التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

گائے کے ذبح کرنیکا کا حکم

گائے کے ذبح کرنیکا کا حکم

 گائے کے ذبح کرنیکا کا حکم

وَإِذْ قَالَ مُوسٰى لِقَوْمِهِ إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً قَالُواْ أَتَتَّخِذُنَا هُزُواً قَالَ أَعُوذُ بِاللّٰهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِيْنَ)67(قَالُواْ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا هِیَ قَالَ إِنَّهُ يَقُوْلُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَّلا بِكْرٌ عَوَانٌ مبَيْنَ ذٰلِكَ فَافْعَلُوْا مَا تُؤْمَرُوْنَ 8)6 قَالُواْ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا لَوْنُهَا قَالَ إِنَّهُ يَقُوْلُ إِنّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَآءٌ فَاقِعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِينَ 9)6 قَالُواْ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا هِیَ إِنَّ البَقَرَ تَشَابَهَ عَلَيْنَا وَإِنَّآ إِنْ شَآءَ اللّٰهُ لَمُهْتَدُوْنَ 0)7(قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا ذَلُولٌ تُثِيّرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِی الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لَّا شِيَةَ فِيْهَا قَالُواْ الْآنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ فَذَبَحُوْهَا وَمَا كَادُوْا  يَفْعَلُوْنَ 1)7(
ترجمہ:
اور جب فرمایا موسیٰ نے اپنی قوم کو تحقیق اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ذبح کرو ایک گائے انہوں نے کہا کیا تو ہم سے مسخری کرتا ہےفرمایا میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں اس بات سے کہ جاہلین سے ہو جاوٴں)67(انہوں نے کہا پکار ہمارے لئے اپنے ربّ کو کہ ہمیں بتائے وہ کیسی ہو فرمایا کہ وہ فرماتا ہے تحقیق وہ ایسی گائے ہو کہ نہ بوڑھی ہو نہ بچی درمیان ہو ان دو حالتوں کے پس تم بجا لاوٴ وہ جو امر کئے جاتے ہو8)6 ( انہوں نے کہا پکار ہمارے لئے اپنے ربّ کو کہ ہمیں بتائے اس کا رنگ کیا ہو ؟ فرمایا تحقیق وہ فرماتا ہے تحقیق وہ گائے ہو زدر پکے رنگ کی کہ خوش کرے دیکھنے والوں کو9)6 (انہوں نے کہا پکار ہمارے لئے اپنے ربّ کو کہ ہمیں بتائے کہ وہ کیسی ہو تحقیق گائیں ایک دوسری سے متشابہ ہیں ؟ ہمارے سامنے اور تحقیق ہم اگر اللہ نے چاہا تو البتہ ہدایت پانے والے ہیں0)7 (تحقیق وہ فرماتا ہے کہ تحقیق وہ ایسی گائے ہو جو نہ رام شدہ ہو زمین پر ہل چلانے کیلئے اور نہ کھیتی سیراب کرنے کیلئے سالم ہو اس میں کوئی عیب یا داغ نہ ہو انہوں نے کہا کہ اب تو نے حق بات کہی پس انہوں نے اس کو ذبح کیا حالانکہ ظاہراً   امید نہیں تھی کہ وہ کریں گے1)7(
