فرعون اوراس کے لشکر کے غرق ہونے کا واقعہ
وَاِذْفَرَقْنَا: تفسیر مجمع البیان میں فرعون اوراس
کے لشکر کی دریا ئے نیل میں غرقابی کا قصہ ابن عباس سے اس طرح منقول ہے حضرت موسیٰ پر وحی ہوئی
کہ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر یہاں سے ہجرت کرجاوٴ، چنانچہ حضرت موسیٰ بنی اسرائیل
کو لے کر رات کے وقت روانہ ہوئے تو فرعون نے دس لاکھ سواروں کے ساتھ ان کا تعاقب
کیا اورحضرت موسیٰ کے ہمراہیوں کی تعداد چھ لاکھ بیس
ہزار تھی پس حضرت موسیٰ ان کو لے کر پانی کے کنارے پہنچے جب
پلٹ کر دیکھا تو فرعون کے گھوڑوں کا غبار نظر آیا بنی اسرائیل حضرت موسیٰ سے کہنے لگے
اے موسیٰ تیرے آنے سے پہلے بھی ہم مبتلائے
مصیبت رہے اورتیرے آجانے کے بعد بھی معاملہ وہی ہے، سامنے پانی ہے پیچھے فرعون ہے
حضرت موسیٰ نے ان سے کہا کہ مجھے امید ہے کہ خدا
تمہارے دشمن کو ہلاک کرے گا اورتم کو زمین کی حکو مت عطاکرے گا، حضرت یوشع بن نون نے عرض کیا
کہ اب کیا حکم ہے؟ تو حضرت موسیٰ نے فرمایا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ
پانی پر عصا ماروں اورخدانے دریا کو وحی کی تھی کہ وہ موسیٰ کے عصا مارنے سےاس کی اطاعت کرے، پس حضرت موسیٰ نے جب پانی پر عصامارا تووہ شق ہو
گیا اوراس میں بارہ راستے پیدا ہوگئے اوربنی اسرائیل کے ہر قبیلہ کے لئے الگ راستہ
تھا، پس وہ کہنے لگے کہ ابھی راستوں میں تری زیادہ ہے یعنی کیچڑہے ہم ایسے راستے
سے نہیں چلتے پس خدانے بادصباکو بھیج کر راستے خشک کردئیے، جب داخل ہوئے تو کہنے
لگے کہ ہم ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے نہ معلوم ان کا حال کیا ہوگا؟ توحضرت موسیٰنے اللہ سے ان کے حالات کی شکایت کی، پس وحی وہی ہوئی کہ تو
اپنے عصاسے دائیں بائیں اشارہ کر،چنانچہ حضرت موسیٰنے ویسا ہی کیا تو پانی کی بلند دیواروں میں ہر دوطرف سے دروازے پیدا ہو گئے
کہ وہ ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے، جب فرعون ساحل آب پر پہنچا تو اس کا مشکی گھوڑا
پانی میں داخل ہونے سے گھبرایا، پس جبرائیل بصورت بشر ایک مادہ گھوڑی پر سوار ہو
کر فرعون کے گھوڑے کے آگے ہو گئے اورپانی میں داخل ہوئے تو فرعون کا گھوڑا بھی
پیچھے داخل ہو گیا اس کے بعد فرعون کا لشکر بھی داخل ہونا شروع ہو گیا، جب بنی
اسرائیل سب کے سب پار ہوگئے اورلشکر فرعون سب کا سب داخل آب ہو گیا تو بحکم
خداپانی آپس میں مل گیا اورلشکر فرعون غرق ہو گیا
)ملخص ترجمہ روایت(
حضرت امام حسن عسکری سے مروی ہے کہ حضرت موسیٰ بمعہ بنی اسرائیل جب ساحل آب پر
پہنچے تو وحی ہوئی کہ اے موسیٰبنی اسرائیل سے کہوکہ میری توحید کا اقرار تازہ کریں اورحضرت محمد مصطفیﷺ کا دل سے اقرار کریں اوران کے بھائی حضرت علی اوران کی آل پاک کی ولایت کو تازہ
کریں اورپھر اس پانی کو عبور کرنے کے لئے ا ن کا واسطہ دے کر مجھ سے دُعامانگیں
میں اس پا نی کی سطح کو مثل زمین کے کردوں گا، حضر ت موسیٰ نے جب ان کو اللہ کا یہ حکم سنایا تو
کہنے لگے ایسی بات ہم نہیں مانتے ہم نے موت کے ڈر سے تو فرعون سے فرار کیا ہے
اورتو ان کلمات کے ذریعہ سے ہمیں اس گہرے پانی میں داخل کرتا ہے جس کا نتیجہ معلوم
نہیں کالب بن یوحنا گھوڑے پر سوار تھا( اوراس جگہ سے پانی کی چوڑائی بارہ میل تھی) عرض کرنے لگا یا نبی اللہ کیا اللہ کا حکم ہے کہ ہم یہ
کلمات زبان پر جاری کرکے پا نی میں داخل ہوجائیں آپ نے فرمایا ہاں پھر عرض کیا کہ
آپ کی اجازت بھی ہے موسیٰ نے فرمایا
ہاں پس اس نےتوحید خدااورنبوت محمد مصطفیﷺ اورولایت علی مرتضی اوران کی آل اطہار کا عہدتازہ کرکے
