التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

تمام انسانوں کو عبادت کی دعوت عامہ

تمام انسانوں کو عبادت کی دعوت عامہ

تمام انسانوں کو عبادت کی دعوت عامہ

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ الخ: انسانوں کی تینوں قسموں یعنی مومن، کافر اور منافق کے خصوصی امتیازات اور نشانیاں بیان فرمانے کے بعد تمام انسانوں کو عام خطاب  یٰٓاَ یُّھَاالنَّاسُ سے متوجہ فرماکر خداوند﷯ نے عبادت کی دعوت کی دعوتِ عامہ دی ہے اور اس دعوتِ عامہ سے عقیدہ جبر کی ضمنی طور پر نفی بھی کردی کیونکہ اگر انسان اپنے افعال میں مجبور ہوتو خدائے علیم و حکیم سب کو یکساں طور پر دعوت نہ دیتا،  حاکم کی اطاعت تین طریقوں سے کی جاتی ہے :
    کسی کے زیر بار احسان ہو کر انسان فطرتاً اس کی فرمانبرداری پر آمادہ ہوتا ہے-
   نافرمانی کی سزا سے خوفزدہ ہو کر اطاعت پر کمر بستہ ہوتا ہے -
   فرمانبرداری کے بعد انعامات وا کرامات کو ملحوظ رکھ کر اطاعت گزار ہوتا ہے
اور حاکم بھی بوقت حکم یا اپنے احسانات کی بناءپر حکم کی جراٴت کرتا ہے یا نافرمانی پر سزا کی دھمکی دیتا ہے اور یا اطاعت پر انعام کا طمع دیتا ہے،یہ ہیں حکم اور اطاعت کے اصول،  خدا وند محسن بھی ہے اورجزاوسزاپر قادر بھی ہے اوریہ تینوں چیزیں مستقل طور پر اپنے اپنے مقام پر اس کی اطاعت کی داعی ہیں اورسب عبادتوں سے بلند ترین عبادت وہ ہے جو اس کے احسانات کے پیش نظر ا س کو مستحق عبادت قرار دے کر خشوع وخضوع سے کی جائے،  چنانچہ مولائے کائنات حلال مشکلات حضرت امیرالمومنین کی مناجات کے الفاظ ہیں مَا عَبَدْتُكَ خَوْفاً مِّنْ نَّارِكَ وَ لا طَمْعاً فِیْ جَنَّتِكَ بَلْ وَجَدْتُّكَ اَهْلاً لِلْعِبَادَةِ فَعَبَدْتُكَ  اے میرے اللہ میں تیری عبادت نہ جہنم کے خوف سے کرتا ہوں اورنہ جنت کے لالچ سے کرتا ہوں بلکہ تجھے عبادت کا  اہل سمجھ کرتیری عبادت کرتا ہوں-[1]
 نیز ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
إِلٰهِیْ كفٰى بِیْ عِزّاً أنْ أكُوْنَ لَكَ عَبْداً وَ كفٰى بِیْ فَخْراً  أنْ تَكُوْنَ لِیْ رَبًّا أنْتَ كمَا أُحِبُّ فَاجْعَلْنِیْ كمَا تُحِبُّ   اے میرے اللہ میری عزت کےلئے یہی کافی ہے کہ میں تیرا عبد ہوں اورمیرے فخر کےلئے یہی کافی ہے کہ تومیرا رب ہے -[2]
پس عبادت کے تین مرتبے ہیں:     عبادتِ عرفان      عبادتِ خوف      عبادتِ طمع
عبادت عرفان کا مرتبہ سب سے بلند ہے اس کے بعد عبادت خوف ہے اورآخری درجہ عبادت طمع کا ہے اس مقام پر پہلے پہل خداوند کریم نے دعوت عبادت دیتے ہوئے منزل معرفت کو مقدم فرمایا اوراپنے احسانات کی نشاندہی فرمائی اوراپنے استحقاق عبادت کو دلیل وبرہان سے پیش کیا ہے تاکہ انسان بصیرت تامہ سے اس کی معرفت حاصل کرکے اس کی عبادت کی طرف قدم بڑھائے -