وَاِذ قَالَ مُوسٰی: اور جب فرمایا موسیٰ نے اپنی قوم کو تحقیق اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ذبح کرو ایک گائے-
سوال : بنی اسرائیل کو گائے کے ذبح کا حکم کیوں ہوا ؟
جواب: چونکہ وہ اس سے قبل گو سالہ پرستی کرچکے تھے پس اس موقعہ پر خدانے اُن کو گائے کے ذبح کرنے کا حکم  دیاتاکہ اُن کے دلوں سے گائے کی رہی سہی عظمت بھی چلی جائے اور کسی وقت بھی اس کے معبود ہونے کا تصوّر تک نہ کریں-
ھُزُواً: حضرت موسیٰ نے مسخری کو جاہلوں کا فعل بتلایا ہے-
علامہ طبرسیv نے فرمایا ہے کہ مسخری کی دوصورتیں ہیں:
یا تو کسی کی جسمانی و ضع پر ہوگی یا اس کے فعل پر ہوگی
پہلی صورت میں مسخری اس لئے ناجائز ہے کہ وہ تو اللہ کا فعل ہے اللہ نے بنا یا ہی ایسا ہے لہذا مسخری کا محل ہی نہیں اوردوسری میں اگر اس کا فعل برا ہے تو اس کو نصیحت کرنی چاہئے نہ کہ اس سے مسخری کی جائے لہذا مسخری کرنا گناہِ کبیرہ ہے، نیز مسخری کرنے والے انسان کا لوگوں کے دلوں میں ذرّہ بھر بھی وقار نہیں رہتا-
قَالُوْ ا ادْعُ:بروایت ابن عباس جناب رسالتمآب سے منقول ہے کہ ان کو کوئی سی گائے ذبح کرنے کا حکم تھا لیکن انہوں نے خود اپنے اوپر سختی کی تو خدا نے بھی سختی کردی اور اگر آخر میں انشاءاللہ نہ زبان پر جاری کرتے تو یہ سختی ان سے دور نہ ہوتی -[1]
فَاقِعٌ لَونُھَا:حضرت  امام جعفر صادق سے مروی ہے کہ جو شخص زرد رنگ کا جوتا پہنے گا جب تک وہ جوتا اس کے پاوٴں میں رہے گا اس کو خوشی نصیب ہوگی  نیز اس کو مال اور علم نصیب ہوگا-[2]
واقعہ:
ابن عباس سے منقول ہے کہ ایک مالدار شخص کو اس کے بھتیجوں نے قتل کرکے اس کی لاش ایک دوسرے محلہ والوں کے دروازہ پر ڈال کر ان پرقتل کا دعوی ٰ کر دیا اور حضرت موسیٰ سے اس کے فیصلہ کی درخواست کی، ایک قول یہ ہے کہ اس کو اپنے سگے چچا زاد نے اس کی وراثت سنبھالنے کے طمع سے قتل کرکے خود دعویٰ دائر کر دیا اور دوسرا  قول یہ  ہے کہ اس کی لڑکی سے شادی کرنے کیلئے اس کو قتل کر دیا کیوں کہ اس قاتل کو وہ نہ دینا چاہتا تھا اور کسی دوسرے مالدار کو دینے کاارادہ رکھتا تھا اور حضرت امام جعفر صادقسے بھی ایک روایت اسی مضمون کی وارد ہے-[3]
تفسیر عیاشی سے مرفوعاً منقول ہے کہ حضرت امام رضا نے فرمایا کہ ایک شخص نے کسی اپنے قرابت دار کو قتل کرکے دوسرے قبیلہ کے محلہ میں ڈال کر اس کے قتل کا دعویٰ کیا تھا-
تفسیر برہان میں حضرت امام حسن عسکریسے منقول ہے تین شخصوں نے جو آپس میں چچا زاد تھے ایک عورت کے نکاح کی خواستگاری کی تو اس عورت نے ان میں سے جو عالم اور شریف تھا اس کے سا تھ نکاح کرنا منظور کیا تو باقی دونوں نے مشورہ کرکے اس کو قتل کا دعوی کیا تھا-
