام خود کیا کر اور اپنے ہاتھ سے اس کے منہ میں لقمہ دیا کر یہ خدمت کل تجھے ڈھال کا کام دے گی -
ایک شخص دین نصار یٰ چھوڑ کر مسلمان ہوا اور حج پر گیا وہاں حضرت امام جعفر صادق کی زیارت کی اور اپنی ماں جو نابیناتھی کی خدمت کے متعلق سوال کیا آپ نے فرمایا پس ماں کی خدمت کیا کر وہ کہتا ہے کہ حج سے واپس میں کوفہ میں آیا اور ماں کی خدمت میں مشغول ہوا اسے کھانا اپنے ہاتھوں سے کھلاتا تھا، اس کے کپڑے صاف کرتا تھا اور اس کی ہر ممکن خدمت کرتا تھا،توماں نے پوچھا بیٹا ! جب تک تو میرے دین پر تھا تو اتنی خدمت نہیں کیا کرتا تھا جب سے تونے اسلام قبول کیا ہے میری زیادہ خدمت کرتا ہے، میں نے کہا ہمارے نبی کی اولاد میں سے ایک بزرگ نے مجھے یہی حکم دیا ہے ماں نے پوچھا کیا وہ نبی ہے ؟ نہیں بلکہ وہ نبی کی اولاد سے ہے، ماں نے کہا بیٹا وہ یقیناً نبی ہے کیونکہ یہ چیز انبیا﷨کی وصیتّوں میں سے ہے، میں نے کہا مادر گرامی ہمارے نبی کے بعد اور کوئی نبی نہیں آئے گا یہ اس کا فرزند ہے پس وہ کہنے لگی بیٹا ! تیرا دین اچھا ہے مجھے بھی سکھا، میں نے اس کو سکھایا اور وہ مسلمان ہوگئی،  چاروں نمازیں( ظہر، عصر، مغرب، عشا) اس نے پڑھیں اوررات کو عارضہ میں مبتلاہو گئی اورآخری وقت پھر اصول دین کا اقرار کیا اورمرگئی تمام مسلمان اس کی تجہیزوتکفین میں شامل ہوئے اورمیں نے خود اس کا جنازہ پڑھا  )ملخصاً ترجمہ(
حضرت امام محمد باقر سے مروی ہے کہ بعض اوقات انسان زندگی میں والدین کا فرمانبردار ہوتا ہے اورجب وہ مر جاتے ہیں تو ان کا نافرمان ہو جاتا ہے کیونکہ نہ ان کے قرضے ادا کرتا ہے اورنہ ان کے لئے استغفار کرتا ہے پس دفتر عدل خداوند ی میں وہ عاق لکھا جاتا ہے اوربعض انسان ماں باپ کی زندگی میں ان کے نافرمان ہوا کرتے ہیں اور ان کے مرنے کے بعد فرمانبردار ہو جاتے ہیں کہ ان کے قرضے ادا کرتے اوران کے لئے استغفار کرتے ہیں پس دفتر عدل خداوندی میں وہ والدین کے اطاعت گزار لکھے جاتے ہیں-
حضرت امام جعفر صادق سے منقول ہے  آپ نے فرمایا کہ تمہیں کیا ہے کہ والدین کے ساتھ احسان نہیں کرتے؟ زندہ ہوں یا مرگئے ہو ں اُن کی طرف سے نماز پڑھو، صد قہ دو، حج کرو، ان کے روزے رکھو، کیونکہ یہ اعمال ان کو فائدہ دیں گے اورکرنے والے کو بھی اسی قدر بلکہ اس سے زیادہ ثواب ملے گا یہ سب روایات وافی سے منقول ہیں-
ایک روایت میں ہے ماں باپ کے چہرہ کی طرف مہر ومحبت کی نگاہ کرنا عبادت ہے-[1]
عنوانُ الکلام میں ہے کہ ماں باپ کی طرف نظر کرنا ایک حج کے ثواب کے برابر ہے اوربروزِجمعہ ان کی قبروں کی زیارت کرنا حج کا ثواب ہے-
بحارالانوا رمیں کافی سے منقول ہے کہ حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا جنت کی خوشبوپانچ سو سال کی راہ سے آئے گی لیکن اپنے والدین کا نافرمان اُسے نہ سونگھے گا، احادیث اس بارہ میں حد تواتر سے زیادہ ہیں  نیک نیت اورصاف دل انسان کےلئے اسی قدر کافی ہے- [2]
یہ برّوالدین کی ظاہر ی تفسیر تھی اب ذرا اس کی باطنی تفسیر وتاویل ملاحظہ فرمایئے:
تفسیر برہان میں روضتہ الواعظین سے منقول ہے کہ حضرت امام جعفرصادق نے وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ والدین حضرت محمد مصطفی اورحضرت علی مرتضی ہیں- [3]
