التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

جنگ بدر کی طرف اشارہ

جنگ بدر کی طرف اشارہ
جنگ بدر کی طرف اشارہ
قَدْ کَا نَ لَکُمْ اٰیَة اس کے معنی میں دو احتمال ہیں: ایک تو یہ کہ خطاب کافروں سے ہوااور جناب رسالتمآب کے قول کا اس کو تتمہ قرار دیا جائے اور دوسرا یہ کہ خطاب مومنین سے ہو، بہر کیف آیت میں جنگ بدر کی طرف اشارہ ہے اور یہودیوں کےلئے تنبیہ اور درس عبرت ہے یا مومنین کےلئے ثابت قدمی کی تلقین اور نصیحت ہے ۔
جنگ بدر اسلامی لڑائیوں میں سے سب سے پہلی لڑائی ہے جو مسلمانوں اور کفار قریش میں واقع ہوئی تھی اس میں مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ تھی جن میں۷۷ مہاجر اور۶۳۲ انصار تھے مہاجرین کے علمبردار حضرت امیرالمومنین ؑ تھے اور انصار کا علم حضرت سعد بن عبادہ انصاری کے ہاتھ میں تھا جناب رسالتمآب کی فوج میں ۰۷ اونٹ تھے اور دو گھوڑے ایک مقداد کے پاس اور دوسرا مرثد ابن ابی مرثد کے پاس اور ہتھیار صرف چھ زرہیں اورآٹھ تلواریں تھیں، اس طرف کفار قریش کے لشکر کی تعداد کافی تھی باختلاف روایات وہ ایک ہزار لگ بھگ تھے ان کے پاس ایک سو گھوڑے سوار تھے اور سالار فوج عتبہ بن ریبعہ تھا۔
 اس جنگ میں کل ۲۲مسلمان شہید ہوئے جن میں چودہ مہاجر اور آٹھ انصار تھے اور اس جنگ میں کامیابی کا سہراحضرت امیرالمومنین ؑکے سر تھا۔
یَرَوْنَھُمْ مِثْلَیْھِمْ: اس کے معنی میں کئی احتمالات ہیں:
(۱)   یَرَوْنَ کا فاعل ضمیر (جو راجع طرف کفار کے ہے) قراردیا جائے اور پہلی ضمیر ہُمْ کا مرجع مسلمان ہوں اور دوسری ضمیر ھُمْ کا مرجع بھی مسلمان ہوں تو معنی یہ ہوگا کہ خدانے مسلمانوں کا رعب ان کے دلوں پر اس قدر جما دیا کہ کافر اُن کو ان کی اصل تعداد سے دگنا خیال کرتے تھے اور ظاہر میں یہی دکھائی دیتا تھا۔
(۲)   باقی ترکیب وہی پہلی صرف آخری ضمیر ھُمْ کا مرجع کافروں کو قرار دیا جائے تو معنی یہ ہو گا کہ بوجہ رعب کے کافرمسلمانو ں کو اپنی تعداد سے ظاہری نظروں کے لحاظ سے دگنا خیال کرتے تھے۔
(۳)   یَرَوْنَ کا فاعل مسلمان ہوں اور دونوں مقام پر ھُمْ ضمیر کا مرجع کفار ہوں تو معنی یہ ہوگا کہ مسلمانوں کی قوت قلب اور تسلی کے لئے خدا نے یہ انتظام فرمایا کہ کافر لو گ ان کو تھوڑے معلوم ہوتے تھے پس مسلمان کافروں کو اپنی تعداد سے صرف دگنا ہی سمجھ رہے تھے۔

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ مِنَ النِّسَآئِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّھْبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ عِنْدَہ  حُسْنُ الْمَاٰبِ(14) قُلْ اَوُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّھِمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَ اَزْوَاج مُّطَھَّرَة وَّ رِضْوَان مِّنَ اللّٰہِ  وَاللّٰہُ بَصِیْر بِالْعِبَادِ (15) اَلَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَنَّا اِنَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا ذَنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (16) اَلصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْمُنْفِقِیْنَ وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ (17)
ترجمہ:
مزین ہے لوگوں کے لئے شہوانی محبت عورتوں سے بچوں سے اوران تھیلوں سے جو پُر ہوں سونے اورچاندی سے ا ور علامت دار گھوڑوں اورچوپاں سے اورکھیتی سے یہ سب سرمایہ ہیں زندگی دنیا کا اوراللہ کے پاس اچھی بازگشت ہےo فرمادیجئے کیا میں بتاں تمہیں اس سے بہتر چیز (وہ یہ کہ ) جن لوگوں نے تقویٰ اختیار کیا ان کے لئے اپنے ربّ کے پاس جنتیں ہیں کہ جاری ہیں ان کے نیچے نہریںکہ ہمیشہ رہیں گے وہ ان میں اوربیویاں پاکیزہ اورخوشنودی خدا (بھی ان کے لئے ہے ) اوراللہ نگران ہے بندوں پرo جو یہ کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار! ہم ایمان لائے پس بخش دے ہمارے گناہ اوربچاہم کو عذاب جہنم سے o صابر اورسچے اوراطاعت شعار اورسخی اورپچھلی رات کو استغفار کرنے والے ہیںo
  
حُبُّ الشَّھَوٰتِ مِنَ النِّسَآئِ: مجمع البیان میں جناب رسالتمآب سے مروی ہے کہ میرے بعد مردوں کےلئے عورت سے بڑھ کر اور کوئی نقصان دہ فتنہ نہیں نیز فرمایا کہ یہ شیطان کا جال ہیں، حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے منقول ہے کہ عورت مجسمہ شرّ ہے اور اس میں سب شرّ ہی شرّ ہے اور یہ ایک ایسا بچھو ہے جس کا ڈسنا شیریں ہے۔
وَالْبَنِیْنَ: ایک حدیث میں جناب رسالتمآب سے مروی ہے (اولاد )میوہ دل اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور باعث بزدلی بخل اور حزن و غم بھی ہے۔
 وَالْقَنَاطِیْر: جمع ہے قنطار کی اور حضرات صادقین علیہما السلام سے منقول ہے کہ ایک قنطار کی مقدار بیل کی کھال جو سونے سے پُر ہو کے برابرہے بعض مفسرین نے دوسرے معانی بھی کئے ہیں۔
اَلْمُسَوَّمَةِ: اس لفظ کو ”سوم“ سے مشتق قرار دیا جائے تو معنی ہو گا چرانے والا اور ”سیما“ سے مشتق مانا جائے تو معنی خوبصورت ہو گا۔
وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ: مجمع البیان میں جناب رسالتمآب سے مروی ہے کہ خدا فرماتا ہے جب میں اہل زمین پر عذاب کا ارادہ کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ میرے گھروں کے آباد کرنے والے اور میری خوشنودی کےلئے آپس میں محبت کرنے والے اور سحور کے وقت استغفار کرنے والے موجود ہیں تو اہل زمین سے اپنا عذاب ٹال دیتا ہوں۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ جو شخص بوقت سحور نماز و تر میں ستر مرتبہ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ وَ اَتُوْبُ اِلَیْہِ ایک سال تک پڑھتا رہے تو وہ اس آیت کا مصداق ہے۔


ایک تبصرہ شائع کریں