تفسیر برہا ن میں مروی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جن پر دعویٰ تھا حضرت موسٰی نے ان کو بلایا اور ماجرا پوچھا تو انہوں نے قتل کا انکار کر دیا اور انہوں کہا کہ ہم سے قسمیں یا خون بہا لینے کی بجائے خدا سے صحیح قتل کاعلم حاصل کیا جائے خدا کی جانب سے وحی ہوئی کہ ایک گائے کو ذبح کرکے اس کا بعض حصہ مقتول کے جسم پر مارا جائے  تو وہ خدا کے اذن سے زندہ ہو کر اپنا قاتل خود بیان کرے گا، انہوں نے کہا آپ ہمارے ساتھ مسخری نہ کریں ہم مقتول کے متعلق پوچھتے ہیں اور آپ  گائے کے ذبح کرنے کا حکم دیتے ہیں کبھی ایک مردہ  کے ٹکڑے کو دوسرے مردہ کے ساتھ ٹکرانے سے بھی مردہ زندہ ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ مسخری جہلا کا کام ہے میں نے تو حکم خدا سنایا ہے، جو خدا مردو عورت کے مردہ نطفوں کے ملنے سے زندہ انسان پیدا کر سکتا ہے، اس طرح تمہاری ہری بھری کھیتیاں مردنی کے بعد وہ باذن خدا وجودِ حیات میں آتی ہیں تو وہ خدااِس مردہ انسان کو بھی اس طریق سے زندہ کرسکتا ہے، آخر سوال وجواب کے بعد وہ گائے کے ذبح کرنے پر آمادہ ہوئے ہوئے-
 روایت میں ہے کہ ان صفات کی گائے بنی اسرائیل میں سے ایک نوجوان کی ملکیت تھی جو اکثر محمد وآل محمد﷨ پر درود پڑھا کرتا تھا اور باپ کا اس قدر فرمانبردار تھا کہ ایک مرتبہ اس نے ایک چیز کو فروخت کرنا تھا اور اس میں اس کو بڑا نفع تھا جب خریدار پہنچےتو ما ل خانہ کی کنجیاں اس کے باپ کے سرہانے کے نیچے تھیں اور وہ محوِخواب تھا اس نے باپ کو نیند سے بیدار کرنا مناسب نہ سمجھا اور خریدار کو واپس کر دیا جب باپ نے بیدار ہونے کے بعد لڑکے سے مال کے فروخت ہونے کے متعلق پوچھا تو لڑکے نے کہا میں نے آپ کو بے آرام کرنا مناسب نہ سمجھا تھا لہذا مال فروخت نہیں ہو سکا تو باپ نے انعام میں اس کو یہ گائے  دی تھی-
پس سابقہ روایت کے مطابق جب بنی اسرائیل گائے خرید نے کیلئے آئے تو قیمت بڑھتے بڑھتے یہ مقرر ہوئی کہ بیل کی کھال دیناروں سے پُر اس گائے کا عوض ہو اور جب اُسے پُر کیا گیا تو پچاس لاکھ دینا ر اس میں سمائے، پس لڑکے نے قیمت وصول کرلی اورگائے دے دی، انہوں نے اس کو ذبح کیا اور ایک حصہ اس کا جب مقتول کو مارا  تو وہ باذنِ خدا زندہ ہوا اور اس نے اپنے دونوں چچا زاد بھائیوں کو اپنا قاتل بتایا اور وجہِ قتل بھی بیان کی، پس دونوں قاتلوں کو قصاص میں قتل کردیا گیا،مقتول نے جب درود کی برکت دیکھی تو محمد وآل محمد پر درود پڑھ کر اُن کے وسیلہ سے اپنی طولِ حیات کی دعامانگی تو وحی ہوئی کہ اس کی اصل زندگی میں ساٹھ سال باقی تھے اور اس دعا کی بدولت ستر سال میں نے اس کو مزید عطا کیے لہٰذا اس کی باقی زندگی ایک سو تیس برس میں نے کر دی ہے اور باقی بنی اسرائیل نے محمد وآل محمد کے وسیلہ سے دعا مانگی تو گائے کی ادا کردہ قیمت سے دگنا خزانہ خدانے ان کو عطا فرمایا-
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّد


[1] مجمع البیان ج۱
[2] البرہان فی تفسیر القرآن ج۱
[3] مجمع البیان ج۱

ایک تبصرہ شائع کریں