التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

تمنائے موت

تمنائے موت

 تمنائے موت

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيْثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ خُذُوْا مَآ ا ٰتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَّ اسْمَعُوْا قَالُوْا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِٓ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ (93) قُلْ إِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّن دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِيْنَ (94)وَلَنْ يَّتَمَنَّوْهُ أَبَدًا مبِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيْهِمْ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ بِالظّٰلِميْنَ (95) وَ لَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰى حَيٰوةٍ وَّ مِنَ الَّذِيْنَ أَشْرَكُواْ يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَن يُعَمَّرَ وَاللّٰهُ بَصِيرٌمبِمَا يَعْمَلُوْنَ (96)
ترجمہ:
اور جب ہم نے لیا تمہارا وعدہ اور بلند کیا ہم نے تمہارے اوپر کوہِ طور کو پکڑو اس چیز کو جو دی ہم نے تم کو طاقت سے اور سنو انہوں نے کہا ہم نے سن لیااور نافرمانی کی اور داخل ہوگئی ان کے دلوں میں گوسالہ کی محبت بوجہ کفر کے کہہ دو کہ بری ہے وہ چیز جس کا امر کرتا ہے تم کو تمہارا ایمان اگر ہو تم مومن (93) کہہ دیجئے اگر ہے تمہارے لئے ہی قیامت کا گھر اللہ کے نزدیک صرف بغیر اور لوگوں کے پس خواہش کرو موت کی اگر تم سچے ہو(94)اور ہرگز  نہ خواہش کریں گے اس کی بوجہ ان اعمالِ فاسدہ کے جو پہلے کرچکے ہیں اوراللہ جاننے والاہے ظالموں کو(95) اورالبتہ پائے گا تو ان کو زیادہ حریص لوگوں سے زندگی پر اوربعض مشرکین بھی (حتی کہ) چاہتا ہے ان کا ہر ایک کہ عمر دیا جائے ہزار سال حالانکہ نہیں چھڑانے والاعذاب سے عمر کا دیا جانا اورخداآگاہ ہے ان کے حال سے(96)