یہاں خداوند کریم  نے اپنی دوصفتوں کو ذکر فرمایاہے ربوبیت، خالقیت کیونکہ یہ دونوں صفتیں حس کے زیادہ قریب ہیں اور ان میں غور کرنے سے اس کے علم، قدرت، حکمت، حیات، قدم، ارادہ وصدق وغیرہ جملہ صفات ثبوتیہ کی وضاحت ہوجاتی ہے اورصفات سلبیہ کی نفی ہوتی ہے اوراس کے ساتھ ساتھ اس کی توحید وعد ل کا بھی پتہ چل جاتا ہے-
صفت خالقیت : انسان اپنی خلقت پر غور کرے کہ کس طرح پانی کے ایک نجس قطرہ سے تدریجی طور پر خون بستہ پھرلو تھڑا اورپھر ایک مدت معینہ کے اندر اُسے شکل انسانی میں پیدا کیا اورصر ف اس کو نہیں بلکہ ابتدا ئے خلقت سے لے کر اس وقت تک کے تمام انسانوں پر اس کا یہی فیض ہے اورآیندہ تا قیامت رہے گا-
صفت ربوبیت: ربوبیت کی وضاحت کےلئے خلقتِ زمین وآسمان اورنزولِ باران کا ذکر فرمایا، تفسیر برہان میں امام علی زین العابدین سے اسی آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ زمین کو اس نے تمہاری طبیعت کے مناسب اورتمہارے جسموں کے موافق خلق فرمایا، نہ سخت گرم تاکہ تمہیں جلادے اورنہ سخت سرد کہ تمہیں جمادے، نہ تیز خوشبودارکہ تمہارے سر درد کریں اورنہ اتنی بدبودارکہ تمہاری ہلاکت کا باعث ہو، نہ بہت نرم کہ تمہیں غرق کردے اورنہ بہت سخت کہ تم گھر اورمکان اورمردوں کی قبریں بنانے سے عاجز آجاوٴ، بلکہ اس نے اس کو ایسی متانت بخشی ہے کہ تم اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہو، رہ سکتے ہو، تمہارے بدن آسودگی سے اس پر گزارا کرسکتے ہیں، نیز تمہارے مکانات، گھر، قبریں آسانی سے بن سکتے ہیں اور علاوہ ازیں ہر قسم کے منافع تم حاصل کرسکتے ہو، پس زمین کے فرش بنانے کا یہی مطلب ہے پھر فرمایاکہ خدانے آسمان کو تمہارے اُوپر محفوظ چھت بنایا ہے اس میں شمس وقمر وستارے تمہارے فوائد کے لئے خلق فرمائے، پھر جہت بلندی سے باران کا سلسلہ جاری کیا تاکہ پہاڑوں، ٹیلوں اوربلندیوں، پستیوں پر یکساں سیرابی کا فائدہ دے اورسیرابی زمین کےلئے ایک ایک قطرہ کرکے نازل فرمایا اگر سب پانی ایک بار برسا دیتا تو تمہاری زمین، درخت، کھیتیا ں اورپھل سب برباد ہوجاتے ہیں پس اس حسن نظام سے زمین میں تمہارے رزق کا اہتمام کیا لہذا اس کے برابر اُن بتوں کو قرار نہ دوجونہ عقل رکھتے ہیں نہ سن دیکھ سکتے ہیں اورنہ کسی چیز پر قدرت رکھتے ہیں حالانکہ تم خود جانتے ہو کہ تمہارے یہ بت کچھ نہیں کرسکتے -