دعامانگی کہ میرے اللہ ان کے وسیلہ سے مجھے اس پانی کے عبورکرنے کی توفیق مرحمت
فرمایہ کہہ کر گھوڑے کو پانی میں داخل کیا اور ایڑھ لگائی پس پانی کی سطح زمین کی
مانندہو گئی، اس کنارے تک پہنچ کرپھر واپس آیا اور بنی اسرائیل سے خطاب کر کے کہا
اللہ کی اطاعت کرو اور حضرت موسیٰ کی بات مانو کیونکہ یہ دعا ابواب جنت
کی کنجیاں ہیں اور درہائے جہنم کے بند کرنے کا ذریعہ ہیں،طلب رزق کا وسیلہ اور
رضائے خالق کا سبب ہیں، انہوں نے جواب میں کہا کہ ہم تو زمین پر ہی چلیں گے اور
بس، پس حضرت موسیٰ کو وحی ہوئی کہ محمد آل محمد کو وسیلہ قرار دے کر دعا مانگو اور اس پانی پر اپنا عصا مار و، پس حضرت موسیٰ نے ایسا ہی
کیا تو پانی شق ہوا اور زمین ظاہرہو گئی، وہ کہنے لگے کہ کیچڑ سے ہم عبور نہ کریں
گے کیونکہ جب تک زمین پوری طرح خشک نہ ہو ہمیں خطرہ ہے کہیں دھنس نہ جائیں، پھر بذریعہ وحی حضرت موسیٰ نے حضرت محمدﷺ کے وسیلہ سے دعا مانگی اللہ تعالی نے باد صبا کو بھیج کر زمین کو خشک کر
دیا، وہ کہنے لگے ہم بارہ قبیلے ہیں ایک
راستہ سے کیسے گزریں جب کہ ہر قبیلہ پہلے گزرنے کا خواہش مند ہو گا اور اس میں
جھگڑا ہو جائے گالہٰذا ہمارے لیے جدا جدا راستے ہونے چاہئیں، پس بحکم خدا حضرت
موسٰی نے بارہ جگہ پر بذریعہ عصا پانی میں
راستے پیدا کیے اور ہر بار محمدوآل محمد کو وسیلہ قرار
دیتے رہے، اور بذریعہ باد صبا بطریق سابق
سب خشک بھی ہو گئے، پھر انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے کا علم کیسے ہوگا وہ تو
نظرنہ آئیں گے؟ تو حضرت موسٰی نے محمد وآل محمدکے وسیلہ سے دعا مانگی اور عصاکا دائیں بائیں اشارہ کیا جس سے پانی کی دیواروں
میں دروازے پیدا ہو گئے الخبر
بروایت مجمع البیان جب فرعون اور اس کا لشکر غرق
ہو گئے اور بنی اسرائیل واپس مصر میں آ باد ہو گئے تو خداوند کریم کا وعدہ ہوا کہ
میں تورات وشریعت عطا کروں گا، پس حضرت موسٰی اپنے بھائی کو اپنا قائم مقام مقرر
کر کے کوہ طور پر گئے اور چالیس دن تک وہاں رہے( ماہ ذوالقعدہ اور دس دن ذوالحجہ کے) اسی اثنامیں سامری
)جس کا نام میخا یا موسٰی بتلایا گیا ہے جو دراصل گاوٴپرست
قوم سے تھا اوربنی اسرائیل میں ظاہری صورت میں مسلمان کہلاتا تھا( نے فریب کیا
وہ اس طرح کہ قبطیوں کے جو زیورات بنی اسرائیل کے پاس تھے حضرت ہارون نے ان کو
باہر پھینکنے کا حکم دیا، چنانچہ اس نے آگ جلوائی اور ان تمام زیورات کو اس میں
ڈالنے کا حکم دیا، سامری نے جبرائیل کے گھوڑے کے قدم کے نشانات سے مٹی اٹھا کر
اپنے پاس محفوظ کی ہوئی تھی، اپنی مٹھی میں لے کر آگ کے قریب آیا اور اس مٹی کو آگ
میں ڈال کر گوسالہ بنا ڈالا اور بنی اسرئیل سے کہا کہ تمہارا خدا یہی ہے، چنانچہ
بنی اسرائیل اس کی بات مان کر اس کی پوجا کرنے لگ گئے، خداوند ان آیات میں ان کے دشمن فرعون کی ہلاکت اور ان کی نجات پھر ان کی
گوسالہ پرستی کی شرارت اور توبہ کی مقبولیت اور معافی کا ذکر فرما رہا ہے تاکہ ان
احسانات کا احساس کرکے اپنے محسن حقیقی کا حق شکر ادا کریں-
اس پانی میں اختلاف ہے کہ جس
پانی سے حضرت موسیٰ اور آپ کی قوم کو گزرنے کا حکم ہوا
وہ دریائے نیل تھا یا بحرِ قلزم اور
جغرافیائی قرائن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بحرم قلزم کا پانی ہی ہوگا کیونکہ اس
پانی کو عبور کر کے ہی حضرت موسیٰ کی قوم صحرائے سینا کی طرف آئی تھی
اور کوہِ طور بھی اسی طر ف تھا اور شام و فلسطین کے علاقے ہی ان کی رہائش گاہ تھے،
نیز فرعون کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل کا واپس مصر کی طرف پلٹ کر جانا اور وہاں
اپنی حکومت قائم کرنا بھی تاریخ کا اختلافی مسئلہ ہے-