 تمنائے موت

سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا: یعنی انہوں نے کانوں سے سنا اور عمل کے اعتبار سے اس کی نافرمانی پر کمر بستہ رہے یا یہ کہ منہ سے کہہ دیا کہ ہم نے سنا ہے اور دلوں میں ٹھان لی کہ اس کی نافرمانی کریں گے -
فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ: یہودیوں کا یہ دعویٰ تھا کہ جنت میں صرف ہم ہی جائیں گے اورجنت کا گھر ہمارے ہی لئے ہے، تو خداوند کریم نے اُن کے قول کی تردید فرمائی کہ اگراس دعوے میں تم سچے ہو تو پھر بلاتامل موت کی خواہش کرو تاکہ دنیا وی مصائب سے نجات حاصل کر کے اُخروی انعامات ولذات حاصل کرو -
حضرت امیرالمومنین  جنگ صفین میں ایک باریک قمیص میں مصروفِ جہاد تھے توان کے شہزادے امام حسین نے عرض کیا مولا آپ ا ن باریک کپڑوں میں بغیر زرہ وغیرہ کے جہاد کررہے ہیں؟ آپ نے فرمایا بیٹا اِنَّ اَبَاکَ لایُبَالِیْ وَقَعَ عَلٰی الْمَوْتِ اَوْ وَقَعَ الْمَوْتُ عَلَیْہِ  یعنی تیرے باپ کو پرواہ نہیں کہ موت پر جاداخل ہو یا موت اس پر آجائے-[1]
اورایک حدیث میں ہے جناب رسالتمآب فرماتے ہیں کہ کوئی شخص تکلیف سے گھبرا کر موت کی خواہش نہ کرے بلکہ دعامانگنی چاہیے کہ میرے اللہ اگر زندگی میں میری بہتری ہےتو مجھے زندہ رکھ اوراگر موت میرے لئے بھلی ہے تو مجھے موت دے-
اس کا مطلب ہے کہ مومن کی شان یہ ہے کہ مصائب کے وقت بے صبری اورنا شکری سے کام نہ لے بلکہ ہر حال میں اللہ کی خوشنودی ورضامندی کوپیش پیش رکھے اوراس کی قضاپر راضی رہے-
 آیت مجیدہ میں یہودیوں کو خطاب ہے کہ اگر جنتی ہونے کے دعویٰ میں سچے ہو تو موت کی خواہش کرو لیکن اس کے بعد وہ خود فرماتا ہے کہ یہودیوں کو دل دل میں چونکہ اپنے جھوٹے ہونے کا یقین ہے اوروہ آخرت میں اپنا نصیب جہنم سمجھتے ہیں لہذا یہ اورمشرکین چاہتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کی عمر  ہزار سال ہوتا کہ دنیا کی عیش جی بھر کر حاصل کریں لیکن زندگی دنیاوی کتنی ہی دراز کیوں نہ ہو موت آنے کے بعد ان کا داخلہ یقینا جہنم میں ہوگا اوریہ لمبی زندگی ان کو عذاب جہنم سے ہر گز نہ چھڑائے گی-
تفسیر برہان میں اہل بیت﷨ سے مروی ہے کہ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْن کا معنی یہ ہے کہ اے گروہِ یہود!  اگر تم اپنے آپ کو جنتی اورناجی سمجھتے ہو اورمقرب بارگاہِ خداوندی صرف تم ہی ہو تو خداکی بارگاہ میں جھوٹوں کے ہلاک ہونے کی دعا مانگواورکہوکہ خداجھوٹے پر موت نازل کرے لیکن وہ ہر گز جھوٹے کےلئے موت کی تمنا نہ کریں گے کیونکہ وہ اپنے کرتوتوں سے واقف ہیں اورجانتے ہیں کہ جھوٹے اورظالم ہم ہیں-
اورتفسیر مذکور میں حضرت امام حسن سے مروی ہے کہ جب یہودیوں پر اتمام حجت ہوئی تو ایک گروہ یہود حضرت رسالتمآب کی خدمت میں حاضر ہوا، ان کے ایک رئیس کا حسین وجمیل نوجوان فرزند کو ڑھ کی بیماری میں مبتلا ہوکر لاعلاج ہو چکا تھا، آکر عرض گزار ہوئے اگر آپ اپنےدعویٰ میں سچے ہیں تو اپنے بھائی حضرت علی کو حکم دیجئے کہ وہ ہمارے اس مریض کےلئے تندرستی کی دعا مانگے حضرت رسول خدا حضرت علی کے ساتھ وہاں پہنچے نوجوان کی حالت بہت خراب تھی آپ نے حضرت علی سے فرمایا کہ اس کےلئے دعا مانگو حضرت علی نے دعا کی تو وہ نوجوان فوراً تندرست اور اپنی اصلی  حالت میں پلٹ آیا جناب رسول خدا نے اس کو اسلام کی دعوت دی اور وہ اسی وقت مسلمان ہوگیا-
 اس نوجوان کا باپ کہنے لگا کہ میرے بیٹے کے اسلام سے مجھے اس کی وہی بیماری محبوب تر تھی اور کہنے لگا اے محمد ! یہ تیری یا تیرے بھائی کی کوئی فضیلت نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے اس کی مصبیت کٹ چکی تھی لہذا وہ تندرست ہوگیا ہے اگر تمہارا کوئی کمال ہے تو میرے لئے حضرت علی بد دعا کرے کہ میں اس بیماری میں مبتلا ہوجاوٴںپس میں مان جاوٴں گا کہ واقعاً تمہاری دعا مقبول ہے-
 جناب رسول خدا نے اس کو ہر چند سمجھایا کہ تندرستی اللہ کی نعمت ہے اس کی بے قدری نہ کرو بلکہ اس کا شکر کرو اس نے پھر اپنے اسی قول کو دُہریا تو آنحضرت فرمایا کہ اگر تو میرے بھائی علی کی بدعا سے بیماری میں مبتلا ہو گیا تو کہے گا کہ اتفاق سے میری مصیبت لکھی تھی لہذا یہ بد دعا کا اثر نہیں ہے جیسا کہ تونے اپنے فرزند کی تندرستی پر یہی کہا، یہودی نے کہا کہ ہرگز یہ نہ کہوں گا بلکہ آپ کی صداقت مان جاوٴں گا-
جناب رسول خدا نے حضرت علی کو فرمایا  یا علیؑ یہ کافر اپنی سرکشی اور تمرّد سے باز نہیں آتا لہذا اس کو اپنی بددعا کا مزہ چکھا پس حضرت علی نے بددعا کی اور یہودی اسی بیماری میں مبتلا ہوگیا جس میں اس کا نوجوان فرزند پہلے مبتلا تھا، اس کے بعد وہ حضور سے معافی مانگنے لگا آپ نے فرمایا کہ اگر تیرے حق میں دعا کی جائے اور خداوند تجھے معاف کردے تو پہلے سے بھی زیادہ سرکش ہوجائے گا اور خدا تیرے دل کے حالات جانتا ہے اگر تو اپنے فاسد خیالات سے صحیح معنوں میں تائب ہوجائے گا تو خدا تجھے ضرور معاف کردے گا وہ جوّاد کریم ہے (ملخص ترجمہ)










قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلٰى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَّ بُشْرىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ (97) مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلّٰهِ وَ مَلٰٓئِكَتِهِ وَ رُسُلِهِ وَجِبْرِيْلَ وَمِيْكَالَ فَإِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِّلْكَافِرِيْنَ (98) وَلَقَدْ أَنزَلْنَآ إِلَيْكَ آيَاتٍ مبَيِّنَاتٍ وَمَا يَكْفُرُ بِهَا إِلاَّ الْفَاسِقُوْنَ (99)أَوَكُلَّمَا عَاهَدُوْا عَهْدًا نَّبَذَهُ فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يُؤْمِنُوْنَ (100)وَلَمَّا جَآءَهُمْ رَسُولٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِّنَ الَّذِيْنَ أُوتُوْا الْكِتَابَ كِتٰبَ اللّٰهِ وَرَآءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لاَ يَعْلَمُوْنَ (101)
ترجمہ:
کہہ دیجئے جو ہو دشمن جبرائیل کا تو ہوا کرے کیوں کہ اس نے تو اُتارا ہے اس کو تیرےدل پر اللہ کے حکم سے درحا لیکہ  تصدیق کرنے والا ہےاس کی جو اس سے پہلے ہے اور ہدایت اور خوشخبری ہے مومنین کے لیے(97) جو دشمن ہو اللہ کا اوراس کے فرشتوں اوراس کے رسولوں کا اورجبرائیل ومیکائیل کا تواللہ بھی دشمن ہے کافروں کا(98)اورتحقیق اُتاراہم نے تیرے اُوپر روشن آیات کو اورنہیں ان کا انکار کرتے مگر فاسق لو گ(99) کیا جب بھی وہ عہد کریں کوئی تو توڑ دیتی ہے اس کو ایک جماعت ان کی بلکہ ان کی اکثریت ایمان نہیں لاتی(100) اورجب آئے ان کے پاس رسول اللہ کی طرف سے جو تصدیق کرنے والا ہے اس کی جو اُن کے پاس ہے تو پھینک دیا اُن لوگوں کے ایک گروہ نے جن کو دی گئی کتاب اللہ کی کتاب کو اپنی پیٹھ کے پیچھے گویا اُنہیں پتہ نہیں (101)