اس کے مخالفین ومنکرین کی حجت کو تو ڑنے کے لئے ارشاد فرمایا وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْب الایة یہ خطاب مشرکین اوراہل کتا ب یعنی یہودونصاریٰ سب کی طرف ہے یعنی معرف خدا کے براہین سمجھ لینے کے بعد اوراس کی خالقیت اورربوبیت سے اس کو مستحق عبادت ماننے کے بعد اگر تمہیں جناب محمد مصطفے کے بیان کردہ احکام شریعت اورآیاتِ قرآنیہ میں کوئی شک وشبہ ہوتو وہ اس طرح دور کیا جاسکتا ہے کہ تم بھی اہل لسان ہو اور تم میں فصحاو بلغا موجود ہیں پس اس کلام پاک جیسا ایک ٹکڑ اتم بھی بنا لاوٴاوراگر ایساکرنے سے تمہاری مجموعی طاقت بھی قاصر ہو اور یقینا ہے تو پھر غضب خداوند﷯اوراس کے عذاب سے ڈرو اوریقین پیدا کرلوکہ یہ بندے کا کلام نہیں ورنہ تم اس کے مقابلہ سے عاجز نہ ہوتے بلکہ یہ خالق کا کلام ہے اوراسی کی اتباع نجاتِ اُخروی اورفلاح ِدنیوی کا پیش خیمہ ہے یہ معنی اس صورت میں ہوگا جب مِثلِہ کی ضمیر کا مرجع ”ما“کو قرار دیا جائے-
 اوراگر ضمیر کا مرجع ”عَبدِنَا“ہو تو پھر معنی یہ ہوگا اے گروہِ عرب جو فصاحت وبلا غت کا دعویٰ رکھتے ہو اگر تمہیں اس کلا م پاک کی صداقت اورمن جانب اللہ ہونے میں شک ہے تو حضرت محمد مصطفے جیسے شخص کی طرف سے ایسے کلام کا ایک ٹکڑا پیش کر و یعنی ایسا شخص جو ظاہر میں نہ کسی سے پڑھا ہو، نہ لکھنا سیکھا ہو، نہ کتا بوں کا مطالعہ کیا ہو، نہ کسی عالم کی صحبت میں رہاہو،چالیس سال تک سفر وحضر میں تمہارا دیکھا بھالا ہو  اورباوجود ان سب باتوں کے ایسا کلام پیش کرے جو علوم اوّلین وآخرین کا جامع ہو تو سمجھ لو کہ یہ اس کا اپنا بنایا ہوا نہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے اوراگر پھر بھی اس کے کلام اللہ ہو نے میں تم کو شک ہو تو تم میں سے اسی جیسا انسان جو ظاہری طور پر اَن پڑھ ہو اس جیسے کلام کا ایک ٹکڑا تو بنالائے اورتنہا نہیں بلکہ اپنے تمام معاونین سے مدد لے کر ایساکردکھائے اوراگر تم سے یہ نہیں ہو سکتا تو یقین کر لو کہ یہ اللہ کا کلام ہے ورنہ اگر مخلوق کا کلام ہو تا تو تمام فصحا ءوبلغا اس کے مقابلہ سے عاجز نہ آتے-
 اوراگر یہ خطاب یہود ونصاریٰ کی طرف ہے تو معنی یہ ہوگا کہ اے یہود ونصاریٰ اگر تمہیں اس کتاب کے کلام اللہ ہونے میں کوئی شبہ ہے تو اپنی کتب یعنی تورات وانجیل وزبور یا دیگر صحفِ سماویہ سے اس کلام جیسا ایک ٹکڑا پیش کرو اورجب تم ایسا نہیں کرسکتے تو مان لو کہ یہ تمام کلاموں سے افضل ہے اورتمام گزشتہ کتب کا ناسخ ہے پس اس کتاب کے لانے والے نبی کی شریعت گزشتہ شریعتوں کی ناسخ ہے لہذااس کو واجب الاتباع سمجھو اورضد کرکے اس آگ کا ایندھن نہ بنو جو کفار کے لئے تیار کی گئی ہے-