حضرت امام حسن عسکری سے مروی ہے کہ جناب رسالتمآب نے فرمایا کہ تمہارے افضل والدین اورزیادہ مستحق شکر حضرت محمد وحضرت علی ہیں-
 حضرت امیر المومنین نے فرمایا میں نے جناب رسالتمآب سے سنا کہ فرماتے تھے اَنَاوَ عَلِیٌّ اَبْوَا ھٰذِہِ الاُمَّةِ میں اورعلی اس امت کے باپ ہیں اورہمارے حقوق ان پر اپنے والدین کے حقوق سے زیادہ ہیں کیونکہ اگر وہ ہماری اطاعت کریں گے تو ہم اُنہیں جہنم سے نکال کر جنت پہنچائیں گے اورغلامی سے نکال کر آزادی دلوائیں گے، پس نہ ظاہر ی والدین کی اطاعت کے بغیر خدا کی خوشنودی حاصل ہو سکتی ہے اورنہ باطنی اورروحانی والدین کی اطاعت کے سوارضائے خداحاصل ہوتی ہے، جنت والدین کے قدموں میں ہے-
وَذِی القُرْبٰی : اور اپنے قرابت داروں کے ساتھ احسان کرنا صلہ رحمی ہےاور روایات میں ہے کہ صلہ رحمی کرنے والے پر قیامت کا حساب آسان ہوگا-
حضرت امام حسن عسکریسے مروی ہے کہ جوشخص اپنے والدین کی قرابت کے حقوق کی رعایت کرے گا اس کو جنت میں ہزار درجہ عطاہو گا کہ ہر دودرجہ کے درمیان تیز رو گھوڑے کا ایک لاکھ سال کا راستہ ہو گا اور اس کے بعد پھر امام نے درجات کی تفصیل کسی حد تک بیان فرمائی اورپھر فرمایا کہ جو شخص حضرت محمد مصطفی اور علی مرتضی کے قرابت داروں کے حقوق کی رعایت کرے گا تو نسبتی قرابت داروں کے حقوق کی رعایت کے ثواب سے اس کو ثواب اتنا زیادہ ہوگا جتنا نسبی والدین اورروحانی والدین (جناب محمد مصطفی اورعلی مرتضی) کے مراتب اوردرجات میں فرق ہے، پس خدا کا غضب نازل ہو اُن لوگوں پر جنہوں نے رسول اکرم وحضرت علیکے قریبیوں کے حقوق کی رعایت کرنا تو بجائے خود اُن کواس قدر ستایا کہ آج تک روحِ رسول اس صدمہ سے گریاں ہے!
 چنانچہ امام زین العابدین سے مروی ہے کہ باوجودیکہ ہمارے نانا مسلمانوں کو ہمارے ساتھ احسان کرنے کی اور ہمارے حقوق کی رعایت کرنے کی باربار تلقین کر گئے تھے لیکن  مسلمانوں نے ہمیں وہ مصائب ودُکھ پہنچائے ہیں کہ اگر ہمارے نانا مسلمانوں کو ہمارے ستانے کی وصیت فرماجاتے تو مسلمان اس سے زیادہ ہمیں مصائب ودُکھ پہنچا کر نہ ستا سکتے  وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَیَّ مُنْقَلَب یَّنْقَلِبُوْنَ
وَ الْیَتٰمٰی: حضرت امام حسن عسکری سے مروی ہے کہ جناب رسالتمآب نے یتیم پروری کی بڑی تاکید فرمائی کیونکہ وہ اپنے باپ کے سایہ عاطفت سے محروم ہوتے ہیں، پس جو ان کی حفاظت کرے گا خدا اُس کی حفاظت کرے گا اورجواُن کی عزت کرے گا خدااُس کی عزت کرے گا اورجو شخص اززاہِ کرم یتیم کے سرپر ہاتھ پھیرے گاخداوند کریم اُسے  اُس کے ہاتھ کے نیچے آنے والے بال بال کے بدلے میں ایک ایک محل جنت عطا فرمائے گا جو دنیا ومافیہاسے بزرگ تر ہو گا اوران میں ہر وہ چیز مہیا ہو گی جس کو اس کا جی چاہے گا اورآنکھ ٹھنڈی ہو گی اوروہ اس میں ہمیشہ رہے گا، خداوند آلِ محمد کے یتیموں پر ظلم کرنے والوں پر لعنت کرے-


[1] تفسیر انوار النجف فی اسرار المصحف ج۱
[2] بحار الانوار ج ۳
[3] روضۃ الواعظین ج۱

ایک تبصرہ شائع کریں