تفسیر رکوع ۱۲
قُلْ مَنْ کَانَ: اس کے شانِ نزول کے متعلق تفسیر برہان میں تفسیر امام حسن عسکری سے منقول ہے کہ جب جناب رسول خدا مدینہ میں وارد ہوئے تو (فدک کے) یہودی عبداللہ بن صوریا کو لائے، پس ابن صوریا نے پوچھا یا محمد! تیری نیند کیسی ہے؟ کیونکہ ہمیں آخری نبی کی نیند کے متعلق خبر دی گئی، تو آپ نے فرمایا میری آنکھ سوتی ہےاور دل بیدار رہتا ہے، اس نے کہا ٹھیک، پھر سوال کیا کہ بچہ ماں سے ہوتا ہے یا باپ سے ؟ آپ نے فرمایا ہڈیاں رگیں اور پٹھے باپ سے اور گوشت خون اور بال ماں سے ہوتے ہیں، اس نے کہا ٹھیک ہے، پھر پوچھا بچہ بعض اوقات پدری رشتہ داروں کے مشابہ ہوتا ہے بعض اوقات مادری رشتہ داروں سے ملتا جلتا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا مردوعورت میں سے جس کی منی غالب آجائے بچہ اُسی کی مشابہت حاصل کر تا ہے، اس نے کہا ٹھیک ہے، پھر پوچھا کہ بعض لوگوں کے بچے نہیں ہو تے اوربعض کی اولاد ہوتی ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ تو آپ نے فرمایا اگر منی خراب ہو تو بچہ نہیں ہو تا اوراگر منی صاف ہو توبچہ ہو تا ہے، اس نے کہا یہ بھی درست ہے، اس نے پھر پوچھا کہ اپنے ربّ کی تعریف کرو، آپ نے سورہ قل ہو اللہ احد سنائی، ابن صوریا نے کہا ٹھیک ہے، پھر پوچھا آپ کے پاس کونسا فرشتہ وحی لاتا ہے؟ تو آپ نے فرمایاکہ جبرائیل، تو ابن صوریاکہنے لگا وہ تو ہمارا دشمن ہے کیونکہ جنگ اورسختیوں کی خبریں لاتا ہے اورمیکائیل سروراورخوشی کی خبر لاتا ہے وہ ہمارا دوست ہے، اگر تیرے پاس بجائے جبرائیل کے میکائیل آتا تو ہم ضرور ایمان لاتے، حضرت سلمان سن رہے تھے فرمانے لگے جو جبرائیل کا دشمن ہو وہ تو میکائیل کا بھی دشمن ہے اوروہ دونوں ایک دوسرے کے دشمن کو دشمن سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کے دوست کو دوست سمجھتے ہیں[2]،  پس یہ آیت اُتری اورجناب رسالتمآب نے سلمان سے فرمایا اے سلمان! خداوند ﷯نے تیری بات کو سچا کیاہے اورتیرے دل کے موافق آیت نازل فرمائی ہے-
اَوَ کُلَّمَا عٰھَدُوْا :ابن عباس سے مروی ہے  گزشتہ انبیا﷨نے بنی اسرائیل سے نبی آخر الزمان پر ایمان لانے کا عہد لیا تھا جس کو انہوں نے توڑدیا اوربعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ وہ عہد ہے جو جناب رسالتمآب نے مدینہ میں نزولِ اجلال فرماتے ہی یہودِبنی قریظہ وبنی نصیر سے لیا تھا جس کو انہوں نے توڑدیا خداوندکریم اس مقام پر ان کی عہد شکنی کا ذکر کرکے اُن کی مذمت فرمارہاہے، پھر فرمایاکہ اکثر ان میں سے ایمان نہیں لاتے البتہ تھوڑے تو ایمان لانے والے بھی تھے جیسے عبداللہ بن سلام اورکعب الاحباروغیرہ-
اورروایاتِ اہل بیت سے معلوم ہو تا ہے کہ اس عہد کا ظاہر اورتنزیل گو یہود سے متعلق ہے لیکن اس کا باطن اورتاویل اطاعت اہل بیت﷨ کا عہد ہے جس کو جناب رسالتمآب نے اپنی امت کے سامنے باربار دہرایا اوراگر بالفرض روایات میں نہ بھی ہو تا تاہم عقل سلیم اس امر کی گواہی دیتی ہے کہ گزشتہ انبیا﷨سے ان کی اُمتوں کی عہد شکنی اگر انسان کو دائرہ ایمان سے خارج کرسکتی ہے تو سیدالانبیاکے عہد غدیر کو امت کو تو ڑ دینا کیوں نہ عہد توڑنے والوں کو ایمان سے خارج کرے گا ؟
اور نیز قرآن و اہل بیت﷨سے تمسک کا فرمان نبوی جو کہ تواتر سے منقول ہے اس کو نظر انداز کرنے والے کس طرح دعوائے ایمان و اسلام کرنے کے حق دار ہیں؟ پس جس طرح جبرائیل و میکائیل میں فرق کرنا یہودیوں کے لیے باعت مذمت ہے اسی طرح قرآن واہل بیت﷨ میں سے ایک کو سینے سے لگانا اور دوسرے کو پیٹھ کے پیچھے ڈالنا بھی منافی اسلام ہے اور جس طرح جبرائیل کی دشمنی کے ساتھ میکائیل کے ساتھ دوستی فائدہ مند نہیں اسی طرح اہل بیت رسول﷨ کے ساتھ دشمنی ہوتے ہوئے قرآن کی دوستی کا دعویٰ فضول و ناقابل قبول ہے، قرآن و اہل بیت﷨ سے تمسک کی احادیث تفسیر ہذا کی جلد اوّل میں کافی ذکر کی جاچکی ہیں-[3]



[1] نہج السعادة ج ۲ ص۱۷۴ ،مجمع البیان ج ۱ ص ۳۲۰، بحار الانوار ج ۳۲ ص ۴۶۹،وقعۃ صفين ص۲۵۰، شرح نہج البلاغه ابن ابى الحديد ج۵، ص۲۰۰، تاريخ طبرى ج۳ص۱۰، كامل ابن اثيرج۳ص۱۵۱
[2] احتجاج طبرسی ج۱
[3] تفسیر انوار النجف فی اسرار المصحف ج۱

ایک تبصرہ شائع کریں