 پس خداوند علیم وحکیم نے  معر فت کا درس دینے کے بعد اتمام حجت کےلئے ان کے شکوک وشبہات کا جواب بیان فرمایا اوراپنے ضد پر اَڑجانے والوں کو سخت سزا سے خوفزدہ بھی کیا تاکہ کسی صورت میں وہ راہِ حق کو اختیار کرلیں اوریہ اللہ کی کمال مہربانی کا مظاہرہ ہے ورنہ کسی کے نیک یابد ہونے سے اس کی عظمت میں نہ کمی آ سکتی ہے نہ اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ ساری کائنات عبادت کرنے والوں سے پر ہو جائے تب بھی وہ خدا ہے اورساری دنیا نافرمانیوں پر ڈٹ جائے تب بھی وہ خدا ہے-

وَ بَشِّرِ الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوْا هٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأُتُوْا بِهِ مُتَشَابِهًا وَّلَهُمْ فِيْهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَّهُمْ فِيْهَا خَالِدُوْنَ (25) إِنَّ اللّٰهَ لَا يَسْتَحْيِیْ أَنْ يَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَةً فَمَا فَوْقَهَا فَأَمَّا الَّذِيْنَ آمَنُوْا فَيَعْلَمُوْنَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ وَأَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَيَقُوْلُوْنَ مَاذَا أَرَادَ اللهُ بِهٰذَا مَثَلًا  يُّضِلُّ بِهِ كَثِيْرًا وَّيَهْدِیْ بِهِ كَثِيْرًا وَّمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِيْنَ (26)
ترجمہ:
اورخوش خبری د ے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اورعمل نیک کئے کہ تحقیق ان کے لئے بہشتی باغات ہیں کہ جاری ہیں ان کے نیچے نہریں جب بھی رزق دئیے گئے وہ بہشتی ان باغات میں سے پھلوں کا تو کہیں گے یہ وہی ہے جو رزق دئیے گئے ہم اس سے پہلے اوردئیے جائیں گے وہ پھل آپس میں ملتے جلتے اور ان کے لئے باغات میں پاک بیویاں ہوں گی اوروہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے (25) تحقیق اللہ نہیں شرماتا اس سے کہ بیان کرے کوئی مثال مچھر کی ہو یا اس سے کسی بڑی چیز کی ہو وہ لو گ جو ایمان لائے ہیں پس جانتے ہیں کہ تحقیق وہ حق ہے ان کے رب کی جانب سے اوربہر حال وہ لوگ جو کافر ہیں پس کہتے ہیں کہ یہ کیا ارادہ کیا ہے اللہ نے ساتھ اس مثال کے گمراہ کرتا ہے ساتھ اس کے بہت سوں کو اورہدایت فرماتا ہے ساتھ اس کے بہت سوں کو حالانکہ نہیں گمراہ کرتا ساتھ اس کے مگر فاسقوں کو(26)



بَشِّرِ الَّذِیْنَ الخ: منصف مزاج طبائع جو دلائلِ حق اوربراہینِ صدق سے آشنا ہو کر راہِ مستقیم پر گامزن ہوتے ہیں اوراُن کا دامن ایمان وعمل صالح سے پُر ہو تا ہے اُن کے لئے یہ خوشخبری ہے  اے میرے حبیب!  