التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

منّ و سلویٰ

منّ و سلویٰ

منّ و سلویٰ

مَنَّ وَ السَّلْوٰی:  من وسلویٰ کا سببِ نزول جیسا کہ علامہ طبرسیv نے مجمع البیان میں ذکر فرمایاہے یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰنے اپنی قوم کو بیت المقدس کی طرف روانگی کا حکم دیا اورقوم عمالقہ سے جہاد کا امر کیا تو انہوں نے صاف انکار کر دیا اور کہا فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلا اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ تو اور تیرا رب دونوں جاکر لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں[1]  پس خداوند کریم نے ان کو(چٹیل میدان)میں سرگردانی کے عذاب میں مبتلا کر دیا وہ پانچ یا چھ فرسخ کا فاصلہ تھا اس میں سارا دن چلتے رہتے تھے جب شام ہوتی تو اسی مقام پر اپنے آپ کو پاتے تھے جہاں سے روانہ ہوئے تھے اور چالیس سال متواتر اسی سرگردانی میں رہے-
 اور کہتے ہیں یہ وہی چٹیل میدان ہے جو صحرائے سینا کا نام سے مشہور ہے جو حکومت مصر کے قبضہ میں تھا اور۱۹۶۶ءکی اسرائیل و عرب کی جنگ کے بعد اسرائیل نے اس پر قبضہ کر لیا ہے اور حضرت موسیٰ و ہارون کا انتقال بھی اسی میدان میں ہوا-
 اس مصیبت میں گرفتار ہونے کے بعد وہ اپنے کئے پر پشیمان ہوئے پس خدانے ان پر رحم فرمایا کہ جب انہوں نے سورج کی گرمی کی شکایت کو تو خدا نے سایہ کیلئے بادل کو ان کے سروں پر بھیج دیا اور کھانے کیلئے من و سلویٰ نازل فرمایااور یہ صبح صادق سے لے کر سورج نکلنے تک ان پر اترتا تھا پس ہر شخص اپنے اس دن کی خوراک جمع کرلیا کرتا تھا-
حضرت امام جعفر صادق سے مروی ہے کہ جو شخص اس وقت میں سویا رہتا تھا وہ اس دن کی خوراک سے محروم رہتا تھا اس لیے اس وقت میں نیند کرنا مکروہ ہے-
بعض نے کہا ہے کہ دن کو ان کے اوپر بال کا سایہ رہتا تھا اور رات کو آسمان سے ایک عمود نور اترتا تھا جو اُن کو چراغ کا کام دیتا تھا اور جو وہاں اُن کے ہا ں بچہ پیدا ہوتا تھا خدا اس کا لباس اس کے ساتھ بھیج دیتا تھا-
 منّ و سلویٰ کے معنی میں اختلاف ہے من سے مراد بعض شہد لیتے ہیں، بعض کہتے ہیں روٹی ہے، بعض کچھ اورکہتے ہیں اور جنا ب رسالتمآب سے منقول ہے کہ کماۃ (کھمبی) منّ کی قسم ہے اور اس کا پانی آنکھوں کے لیے باعثِ شفا ہے اور سلویٰ ایک قسم کا پرندہ تھا،  ایک روایت میں ہے  کہ من سے مراد ترنجبین ہے-
ایک روایت میں ہے کہ رات کے وقت منّ اتر تا تھا جس کو وہ صبح کے وقت در ختو ں اور پتھرو ں وغیرہ سے اتار لیا کرتے تھے اور رات کے وقت ان کے دستر خوان پر بھونا ہواپرندہ آجاتا تھا جب کھا پی چکتے تو وہ زندہ ہو کر پرواز کر جایا کرتا تھا-