ان لوگوں کو جنہوں نے ایمان کے ساتھ عمل صالح کو اختیار کیا بہشت کی خوشخبری سناوٴجس کے نیچے نہریں جاری ہیں، ان کا رزق میوہ ہائے بہشت سے ہوگا جب وہ بہشت کا پھل کھائیں گے تو چونکہ شکل وشباہت میں ایک دوسرے سے ملتا جلتا ہوگا دیکھ کر کہیں گے کہ اس کو تو ہم کھا چکے ہیں لیکن ذائقہ ومزہ میں سب مختلف ہوں گے کھانے کے بعد معلوم ہو گا کہ وہ اورتھا اوریہ اورہے یا یہ کہ کوئی پھل دنیا کے پھلوں سے رنگ میں مشابہت رکھتے ہوں گے لہذا بہشتی لوگ دیکھتے ہی کہیں گے ہم دنیا میں ایسے پھل کھا چکے ہیں لیکن جب چکھیں گے تو معلوم ہو گا یہ وہ نہیں جو دنیا میں ہم کھا چکے ہیں بلکہ اس کو تو اس سے کو ئی نسبت ہی نہیں ”چہ نسبت خاک را بعالم پاک“
معر فت اوراِتمام حجت کے بعد خوفِ سزا اوروعدہ انعام واکرام اطاعت کے لئے آخری محرّ ک ہیں اور قبولِ نصیحت کے لئے انتہائی موثّر ہیں اس کے بعد بھی اگر کو ئی شخص اپنی ضد پر ڈٹا رہے اوراپنی ہٹ دھرمی پر اَڑا رہے تو اس کا علاج ہی کیا ہے ؟
انسان کو آرام وآسائش کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے:
  مقام رہائش    اسباب خورد ونوش    بیوی
اوریہ تینوں چیزیں اگر مرغوب ِخاطر اورموافقِ مزاج حاصل ہو جائیں تو زند گی کا کو ئی پہلو تلخ نہیں ہو تا مکان اچھا، غذا اچھی اوربیوی اچھی،  خداوند کریم نے نعماتِ جنت میں سے ان کا اس مقا م پر خصوصیت سے ذکر فرمایا کہ اہل بہشت کے مکانات، باغات جنت میں ہوں گے جن میں نہریں جاری ہوں گی، ان کی خوراک میوہ ہائے جنت ہوگی اور ان کی بیویاں پاک و پاکیزہ ہوں گی نہ شکل کثیف، نہ عادات و خصلات میں کثافت، گویا روحانی و جسمانی یا ظاہری و باطنی جملہ کثافتوں اور عیبوں سے پاک و صاف ہوں گی، انسان کی لذّات کا زیادہ تر دارومدار انہی چیزوں پر ہے جو مومنین کیلئے خدا وند نے جنت میں مخصوص فرمائی ہیں لیکن دنیا و آخرت کی نعمات میں زمین و آسمان کا فرق ہے دنیا میں اگر کوئی شخص اس قسم کی نعمتوں سے بہرہ ور ہو بھی تاہم لذّات دنیا چونکہ فانی ہیں اور قریب الزّوال ہیں لہذا ہر شخص آخر کار بغیر سیر ہوئے ان نعمات سے دستبرداری پر مجبور ہو جاتا ہے اور بیماری یا موت اس سے یہ نعمات سلب کر لیتی ہے لہذا خداوند کریم نے جنت میں مومنین کیلئے جو جو نعمات مخصوص فرمائی ہیں ان سے اس خطرہ کو دور فرما دیا ہے کہ وہ نعمات کسی وقت چھینی نہ جائیں گی نہ موت آئے گی نہ بیماری کا خطرہ ہو گا بلکہ جنت والے ہمیشہ ہمیشہ ان نعمات سے محظوظ ہوتے رہیں گے-
 تفسیر برہان حضرت امیرالمومنین سے ایک طویل روایت کے ضمن میں منقول ہے:
اے گروہِ شیعہ!  اللہ سے ڈرو اور آتش جہنم کا ایندھن نہ بنو، اللہ کا کفر نہ کرو، اپنے مومن بھائیوں پر ظلم کرنے سے بچو تاکہ جہنم سے بچ جاوٴ ورنہ جو مومن اپنے مومن بھائی پر ظلم کرے گا وہ آتش جہنم میں گراں بار زنجیر میں جکڑ کر ڈالاجائے گا اوراس کا چھٹکارا ہماری شفاعت کے بغیر نہ ہو گا لیکن ہم بھی شفاعت نہ کریں گے جب تک وہ مظلوم مومن اس کو معافی نہ دے گا-