متعد دروایات کے مضمون سے پتہ چلتا ہے کہ رات کے وقت شبنم کی طرح کی ایک چیز نازل ہوتی تھی جس کو وہ صبح سویرے جمع کر لیتے اور وہ ایک قسم کا حلوہ ہوتا تھا اور پرندوں کابھونا ہوا گوشت ان کو فراوانی سے دیاگیا جس کی توجیہ کی جاتی ہے کہ خدا نے بٹیر کی قسم کے پرندوں کے غول وہاں بھیج دیئے تھے جن کو وہ باآسانی پکڑ لیتے  اور بھون کر کھا لیتے تھے پس میٹھا اورنمکین دو طرح کا کھانا بلا تکلیف ان کو وہاں میسر تھا، من سے میٹھا اور سلوی ٰسے مراد پرندوں کا گوشت جو نمکین کھانے کے طور پر تھا تاکہ ان کی طبیعتیں ایک قسم کے کھانے سے اکتا نہ جائیں-
وَ اِذْ قُلْنَا: اکثر مفسّر ین کہتے ہیں کہ جس بستی میں بنی اسرائیل کو داخل ہونے کا حکم ہوا تھا اس سے مراد بیت المقدس ہے اور بعض نے کہا ہے کہ وہ بستی اریحا تھی جو بیت المقدس کے قریب تھی کہتے ہیں کہ بیت المقدس کے شہر کی بنا حضرت داوٴد نے رکھی[2]  اور حضرت موسٰی کے وقت یہ شہر نہ تھا اور بستی اریحا حضرت موسیٰ کے زمانہ میں موجود تھی اور امام حسن عسکری سے منقول روایت میں بھی اریحا اس بستی کا نام بتایا گیا ہے جو علاقہ شام میں تھی او ر قوم عمالقہ اسی بستی میں آباد تھی او ر عوج بن عنق کا مسکن بھی یہیں تھا اور یہ ان کا سرغنہ تھا لیکن اس میں اختلاف ہے کہ حضرت موسٰینے ان کو اس بستی میں داخل ہونے کا حکم دیا تھا یا ان کے بعد ان کے وصی حضرت یوشع بن نون نے حکم دیا تھا؟ آیات کے ظاہر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم حضرت یوشع بن نون کی طرف سے تھا کیونکہ اس حکم کے بعد وہ اس بستی میں داخل ہوئے لیکن حطہ کی بجائے حنطة یا کوئی دوسرا قول تبدیل کرلیا اورسجدہ کرتے ہوئے جانے کی بجائے الٹا چوتڑوں کے بل گئے اوریقینا حضرت موسیٰ کے زمانہ میں بنی اسرائیل بیت المقدس میں داخل نہیں ہوئے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ وہارونکی رحلت کے بعد حضرت یوشع بن نون نے ان کو یہ حکم دیا تھا اوریہ کلمہ حطة بھی تعلیم فرماکر ان کو سجدہ کرنے کا حکم بھی دیا تھا لیکن انہوں نے ان کی نافرمانی کی، چنانچہ عتاب کے طور پر خداوند کریم نے ان پر طاعون کی بیماری بھیج دی کہ ایک ہی گھنٹہ میں ان کے چوبیس ہزار بزرگ اورسن رسیدہ آدمی مرگئے-
اورتفسیر برہان میں قَالَتِ الْیَھُوْدُ لَیْسَتِ النَّصَاریٰ الخ کی تفسیر میں مروی ہے کہ جناب رسول خدا نے فرمایا کہ طاعون سے بنی اسرائیل کے ایک لاکھ بیس ہزار آدمی ہلاک ہوئے اورصرف بچے باقی رہ گئے، پس وہ لوگ علم وعبادت سے محروم ہوگئے اوریہ بھی ممکن ہے کہ اس ارضِ مقدسہ میں داخل ہونے کا حکم حضرت موسیٰ نے دیا ہوا اوران کا عمل )خواہ خلاف فرمان ہی تھا( بعد میں واقع ہوا ہو-
فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ: فَا“جو فَبَدَّلَ پر داخل ہے یہ محض عطف کے لئے ہے اوریہ دخول کا حکم اس وقت معلوم ہوتا ہے جب کہ حضرت موسیٰ نے ان کو قوم عمالقہ سے جہاد کرنےکےلئے فرمایا تھا اورانہوں نے صریح لفظو ں میں انکار کردیا تھا اورکہاتھا کہ تو اورتیرا  خدا دونوں جاکر لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں ور اس صورت میں فَکُلُوْا مِنْھَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًایعنی کھاوٴ اس سے جہاں چاہو جی بھر کر اور کھلم کھلا، اس سے مراد یہ ہوگا کہ قوم عمالقہ پر فتحیابی حاصل کرکے ان کے اموال پر بطورِ غنیمت قبضہ کر لو اور کشادگی سے زندگی بسر کرو لیکن انہوں نے سرتابی کی جس کے بدلہ میں انہیں چالیس سال کی سرگردانی و پریشانی کا سامنا ہوا-
کہتے ہیں کہ شہر کے سات یا آٹھ دروازے تھے جس دروازہ سے ان کو گزرنے کا حکم ہوا تھا وہ بابُ الحطہ تھا  نیز لفظِ حطہ ان کیلئے توبہ و استغفار کا کلمہ تھا اور خضوع و خشوع سے جھکتے ہوئے ان کو شہر میں داخل ہونے کا حکم تھا اور مجمع البیان میں ہے کہ دروازہ ان کیلئے چھوٹا رکھا گیا تاکہ خواہ مخواہ وہ جھک کر گزریں لیکن انہوں نے حطة کی بجائے حنطة(گندم) کا ورد شروع کر دیا اور سجدہ کرنے کی بجائے اکڑ کر اور سراُونچا کر کے پیر پہلے داخل کردئیے اور پھر کھسک کر گزرگئے، نیز آیات کی روش سے معلوم ہوتا ہے کہ بستی کا داخلہ حضرت موسیٰ کی موجودگی میں ہوا تھا-
میں نے جو کچھ ذکر کیا ہے مفسرین کے اقوال کے نتائج ہیں-
تفسیر عمدة البیان میں بعض کتب اہل سنت سے مروی ہے کہ جناب رسالتمآب نے فرمایا حضرت علی باب حطہ ہے جو اس میں داخل ہوگا مومن ہوگا اور جو اس سے خارج ہوگا کافر ہوگا اور مراد اس سے حضرت علی کی پیروی کرنا ہے یعنی حضرت علی کا پیروکار مومن اور اس کی پیروی نہ کرنے والا کافر ہے-
امام محمد باقر سے مروی ہے کہ نَحْنُ بَابُ حِطَّتِکُمْیعنی ہم تمہاری بخشش کا دروازہ ہیں-[3]
تفسیر امام حسن عسکری سے منقول ہے کہ جس دروازہ سے بنی اسرائیل کو جھک کر داخل ہونے کا حکم تھا اس کے اوپرحضرت محمد مصطفیٰ اور حضرت علی کی مثالیں موجود تھیں اور ان کے سجدہ کرنے سے مراد ان کی تعظیم اور ان کی ولایت کے عہد کو تازہ کرنا تھا اور جب انہوں نے حکم کی خلاف ورزی کی توخدا نے ان پر طاعون کا عذاب بھیجا، چنانچہ تھوڑے ہی وقت میں ایک لاکھ بیس ہزار آدمی موت کے سیلاب میں بہہ گئے، خداوند کریم  بنی اسرائیل کے واقعات سے جناب رسالتمآب کے زمانہ کے بنی اسرائیل بلکہ جملہ مسلمانوں کو اطاعت کی دعوت دے رہا ہے کہ یہ لوگ ان لوگوں کے واقعات سے نصیحت حاصل کرکے عذابِ خدا سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوں-


[1] سورہ مائدہ آیہ ۲۴
[2] تفسیر انوار النجف فی اسرار المصحف ج۱۱
[3] مجمع البيان ج۱ ص ۲۶۴، تفسیر عیاشی ج۱ ص ۴۵،البرہان ج۱ ص ۱۰۴، بحار الانوار ج۷ ص ۲۶، تفسیر نور الثقلین ج ۱ ص ۸۳، تفسیر در المنثور سیوطی ج۱ ص ۷۱

ایک تبصرہ شائع کریں