حضرت امام زین العابدین سے مروی ہے کہ جنت کا بلند ترین درجہ ان مومنوں کےلئے ہے جو دوسرے مومنین سے ہمدردی کریں اورفقراءمومنین کی خبر گیری کریں اور ایک مومن کی دوسرے مومن فقیر سے محبت و پیا ر کی پاکیزہ گفتگو جنت کو ایک لاکھ برس کی راہ سے زیادہ قریب کردیتی ہے پس مومن بھائی پر احسان کرنا معمولی نہ سمجھوورنہ اس وقت پچھتاوٴ گے جب اس کا فائدہ نہ ہوگا-
اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَستَحیٓ الایة:  اس کے شان نزول کے متعلق کہا گیا ہے کہ جب قرآن مجید میں خداوند کریم نے مکھی اورمکڑی کی مثالیں بیان فرمائیں تو مشرکین نے اس پر نکتہ چینی کی کہ خدا کی شان سے ایسی حقیر چیزوں کی مثالیں کرنا بعید ہے تو یہ آیت اُتری کہ بیان حق کےلئے خدا چھوٹی یا بڑی چیز کی مثال پیش کرنے سے نہیں شرماتا خواہ وہ مچھر کی مثال ہو یا اس سے بڑی چیز مثلاً مکھی کی مثال ہو-
اور بعض نے کہا ہے کہ ”وَمَافَوْقَھَا“ سے مراد وہ چیز جو چھوٹائی میں مچھر سے بھی زیادہ ہو یعنی خواہ مچھر کی مثال ہو یا حجم میں اس سے بھی چھوٹی چیز کی مثال ہو یہ اعتراضات کفار کے عنا د اور حددرجہ کی جہالت پر مبنی ہیں کیونکہ مخلوقات بڑی سے بڑی ہوں یا چھوٹی ہوں مخلوق خدا ہونے میں تو سب یکساں ہیں اور بعض اوقات چھوٹی چیزوں میں وہ خوبیاں پنہاں ہوتی ہیں جس سے بڑے حجم والی مخلوق محروم ہوا کرتی ہے-
علامہ طبرسیv نے ذکر کیا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ اس مقام پر مچھر کے ذکر کرنے سے یہ اشارہ بھی مقصود ہے کہ مچھر باوجود اتنا چھوٹا جسم رکھنے کے خدا وند کریم نے اس میں تمام وہ اعضا پیدا کئے ہیں جو ہاتھی کے بڑے جسم میں موجود ہیں پس خدا نے اپنے حسن صنعت پر غوروفکر کےلئے کفار کے سامنے یہ مثال پیش فرمائی ہے-
یُضِلُّ بِہِ کَثِیرًا : یہاں مقصد یہ ہے کہ جن لوگوں نے قرآنی آیات کو سن کر اعتراضات اور نکتہ چینیاں شروع کر دیں اور ازراہِ عناد انکار پر آمادہ ہوئے تو وہ گمراہ ہو گئے، چونکہ سبب اُن کی گمراہی کا تکذیبِ آیاتِ قرآنیہ ہی تھا اور نزولِ قرآن اللہ کی طرف سے ہے اس بنا پر گمراہی اللہ کی طرف منسوب ہوئی اور جن لوگوں نے ان مثالوں کو عبرت کی نگاہ سے دیکھا اور آیاتِ قرآنیہ کے احکام کو تسلیم کرکے سر جھکا لیا وہ راہِ ہدایت پر موفق ہوئے پس ان کی ہدایت اللہ کی طرف سے ہوئی -
خیروشر کو اللہ کی طرف منسوب کرنے والے یعنی جبر کے معتقد اس قسم کی آیاتِ قرآنیہ کو اپنے عقیدہ کی دلیل قرار دیتے ہیں اور ہم نے تفصیل کے ساتھ اس عقیدہ کی پوری طرح تردید پہلے رکوع کے ذیل میں کی ہے لہذااس مقام پر دہرانے کی ضرورت نہیں-
 ہاں البتہ اتنا عرض کرنا  ضروری ہے کہ آیت کا سیاق وسباق خود اس عقیدہ کی تردید کررہاہے، چنانچہ گمراہی کا ذمہ دار خود انسان ہے، پہلے ارشاد ہے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ ان مثالوں کو حق سمجھتے ہیں یعنی اپنے اختیار سے ایمان لا کر ان کو حق سمجھتے ہیں ایسا نہیں کہ جن کو ایمان پر مجبور کیا گیا وہ حق سمجھنے پر مجبور ہیں اورجو لوگ کافر ہیں یعنی سمجھنے سوچنے کے بعد ازراہِ عناد انکار حق پر کمر بستہ ہیں وہ قرآنی اَمثال پر نکتہ چینیاں کرتے ہیں، ایسا نہیں کہ جن کو کفر پر مجبور کیا گیا وہ نکتہ چینیوں پر مجبور ہیں،ورنہ اگر ایمان والوں کو ایمان پر مجبور کرکے ان سے حق تسلیم کرایاجاتا تو وہ ہرگز قابل مدح نہ ہوتے اور اسی طرح کافروں کو اگر کفر پر مجبور کرکے ان سے انکار کرایا جاتا تو وہ قابل مذمت نہ ہوتے-
 پس معلو م ہو اکہ ان کا ایمان فعل اختیاری تھا جس کا نتیجہ آیاتِ قرآنیہ کا تسلیم کر نا تھا پس وہ قابل مدح ہیں اوران کا کفر فعل اختیاری تھا جس کا نتیجہ آیاتِ قرآنیہ کی تکذیب تھی وہ قابل مذمت ٹھہرائے اورقوتِ اختیار چونکہ ہر انسان کو اللہ کی عطا کردہ ہے لہذانسبت اللہ کی طرف دی گئی -
یہ ایسا ہے جس طرح ایک لوہار کسی کو تلوا بنادےتاکہ دشمن اسلام سے جہاد کرے اوروہ بدبخت اسی تلوار سے کسی مومن کو قتل کردے اب ظاہری طور پر توکہا جائے گا کہ اس مومن کے قتل کا باعث وہ لوہار ہے جس نے اس کو تلوار بنا کردی لیکن حقیقت شناس لوگ لوہار کی طرف اس نسبت سے کبھی دھو کا نہ کھائیں گے بلکہ وہ سمجھیں گے کہ یہ شرارت قاتل کے سوء اختیار کا نتیجہ ہے اوراس معاملہ میں صرف وہی مجرم ہے-
 اسی طرح اللہ نے انسان کو قوتِ اختیا ریہ واِرادیہ عطا فرمایاکر حق وباطل سے روشناس کرادیا اب انسان چاہے تو اپنی طاقت کو اُمورِ خیر میں صرف کرے اورچاہے تو اُمورِ شرّ میں استعمال کرے اس نے صاف طور پر فرمادیا (لاَ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن[3]) اب اپنے اختیار سے اگر انسان برائی کا اقدام کریں تو چونکہ اس کی طاقتیں اللہ کی طرف سے ہیں لہذا اللہ کی طرف اس کے فعل کو منسوب کیا جاتا ہے اورحقیقت شناس خود سمجھ سکتے ہیں کہ یہ نسبت مجازی ہے درحقیقت اس برائی کا ذمہ دار وہ شخص ہے جس نے اپنے سوءاختیا رسے افعال بد کا ارتکاب کیا اورآیت مجیدہ کے آخری لفظ بھی اسی بات پر دلالت کرتے ہیں-



[1] نہج البلاغہ کلمات قصار، بحار الانوار ج ۶۷ ص ۱۸۶، شرح اصول کافی صالح مازندرانی ج۱ ص ۲۵۷، عوالی اللئالی ج ۲ ص ۱۱، شرح  مائۃ کلمہ ابن میثم بحرانی ص۲۱۹
[2] سفینۃ البحار ج ۱ ص ۱۲۳
[3] سورہ بقرہ آیہ ۲۵۶

ایک تبصرہ شائع کریں